پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مدارس بند، سیاحوں کی آمد پر پابندی: ’مدارس انڈیا کی کسی بھی ممکنہ کارروائی کا آسان ہدف ہو سکتے ہیں‘


پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جمعرات کے روز حکومتی حکم نامے کے بعد مقامی انتظامیہ اور پولیس نے کنٹرول لائن کے قریب واقع دینی مدرارس اپنی نگرانی میں بند کروائے جبکہ خطے کے دیگر علاقوں میں بھی کم از کم ایک ہزار مدرسوں کو دس دن کے لیے بند کر دیا گیا جبکہ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھلی ہیں۔کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں موجود مدارس کو بند کروانے کی نگرانی مقامی انتظامیہ کر رہی ہے۔حکومتی مراسلے میں صرف مدرسے ہی بند کرنے کے احکامات نہیں دیے گئے بلکہ خطے میں سیاحوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں بالخصوص کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں سول ڈیفینس اور دیگر ادارے شہریوں کو ہتھیار چلانے، سیلف ڈیفینس اور فرسٹ ایڈ کی خصوصی تربیت بھی دے رہے ہیں۔حکام کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر مظفر آباد میں ایمرجنسی فنڈ قائم کر دیا گیا ہے جبکہ لائن آف کنٹرول کے قریب دیہات میں دو ماہ کا کھانا، پانی اور طبی سامان بھی بھیج دیا گیا ہے۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہلال احمر کی سربراہ گلزار فاطمہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جیسے ہی خطے میں کشیدگی دیکھی گئی تو علاقے میں فرسٹ ایڈ مہیا کرنے والوں سمیت دیگر سٹاف کو متحرک کر دیا گیا۔انھوں نے بتایا کہ انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کی صورت میں لائن آف کنٹرول کے آس پاس کے علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی متوقع ہے، جس کے پیش نظر ان کا ادارہ کم از کم 500 افراد کے لیے ریلیف کیمپ تیار کر رہا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلگام حملے کے بعد اس وقت تناؤ کی کیفیت ہے۔ 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اگرچہ اب تک انڈین حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر پاکستان پر الزام نہیں لگایا گیا تاہم متعدد پاکستان مخالف اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔مدارس کو کیوں بند کروایا گیا؟پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ کے علاقے ہجیرہ میں لائن آف کنٹرول سے تقریباً نو کلو میٹر دور دینی مدرسے جامعہ مدینہ عربیہ کو کشمیر حکومت کے حکمنامے پر کم از کم دس دن کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس مدرسے میں 200 سے زائد طلبا و طالبات مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان طالب علموں کو جمعرات کو اچانک مدرسہ کی انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر اپنے اپنے علاقوں میں روانہ کیا۔جامعہ مدینہ عربیہ کے مہتم مولوی غلام شاکر کا کہنا تھا کہ انھیں خطے کی حکومت کی جانب سے ناگزیر حالات کے باعث مدرسے کو بند کرنے کا کہا گیا۔جب انھوں نے مقامی حکام سے پوچھا کہ سکول و کالج کو تو بند نہیں کیا گیا تو انھیں بتایا گیا کہ مدارس انڈیا کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کارروائی میں ایک آسان ہدف ہو سکتے ہیں اور وہ کسی بھی مدرسے پر حملہ کر کے اس بارے میں پراپیگنڈا کر سکتا ہے۔پہلگام: انڈیا میں تحقیقات کہاں تک پہنچیں اور پاکستان کیوں غیر جانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے؟مودی کی کشمیر پالیسی پر اُٹھتے سوالات: پہلگام حملے کو حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کیوں کہا گیا؟ایل او سی پر فائرنگ سے دونوں اطراف کے شہری خوفزدہ: ’کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اسی لیے ہم بنکر بنا رہے ہیں‘پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟مولوی غلام شاکر کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ سکولوں و کالجوں میں زیادہ تر بچے ہاسٹلوں میں رہائش پذیر نہیں ہوتے ہیں جبکہ مدارس میں زیادہ تر بچے ہاسٹلوں میں مقیم ہوتے ہیں اس لیے بھی مدارس کو زیادہ خطرہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مدرسہ کنٹرول لائن سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ہے۔ اس سے پہلے 2019 میں بھی ہمارے مدرسے کے آس پاس جھڑپوں کے دوران گولے گرے تھے مگر اس وقت کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر انڈیا کی جانب سے سرحد پار فائرنگ میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو یہ خطرہ ہے کہ ہمارا مدرسہ بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے، اسی لیے ہم نے مدرسہ بند کرنے کے احکامات پر عمل کیا۔‘یاد رہے کہ سنہ 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک کار انڈین نیم فوجی دستے کے اہلکاروں سے بھری ایک بس سے جا ٹکرائی تھی، جس میں 40 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔اس حملے کی ذمہ داری کالعدم مسلح گروپ جیش محمد نے تسلیم کی تھی۔بعد میں انڈین فضایہ کے جنگی طیاروں نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں فضائی بمباری کر کے مبینہ طور پر جیش محمد کی تربیت گاہ کو تباہ کرنے اور سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔’جیسے ہی فائرنگ ہوتی ہے، لوگ بنکرز میں چلے جاتے ہیں‘انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرینگر سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان کی جانب چکوٹھی سیکٹر ہے، جہاں کے رہائیشیوں نے پاکستان اور انڈیا کشیدگی کے پیش نظر اپنے گھروں میں بنکرز بنا لیے ہیں۔