
Getty Imagesموجودہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئی ہیں جو گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران ایک لاکھ سے بھی کم تھیںپاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران بینکوں سے قرض لے کر گاڑیاں خریدنے کے رجحان میں اضافہ ہوا جبکہ اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ملک میں مجموعی طور پر گاڑیوں کی فروخت بھی بڑھی ہے۔پاکستان میں کار اسمبلرز کی نمائندہ تنظیم ’پاما‘ کے مطابق مارچ 2025 میں گاڑیوں کی فروخت میں گذشتہ سال اسی ماہ (مارچ 2024) کے مقابلے میں 18 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ’پاما‘ کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں (جولائی 2024 سے مارچ 2025) میں گاڑیوں کی فروخت میں گذشتہ مالی سال کے اِسی عرصے کے مقابلے 46 فیصد اضافہ ہوا۔پاما کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں اب تک پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئی ہیں جو گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران ایک لاکھ سے بھی کم تھیں۔دوسری جانب سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ملک میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں سے قرض لینے کی شرح میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق مارچ کے مہینے کے اختتام تک صارفین کی جانب سے بینکوں سے 257 ارب روپے کا قرض گاڑیوں کی خریداری کے لیے لیا گیا جو فروری کے مہینے تک 249 ارب روپے تھا۔ملک میں گاڑیوں کی فروخت اور اس کے لیے بینکوں سے قرض لینے کی شرح میں اضافہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب معیشت کے کچھ اشاریوں میں بہتری نظر آئی ہے جن میں افراط زر (مہنگائی کی شرح) اور شرح سود میں کمی، بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔تاہم دوسری جانب صنعتی ترقی کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے اور ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ اور آمدنی میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔آٹو سیکٹر اور بینکاری کے شعبے کے ماہرین کی رائے ہے کہ بینک سے کوئی کار لیز، فنانس یا اجارہ (اسلامی بینکاری) کرتے وقت صارفین کو کچھ چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بینک سے گاڑی کی خریداری کے لیے لیا گیا قرض ان کے لیے مستقبل میں مسائل پیدا نہ کر سکے۔Getty Imagesسٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق مارچ کے مہینے کے اختتام تک صارفین کی جانب سے بینکوں سے 257 ارب روپے کا قرض گاڑیوں کی خریداری کے لیے لیا گیاپاکستان میں گاڑی خریدنے کے لیے بینک سے قرض لینے کا رجحان کیوں بڑھا؟پاکستان میں حالیہ مہینوں میں بینکوں سے گاڑیوں کی خریداری کے لیے صارفین کی جانب سے زیادہ قرض لینے کے بارے میں آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے بتایا کہ اس کی بنیادی وجہ ملک میں شرح سود میں کمی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں جون 2022 میں شرح سود 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر موجود تھی جبکہ مارچ 2025 میں یہی شرح 12 فیصد تک ہو چکی ہے۔انھوں نے کہا کہ شرح سود میں کمی کی وجہ سے آٹو فنانسنگ سستی ہوئی تو اس کے ساتھ ملک میں مہنگائی بڑھنے کی شرح میں بھی کمی واقع ہوئی اور ڈالر ریٹ بھی مستحکم ہوا جس کی وجہ سے پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں قدرے مستحکم ہوگئیں۔