
پاکستان کے روایتی پکوانوں کی اگرچہ ایک طویل فہرست ہے لیکن چاولوں سے بنے پکوانوں میں کابلی پلاؤ کو سرفہرست شمار کیا جاتا ہے۔دیکھا جائے تو کابلی پلاؤ اس خطے یعنی پاکستان کے کسی بھی حصے کا مقامی پکوان نہیں بلکہ یہ ترکمانستان اور ازبکستان سے ہوتا ہوا افغانستان کے راستے پشاور پہنچا اور پھر پورے پاکستان میں اس پلاؤ کی مہک پھیل گئی۔کھانوں میں کابلی پلاؤ اب اس قدر مقبول ہے کہ اس کے نام پر ہر شہر میں الگ سے ریستوران قائم ہو چکے ہیں۔ پشاور کی بات کی جائے تو اس شہر کے تقریباً ہر بازار میں کابلی پلاؤ دستیاب ہے۔قصہ خوانی بازار ہو، یا نمک منڈی، خیبر بازار ہو یا کارخانو مارکیٹ، ان علاقوں میں نصف صدی سے افغانی ریستوران قائم ہیں جو صرف افغانی پلاؤ یعنی کابلی پلائو تیار کر رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پشاور میں 100 سے زائد افغان ریستوران قائم ہیں جہاں صرف افغانستان سے تعلق رکھنے والے شیف اپنے ہاتھوں کے ذائقے کی وجہ سے مشہور ہیں۔نمک منڈی کے بہاؤالدین بھی گذشتہ 40 برسوں سے افغان ریسٹورنٹ کے نام سے کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے والد نے اسی بازار سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’کبھی چھ روپے پلیٹ میں بکنے والا کابلی پلاؤ اب 600 روپے میں بک رہا ہے مگر اس کی مانگ میں ذرا کمی نہیں آئی۔‘افغان باشندے بہاؤالدین کے مطابق افغانستان کے کاریگر اس ڈش کو تیار کرنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں، اسی لیے کابلی پلاؤ کے تمام کاریگر افغان ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ’پنجاب اور کراچی کے لوگ بھی کابلی پلاؤ کے دلدادہ ہیں۔ وہ جب پشاور آتے ہیں تو ہمارے پاس صرف کابلی پلاؤ کھانے آتے ہیں۔‘افغان کاریگروں کی کمی کیوں؟حکومت کی جانب سے غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک سے نکالنے کے فیصلے کے بعد کابلی پلاؤ بنانے والے کاریگر بھی اپنے وطن واپس چلے گئے ہیں جبکہ کچھ ڈی پورٹ ہونے کے ڈر سے روپوش ہو گئے ہیں۔ریستوران مالک بہاؤالدین نے بتایا کہ ’افغان کاریگروں کی کمی ہے جس سے یہ کاروبار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ہم نے افغان شیف رکھے تھے جن کے جانے کے بعد اگرچہ مقامی لوگوں کو کابلی پلاؤ بنانے کا طریقہ آتا ہے مگر ان کے ہاتھ میں وہ ذائقہ نہیں۔‘نمک منڈی بازار کے ایک اور کاریگر صابر استاد ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے 30 برس پشاور میں گزار دیے۔61 سالہ شیف نے پشاور کے تاریخی شہر میں گاہکوں کی نسل در نسل اپنے مشہور کابلی پلاؤ سے تواضع کی ہے لیکن ان دنوں وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔پشاور کے تقریباً ہر بازار میں کابلی پلاؤ دستیاب ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)ان کا کہنا ہے کہ ’افغان ہنرمند واپس جا چکے ہیں اور جو یہاں موجود ہیں ان کو بھی یہ فکر لاحق ہے کہ انہیں جلد نکال دیا جائے گا۔‘صابر خان کے مطابق ازبکستان اور کشمیر کے لوگ بھی کابلی پلاؤ بنانے میں ماہر ہیں مگر وہ اب پنجاب اور کراچی منتقل ہو چکے ہیں۔کابلی پلاؤ کیسے تیار کیا جاتا ہے؟افغانستان سے تعلق رکھنے والے کاریگر صابر خان کے مطابق کابلی پلاؤ کو یخنی پلاؤ بھی کہا جاتا ہے جو ہڈی کی یخنی میں بنایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے بھیڑ کے گوشت کو اُبال کر اس کی یخنی کو چاول میں شامل کیا جاتا ہے پھر پیاز اور مسالے ڈال کر دم پر رکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’کابلی پلاؤ میں کوئی مرچ مسالہ شامل نہیں کیا جاتا تاہم ذائقے کے لیے اس کے ساتھ چٹنی اور چاول کے اوپر اُبلی ہوئی گاجر ڈالی جاتی ہے۔‘’کابلی پلاؤ میں بڑا گوشت یعنی بیف شامل کیا جاتا ہے تاہم کچھ علاقوں میں چاول کے ساتھ چکن بھی ڈالا جاتا ہے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’چھوٹے ریستورانوں پر 10 سے 15 کلو چاول پکائے جاتے ہیں جبکہ بڑے ریستورانوں میں ایک دن میں 20 کلو سے زیادہ چاول تیار کیے جاتے ہیں۔‘افغان باشندے بہاؤالدین کے مطابق افغانستان کے کاریگر اس ڈش کو تیار کرنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)دوسری جانب افغانی پلاؤ کے دلدادہ شہریوں کا کہنا ہے کہ افغان باشندوں کے چلے جانے کے بعد کابلی پلاؤ کا ذائقہ ہم کہاں سے لائیں گے کیوںکہ ان کے ہاتھ میں جو جادو تھا، وہ کسی اور کے ہاتھ میں کہا۔انہوں نے کہا کہ پشاور اور دیگر علاقوں کے شیف بھی پلاؤ تیار کرتے ہیں مگر ان کے پلائو میں وہ مزہ نہیں ہوتا۔کراچی میں افغانی تندور بھی بند ہو گئےحکومت کی جانب سے افغان باشندوں کو بے دخل کرنے کے اقدام کے بعد افغانی نان کے کاروبار سے وابستہ افغان باشندے روپوش ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ سرجانی ٹاؤن، حب ریور روڈ، سہراب گوٹھ، پی ای سی ایچ ایس، ناظم آباد، کیماڑی، شاہ فیصل کالونی اور اطراف کی بستیوں میں جہاں پہلے درجنوں افغان نان بائی روزانہ قندھاری نان تیار کر کے فروخت کرتے تھے، اب ان کی دکانیں بند یا خالی دکھائی دیتی ہیں۔مقامی شہریوں کے مطابق یہ دکانیں حالیہ دنوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کارروائیوں کے بعد بند کی گئی ہیں۔