22 برس کے فیضان عنایت نے روئٹرز کو بتایا کہ ’جیسے ہی فائرنگ ہوتی ہے تو وہ لوگ بنکرز میں چلے جاتے ہیں۔‘ واضح رہے کہ پاکستان اور انڈیا میں حالیہ کشیدگی کے بعد کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔فیضان عنایت کے ایک پڑوسی 73 سالہ محمد نذیر نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم خوفزدہ نہیں، ہمارا ہر بچہ تیار ہے۔‘پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی لیپا کی تحصیل ایڈمنسٹریشن نے کسی بھی ممکنہ حالات سے نمٹنے کے لیے رضا کاروں کی اپیل کرتے ہوئے ان کو فرسٹ ایڈ تربیت دی۔ حکام کی اس اپیل کے جواب میں کئی لوگوں نے خود کو بطور رضا کار پیش کیا۔ ایسے ہی ایک رضا کار نوجوان عمیر محمد کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ پتا ہے کہ آج نہیں تو کل اور اگر کل نہیں تو پرسوں انڈیا کے ساتھ جنگ ہونی ہے۔ ’یہ جنگ ممکنہ طور پر کنڑول لائن ہی پر ہو گی اور ہمارا علاقہ ہی متاثر ہوگا اس لیے میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ یہ تربیت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔‘وادی نیلم سیاحوں سے خالیپاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وادی نیلم کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہاں کشمیر کے باقی حصوں کے مقابلے میں زیادہ سیاح آتے ہیں۔کنٹرول لائن پر وادی نیلم کے آخری گاوں تاوبٹ میں گذشتہ سال اپریل کے آخر اور مئی کے شروع میں بڑی تعداد میں سیاح موجود تھے۔ رواں برس بھی اپریل کے آخر میں بڑی تعداد میں سیاح تاوبٹ پہنچے تھے مگر ان سیاحوں کو انڈیا کے کسی بھی ممکنہ حملے کے پیش نظر علاقہ خالی کرنے کا کہا گیا۔نثار احمد اور ان کی اہلیہ نسرین احمد برطانیہ سے اپنے بچوں کے ہمراہ آئے تھے۔ اپنے دورہ پاکستان میں انھوں نے اپنے بچوں کو وادی نیلم کے علاوہ کشمیر کی سیاحت کروانے کا وعدہ کیا تھا مگر اب وہ مایوسی کا شکار ہیں۔نثار احمد کہتے ہیں کہ ہمیں یکم مئی کو نیلم ویلی میں کہا گیا کہ اگر ہم اس وقت واپس چلے جائیں تو اچھا ہو گا۔ ’جس کے بعد ہم مایوسی ہو کر واپس آگئے ہیں۔ اب پتا نہیں دوبارہ ہمیں اپنے بچوں کو وادی نیلم دکھانے کا موقع ملے گا یا نہیں۔‘محمد یحیی شاہ تاوبٹ ہوٹل اینڈ گیسٹ ہاؤس ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تاوبٹ میں بالخصوص اور وادی نیلم میں بالعموم مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ہی سیاحت ہے۔انھوں نے بتایا کہ ابھی دو دن پہلے کافی تعداد میں سیاح موجود تھے مگر ابھی تاوبٹ اور وادی نیلم سیاحوں سے خالی ہو چکی۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا کہ سیاحوں کی آمد کو بھی روک دیا گیا اور یہ پابندی عارضی طور پر ہو گی اور حالات بہتر ہوتے ہی سیاحوں کو دوبارہ آنے کی اجازت دے دی جائے گی۔انھوں نے بتایا کہ مئی کے لیے تقریباً تمام ہی گیسٹ ہاؤس اور ہوٹلز میں پچاس فیصد بکنگ ہو چکی تھی مگر اب سیاحوں کی آمد پر پابندی کے بعد دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔کشمیر کی حکومت کیا کہتی ہے؟پاکستان کے زیر انتظام کشمیر حکومت کے ترجمان پیر مظہر سعید شاہ نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی انڈیا کی ممکنہ جارحیت کا خوف نہیں تاہم لوگ کسی بھی کارروائی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھرپور تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سکول اور کالج کھلے ہیں تاہم کچھ مدرسے انڈیا کی جانب سے کسی ممکنہ حملے کے پیش نظر بند کر دیے گئے ہیں جبکہ باقی کے بارے میں مشاورت چل رہی ہے کہ ان کو بند کیا جائے کہ نہیں۔ ان کے بارے میں جلد فیصلہ کر لیا جائے گا۔پیر مظہر سعید شاہ کا کہنا تھا کہ سیاحوں کو بھی اسی خدشے کے پیش نظر کچھ دن کے لیے کشمیر آنے سے روکا گیا۔انھوں نے بتایا کہ 27 اور 28 اپریل کو تقریباً 1250 سیاح وادی نیلم میں داخل ہوئے تھے۔ ’یہ بڑی تعداد ہے جو ثابت کرتی ہے کہ کسی کو کوئی خوف نہیں تاہم انڈیا کی جانب سے دھمکیوں کے بعد احتیاط کے طور پر سیاحوں کو روکا گیا مگر جو سیاح اس وقت پہلے سے سیاحتی مقامات پر ہیں ان کو نکالا نہیں گیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور کشمیر مکمل طور پر پر امن ہیں۔ ’کسی بھی قسم کی کارروائی میں پہل نہیں کی جائے گی لیکن اگر انڈیا نے کوئی غلطی کی تو پھر کشمیر کے لوگ اور حکومت اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر دفاع کرے گی۔‘پہلگام: انڈیا میں تحقیقات کہاں تک پہنچیں اور پاکستان کیوں غیر جانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے؟مودی کی کشمیر پالیسی پر اُٹھتے سوالات: پہلگام حملے کو حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کیوں کہا گیا؟ایل او سی پر فائرنگ سے دونوں اطراف کے شہری خوفزدہ: ’کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اسی لیے ہم بنکر بنا رہے ہیں‘پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟پہلگام حملہ انڈین سکیورٹی اداروں کی ناکامی، پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ کا امکان نہیں: سابق سربراہ ’را‘ کا بی بی سی کو انٹرویوانڈیا میں مسلمانوں اور کشمیروں کے خلاف تشدد کے واقعات: ’پہلگام حملے کو وسیع تر فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

