
Getty Imagesریاست بہار کی انتخابی فہرستوں سے 65 لاکھ ووٹرز کو خارج کر دیا گیا ہےگذشتہ ہفتے کے اوائل میں اپوزیشن رہنما راہل گاندھی کی جانب انڈیا میں سنہ 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ طور پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو جتوانے کے لیے کیے گئے مبینہ فراڈ اور جعلی ووٹرز کے اندراج سے متعلق الزامات سامنے آنے کے بعد اب یہ معاملہ مزید سنگین رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔انڈیا کی اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمیشن پر ووٹرز لسٹوں میں بڑے پیمانے پر فراڈ کا سنگین الزام عائد کر رہی ہیں، جس کی متعلقہ حکام کی جانب سے تردید کی جا رہی ہے۔اپوزیشن کا الزام ہے کہ گذشتہ پارلیمانی انتخابات اور کئی ریاستی الیکشن میں ووٹر لسٹوں میں مبینہ طور پر اِس طرح سے دھاندلی کی گئی کہ جس سے حکمراں جماعت کو انتخابی فائدہ ہوا۔الیکشن کمیشن کے خلاف انتخابی دھاندلی کے الزامات میں اُس وقت شدت آئی جب کمیشن کی جانب سے ریاست بہار میں ہونے والے انتخابات سے محض تین ماہ قبل ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کے خصوصی عمل کا آغاز کیا گیا تھا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹروں کے جامع نظرِ ثانی کے اس خصوصی عمل کو 'ایس آئی آر' کہا گیا ہے اور یہ 25 جون سے 26 جولائی تک جاری رہا تھا۔کمیشن کے مطابق، اس دوران اہلکاروں نے ریاست بہار کے درج شدہ 7 کروڑ 89 لاکھ ووٹروں کے گھروں میں جا کر اُن کا ڈیٹا چیک کیا۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ آخری بار ووٹر لسٹوں پر اس نوعیت کی نظرِ ثانی سنہ 2003 میں ہوئی تھی اور اب انھیں اپ ڈیٹ کرنا ضروری تھا۔تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نئی عبوری فہرست میں 7 کروڑ 24 لاکھ نام ہیں، یعنی پچھلی فہرست سے 65 لاکھ کم۔نظر ثانی کے اس عمل کے تحت بہار میں رجسٹرڈ کروڑوں ووٹروں سے شہریت کی تصدیق کے لیے پاسپورٹ، برتھ سرٹیفیکیٹ اور رہائشی سرٹیفیکٹ جیسی دستاو یزات مانگی گئی ہیں۔اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ کروڑوں غریب اور ناخواندہ شہری، جن کے نام ووٹر لسٹوں سے نکال دیے گئے ہیں، یہ دستاویز جمع نہیں کروا سکیں گے۔Getty Images12 اگست کو الیکشن کمیشن کی جانب مارچ کرنے والے اپوزیشن اراکین پارلیمان کو وقتی طور پر حراست میں لیا گیا تھاالیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اُن 65 لاکھ افراد میں سے 22 لاکھ فوت ہو چکے ہیں، سات لاکھ ووٹر ایسے تھے جن کے نام دو بار درج تھے جبکہ اس دورانیے میں 36 لاکھ ووٹر بہار چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں منتقل ہوئے اور وہیں اپنا ووٹ رجسٹر کروایا۔اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی فہرستوں سے نکالے گئے 65 لاکھ ووٹروں کی تفصیلات یعنی فہرست مانگی تھی، لیکن کمیشن نے قانون کا حوالہ دے کر یہ فہرست شیئر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ بہار کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ پر جو نظر ثانی کر رہا ہے، وہ عمل شفاف نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'وہاں بڑے پیمانے پر گڑبڑ ہو رہی ہے۔ کمیشن نے ایس آئی آر میں 65 لاکھ ووٹرز کے نام کاٹ دیے ہیں۔ اس میں ایک بھی نئے ووٹر کا نام شامل نہیں کیا گیا، اس سے واضح ہو تا ہے کہ اُن کی نیت کیا ہے۔'بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی پرساد یادو نے بھی اس معاملے کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عمل نہ صرف غلط ہے بلکہ اس کا مقصد ووٹروں کو رائے دہندگان کی فہرست سے باہر کرنا ہے۔'یہ ایک آئینی فراڈ ہے جس کا ارتکاب ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کے نام پر عوام، بالخصوص غریب اور محروم طبقے، کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو ایک نامعقول اور تفریقی عمل کے ذریعے ووٹ دینے کے بنیادی حق سے محروم کرنا جمہوری قدروں پر حملہ اور آئین کی روح پر براہ راست حملہ ہے۔'بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کا عمل ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ کمیشن نے اب بنگال اور دوسری ریاستوں میں بھی ایس آئی آر (یعنی ووٹر فہرستوں پر نظرثانی) کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے مسلمانوں، دلتوں اور پسماندہ طبقے کے لوگوں سے اپیل کی ہے وہ پاسپورٹ، پیدائش کا سرٹیفیکیٹ، ذات کا سرٹیفیکیٹ اور الیکشن کمیشن کے ذریعے مانگے گئے 11 دستاویزات تیار رکھیں وگرنہ اُن کی شہریت خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ 'ایس آئی آر کے ذریعے بہت سے حقیقی ووٹروں کا نام ووٹر لسٹ سے ہٹ جائے گا۔ اگر ووٹر لسٹ میں نام نہیں آئے گا تو اس کی شہریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ الیکشن کمیشن حقیقی ووٹروں کے نام لسٹ سے ہٹا کر لوگوں کی شہریت خطرے میں ڈال رہی ہے۔'اس حوالے سے بہت سی درخواستیں انڈین سپریم کورٹ میں بھی دائر کی گئی ہیں۔ اس درخواستوں پر سماعتوں کے دوران درخواست گزاروں کو سُنا گیا ہے تاہم الیکشن کمیشن آئندہ آنے والے دنوں میں اس معاملے پر اپنا مؤقف عدالت کے سامنے رکھے گا۔Getty Imagesگذشتہ ہفتے کے اوائل میں راہل گاندھی نے ایک حلقے کی ووٹرز لسٹ سے متعلق مفصل تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تھیسپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے اُن 65 لاکھ لوگوں فہرست بھی مانگی تھی جن کے نام ڈرافٹ لسٹ سے ہٹا دیے گئے ہیں، لیکن کمیشن نے قانون کا حوالہ دے کر یہ تفصیلات سپریم کورٹ کو بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔گذشتہ ہفتے کے اوائل میں اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے ایک نیوز کانفرنس میں کرناٹک کی صرف ایک اسمبلی حلقے کی ووٹر لسٹ کا ایک تجزیہ پیش کیا تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس حلقے کی ووٹر لسٹ میں کم از کم ایک لاکھ جعلی ووٹرز شامل کیے گئے تھے۔ راہل نے مزید دعویٰ کیا کہ اس فہرست میں کم ازکم ایسے 30 ہزار ووٹرز ہیں، جن کے پتے کے خانے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔انھوں نے مزید کہا کہ فرسٹ ٹائم ووٹرز (یعنی 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ایسے افراد جو پہلی مرتبہ ووٹ دینے کا حق استعمال کرتے ہیں) میں ایسے ہزاروں نام ہیں جن میں ووٹرز کی عمریں 80 اور 90 برس کے درمیان ہیں۔انھوں نے ایسی مثالیں بھی پیش کیں کہ جس میں ایک کمرے کے ایک مکان پر 80 رجسٹرڈ ووٹرز کو دکھایا گیا۔حزب مخالف کے رہنما راہل گاندھی نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی کی جانب سے یہ عمل گذشتہ کئی انتخابات میں منظم طریقے سے کیا گیا ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ 'الیکشن کمیشن بی جے پی کے ساتھ ووٹوں کی چوری میں ملوث ہے۔'اسی مبینہ دھاندلی کے خلاف پیر (11 اگست) کو متحدہ اپوزیشن کے ارکان پارلیمان نے الیکشن کمیشن کے دفتر تک احتجاجی مارچ کیا تھا۔ اپوزیشن رہنما کمیشن کے ذمہ داران سے ملنا چاہتے تھے، مگر اس سے قبل انھیں وقتی طور پر حراست میں لے لیا گیا۔اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں ووٹر لسٹوں میں مبینہ دھاندلی جیسے معاملے پر بحث چاہتی ہیں لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن سے متعلق سوال پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی۔دوسری جانب الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ ان کی جانب سے جو بھی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں وہ طے شدہ ضابطوں کے تحت ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ابھی تک دھاندلی سے متعلق الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔حکمراں جماعت بی جے پی نے اپوزیشن پر الزام لگایا ہے کہ وہ عوام کے ذریعے مسترد کیے جانے کے بعد کبھی الزام ووٹنگ مشینوں پر عائد کرتی ہے اور کبھی الیکشن کمیشن پر۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ 'راہل گاندھی انتخابی عمل کے بارے میں بے بنیاد الزامات لگا کر جمہوری اداروں کو کمزور کر رہے ہیں۔'اپوزیشن لیڈر نے الیکشن کمیشن سے بالکل واضح سوالات پوچھے ہیں، لیکن کمیشن کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی حلف اٹھا کر یہ سوالات کریں وہ تبھی اس کا جواب دے گا۔