
پاکستان کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کیا گیا ہے جس میں مسلح افواج سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں ردوبدل، آئینی عدالت کے قیام اور ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں سے متعلق تجاویز زیرِ غور ہیں۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ اجلاس کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تجاویز پر مبنی ہے اور جب تک پارلیمان کی دو تہائی اکثریت اس کی حمایت نہیں کرے گی تب تک یہ آئین کا حصہ نہیں بنے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج کے بارے میں آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کو چیف آف ڈیفینس فورسز بنانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے آئین کی 40 شقوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ادھر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر علی ظفر نے 27ویں آئینی ترمیم پیش کیے جانے کی مخالفت کی۔سینیٹ اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اتحادی جماعتوں کو بل منظور کروانے کی جلدی ہے مگر وہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری کے بغیر 27ویں ترمیم پر بحث میں حصہ نہیں لے سکتے۔خیال رہے کہ رواں سال اگست میں الیکشن کمیشن نےسینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرز شبلی فراز اور عمر ایوب خان سمیت نو مئی کے کیسز میں انسداد دہشت گردی کی مختلف عدالتوں سے سزائیں پانے والے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے نو اراکین پارلیمان کو نااہل قرار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن سے جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق ان ارکانِ پارلیمان کو آئین کے آرٹیکل تریسٹھ ون ایچ کے تحت نااہل قرار دیا گیا جس کے تحت سزا یافتہ شخص پارلیمان کا ممبر نہیں رہ سکتا۔ اب تک دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈرز کی تقرری تاخیر کا شکار رہی ہے۔ Getty Imagesسینیٹ میں تقریر کے دوران وزیر قانون نے کہا کہ آرمی چیف کی خدمات اور حالیہ جنگ میں کامیابی تسلیم کرتے ہوئے انھیں فیلڈ مارشل کے عہدے سے نوازا گیا جو تاحیات ہےآرمی چیف کو چیف آف ڈیفینس فورسز بنانے کی تجویز: ’فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات ہے‘اس ترمیمی مسودے کے تحت مسلح افواج کے سربراہان سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں بھی ترامیم کی بھی تجاویز ہیں۔ترمیمی مسودے کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر آرمی چیف اور چیف آف ڈیفینس فورس کو مقرر کریں گے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیمی مسودے کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم ہو جائے گا۔چیف آف آرمی سٹاف جو چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے، وزیر اعظم کی مشاورت سے نیشنل سٹرٹیجک کمانڈ کے سربراہ مقرر کریں گے اور نیشنل سٹرٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تعلق پاکستانی فوج سے ہو گا۔حکومت مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے افراد کو فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے پر ترقی دے سکے گی۔ فیلڈ مارشل کا رینک اور مراعات تاحیات ہوں گی یعنی فیلڈ مارشل تاحیات فیلڈ مارشل رہیں گے۔سینیٹ میں تقریر کے دوران وزیر قانون نے کہا کہ آرمی چیف کی خدمات اور حالیہ جنگ میں کامیابی تسلیم کرتے ہوئے انھیں فیلڈ مارشل کے عہدے سے نوازا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’فیلڈ مارشل کا خطاب اور رینک ہے، کوئی تعیناتی نہیں۔ آرمی چیف ایک تعیناتی ہے جس کی مدت پانچ سال ہے۔ مدت ختم ہونے پر وہ عہدہ چھوڑ دیتے ہیں، اگر انھیں توسیع نہ دی جائے۔‘وزیر قانون نے کہا کہ آئینی ترمیم میں فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا فلیٹ ایڈمرل کا ذکر کیا گیا۔ ’یہ قومی ہیروز ہوں گے، ساری دنیا میں یہ خطاب تاحیات ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے اور خطاب کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ ’اس (عہدے) کا مواخذہ یا واپسی وزیر اعظم کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ پارلیمان کا اختیار ہو گا کیونکہ وہ ساری قوم کا ہیرو ہے، کسی ایک وزیر اعظم یا ایگزیکٹو کا ہیرو نہیں۔‘اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرمی چیف چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، چیف آف نیول سٹاف اور ایئر سٹاف کی تعیناتی بھی اسی طرح وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ہوا کرے گی۔’موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بھی ہمارے قومی ہیرو ہیں، جب ان کی مدت ملازمت ختم ہوگی تبھی یہ عہد ختم ہو گا۔ اس کے بعد نئی تقرری نہیں ہو گی کیونکہ ہم نے چیف آف آرمی سٹاف کو ہی چیف آف ڈیفینس فورسز کی ذمہ داری سونپی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کی ذمہ داریوں میں سے ایک نیشنل سٹریجیٹک کمانڈ ہے۔ ان کے مطابق یہ دفاعی صلاحتیوں اور میزائل نظام سے متعلق حساس ذمہ داری ہے جس کے لیے وزیر اعظم تعیناتی کریں گے۔انھوں نے کہا کہ جب فیلڈ مارشل کمانڈ چھوڑیں گے تو وفاقی حکومت کا اختیار ہو گا کہ وہ انھیں اعزازی یا مشاورتی رول میں کام کرنے دیں۔آئینی عدالت کا قیام27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں آئینی عدالت کا قیام اور اس کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ برس 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا جسے اب آئینی عدالت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔اس بارے میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ سنہ 2006 میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان طے پانے والی 'میثاق جمہوریت' میں بھی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا ذکر تھا لہذا اس پر اب عملدرآمد کیا جائے گا۔مسودے کے مطابق آئینی عدالت کا سربراہ اس کا چیف جسٹس ہو گا جبکہ اس میں تمام صوبوں سے برابر تعداد میں ججز تعینات کیے جائیں گے۔ بطور آئینی عدالت جج تعیناتی یہ شرائط رکھی گئی ہیں: وہ سپریم کورٹ میں بطور جج کام کر چکے ہوں، ہائیکورٹ میں کم از کم سات سال جج رہے ہوں، 20 سال تک ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بطور ایڈووکیٹ کام کیا ہو اور سینیارٹی حاصل ہو۔مسودے کے مطابق آئینی عدالت کو دو یا اس سے زیادہ حکومتوں کے درمیان اختلافات میں اصل جیورسڈکشن حاصل ہو گی جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس ہو گی۔سینیٹ تقریر میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مشاورت کے بعد یہ طے کیا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز پارلیمان میں لائی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت اس کے لیے آئین کی 40 شقوں میں تبدیلی کرنے جا رہی ہے تاکہ وہاں وفاقی آئینی عدالت، اس کے چیف جسٹس اور ججز کا ذکر ہو گا۔انھوں نے کہا کہ ان شقوں میں تبدیلی سے آئین کا مفہوم تبدیل نہیں کیا جا رہا۔Getty Imagesسپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیار کا خاتمہآئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کی اصل جیورسڈکشن اور ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق آرٹیکل 184 ختم کیا جا رہا ہے۔خیال رہے کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے پاس عوامی اہمیت کے حامل مسائل پر ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا جبکہ آرٹیکل 186 کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی کیس کو اپنے پاس ٹرانسفر کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اپنے عہدوں پر کام جاری رکھیں گےتحریک لبیک کا عروج، مریدکے آپریشن اور حکومتی کریک ڈاؤن: ٹی ایل پی کا مستقبل کیا ہو گا؟ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا اختیار27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق صدر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی ہائیکورٹ کے جج کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تجویز پر کسی اور ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔اس مجوزہ ترمیم میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ہائیکورٹ کا کوئی جج تبادلے کو قبول نہیں کرتا تو اسے اپنے عہدے سے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔جبکہ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اگر ہائیکورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت کا سپریم کورٹ میں تعیناتی قبول نہیں کرتا تو اسے بھی ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ 1973 کے آئین میں ججز کے ٹرانفسر کے لیے آرٹیکل 200 موجود ہے جس کے مطابق کسی بھی ہائیکورٹ جج کو صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ہائیکورٹس کے ججز اور سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینا اور مشاورت کرنا ضروری تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبادلہ جج کی رضا کے بغیر دو سال کے لیے ہوسکتا تھا اور اس سے زیادہ عرصے کے لیے جج کی رضامندی درکار تھی۔Getty Imagesوزیر قانون نے کہا کہ 18ویں ترمیم سے دو سال والا معاملہ نکال دیا گیا تھا جبکہ 26ویں آئینی ترمیم میں اسے برقرار رکھا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اب ہائیکورٹس کے ججز کے تبادلے کو آسان بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے مثال دی ہے کہ بلوچستان جیسے صوبے جہاں قدرتی وسائل کا کام بڑھ رہا ہے، اگر وہاں کی بار یا چیف جسٹس کچھ سال کے لیے کارپوریٹ لا میں تجربہ رکھنے والے ججز مانگتے ہیں تو اسے ممکن بنایا جا سکے گا۔انھوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کے ججز کا لاہور، اسلام آباد، کراچی اور پشاور کے درمیان تبادلہ ممکن ہو سکے گا۔ ’بعض اوقات ججز خود اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ ہم نے اس میں وزیر اعظم کی ایڈوائس کا رول نکال دیا ہے اور اسے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سپرد کیا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ترمیم کے تحت تبادلوں کے باوجود ہائیکورٹ کے ججز اپنی اصل سینیارٹی قائم رکھ سکیں گے۔سپریم جوڈیشل کونسل سے متعلق آرٹیکل 209 میں تبدیلی کی بھی تجویز کی گئی ہے۔ اس کونسل میں اب وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، چیف جسٹسز کے بعد سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے سب سے سینیئر ججز اور ہائیکورٹس کے دو سب سے سینیئر ججز شامل ہوں گے۔سینیٹ الیکشن کے قوائد میں تبدیلی اور دیگر اصلاحات27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق سینیٹ الیکشن کے قوائد میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔وزیر قانون کا کہنا تھا کہ سارے ملک میں سینیٹ الیکشن ہوئے مگر سیاسی کشمکش اور عدالتی معاملات کے باعث خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن ایک سال کی تاخیر سے ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ رکن کی مدت کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ ’سینیٹ کبھی تحلیل نہیں ہوتی۔ ہر تین سال بعد اس کے انتخابات ہوتے ہیں اور حلف لیا جاتا ہے۔ پہلا کام سینیٹ چیئرمین اور نائب چیئرمین کا انتخاب ہوتا ہے۔ اسے کسی ابہام اور تنازعے سے بچانے کے لیے شق کی وضاحت کر دی گئی ہے۔‘دریں اثنا وزیر قانون نے کہا کہ صوبائی کابینہ میں اضافے کے لیے بھی آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے۔ فی الحال صوبائی کابینہ صوبے کے تمام ارکان کا 11 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کابینہ کا حجم بڑھانے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ تجویز لائی جا رہی ہے کہ اسے 13 فیصد کیا جائے کیونکہ کچھ صوبوں میں فی الحال محکموں کے اعتبار سے وزارتیں کم ہیں۔’پہلے پانچ (صوبائی) مشیروں کی اجازت تھی۔۔۔ اسے سات تک لے گئے ہیں۔‘Getty Images27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر ماہرین کی رائےپاکستان میں آئینی اور پارلیمانی اُمور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام 26ویں آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے میں بھی شامل تھا اور بظاہر یہ اسی ترمیم کا ’اِن فنشڈ ایجنڈا‘ ہے۔ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلوں سے متعلق تجاویز پر ان کا کہنا ہے کہ ججز کے ٹرانسفرز پر حکومت کا اختیار مضبوط ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت کا ہائیکورٹس کے اوپر اختیار مضبوط ہو گا۔‘ان کی رائے ہے کہ اکثر کیسز میں تبادلہ سزا ہوتی ہے۔ ’اس سزا سے بچنے کے لیے ججز سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔ یہ لازمی نہیں مگر پہلے تبادلے کے لیے یہ شرط تھی کہ ان کی رضامندی ہونی چاہیے۔‘’اب چونکہ رضامندی شامل نہیں ہو گی تو ہوسکتا ہے ان کا تبادلہ سزا دینے کے مترادف ہو۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ازخود نوٹس کا اختیار اب سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہو گا بلکہ وفاقی آئینی عدالت کے پاس ہوگا۔آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم کے بارے میں احد بلال محبوب کا خیال ہے کہ تعاون کے لیے اختیار کیا جانے والا نیا طریقہ کار بہتر ہے کیونکہ ’چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ایک نمائشی قسم کا عہدہ تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی قسم کی موثر کوآرڈینیشن نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس کمانڈ نہیں تھی۔‘وہ کہتے ہیں کہ چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ ’زیادہ موثر ہے۔ اب وہ باقاعدہ کوآرڈینیشن کر پائیں گے چونکہ وہ (دیگر افسران سے رینک میں) اوپر ہوں گے۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے آرمی چیف کے پاس کوآرڈینیشن کرنے کا قانونی اختیار ہو گا۔آئینی ماہر مزید کہتے ہیں کہ سابق فوجی صدر ایوب خان بھی فیلڈ مارشل تھے اور ریٹائرمنٹ کے باوجود ان کے نام کے ساتھ فیلڈ مارشل لکھا گیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ روایت ہے جس کا آئین میں ذکر کر دیا گیا ہے اور ’یہ کوئی نئی چیز نہیں۔‘وہ آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم کی وضاحت کرتے ہیں کہ آرمی چیف اپنی مقررہ مدت کو کمانڈ چھوڑ دیں گے۔ ’ابھی ان کی مدت پانچ سال ہے، اگر توسیع ملتی ہے تو اگلے پانچ سال تک ہوگی۔‘وہ کہتے ہیں کہ مدت ملازمت ختم ہونے پر موجودہ آرمی چیف کی کمانڈ تو ختم ہو سکتی ہے لیکن وفاقی حکومت ان کے لیے مزید ذمہ داریاں طے کر سکتی ہے۔احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت کا دورانیہ تین سال کی بجائے پانچ سال کر دیا گیا تھا، لہذا موجودہ آرمی چیف کے لیے نومبر 2025 میں کوئی نیا نوٹیفیکیشن درکار نہیں ہو گا۔خیال رہے کہ نومبر 2024 کے دوران پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی منظوری دی تھی۔اس وقت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نومبر 2027 تک اس عہدے پر موجود رہیں گے جس سے ’نظام کو تسلسل ملے گا۔‘دریں اثنا احمد بلال محبوب کی رائے ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت نے اس مسودے میں این ایف سی میں صوبائی شیئرز کا معاملہ نہیں اٹھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسودے میں صوبائی خودمختاری سے متعلق دونوں چیزیں اس مسودے میں عائب ہیں۔خیال رہے کہ وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے کہا تھا کہ حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے این ایف سی میں صوبائی شیئر کو حاصل تحفظ ختم کرنا چاہتی ہے اور تعلیم و آبادی کے شعبوں کو وفاق کے اختیار میں لانا چاہتی ہے۔26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟پی ٹی آئی کو ’مشکل وقت میں‘ چھوڑنے والے رہنما عمران خان کی رہائی کے لیے سرگرم: ’سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہوگا‘تحریک لبیک کا عروج، مریدکے آپریشن اور حکومتی کریک ڈاؤن: ٹی ایل پی کا مستقبل کیا ہو گا؟سیاسی مخالفتیا مقامی آبادی کا بے گھر ہونے کا خوف: پاکستانی فوج کو شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں کِن چیلنجز کا سامنا ہے؟علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اپنے عہدوں پر کام جاری رکھیں گے