
Getty Imagesگذشتہ برس اگست میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کسی حد تک سلجھتے نظر آ رہے ہیں اور اس کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کے سیکریڑی خارجہ ڈھاکہ میں ملاقات کر رہے ہیں۔پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ کی قیادت میں ایک وفد ’فارن آفس کنسلٹیشن‘ یا ’ایف او سی‘ کے عنوان سے ہونے والی اس ملاقات کے لیے ڈھاکہ پہنچ چکا ہے۔توقع کی جا رہی ہے کہ جمعرات کو ایف او سی کے بعد آمنہ بلوچ پرنسپل ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس اور خارجہ امور کے مشیر توحید حسین سے بھی ملاقات کریں گی۔بنگلہ دیش میں وزارت خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً 15 سال بعد دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکرٹریز کی سطح کا اجلاس ہو رہا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں کسی مخصوص ایجنڈے کے بجائے دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے ’تمام مسائل‘ اٹھائے جائیں گے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خارجہ سیکریٹریوں کی ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو ’معمول پر لانے‘ میں مدد ملے گی۔بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے بعد ممکنہ طور پر پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی رواں ماہ ڈھاکہ کا دورہ کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی وزارت خارجہ اس معاملے پر کام کر رہی ہے۔ 2012 کے بعد یہ کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بنگلہ دیش کا پہلا دورہ ہو گا۔پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین خان، جو اس وقت سیکرٹری خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ میں موجود ہیں، نے بنگلہ دیش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی بی ایس ایس کو بتایا کہ اسلام آباد ڈھاکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے میں خاص دلچسپی رکھتا ہے۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان خارجہ سیکرٹری کی سطح پر آخری ملاقات شیخ حسینہ کی حکومت کے پہلے دور میں 2010 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ 1971 کی جنگ ہے۔2013 میں بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو سزائے موت دیے جانے پر پاکستان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔ بنگلہ دیش نے ڈھاکہ میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کرکے اس واقعے پر برہمی کا اظہار کیا۔2014میں، بنگلہ دیش حکومت نے ڈھاکہ میں مقیم اس وقت کے قائم مقام پاکستانی ہائی کمشنر احمد حسین دایو کو بھی طلب کر کے پاکستانی وزیر داخلہ کے مقدمے کے حوالے سے دیے گئے بیان پر احتجاج کیا تھا۔بالآخر 2020 میںاس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ کو ٹیلی فون کیا جس کے نتیجے میں کچھ برف ضرور پگھلی تاہم دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے مزید پیش رفت نہیں ہوئی۔1971 میں بنگلہ دیش کے پاکستان سے الگ ہونے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان سے رسمی معافی کا مطالبہ، اثاثوں کی واپسی، اور بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی وطن واپسی جیسے معاملات کو لے کر کافی کشیدگی رہی ہے۔تاہم، بظاہر اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے دونوں ممالک ان مسائل کے بجائے تجارت اور دوطرفہ تعلقات میں خواہاں ہیں۔اقبال حسین خان نے بی ایس ایس کو بتایا، ’اس طرح کے مسائل پوری دنیا میں دوطرفہ تعلقات میں پائے جاتے ہیں، لیکن انھیں موجودہ تعلقات یا اقتصادی تعاون میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘دشمن سے ’دو عام پڑوسی‘: بنگلہ دیش کی پاکستان سے بڑھتی قربت اور انڈیا کی ’سلامتی کا مسئلہ‘بنگلہ دیشی فوج میں ’پاکستان کے حامی جنرل‘ کی جانب سے بغاوت کی کوشش کا الزام: ’فوج متحد ہے، انڈین میڈیا سنسنی نہ پھیلائے،‘ آئی ایس پی آر بنگلہ دیشپاکستانی ڈرامے بنگلہ دیشی نوجوانوں میں کیوں مقبول ہیں؟پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے فوجی تعاون پر انڈیا کو تشویش کیوں؟عموماً سکریٹری خارجہ کی سطح کی ملاقاتیں ہمیشہ دوطرفہ سفارتی تعلقات میں خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ وہ دونوں ممالک کے خارجہ امور میں اعلیٰ ترین انتظامی حکام ہوتے ہیں۔سابق سفارت کار ہمایوں کبیر کا خیال ہے کہ 15 سال کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان اس قسم کی ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا ہو گی۔انھوں نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’اس ملاقات کا مقصد ایک مشترکہ نکتے پر پہنچنا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ضروری ہے۔