سابق چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ کمیشن جس شق کا حوالہ دے کر راہل گاندھی سے حلف نامہ مانگ رہا ہے اس کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔'الیکشن کمیشن راہل کے ذریعے اٹھائے گئے سوالات کی جانچ کرنے اور جواب دینے کے لیے آزاد ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ ان الزامات کی جانچ کرائے۔ اس سے عوام کو بھی یہ پیغام جائے گا کہ وہ غیر جانبدار اور ایماندار ہے اور اس کی عزت بڑھے گی۔'سیاسی تجزیہ کار آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ راہل گاندھی انڈیا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے رہنما ہیں اور اُن کی ایک آئینی حیثیت ہے۔'اگر راہل گاندھی کی طرف سے کوئی سوال آتا ہے یا کوئی الزام لگتا ہے تو میرے خیال میں الیکشن کمیشن کو ان پر غور کرنا چاہیے اور ایسے الزامات کی جانچ کا حکم دینا چاہیے کہ اس میں کچھ سچائی ہے یا نہیں۔جو الزامات لگائے گئے ہیں ان سے الیکشن کمیشن کے کردار پر سوال اٹھے ہیں۔`'الیکشن کمیشن پر دھبہ لگا ہے، جمہوریت پر داغ لگا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس داغ کو دھونے کے لیے ان الزامات کی جانچ کروانی چاہیے۔ اگر وہ جانچ کے بجائے راہل گاندھی پر ذاتی نوعیت کے حملے کریں گے تو اس سے کمیشن کی ساکھ اور بھی مجروح ہو گی۔ یہ تو الیکشن کمیشن کی ہی ذمے داری ہے کہ انتخابات آزادانہ اور شفاف طریقے سے ہوں۔'راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن سے ڈیجیٹل ووٹر لسٹ مانگی ہے لیکن وہ کاغذ پر شائع فہرست ہی دینے پر مصر ہے۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل لسٹ کا تجزیہ دو دن میں کیا جا سکتا ہے، لیکن کاغذ کی فہرست کے تجزیے کے لیے مہینوں لگ جائیں گے۔آرتی کہتی ہیں کہ 'ووٹر لسٹ ایک پبلک دستاویز ہے۔ الیکشن کمیشن اسے چھپانے کی کوشش کیوں کر رہا ہے۔ یہ کمپیوٹرائزیشن کا زمانہ ہے، ہر چیز کمپیوٹر پر ہوتی ہے۔ ووٹر لسٹ شفاف ہونی چاہیے۔ کمیشن نے اسے ڈیجیٹل فارم سے ہٹا دیا ہے۔ اس فہرست تک تو سبھی کی رسائی ہونی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کے جواب سے بات صاف نہیں ہو رہی ہے۔'انڈیا کا انتخابی کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے جس میں ایک چیف الیکشن کمشنر اور دو کمشنرز ہوتے ہیں۔حال میں ان کی تقرری کے طریقے میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، یہ ادارہ عمومی طور پر حکومت کے اثر سے آزاد رہا ہے۔ماضی میں خال ہی کمیشن پر کسی حکمراں جماعت کو جتانے کے لیے ووٹر لسٹ میں فراڈ کرنے جیسے سنگین الزامات لگے ہوں۔پچھلے کچھ ریاستی انتخابات میں جب ہر طرف اپوزیشن کی بڑی جیت کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں وہاں ان کی غیر متوقع شکست نے اپوزیشن کے شکوک کو اور بھی مضبوط کیا ہے۔اپوزیشن کو شبہ ہے کہ بہار میں ووٹر لسٹ میں سپیشن ریوژن کے ذریعے غریب طبقے کو ووٹر لسٹ سے باہر کیا جا ئے گا۔ انھیں خدشہ ہے کہ دستاویزات کی جانچ کے بعد جب فائنل لسٹ آئے گی تو لاکھوں ووٹرز نہ صرف ووٹ کے حق سے محروم ہو جائیں گے بلکہ ان کی شہریت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔اس کی سچائی تو ووٹر لسٹ آنے کے بعد معلوم ہوسکے گی لیکن یہ معاملہ اب طول پکڑ چکا ہے۔اپوزیشن اس سوال پر متحد ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے ان کے الزامات کا اطمینان بخش جواب نہیں دیا تو وہ انتخابات کے بائیکاٹ کا بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔انڈیا کی نئی ووٹر لسٹوں میں ’مردہ ووٹر، ڈبل ووٹ اور مسلمانوں کا اخراج‘: ’یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر دھبہ ہے‘انڈیا میں بی جے پی کو مردم شماری کے ذریعے ذات پات کی تفصیلات جاننے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کینیڈا کا انڈیا پر ’ملکی انتخابات پر اثرانداز ہونے‘ کا الزام، انڈیا کی تردید اور جوابی وار’گھر گھر سندور‘ مہم کی تردید کے باوجود بی جے پی پر سیاسی جماعتوں کی تنقید: ’آپ سندور کے نام پر لوگوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں‘