
Getty Imagesلائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے اوڑی سیکٹر کے طوطمار گلی پوسٹ کے قریب جبکہ پاکستان کی طرف لیپا سیکٹر میں جاری رہاگذشتہ ہفتے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح افراد کے ہاتھوں 25 انڈین سیاحوں اور ایک کشمیری گھوڑے بان کی ہلاکت کے بعد جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان حکومتی سطح پر نام ملٹری یعنی غیر عسکری پابندیوں کے اعلانات ہوئے تو کشمیر کے عوام میں اطمینان کی لہر پیدا ہو گئی کہ شاید صورتحال مزید نہیں بگڑے گی لیکن گذشتہ دو راتوں سے کشمیر میں شدید فائرنگ کے تبادلے نے دونوں اطراف کے لوگوں کو رات بھر جگائے رکھا۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے اوڑی سیکٹر کے طوطمار گلی پوسٹ کے قریب جبکہ پاکستان کی طرف لیپا سیکٹر میں جاری رہا، تاہم تاحال ان جھڑپوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔احسان الحق شامی ایڈووکیٹتقریباً چالیس ہزار آبادی پر مشتمل پاکستان کے زیر انتظام لیپا ویلی کے رہائشی اور زیادہ تر وہاں ہی قانون کی پریکٹس کرتے ہیں۔ان کا گھر کنٹرول لائن سے تقریباً پانچ کلو میٹر دور ہے۔ سنہ 2019 میں پاکستان اور انڈین آرمی کے درمیان شدید فائرنگ میں ان کے گھر کو نقصان پہنچا تھا۔ اس سے پہلے بھی سنہ 2002 اور 1998میں ان کے گھر کو نقصان پہنچ چکا ہے۔احسان الحق شامی ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ ’انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام واقعہ کے بعد گذشتہ دو راتوں سے پاکستان اور انڈیا کی فوجوں کے درمیان فائرنگ ہو رہی ہے۔ ’جمعے اور سنیچر کی درمیانی رات دونوں فوجوں کے درمیان فائرنگ کا آغاز ساڑھے بارہ بجے شروع ہوا اور یہ فائرنگ صبح پانچ بجے تک جاری رہی۔ پھر سنیچر کی رات دوبارہ فائرنگ شروع ہوئی۔ یہ فائرنگ رات دس بجے شروع ہوئی اور صبح پانچ بجے تک جاری رہی لیکن اس دوران آبادی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔‘واضح رہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایل او سی کے حساس ترین علاقے شمالی کشمیر کے کپواڑہ اور بارہمولہ اضلاع میں ہیں۔ جمعے کے روز ہی کپواڑہ کے ضلع مجسٹریٹ نے ایک حکمنامے میں کہا تھا کہ کپواڑہ میں ایل او سی کے قریبی علاقوں میں جانے کے لیے پیشگی اجازت طلب کرنا لازمی ہو گا۔BBC’اللہ کرے کچھ نہ ہو، لیکن جو دکھائی دے رہا ہے کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے‘Getty Images(فائل فوٹو) کپواڑہ میں ابھی تک کراس بارڈر فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے لیکن ایل او سی کے نہایت قریب رہنے والے باشندوں میں خوف و ہراس کی لہر پھیل گئی ہےکپواڑہ میں ابھی تک کراس بارڈر فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے لیکن ایل او سی کے نہایت قریب رہنے والے باشندوں میں خوف و ہراس کی لہر پھیل گئی ہے اور کپواڑہ کے کرناہ سیکڑ میں لوگوں نے ذاتی لاگت سے زیرِ زمین بنکرز تعمیر کرنا شروع کر دیے ہیں۔کرناہ کے رہنے والے پیرزادہ سیّد اُن درجنوں باشندوں میں سے ہیں جنھوں نے پہلگام ہلاکتوں کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی کشیدگی شروع ہوتے ہی مکان میں پختہ بنکر بنانے کے لیے کام شروع کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’کراس بارڈر شیلنگ کے نتائج ہم دیکھ چکے ہیں، جانیں بھی گئی ہیں ماضی میں کھیتی باڑی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو فاقہ کشی کا بھی سامنا رہا ہے۔ اللہ کرے کچھ نہ ہو، لیکن جیسا دکھائی دیتا ہے کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے، اسی لیے ہم یہ انڈر گراؤنڈ بنکر بنا رہے ہیں تاکہ کچھ ہو جائے تو اسی میں پناہ لی جائے۔‘ کپواڑہ کے کئی باشندوں نے بی بی سی کو بتایا کہ معمول سے حد درجہ زیادہ فوجی نقل و حرکت اور رات کے دوران آسمان میں جیٹ بمباروں کی گونج سے وہ خوفزدہ ہیں۔کپواڑہ میں ایل او سی کی تقریباً زیرو لائن پر واقع ٹاڈ گاؤں کے ایک باشندے نے بتایا: ’سنہ 2017میں گولہ باری ہوئی تو ایک گولہ ہمارے ایک رشتہ دار کے گھر پر گرِا اور وہ مارا گیا لیکن 2021میں سیزفائر معاہدے پر سختی سے عمل کرنے پر جب انڈیا اور پاکستان کی افواج نے اتفاق کر لیا تو پچھلے چار سال سے زندگی پُر امن تھی، کھیتی باڑی ہو رہی تھی، بچے سکول جاتے تھے، تجارت ہو رہی تھی۔ لیکن اب ڈر لگتا ہے کہ ماضی جیسے حالات پھر سے پیدا نہ ہوں۔'پیرزادہ سید کہتے ہیں کہ ’دو روز قبل نمبردار نے باشندوں کو بتایا کہ اپنے اپنے بنکر صاف کرو ان کے گرد گھاس پھوس یا لکڑی کا سامان ہٹا دو۔ اس اعلان سے یہاں سب لوگ سہمے ہیں، لیکن جان تو بچانی پڑے گی، اسی لیے سب لوگ بنکروں کی صفائی اور نئے سرے سے تعمیر میں جُٹ گئے ہیں۔‘ ’بنکر کی صفائی کر دی تھی‘ادھر احسان الحق شامی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’جب بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو کنٹرول لائن پر آباد شہریوں کو یہ خدشہ ہو جاتا ہے کہ اب دونوں فوجوں کے درمیان فائرنگ بھی ہو سکتی ہے اور اس فائرنگ میں عموماً نشانہ سول آبادی کو بھی بنایا جاتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی کے بعد بھی روز رات کو ہم یہ ہی سوچ رہے ہوتے تھے کہ بس اب فائرنگ شروع ہوئی اور ایسا جمعہ اور سنیچر کی رات کو ہوا۔احسان الحق کا کہنا تھا کہ ’جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات شروع ہونے والی فائرنگ کو ہم اچانک ہی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بارہ بجے کا وقت تھا گھر والے، بچے سو رہے تھے۔ سب سے پہلے میں نے اپنی والدہ جو کہ بزرگ ہیں اور چل بھی نہیں سکتیں ان کو بنکر میں منتقل کیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں تقریباً سب ہی لوگوں کے گھروں میں زیرِ زمین بنکر بنے ہوئے ہیں۔ یہ بنکر عموماً گھروں میں استعمال بھی ہوتے رہتے ہیں۔’مگر جب حالیہ کشیدگی پیدا ہوئی تو میں نے تو خصوصی توجہ کے ساتھ بنکر کی صفائی وغیرہ کروائی۔ جب فائرنگ ہوئی تو ہمارا بنکر قابل استعمال تھا۔‘BBCاُوڑی سیکٹر میں بھی لوگ خطرات سے نمٹنے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگے ہیں'رات کو سو نہیں سکے'احسان الحق کہتے ہیں کہ ’گھروں میں بنائے گئے یہ بنکر مضبوط ہیں۔ مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ کسی بھی گولے یا بھاری اسلحے کے شیل سے تو محفوظ رکھتا ہے مگر جب براہِ راست کسی بھاری اسلحے کا گولہ بنکر پر گرے تو اس سے آگ لگنے کا خدشہ ہوتا ہے اور اس سے بنکر کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘ احسان الحق کا کہنا تھا کہ ’جس گھر میں ہم رہتے ہیں اس گھر کو 2002 اور 1999 میں بھی نقصان پہنچ چکا تھا۔ ہم بالکل کنٹرول لائن کے ساتھ ہیں۔ جس وجہ سے یہ خدشہ موجود تھا کہ اگر کسی وقت آبادی کی طرف فائرنگ ہوئی تو ہم متاثر ہو سکتے تھے۔ ویسے بھی فائرنگ ہو رہی ہو تو یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی سو سکے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ساری رات تقریباً سارا ہی علاقہ جاگتا رہا تھا۔ ایک دوسرے کی خیر خیریت پوچھتے رہے۔ ہمارے پاس یہی اطلاعات ہیں کہ اس فائرنگ سے ابھی تک سول آبادی کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔‘ ’پانچ سال پہلے بنکر بنائے مگر ابھی یہ رہنے کے قابل نہیں‘اُوڑی سیکٹر میں بھی لوگ خطرات سے نمٹنے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگے ہیں۔ سیکٹر کے بھٹگراں اور چُرانڈا علاقوں میں انڈین وزارت دفاع کی فنڈنگ سے 16 بنکر بنائے گئے تھے، لیکن مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ان بنکرز میں بجلی یا پانی کا انتظام نہیں ہے۔بھٹ گراں کے رہنے والے محمد قدوس نے بتایا کہ ’کچھ لوگوں نے تو ذاتی خرچے سے بھی بنکر بنائے، لیکن غریب کہاں جائے گا۔ اب ہم ان ہی بنکرز کی صفائی کریں گے، خدا کرے انڈیا اور پاکستان کے بیچ سب ٹھیک ہی ہوجائے۔ سیز فائر کے بعد زندگی آسان ہوگئی تھی۔‘واضح رہے کہ سنہ 2003 کے نومبر میں انڈیا کے وزیراعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے وزیراعظم کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن اس پر دونوں افواج مکمل طور پر عمل نہ کر سکیں۔لیکن 2020 میں جب لداخ میں چینی سرحد پر انڈیا اور چین کی افواج کے بیچ تناؤ پیدا ہو گیا تو انڈیا نے کشمیر ویلی سے فوجیوں کی بڑی تعداد کو لداخ شفٹ کر دیا۔ چند ماہ بعد ہی فروری 2021 میں پہلے سے طے شدہ سیز فائر پر سختی سے عمل کرنے کا ایک اور معاہدہ انڈین اور پاکستانی افواج کے درمیان طے پایا۔پہلگام ہلاکتوں کے بعد ایل او سی پر کراس بارڈر فائرنگ کے واقعات سے لگتا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ عملاً ٹوٹ گیا ہے۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے انڈین ایئرلائنز کو کتنا نقصان ہو گا؟’پانی یا خون‘: سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بلاول بھٹو سمیت پاکستانی سیاستدانوں کی انڈیا کو وارننگ اور مودی کے وزرا کا ردعملمودی کی کشمیر پالیسی پر اُٹھتے سوالات: پہلگام حملے کو حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کیوں کہا گیا؟’لیپا سیکٹر کے لوگ علاقہ نہیں چھوڑتے‘بشیر عالم اعوان ضلع جہلم کے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لیپا سیکٹر میں وسیع زراعت ہے یہاں پر بدترین حالات کے اندر بھی کبھی بھی اناج کی قلت پیدا نہیں ہوئی کیونکہ لوگوں کا اپنا اناج ہوتا ہے اور باقی ضرورت کا سامان آ جاتا ہے۔ان کا دعویٰ تھا کہ ’ماضی میں ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے لیپا سیکڑ میں کافی نقصان ہوا تھا۔ یہاں پر آخری فائرنگ سال 2019 میں ہوئی تھی۔ وہ بڑی شدید فائرنگ تھی۔ اس فائرنگ میں براہ راست آبادی کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ دو راتوں سے جو فائرنگ ہو رہی ہے اس میں ابھی تک آبادی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔‘ بشیر عالم اعوان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جانی و مالی نقصان بھی ہوا تھا۔ مگر اس کے باوجود اس علاقے سے نقل مکانی نہیں ہوئی۔ کچھ لوگ اپنے گھر کی خواتین اور بیماروں کو منتقل کر دیتے ہیں مگر مرد اپنا علاقہ نہیں چھوڑتے۔ان کا کہنا تھا کہ لیپا ویلی میں حکومتی سکیم کے تحت تقریباً ہر گھر یا دو، تین گھر ملا کر بنکر بنائے گئے ہیں۔بشیر عالم اعوان کا کہنا تھا کہ لیپا ویلی کے لوگوں کے بہت رشتہ دار انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے کپواڑہ سیکٹر میں ہیں۔لیپا سیکٹر میں اگر دونوں ملکوں کے درمیاں فائرنگ نہ ہو تو حالات پر امن رہتے ہیں۔بشیر عالم اعوان کا کہنا تھا کہ لیپا ویلی میں پہلی روڈ کچا تھا۔ مگر سال 2022 میں روڈ کو کارپٹ کیا گیا تو علاقے میں سیاحت کا بہت رحجان ہو گیا تھا۔مقامی لوگوں نے سیاحت پر سرمایہ کاری بھی کی تھی۔ علاقے میں کم از کم تیس نئے ہوٹل، ریستوران اور گیسٹ ہاؤس بن گئے تھے۔ سیاحوں کا بہت زیادہ رخ ہو گیا تھا۔BBCآر ایس پورہ کے شہری کِٹو مہاراج نے بتایا: ’اتنی ٹینشن ہے کہ یہاں سارے کام چھوڑ کر لوگ ان ہی بنکروں کی صفائی میں لگے ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگوں نے سیاحت کو اپنا ذریعہ روزگار بنا لیا تھا۔ اب جب یہ فائرنگ کے واقعات شروع ہو گئے ہیں تو اس سے خدشہ ہے کہ سیاح اس علاقے کا رخ نہیں کریں گے۔ لوگوں کے ذریعۂ روزگار پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔لوگوں میں باتیں ہو رہی ہیں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ فائرنگ کسی بڑی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے اور اس میں آبادی کو نشانہ بنانا شروع نہ کر دیا جائے۔ایل او سی: دنیا کی خطرناک ترین سرحدقابلِ ذکر ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد کا مجموعی فاصلہ 3323 کلومیٹر ہے جس میں سے جموں کشمیر میں 744 کلومیٹر طویل اور 34 کلومیٹر چوڑی دنیا کی سب سے خطرناک عبوری سرحد ہے جسے 1949 میں اقوامِ متحدہ نے سیز فائر لائن قرار دیا تھا، لیکن دونوں ملک شملہ معاہدے کے تحت اسے اب لائن آف کنٹرول یا ایل او سی کہتے ہیں۔جموں کے بعد سانبہ، کٹھوعہ اور جموع اضلاع اسی لائن کو انڈیا انٹرنیشنل بارڈر کہتا ہے جبکہ پاکستان اسے ورکنگ باونڈری کہتا ہے۔جموں کے سانبہ، کٹھوعہ، جموں، آرایس پورہ ، راجوری اور پونچھ میں سیز فائر کے تازہ معاہدے سے قبل انڈین حکومت نے ایل او سی کے قریب رہنے والی بستیوں میں 19 ہزار سے زیادہ پختہ زیرزمین بنکر تعمیر کئے تھے۔ آر ایس پورہ کے شہری کِٹو مہاراج نے بتایا: ’اتنی ٹینشن ہے کہ یہاں سارے کام چھوڑ کر لوگ ان ہی بنکروں کی صفائی میں لگے ہیں۔‘واہگہ بارڈر کی بندش سے پاکستان اور انڈیا میں سے کس کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا؟مودی کی کشمیر پالیسی پر اُٹھتے سوالات: پہلگام حملے کو حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کیوں کہا گیا؟’پانی یا خون‘: سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بلاول بھٹو سمیت پاکستانی سیاستدانوں کی انڈیا کو وارننگ اور مودی کے وزرا کا ردعمل’پورٹر میری والدہ کو اپنی پیٹھ پر لاد کر نیچے لایا‘: پہلگام حملے کے بعد کشمیر کے مسلمانوں نے کس طرح سیاحوں کی مدد کی؟پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے انڈین ایئرلائنز کو کتنا نقصان ہو گا؟پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