
وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں بچنے والے اربوں روپے بلوچستان کے جن دو منصوبوں پر خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں ایک کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی قومی شاہراہ بھی ہے جسے بلوچستان کے لوگ ’خونی سڑک‘ بھی کہتے ہیں۔یہ آخر ’خونی سڑک‘ کیوں کہلاتی ہے؟ اس سے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ اس شاہراہ کی اہمیت کیا ہے اور اس کی تعمیر و توسیع کے لیے فنڈز کی فراہمی کے لیے غیر معمولی اقدام کو بلوچستان میں کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔این-25 شاہراہ جو افغان سرحد سے متصل چمن سے شروع ہو کر قلعہ عبداللہ، پشین، کوئٹہ، مستونگ، قلات، سوراب، خضدار، لسبیلہ اور حب کے اضلاع سے گزرتی ہوئی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی تک جاتی ہے۔یہ بلوچستان کی سب سے مصروف شاہراہ ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مطابق اس کی لمبائی 813 کلومیٹر ہے اور یہ افغانستان اور ایران سے تجارتی سامان کی ترسیل کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔ اس شاہراہ کو کوئٹہ کراچی شاہراہ یا ریجنل کوآپریشن ڈویلپمنٹ یعنی آر سی ڈی ہائی وے بھی کہا جاتا ہے۔این ایچ اے کے مطابق روزانہ اس سڑک پر 12 ہزار سے زائد گاڑیاں گزرتی ہیں مگر یہ شاہراہ سنگل ہونے کی وجہ سے حادثات کے سبب نہایت خطرناک سمجھی جاتی ہے۔ تیز رفتاری، ڈرائیوروں کی غفلت، پیٹرول اور ڈیزل سمیت آتش گیر مواد کی سمگلنگ اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے سبب اس سڑک پر حادثات کی شرح صوبے میں سب سے زیادہ ہے۔کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ’خونی سڑک ‘ کیوں کہتے ہیں؟بلوچستان کی شاہراہوں پر طبی خدمات فراہم کرنے والے ادارے میڈیکل اینڈ ایمرجنسی رسپانس سینٹرز (مرک 1122) کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں تقریباً ہر دوسرا حادثہ اس شاہراہ پر پیش آتا ہے۔اس سڑک پر روزانہ اوسطاً 30 اور ماہانہ 900 سے زائد حادثات رپورٹ ہوتے ہیں۔مرک 1122 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صرف 2024 میں این-25 پر 10 ہزار 990 حادثات رپورٹ ہوئے جن میں 213 افراد ہلاک جبکہ 15 ہزار 154 افراد زخمی ہوئے۔ یہ مجموعی حادثات کا 47 فیصد اور اموات کا نصف بنتا ہے۔بلوچستان میں موٹروے اینڈ ہائی وے پولیس کے سابق ڈی آئی جی علی شیر جھکرانی نے چند سال پہلے بتایا تھا کہ بلوچستان میں سالانہ 6 سے 8 ہزار افراد سڑک حادثات کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ تعداد دہشت گردی سے ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ ہے۔نجیب یوسف زہری کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ایک سڑک حادثے میں زندہ بچ جانے کے بعد گذشتہ کئی برسوں سے صوبے میں سڑکوں پر حادثات کی روک تھام کے لیے آگاہی مہم چلارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب کوئٹہ کراچی شاہراہ پر کسی کی موت نہ ہوئی ہو، اسی لیے اب لوگ اسے خونی سڑک کہتے ہیں۔آئے روز کے جان لیوا حادثات کے سبب بلوچستان کے بیشتر شہری اس شاہراہ پر سفر کرنے سے ڈرتے اور کتراتے ہیں۔جنوری 2023 میں لسبیلہ کے قریب موڑ کاٹتے ہوئے ایک مسافر کوچ حادثے کا شکار ہوئی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ بس میں سوار 44 افراد میں 41 جھلس کر ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے میں کوئٹہ کے رہائشی قدرت اللہ نے اپنی والدہ اور تین بہن بھائیوں کو کھو دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب خاندان کا ہر فرد بذریعہ سڑک کراچی جانے سے خوف زدہ رہتا ہے کیونکہ اس کے لیے ’خونی شاہراہ‘ سے گزرنا پڑتا ہے۔سنہ 2024 میں این-25 پر 10 ہزار 990 حادثات میں 213 افراد ہلاک جبکہ 15 ہزار 154 زخمی ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)پہاڑی، صحرائی اور میدانی علاقوں اور وسیع و عریض رقبے پر مشتمل بلوچستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔ نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ سینٹر کے مطابق صوبے میں سڑکوں کا نیٹ ورک 45 ہزار کلومیٹر ہے لیکن اس میں صرف پانچ ہزار کلومیٹر سڑکیں ہائی ویز ہیں۔ صوبے میں کوئی بھی سڑک ڈبل یعنی دو رویہ نہیں ہے۔نجیب یوسف زہری کے مطابق ’سنگل سڑکیں اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہے، صوبے میں کوئی بھی سڑک دو رویہ نہیں، موٹرو ے کا تو نام و نشان تک نہیں۔بلوچستان کے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کے مطابق 1980 کی دہائی سے پہلے بلوچستان کے لوگ کراچی جانے کے لیے بولان سبی اور سکھر کا راستہ اپناتے تھے۔’