مشہود نے کہا کہ ملک میں چھوٹی گاڑیوں کی فروخت میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ 60 سے نوے لاکھ کی قیمت میں دستیاب ایس یو ویز کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔گاڑی خریدنے کے لیے بینک سے کتنا قرضہ مل سکتا ہے اور اس کا کیا طریقہ کار ہے؟پاکستان کے مرکزی بینک کی ہدایت کے مطابق صارفین گاڑی کی خریداری کے لیے بینک سے زیادہ سے زیادہ 30 لاکھ روپے تک کا قرض حاصل کر سکتے ہیں۔آٹو سیکٹر ماہر مشہود کہتے ہیں کہ ڈھائی سال قبل مرکزی بینک نے اس کی حد مقرر کی تھی تاکہ کنزیومر فنانسنگ کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح اور ڈالر ریٹ میں اضافے کی وجہ سے ’مسائل بڑھ گئے تھے‘ جس کے باعث یہ حد مقرر کی گئی تھی۔گاڑیوں کی صنعت سے وابستہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس فنانسنگ کیپ کو بڑھایا جائے تاکہ اس شعبے میں زیادہ فنانسنگ ہو سکے۔’30 کروڑ کی چوری شدہ کار لندن سے کراچی کیسے پہنچی؟‘بی وائے ڈی: کیا ’ٹیسلا کِلر‘ پاکستان میں سستی الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروا سکے گی؟اوسامو سوزوکی: پاکستان اور انڈیا کو ’عوامی کار‘ دینے والے جاپانی جنھوں نے سوزوکی کو عالمی برانڈ بنایاپاکستان کے وزیر اعظم اور صدر کو تحفے میں ملنے والی ترک الیکٹرک کار جو اردوغان کے ’خواب کی تعبیر ہے‘گاڑی خریدنے کے لیے ہر شخص کے پاس پوری رقم نہیں ہوتی تو اس لیے لوگ بینک سے قرض حاصل کرتے ہیں۔ مگر صارفین بینک سے قرض کیسے لے سکتے ہیں؟اس کے بارے میں حبیب بینک کے پراڈکٹس، ٹرانزیکشنل سروسز اور سلوشن ڈیلیوری شعبے کے ہیڈ عامر قریشی نے بتایا کہ اس کا ایک طریقہ کار ہے:اگر کوئی بینک سے قرض لینا چاہتا ہے تو کسی قریبی برانچ، موبائل ایپ یا ہیلپ لائن کے ذریعے گاڑی خریدنے کے لیے قرض کے حصول کے لیے درخواست جمع کروا سکتا ہےبیرون ملک رہنے والے صارفین روشن ڈیجیٹیل اکاؤنٹس کے ذریعے یہ درخواست جمع کرا سکتے ہیںبینک درخواست کے لیے جانچ پڑتال کے بعد اس پر قرض دینے کا فیصلہ کرتا ہےقرض کی منظوری پر صارف کو ڈاؤن پیمنٹ ادا کر کے قرض مل سکتا ہےشرح سود، ڈاؤن پیمنٹ اور قسط کا حساب کتاب رکھنا کیوں ضروری ہے؟Getty Imagesپاکستان کے مرکزی بینک کی ہدایت کے مطابق صارفین گاڑی کی خریداری کے لیے بینک سے زیادہ سے زیادہ 30 لاکھ روپے تک کا قرض حاصل کر سکتے ہیںصارفین کو گاڑی کی خریداری کے لیے بینک سے قرض لیتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، اس بارے میں بینکاری کے شبعے کے ماہر راشد مسعود عالم کا کہنا ہے کہ بینک عموماً صارفین سے اس ضمن میں بینک سٹیٹمنٹ، آمدن پر ٹیکس ریٹرن اور دیگر معلومات مانگتے ہیں۔راشد مسعود کہتے ہیں کہ صارفین کو ملک میں نافذ شرح سود کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ’عموماً بینک مجموعی سالانہ شرح سود کو زیادہ رکھتے ہیں جس کے بارے میں صارف کو معلوم ہونا چاہیے۔ مثلاً اس وقت مرکزی بینک کی جانب سے 12 فیصد کا پالیسی ریٹ ہے اور بینک اس میں اپنا مارجن شامل کر کے صارف سے وصول کرتے ہیں۔‘اُن کا کہنا ہے کہ ’اکثر یہ ہوتا ہے کہ نجی بینک مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے پر صارف سے بھی زیادہ رقم وصول کرتے ہیں تاہم جب مرکزی بینک کی جانب سے یہ کم ہوتا ہے تو صارف کو اس کا فائدہ منتقل نہیں ہوتا۔‘انھوں نے کہا کہ صارف کو تھوڑی بہت مالیاتی شعبے کی خواندگی بھی حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ حساب لگا سکے کہ بینک اس سے دیے گئے قرض پر کتنا منافع وصول کر رہا ہے۔اکثر بینک صارفین کو ان کی ڈاؤن پیمنٹ اور دیگر ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ ماہانہ قسط کی رقم کے بارے میں مطلع کرتے ہیں۔ یا پھر اس کے لیے بینکوں اور کار کمپنیوں کی ویب سائٹس پر کار لون کیلکولیٹرز بھی دستیاب ہوتے ہیں۔راشد نے کہا کہ اسی طرح فنانسنگ کے لیے جو شرائط نامہ ہوتا ہے وہ اکثر لوگ نہیں پڑھتے اور وہ ہوتا بھی اتنا طویل ہے کہ لوگ نہیں پڑھ پاتے۔ ’تاہم پھر بھی اسے پڑھنا چاہیے تاکہ انھیں معلوم رہے کہ آیا وہ اس قابل ہیں بھی کہ آگے چل کر قسط بروقت ادا کر سکیں۔‘انھوں نے کہا کہ اگر صارفین کو بینک سے کوئی شکایت ہو تو وہ مرکزی بینک کے کنزیومر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ سے اس سلسلے میں رابطہ کر سکتے ہیں۔روایتی کار لیزنگ، فناسنگ اور اسلامی اجارہ میں کیا فرق ہے؟Getty Imagesعامر قریشی نے بتایا کہ لیزنگ میں گاڑی کے مالکانہ حقوق قرض واپس کرنے تک بینک کے پاس ہوتے ہیں جبکہ روایتی فنانسنگ کے شعبے میں گاڑی کے مالکانہ حقوق بینک کے ساتھ ساتھ صارف کے پاس بھی ہوتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ اسلامی فنانسنگ یا اجارہ میں قسط کو ’رینٹل‘ یعنی ماہانہ کرایہ کہا جاتا ہے جبکہ روایتی بینکاری میں یہ ماہانہ قسط ہی ہوتی ہے۔ جبکہ روایتی بینکاری میں گاڑی کی انشورنس کروائی جاتی ہے جبکہ اسلامی فناسنگ میں اسے تکافل کہتے ہیں۔بینک اسلامی کے ہیڈ پراڈکٹس ڈیپارٹمنٹ سمیل نعمان قریشی نے اس سلسلے میں بتایا کہ اسلامی فنانسنگ میں اثاثے یعنی گاڑی کا کرایہ اس وقت تک وصول نہیں کیا جاتا جب تک وہ صارف کے حوالے نہ ہو جائے جبکہ روایتی بینکاری میں رقم کی منتقلی کے فوراً بعد قسط لینا شروع کیا جاتا ہے، چاہے اثاثہ صارف کو منتقل ہوا ہو یا نہیں۔انھوں نے کہا کہ اسلامی فنانسنگ میں اثاثے کا رسک بھی برداشت کرتے ہیں جبکہ روایتی میں یہ رسک صارف کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔فکسڈ اور ویری ایبل (تغیر پذیر) شرح سود میں کیا فرق ہے؟عامر قریشی نے بتایا کہ فکسڈ شرح سود میں قرضے کی ادائیگی کی پوری مدت کے لیے ایک شرح سود ہوتا ہے یعنی صارف کو اسی شرح پر پورا قرض واپس کرنا پڑے گا۔جبکہ دوسری جانب ویری ایبل شرح سود کراچی انٹر بینک آفرڈ ریٹ سے منسلک ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ وہ ریٹ ہے جس کے عوض بینک آپس میں ڈیل کرتے ہیں اور یہ کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔سالانہ انشورنش، رجسٹریشن اور دوسرے چارجز گاڑی کی قیمت کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایک کار کمپنی کی ڈیلرشپ سے وابستہ محمد عباس بتاتے ہیں کہ رجسٹریشن کا کام صوبائی حکومت کے محکمہ ایکسائز کا کام ہے اور وہ گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے ایک فیس وصول کرتے ہیں۔اسی طرح گاڑی پر ٹیکس بھی صوبائی حکومت کا محکمہ وصول کرتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مختلف صوبوں میں اس ٹیکس وصولی کا الگ طریقہ اور فیس ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انشورنس بھی کار فنانسنگ کے ساتھ ہوتی ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم اور صدر کو تحفے میں ملنے والی ترک الیکٹرک کار جو اردوغان کے ’خواب کی تعبیر ہے‘اوسامو سوزوکی: پاکستان اور انڈیا کو ’عوامی کار‘ دینے والے جاپانی جنھوں نے سوزوکی کو عالمی برانڈ بنایاپاکستان میں الیکٹرک کاروں کی اسمبلی شروع مگر رکاوٹیں برقرار: سیرس تھری کو تیار کرنا اتنا مشکل کیوں تھا؟ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کے مقابلے میں نئی انٹری نے پاکستانی آٹو سیکٹر کی ’سانسیں بحال کر دیں‘بی وائے ڈی: کیا ’ٹیسلا کِلر‘ پاکستان میں سستی الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروا سکے گی؟