معذور افراد کے لیے ٹیکس فری امپورٹڈ گاڑیاں حاصل کرنا مشکل کیوں؟

قلات میں عسکریت پسندوں کا قیدیوں کی وین پر حملہ، پانچ پولیس اہلکار اغوا

انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر جنگ کا خطرہ کتنا حقیقی ہے؟

پاکستان، انڈیا کشیدگی: وفاقی وزیر اطلاعات، ڈی جی آئی ایس پی آر سیاسی جماعتوں کو آج بریفنگ دیں گے

’ٹریکنگ ڈیوائسز اور قیدیوں کا ڈی این اے ڈیٹا بیس‘، پنجاب حکومت جرائم پر قابو پانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟

آج جس میزائل کا ہم نے تجربہ کیا وہ ایٹمی ہتھیار بھی لےجاسکتا ہے،رانا ثنا کی مودی کو دھمکی

ٹیکس لا ترمیمی آرڈینس 2025 کیلئے صدر مملکت نے منظوری دے دی

قومی سلامتی کی صورتحال، وزیر اطلاعات اور ڈی جی آئی ایس پی آر سیاسی رہنماؤں کو ’بیک گراؤنڈ بریفنگ‘ دیں گے

پاک بھارت کشیدگی، پیر کو ایرانی وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان

65 سالوں میں دوسرا گرم ترین اپریل ریکارڈ

یوتھ کا ناامید ہونا بڑا مسئلہ ہے، شاہد خاقان عباسی

پہلگام واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات میں ترکی شامل ہوا تو پاکستان خیرمقدم کرے گا: شہباز شریف

پہلگام واقعے کی آڑ میں کشمیریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مشعال ملک

انور مقصود کے ’ہاؤس اریسٹ‘ کا اجازت نامہ اچانک منسوخ: ’شو کینسل نہیں سینسر ہو گیا‘

پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی اشتعال انگیزیوں کے باوجود پاکستان کا ردعمل ذمہ دارانہ رہا: وزیر اعظم

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی