
Getty Images(فائل فوٹو)پاکستان نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کراچی اور لاہور کے فلائٹ انفارمیشن ریجن کی کچھ فضائی حدود کے مخصوص سیکٹرز کو ایک مہینے تک جزوی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ایوی ایشن کی زبان میں فلائٹ انفارمیشن ریجن اس فضائی حدود کو کہتے ہیں جہاں فلائٹ انفارمیشن سروس اور الرٹنگ سروس مہیا کی جاتی ہے۔پاکستان کی سول ایوی ایشن (سی اے اے) کے ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ فضائی حدود کا کچھ حصہ جزوی طور پر بند کرنے کا فیصلہ ’آپریشنل وجوہات‘ کی بنا پر کیا گیا ہے۔ تاہم انھوں نے ان وجوہات کی وضاحت نہیں کی۔پاکستان کی جانب سے یہ اقدامات ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب گذشتہ مہینے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح افراد کے حملے کے بعد دونوں ممالک کے پیچیدہ تعلقات میں مزید کشیدگی دیکھی گئی۔دو روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا تھا کہ انڈیا اگلے 24 سے 36 گھنٹوں میں پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔اس سلسلے میں جاری ہونے والے سرکاری نوٹ ٹو دا ایئرمین (نوٹم) میں کہا گیا ہے کہ کراچی اور لاہور کی فضائی حدود میں کچھ فضائی راستے اتوار کے دن علاوہ یکم مئی سے 31 مئی تک صبح آٹھ سے شام چار بجے تک عارضی طور پر بند رہیں گے۔نوٹم میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ فضائی روٹ نو ہزار سے 25 ہزار کی بلندی پر واقع ہیں۔Getty Imagesسول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق اس دوران کمرشل پروازوں کا فلائٹ آپریشن متبادل روٹس کے ذریعے جاری رہے گا۔ان حالات سے آگاہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’خطے میں آپریٹ کرنے والی ایئرلائنز اپنے فضائی روٹس پر نظرِ ثاںی کرتی ہیں اور اپنی پروازوں کے لیے متبادل راستے اختیار کرتی ہیں۔‘سول ایوی ایشن کے افسر کے مطابق ایئرلائنز اپنے شیڈول کو تبدیل کریں گی، دیگر راستے اختیار کریں گی اور اپنے آپریشنز نارمل طریقے سے ہی جاری رکھیں گی۔خیال رہے کہ 27 فروری 2019 کو پاکستان نے اپنی فضائی حدود کمرشل پروازوں کے لیے بند کر دی تھیں جس کے بعد اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک کمرشل پروازوں کی اڑان پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ فیصلہ انڈین ایئر فورس کی جانب سے 26 فروری کو پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور انڈیا کے اس دعوے کے بعد کیا گیا جس میں اس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس نے بالاکوٹ میں مبینہ طور پر ایک ’دہشتگردوں کے مرکز‘ کو نشانہ بنایا ہے۔کیا انڈین فضائی حدود کی بندش سے پاکستانی ایئرلائنز متاثر ہوں گی؟’سب کچھ رازداری سے ہوتا ہے، کسی کو بھنک بھی نہیں پڑتی‘: پی آئی اے کا عملہ کینیڈا پہنچ کر ہی کیوں ’غائب‘ ہو رہا ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکفضائی برتری سمیت وہ عوامل جنھوں نے انڈیا کو 26 رفال طیارے خریدنے پر مجبور کیاGetty Imagesلاہور اور کراچی میں فضائی حدود بند کرنے کی وجہ؟سول ایوی ایشن کا کہنا ہے کہ دونوں شہروں کی فضائی حدود میں موجود مخصوص فضائی روٹس ’آپریشنل وجوہات‘ کے سبب بند کیے گئے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے یہ قدم سکیورٹی کی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُٹھایا گیا ہے۔سول ایوی ایشن کے سابق اعلیٰ عہدیدار افسر ملک نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’جنگی صورتحال میں ایسے اقدامات احتیاطاً لیے جاتے ہیں، خصوصی طور پر جب حکام یہ سمجھیں کہ فضائی حدود میں مسافر طیاروں کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔'ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگی صورتحال میں ایسی اقدامات لینا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ان کے مطابق یہ اقدامات مسافر طیاروں کی حفاظت کے لیے ہی اٹھائے گئے ہیں کیونکہ عمومی طور پر ’جنگی جہاز 30 سے 37 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔‘ایوی ایشن امور کے ماہر مزید کہتے ہیں کہ نوٹم میں ایک مہینے کے لیے فضائی حدود بند کرنے کے لیے کہا گیا ہے تاہم اگر صورتحال بہتر ہوئی تو یہ پابندیاں اُٹھائی جا سکتی ہیں۔دوسری جانب ایئر کموڈور ریٹائرڈ ڈاکٹر عادل سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب کوئی فضائی حدود پر فوجی طیارے استعمال کر رہے ہوتے ہیں ایسے وقت میں بھی اسے مسافر یا دیگر طیاروں کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔‘وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے یہ اقدامات انڈیا کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے لیے گئے ہیں۔کیا انڈین فضائی حدود کی بندش سے پاکستانی ایئرلائنز متاثر ہوں گی؟فضائی برتری سمیت وہ عوامل جنھوں نے انڈیا کو 26 رفال طیارے خریدنے پر مجبور کیاپاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکمشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی جو طالبان حکومت کے لیے ہزاروں ڈالر کمانے کا سبب بن رہی ہےنور خان ایئربیس سے پانچ ’خفیہ‘ پروازیں اور امریکی کمپنیوں سے پاکستان کے لاکھوں ڈالر کے اسلحہ فراہمی کے معاہدے کیا ظاہر کرتے ہیں؟’سب کچھ رازداری سے ہوتا ہے، کسی کو بھنک بھی نہیں پڑتی‘: پی آئی اے کا عملہ کینیڈا پہنچ کر ہی کیوں ’غائب‘ ہو رہا ہے؟