سائنسدانوں نے ان دیکھا ’نیا رنگ‘ دریافت کرلیا


سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک نیا رنگ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں دیکھا تھا، یہ تحقیق ایک تجربے کے بعد کی گئی ہے جس میں امریکا میں محققین نے اپنی آنکھوں پر لیزر پلسز کو فائر کیا تھا۔ مطابق محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ریٹینا میں مخصوص خلیات کو متحرک کرکے نیلے اور سبز رنگ کا مشاہدہ کیا ہے جسے سائنس دانوں نے ’اولو‘ کا نام دیا ہے، لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک نئے رنگ کی موجودگی قابل بحث ہے۔سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے شریک مصنف یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر رین این جی نے اسے ’قابل ذکر‘ قرار دیا ہے، وہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ نتائج کی بنیاد پر ممکنہ طور پر کلر بلائنڈنس پر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے۔پروفیسر این جی، جو اس تجربے میں حصہ لینے والے 5 افراد میں سے ایک تھے، نے ہفتے کو بی بی سی ریڈیو 4 کے ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ ’اولو کسی بھی رنگ سے زیادہ بھرا ہوا ہے جسے آپ حقیقی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’فرض کریں کہ آپ اپنی پوری زندگی گھومتے ہیں اور آپ کو صرف پنک، بے بی پنک، پیسٹل پنک نظر آتا ہے اور پھر ایک دن آپ دفتر جاتے ہیں اور کسی نے شرٹ پہن رکھی ہوتی ہے اور یہ آپ کا رنگ آپ کی جانب سے اب تک دیکھا جانے والا سب سے گہرا بے بی پنک ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک نیا رنگ ہے اور ہم اسے سرخ کہتے ہیں‘۔ٹیم کے تجربے کے دوران محققین نے ہر شرکا کی ایک آنکھ کی پتلی میں لیزر بیم چمکائی، اس مطالعے میں 5 افراد شامل تھے جن میں سے چار مرد اور ایک خاتون تھیں، بی بی سی کے مطابق پروفیسر این جی سمیت 3 شرکا اس تحقیقی مقالے کے شریک مصنف تھے۔تحقیقی مقالے کے مطابق شرکا نے Oz نامی ڈیوائس میں دیکھا جو شیشے، لیزر اور آپٹیکل ڈیوائسز پر مشتمل ہے، اس سے قبل اس آلے کو یو سی برکلے اور واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ڈیزائن کیا تھا اور اس مطالعہ میں استعمال کے لیے اسے اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ریٹینا آنکھ کے پیچھے ٹشو کی ایک ہلکی حساس پرت ہے جو بصری معلومات کو وصول اور پروسیس کرتی ہے، یہ روشنی کو برقی سگنل میں تبدیل کرتی ہے ، جو پھر بصری اعصاب کے ذریعے دماغ میں منتقل ہوتی ہے ، جس سے ہمیں دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ریٹینا کون خلیات پر مشتمل ہوتا ہے، یہ خلیات رنگ کو سمجھنے کا کام کرتے ہیں، آنکھ میں 3 اقسام ایس ، ایل اور ایم کے کون خلیات ہوتے ہیں، اور ہر ایک بالترتیب نیلے ، سرخ اور سبز کے مختلف ویو لینتھ کے لیے حساس ہوتا ہے۔تحقیقی مقالے کے مطابق نارمل ویژن میں کوئی بھی روشنی جو ایم کون سیل کو متحرک کرتی ہے اسے اس کے پڑوسی ایل اور / یا ایس کونز کو بھی متحرک کرنا چاہیے کیونکہ اس کا فنکشن ان کے ساتھ مل جاتا ہے۔تاہم اس تحقیق میں بی بی سی نے اخبار کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیزر نے صرف ایم کونز کو متحرک کیا جو اصولی طور پر دماغ کو ایک رنگین سگنل بھیجے گا جو قدرتی بصارت میں کبھی نہیں ہوتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ رنگ اولو کو حقیقی دنیا میں کسی شخص کی ننگی آنکھوں سے مخصوص محرک کی مدد کے بغیر نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔تجربے کے دوران دیکھے گئے رنگ کی تصدیق کرنے کے لیے ہرفرد نے ایک کنٹرول ایبل کلر ڈائل کو ایڈجسٹ کیا جب تک کہ وہ ’اولو‘ سے میل نہیں کھاگیا۔

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنسدانوں نے ان دیکھا ’نیا رنگ‘ دریافت کرلیا

فیس بک میسینجر جیسا الگ چیٹنگ سسٹم متعارف

واٹس ایپ صارفین کیلئے ایک اور دلچسپ فیچر متعارف

صحرائی پودے کیکٹس کی 10 لاکھ ڈالر کی چوری جو ایک سمگلر کے زوال کی وجہ بنی

پیشہ ور قاتل سے ملاقات کی روداد: ایک انسانی جان کی قیمت کتنی ہو سکتی ہے؟

کیا حضرت عیسیٰ کا کفن کہلانے والے ’شراؤڈ آف ٹیورن‘ اور اس پر موجود انسانی پیکر کا معمہ حل ہوگیا

چاولوں میں بڑھتا ہوا زہریلا مادہ جو کینسر کا سبب بن سکتا ہے

متحدہ عرب امارات میں چہرے کی شناخت والا جدید آئی ڈی کارڈ سسٹم متعارف

صارفین کی تفصیلات جعلی لاگ ان صفحات کے ذریعے او ٹی پی چوری کرنیکا انکشاف

’ڈرگ رزسٹینس‘ کیا ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کی اموات کی وجہ ہے؟

’ڈرگ رزسٹینس‘ کیا ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کی اموات کی وجہ بن رہی ہے؟

سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر نے مریض کے باپ کی ’بِنا تصدیق سرجری کر دی‘

ژالہ باری کے دوران سولر پینلز کو بچانے کے طریقے

انڈیا کا وہ علاقہ جہاں لوگوں کے بالوں کے بعد ناخن بھی ٹوٹ کر جھڑنے لگے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

آہستہ آہستہ اور خاموشی سے کھانے میں چُھپے صحت کے راز

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی