لاہور ہائی کورٹ نے سردیوں کی چھٹیوں کے بعد تمام اسکولوں کو طلبہ کو پک اینڈ ڈراپ کے لیے ٹرانسپورٹ دینےکا حکم دے دیا۔ اسموگ کے تدراک کے لیے دائر درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، جسٹس شاہد کریم نے شہری ہارون فاروق سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔عدالت نے دوران کیس ریمارکس دیے کہ اسکولوں کے بچے اسکولز کی جانب سے فراہم کی گئی ٹرانسپورٹ پر اسکول آئیں، جو اسکول انتظامیہ احکامات کو نہیں مانے گی، اسے سیل کردیا جائے، کوئی اسکول والدین کو لکھ کر نہ بھیجے کہ ہم بچوں کے ذمہ داری نہیں لیں گے۔عدالت نے کہا کہ ٹرانسپورٹ حکام گاڑیوں کی فٹنس سے متعلق 15 دنوں میں پالیسی بنا کر پیش کریں، جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ ہر 3 ماہ بعد گاڑیوں کی انسپکشن کرے۔لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرے، محکمہ ٹرانسپورٹ کے پاس تمام پبلک اور پرائیویٹ بسوں کا ڈیٹا ہونا چاہیے۔عدالت نےتین سالہ بچی امل سکھیرا کو گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے والی موبائل یونٹس کا افتتاح کرنےکی ہدایت کی اور کارروائی 26 نومبر تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ ملک کا دوسرا بڑا شہر لاہور مسلسل کئی روز سے شدید دھند اور اسموگ کی لپیٹ میں ہے، دنیا کے آلودہ شہروں کی فہرست میں لاہور آج بھی دوسرے نمبر پر رہا۔بھارت کی زہریلی ہواؤں نے پھر پنجاب کا رخ کرلیا ہے جس کی وجہ سے اسموگ کی شدت میں اضافے کا امکان ہے۔اس میں کہا گیا دنیا کے آلودہ شہروں کی فہرست میں لاہور دوسرے نمبر پر ہے جب کہ ملکی سطح پر پہلے نمبر پر رہا، دوسرے نمبر پر ملتان اور پشاور تیسرے نمبر پر ہے۔سائنسی جریدے ’سائنٹیفک رپورٹس‘ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فضائی آلودگی سے سر اور گردن میں کینسر ہوسکتا ہے۔اس تحقیق کی قیادت وین اسٹیٹ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے شعبہ اوٹولیرینگولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جان کریمر اور شعبہ اوٹولیرینگولوجی کے میڈیکل ریزیڈنٹ جان پیلمین نے کی تھی۔اس حوالے سے پروفیسر جان کریمر نے کہا تھا کہ ’فضائی آلودگی پر اس سے قبل بھی تحقیق کی جا چکی ہے لیکن اس کے اثرات زیادہ تر نظام تنفس کے نچلے حصے میں کینسر سے جڑے ہوئے تھے۔اس سے ایک روز قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اسموگ کو سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے 2 لاکھ 50 ہزار قبل از وقت اموات کا خدشہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ہمارا خود کا پیدا کردہ ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔پاکستان میں عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے نمائندے عبداللہ فادل نے کہا تھا کہ پنجاب کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر ایک کروڑ سے زائد بچے اسموگ کے خطرے سے دو چار ہیں۔اسموگ کیا ہے؟اسموگ (Smog) دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے جس سے عموماً زیادہ گنجان آباد صنعتی علاقوں میں واسطہ پڑتا ہے۔ لفظ اسموگ انگریزی الفاظ ’اسموک‘ اور ’فوگ‘ سے مل کر بنا ہے۔اس طرح کی فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، اوزون، دھواں یا کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلا کاربن مونوآکسائیڈ، کلورو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔اسموگ کیسے بنتی ہے؟جب فضا آلودہ ہو یا وہ گیسز جو اسموگ کو تشکیل دیتی ہیں، ہوا میں خارج ہوں تو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت ان گیسوں اور اجزا کے ساتھ ماحول پر ردعمل کا اظہار اسموگ کی شکل میں کرتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہوائی آلودگی ہی ہوتی ہے۔عام طور پر یہ زیادہ ٹریفک، زیادہ درجہ حرارت، سورج کی روشنی اور ٹھہری ہوئی ہوا کا نتیجہ ہوتی ہے، یعنی سرما میں جب ہوا چلنے کی رفتار کم ہوتی ہے تو اس سے دھوئیں اور دھند کو کسی جگہ ٹھہرنے میں مدد ملتی ہے جو اسموگ کو اس وقت تشکیل دے دیتا ہے جب زمین کے قریب آلودگی کا اخراج کی شرح بڑھ جائے۔بچاﺅ کے لیے کیا کریں؟اسموگ پھیلنے پر متاثرہ حصوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم اگر وہ پورے شہر کو گھیرے ہوئے ہے تو گھر کے اندر رہنے کو ترجیح دیں اور کھڑکیاں بند رکھیں۔باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور لینسز لگانے کی صورت میں وہ نہ لگائیں بلکہ عینک کو ترجیح دیں۔اسموگ کے دوران ورزش سے دور رہیں خصوصاً دن کے درمیانی وقت میں، جب زمین پر اوزون کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے۔اگر دمہ کے شکار ہیں تو ہر وقت اپنے پاس ان ہیلر رکھیں، اگر حالت اچانک خراب ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔اگر نظام تنفس کے مختلف مسائل کے شکار ہیں اور اسموگ میں نکلنا ضروری ہے تو گنجان آباد علاقوں میں جانے سے گریز کریں جہاں ٹریفک جام میں پھنسنے کا امکان ہو، سڑک پر پھنسنے کے نتیجے میں زہریلے دھویں سے بچنے کے لیے گاڑی کی کھڑکیاں بند رکھیں۔پانی اور گرم چائے کا زیادہ استعمال کریں۔سگریٹ نوشی ویسے ہی کوئی اچھی عادت نہیں تاہم اسموگ کے دوران تو اس سے مکمل گریز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔باہر سے گھر واپسی یا دفتر پہنچنے پر اپنے ہاتھ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو دھولیں۔