‘یاد رہے کہ گذشتہ برس ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں نے جنوبی ایشیائی علاقائی تنظیم (سارک) کے احیاء کے ذریعے علاقائی تعاون بڑھانے کے بارے میں بات کی۔کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گذشتہ سال بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے میں آنے والی تبدیلی کے بعد پاکستان بنگلہ دیش کو علاقائی سیاست میں اپنی طرف کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ انڈیا مخالف جذبات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔پاکستان کے پالیسی ساز بنگلہ دیش کی انڈیا کے ساتھ بڑھتی کشیدگی اور چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔جہانگیر نگر یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کار صاحب انعام خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کے مستقل اور موثر سفارتی تعلقات دونوں ممالک کے استحکام، سلامتی اور علاقائی مفادات کے لیے اہم ہیں۔انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا، ’میرے خیال میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اب ایک نئی سطح پر پہنچ جائیں گے۔ پاکستان تجارت، علاقائی رابطے اور سارک کے معاملات میں کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش پاکستان کے ذریعے ایران، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘گذشتہ برس اگست سے پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو کپاس سمیت کچھ مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کے امکانات کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کارگو کی ترسیل شروع ہو چکی ہے۔Getty Imagesدونوں ممالک کے درمیان براہ راست کارگو کی ترسیل شروع ہو چکی ہےصاحب انعام خان کا کہنا ہے کہ حکومت ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دے رہی ہے جو بنگلہ دیش کی معیشت کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی تعلقات سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی ’سرد مہری‘ کے باعث گذشتہ 15 سالوں سے تجارت، مواصلات اور دیگر شعبوں میں زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ان میں سے بعض کے مطابق اس ملاقات میں دونوں خارجہ سیکرٹریوں ایک متفقہ نکتہ تلاش کرنا ہے تاکہ تعلقات میں بہتری لائی جا سکے۔ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان ایک ہی خطے سے ہیں اور دونوں ہی سارک کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے امکانات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان سیاحت کے شعبے میں بھی تعاون ممکن ہے۔اس سے قبل گذشتہ دسمبر میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بگڑتے ہوئے سفارتی تعلقات اور سیاسی کشیدگی کے تناظر میں بنگلہ دیش اور انڈیا کے خارجہ سیکرٹریوں کی ڈھاکہ میں ملاقات ہوئی تھی۔دوسری جانب پاکستان کے اگست 2024 میں وزیر اعظم شہباز شریف نے شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پروفیسر محمد یونس کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی تھی۔اس کے ایک ماہ بعد، ستمبر میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری کے کم ہونے کا اشارہ ملتا تھا۔ محمد یونس کے عبوری حکومت کے سربراہ بننے کے بعد سے ڈھاکہ اور اسلام آباد کے سفارت کار بھی زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔اس کے بعد نومبر میں پاکستان کے ساحلی شہر کراچی سے ایک کنٹینر جہاز چٹاگانگ پورٹ پہنچا جس کے بعد سے تجارتی تعلقات کو مزید بڑھانے کا معاملہ مزید ابھرا ہے۔پاکستان کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق، 2023 میں پاکستان نے تقریباً 650 ملین ڈالر کی مصنوعات بنگلہ دیش کو برآمد کیں۔ اس میں تقریباً 79 یارن، ٹیکسٹائل اور تیار چمڑے کی مصنوعات شامل تھیں۔اس کے برعکس بنگلہ دیش کی پاکستان کو برآمدات کا کل حجم 60 ملین ڈالر سے کچھ زیادہ تھا۔ بنگلہ دیش بنیادی طور پر جوٹ، ادویات، ہائیڈروجن پر آکسائیڈ، چائے اور تیار ملبوسات برآمد کرتا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر تعلقات میں بہتری آتی ہے تو اس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔انڈیا کی جانب سے بنگلہ دیش کو دی گئی تجارتی راہداری کی سہولت کی واپسی: کیا یہ سیاسی محاذ آرائی کے بعد ایک تجارتی جنگ کی ابتدا ہے؟بنگلہ دیش کے آرمی چیف کا سخت بیان کیا سیاستدانوں کو وارننگ ہے؟بنگلہ دیش کے طلبہ جو عمران خان اور اردوغان کی طرح مقبول سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیںکیا بنگلہ دیش سیکولرازم سے اسلام پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے؟انڈیا کے پانچ مربع کلومیٹر سرحدی علاقے پر ’بنگلہ دیشی قبضے‘ کی حقیقت کیا ہے؟آرمی چیف کے دفتر سے پاکستانی فوج کے جنرل نیازی کی تصویر ہٹانے پر سابق انڈین فوجی ناراض کیوں