پاکستان کی وفاقی حکومت نے انرجی وہیکل پالیسی کے مسودے کو حتمی شکل دے دی ہے جس کا باضابطہ اجرا 30 نومبر تک کیا جائے گا۔ نئی انرجی وہیکل پالیسی 2025-30 کے تحت سال 2030 تک ملک میں مجموعی طور پر 30 فیصد تک الیکٹرک گاڑیاں استعمال میں لائی جائیں گی۔گاڑیوں کی صنعت کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کی پالیسی وقت کی ضرورت اور ایک خوش آئند عمل ہے تاہم حکومت کو زبانی جمع خرچ کرنے کے برعکس ایسی گاڑیوں کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔اسلام آباد کے رہائشی شعیب حسن گزشتہ کچھ سالوں سے الیکٹرک وہیکل خریدنے کا خواب دیکھ رہے ہیں تاہم مہنگی قیمتوں اور قسطوں پر ملنے کے محدود امکانات کے سبب وہ اپنے اس خواب کو پورا نہیں کر سکے۔شعیب حسن کہتے ہیں کہ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے باعث عام گاڑی کے اخراجات کو پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔لیکن حکومت کی نئی پالیسی کے تحت اب نہ صرف سستے داموں بجلی پر چلنے والی گاڑیاں مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی بلکہ شہری آسان قسطوں پر بھی خرید سکیں گے۔ نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی اور اقساط پر گاڑیاں، مگر کیسے؟اُردو نیوز کو موصول انرجی وہیکل پالیسی کے مسودے کے مطابق حکومت کی طرف سے 3 فیصد کائبور KIBOR کے ساتھ (یعنی بینکوں میں اپنی گارنٹی کے ذریعے) یہ سکیم شروع کی جائے گی۔ کچھ پیشگی ادائیگی اور تقریباً 9 ہزار روپے کی ماہانہ قسط کے ساتھ دو سال کے عرصے میں الیکٹرک گاڑی کا حصول ممکن ہو سکے گا۔حکومت کچھ مخصوص بینکوں کے ساتھ مل کر الیکٹرک گاڑیوں کے حصول کے لیے شہریوں سے درخواستیں موصول کرے گی جس میں درخواست گزار کی اہلیت کا بغور جائزہ لیا جائے گا اور سکیم کی شرائط پر پورا اترنے والے شہریوں کو فوقیت دی جائے گی۔نئی پالیسی کے مطابق سال 2030 تک ملک میں زیرِ استعمال الیکٹرک گاڑیوں کا ہدف 30 فیصد جبکہ 2040 تک 90 فیصد رکھا گیا ہے۔ جبکہ اس شرح کو سال 2050 تک 100 فیصد تک لے جایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ صفر اخراج والی وہیکلز کی شرح کو بھی سال 2060 تک 100 فیصد تک پہنچایا جائے گا۔الیکٹرک گاڑیاں آسان شرائط پر خریدی جا سکیں گی۔ فائل فوٹو: اے ایف پیگاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کے سپیشل ٹیکنالوجی زونزحکومت الیکٹرک گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کے لیے سپیشل ٹیکنالوجی زونز میں 20 فیصد کوٹہ دے گی جہاں صرف الیکٹرک وہیکل گاڑیاں تیار کی جائیں گی۔ پالیسی کے پہلے پانچ سالوں میں 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے والوں کو مراعات دی جائیں گی۔الیکٹرک وہیکل پالیسی، ماہرین کیا کہتے ہیں؟آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین میاں شعیب احمد نے ماحول دوست الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کی پالیسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پالیسی کے تحت مقامی مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کے ساتھ ساتھ روایتی گاڑیوں کی پیدوار میں قائم اجارہ داری کو ختم کیا جا سکے گا۔اُنہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ جب تک مقامی مارکیٹ میں تمام کمپنیوں اور معیارات کی گاڑیوں کی پیداوار کو فروغ نہیں دیا جائے گا شہریوں کو سَستی اور ماحول دوست گاڑیاں نہیں مل سکیں گی۔الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ سٹیشنز کی ضرورت اور درآمد پر کم انحصار میاں شیعب احمد نے بتایا کہ اُنہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کیا حکومت الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ضرورت کے مطابق چار جنگ سٹیشنز کا انفراسٹرکچر کھڑا کر سکے گی؟ کیونکہ اگر الیکٹرک گاڑیوں کی تمام ضروریات پوری نہیں کی گئیں تو ایسے منصوبے کامیاب نہیں ہوتے۔اُنہوں نے دوسرے اہم نقطے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان میں عام گاڑیوں کی طرح الیکٹرک گاڑیوں کو بھی باہر سے منگوانے پر زیادہ انحصار کیا گیا تو ملک میں ڈالرز کی کمی کا مسئلہ دوبارہ پیش آ سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کو الیکٹرک گاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ مقامی سطح پر تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔پاکستان میں آٹو موبائل کی صنعت پر کام کرنے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم بلوم بگ اوور ڈرائیو کے ایکسپرٹ سید علی رضا کے خیال میں پاکستان میں اس سے قبل بھی مختلف حکومتیں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے پالیسیاں لا چُکی ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے سبب الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ ممکن نہیں ہو سکا۔الیکٹرک گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کے لیے 20 فیصد کوٹہ دیا جائے گا۔ فائل فوٹو: اے ایف پیاُنہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ پہلے حکومت الیکٹرک گاڑیوں کی ضروریات یعنی اُن کی چارجنگ سمیت آٹو پارٹس کی دستیابی وغیرہ کو یقینی بنائے۔ اُن کا کہنا تھا اگر ملک میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا استعمال بڑھتا ہے تو یقیناً اس کا بوجھ بجلی کے شعبے پر آئے گا چونکہ پاکستان میں پہلے ہی بجلی کا بحران ہے اس لیے اگر حکومت صحیح معنوں میں الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ چاہتی ہے تو چارجنگ سٹیشنز کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کی بھی مسلسل فراہمی کو یقینی بنائے۔’قسطوں پر گاڑیاں میرٹ اور آسان شرائط پر دی جائیں‘حکومت کی جانب سے قسطوں پر گاڑیاں فراہم کرنے کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے سید علی رضا نے کہا ہے کہ عام آدمی تک الیکٹرک گاڑی پہنچنے کے لیے قسطوں کی پالیسی متعارف کروانا بھی خوش آئند عمل ہے تاہم اس اقدام میں شفافیت کا ہونا ضروری ہے۔’اگر حکومت متوسط تنخواہ دار طبقے کو قسطوں پر گاڑیاں فراہم کرے اور اس کے لیے طریقہ کار کو بھی آسان بنائے تو یہ سکیم الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ میں مفید ثابت گی۔ تاہم اگر پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کے لیے قسطوں پر گاڑیاں دی گئیں تو یہ کوئی عوام دوست عمل نہیں ہو گا اور نہ ہی اس سے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ ممکن ہو گا۔‘