یہاں پہلی بار پختہ سڑک 1980 کی دہائی میں ہی بنی اور 1984 میں اس کا افتتاح اس وقت کے فوجی گورنر جنرل رحیم الدین نے کیا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت اس سڑک کی چوڑائی صرف 10 فٹ تھی، اس کے باوجود لوگ بہت خوش تھے کیونکہ کراچی تک کا سفر بہت مختصر اور تیز ہوگیا تھا۔‘تاہم بعد کے برسوں میں اس شاہراہ پر ٹریفک کا بہت دباؤ آگیا اور حادثات کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا تو ہزاروں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوئے۔ تب ہر جانب سے مطالبہ اٹھنے لگا کہ اس شاہراہ کو توسیع دی جائے۔بالآخر 2021 میں سابق وزیراعظم عمران خان نے این-25 کے خضدار سے کوئٹہ کے علاقے کچلاک تک 330 کلومیٹر حصے کو دو رویہ بنانے کا سنگ بنیاد رکھا۔ سنہ 2022 میں شہباز شریف نے دوبارہ اس منصوبے کا آغاز کیا اور اسے ڈیڑھ سال میں مکمل کرنے کا اعلان کیا مگر تین سال گزرنے کے باوجود منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 2023 میں دورہ کوئٹہ کے موقع پر اس شاہراہ کے کوئٹہ سے خضدار تک کے حصے کو دو رویہ کرنے کے منصوبے کی تعمیر تین ماہ کے اندر مکمل کرنے کا اعلان کیا مگر و ہ بھی اس وعدے کو پور نہیں کرسکے۔وفاقی پی ایس ڈی پی کے مطابق 81 ارب 58 کروڑ روپے کے منصوبے پر اب تک صرف ساڑھے 11 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ 2024 کے بجٹ میں اس کے لیے محض 7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ اس شاہراہ پر اب تک نصف کام بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے اس کی سب سے بڑی وجہ فنڈز کی کمی کو قرار دیا۔بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی اس منصوبے میں تاخیر کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ عدالت نے کئی بار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پلاننگ کمیشن کو نوٹس جاری کیے ہیں۔وفاقی حکومت کے اعلان کا خیر مقدم، ’کوئٹہ کراچی شاہراہ کی تعمیر میں ہر پاکستانی کا حصہ ہوگا‘کوئٹہ کراچی شاہراہ کی توسیع بلوچستان کی تمام جماعتوں اور ہر حلقہ فکر کا مطالبہ رہا ہے۔ اب وفاقی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کے لیے فنڈز کی فراہمی کے غیر معمولی اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔ صوبے کی زیادہ تر جماعتوں نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے صوبے سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا جام کمال خان اور خالد خان مگسی کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم اور وفاقی حکومت کے اقدام کو خوش آئند قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے یہ بلوچستان کے عوام کے لیے خیر سگالی کا اقدام ہے۔ وفاقی حکومت اور پاکستان کے عوام کی جانب سے یہ بلوچستان کے عوام کے لیے تحفہ ہوگا۔ اس منصوبے کی تعمیر میں اب ایک ایک پاکستانی کا حصہ ہوگا۔وزیراعلٰی کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے لیے بہت زیادہ فنڈز چاہیے تھے، جس طرح کچھی کینال بننے میں 22 سال لگ گئے اسی طرح اس سڑک کے بننے میں بھی شاید 20 سال لگ جاتے۔اب فنڈز ملنے کے بعد اس پر تیزی سے کام ہوگا اور یہ منصوبہ دو سال کے اندر مکمل کر لیا جائے گا۔بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر طبی امداد فراہم کرنے والے ادارے میرک 1122 کے ڈائریکٹر ریاض احمد رئیسانی کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل سے حادثات کی شرح 50 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔نہ صرف اموات کم ہوں گی بلکہ ہر سال سینکڑوں افراد معذور ہونے سے بچ سکیں گے۔بلوچستان کے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ اقدام بہت اچھا ہے جو بلوچستان کے عوام کے لیے خوشی کا باعث بنا ہے۔’اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اعلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے فنڈز کے صحیح اور بروقت استعمال اور معیار کو بہتر بنایا جائے۔‘تاہم نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اسلم بلوچ نے وفاقی حکومت کے اس اعلان پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب باقی صوبوں میں موٹرویز انہی دستیاب وسائل اور فنڈز سے بن سکتے ہیں تو بلوچستان کے لیے فنڈز کیوں کم پڑتے ہیں؟‘انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان کو کنگال اور وفاق پر بوجھ ظاہر کیا جا رہا ہے اور یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ وفاق بلوچستان پر کوئی احسان کر رہا ہے حالانکہ بلوچستان ملک کا امیر ترین صوبہ ہے۔ اگر اپنے وسائل پر حق دیا جائے تو بلوچستان کو کسی وفاقی امداد کی ضرورت ہی نہ ہو۔‘اسلم بلوچ کا کہنا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو دینا چاہیے تھا اور بلوچستان کو کوئی مدد نہیں بلکہ اس کے اصل حق کے مطابق اپنے فنڈز ملنے چاہییں۔