’ٹریکنگ ڈیوائسز اور قیدیوں کا ڈی این اے ڈیٹا بیس‘، پنجاب حکومت جرائم پر قابو پانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟


پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جرائم پر قابو پانے اور امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے حکومتِ پنجاب نے دو اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔محکمہ داخلہ پنجاب نے پہلی بار صوبے بھر میں عادی اور خطرناک مجرموں کی نگرانی کے لیے ٹریکنگ ڈیوائسز متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ دوسری جانب تمام قیدیوں، عادی مجرموں اور فورتھ شیڈول میں شامل افراد کا ڈی این اے ریکارڈ اکٹھا کر کے ایک مرکزی ڈیٹا بیس قائم کرنے کی منصوبہ بندی بھی مکمل کر لی گئی ہے۔عادی مجرموں کے لیے ٹریکنگ ڈیوائسزمحکمہ داخلہ نے یہ فیصلے حال ہی میں منعقدہ اجلاس میں کیے ہیں۔ 24 اپریل 2025 کو سیکریٹری داخلہ نور الامین مینگل کی زیرِ صدارت اجلاس میں مجرموں کو ٹریکنگ ڈیوائس پہنانے کا فیصلہ ہوا۔پانچ سو ٹریکنگ بینڈز نئے قائم ہونے والے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیے جائیں گے (فوٹو: اے ایف پی)صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق 15 سو خصوصی ٹریکنگ ڈیوائسز پنجاب میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ ان میں سے نو سو ٹریکنگ ڈیوائسز یا بینڈز کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ شدت پسندوں اور دہشت گردی میں ملوث افراد کی مسلسل نگرانی کر سکے۔پانچ سو ٹریکنگ بینڈز نئے قائم ہونے والے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیے جائیں گے جن کا بنیادی مقصد عام مجرموں کی نگرانی اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہوگا۔ سو بینڈز پیرول ڈیپارٹمنٹ کو دیے جائیں گے تاکہ ضمانت پر رہا ہونے والے مجرموں پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ترجمان محکمہ داخلہ توصیف صبیح گوندل نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ 15 سو بینڈز پنجاب حکومت کے پاس پہلے سے موجود تھے۔ان کے بقول ’پنجاب حکومت نے پہلے ہی 15 سو ٹرینکنگ بینڈز گذشتہ حکومتوں کے ادوار میں خرید لیے تھے جو پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کے پاس رکھے گئے تھے، تاہم ان کو استعمال میں نہیں لایا جا رہا تھا جس کے بعد سیکریٹری داخلہ نور الامین مینگل نے انہیں استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ ضائع نہ ہوں اور ان کا ٹیسٹ و ٹرائل کیا جائے۔‘محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق ان ٹریکنگ ڈیوائسز کی مدد سے مجرموں کی نقل و حرکت کو ہر وقت مانیٹر کیا جا سکے گا جس سے ان کے کسی بھی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے یا نہ ہونے کا فوری طور پر پتا چل سکے گا۔حالیہ ترمیم میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی مجرم کے خلاف دو مقدمات درج ہوں تو اس کی نگرانی ہونی چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)محکمہ داخلہ کے ترجمان کے مطابق ابتدائی طور پر ان ڈیوائسز کو محدود پیمانے پر استعمال میں لایا جا رہا ہے تاکہ ان کی بیٹری لائف، سگنل رینج، اور کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ترجمان محکمہ داخلہ بتاتے ہیں ’اس وقت تک کسی بھی شخص کو عملی طور پر کوئی ڈیوائس نہیں پہنائی گئی۔ ڈیوائس لگانے کا عمل باقاعدہ قواعد و ضوابط کے تحت ہوگا جس میں متعلقہ حکام کی منظوری لازمی ہوگی۔ تاہم اب تک ابتدائی فیصلے کر لیے گئے ہیں جن کے لیے قواعد و ضوابط فی الحال طے کیے جانے ہیں۔‘ان کے مطابق محکمہ داخلہ اس حوالے سے عالمی معیار کی جدید ترین ڈیوائسز کی درآمد کے لیے بھی کام کر رہا ہے تاکہ مستقبل میں مزید مؤثر نگرانی ممکن بنائی جا سکے۔محکمہ داخلہ کے بیان کے مطابق بعض ماہرین نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ مستقبل میں عادی مجرموں کے جسم کے اندر مائیکرو چپس نصب کی جائیں۔ترجمان محکمہ داخلہ توصیف صبیح گوندل بتاتے ہیں کہ ’یہ اب ان محکموں نے طے کرنا ہے کہ مزید کتنے بینڈز اور کس طرح کے بینڈز چاہییں اور وہ تحقیق کرنے کے بعد یہ بتائیں گے کہ دنیا میں کون سے بینڈز استعمال ہو رہے ہیں۔ مجرموں کو بینڈز پہنانا خالصتاً ان کی نگرانی کے لیے ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں بہت کام ہو رہا ہے اور یہ بھی اس کا حصہ ہے۔‘ان کے مطابق یہ ڈیوائسز پولیس آرڈر کے مطابق ہیں جس میں کی گئی حالیہ ترمیم میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی مجرم کے خلاف دو مقدمات درج ہوں تو اس کی نگرانی ہونی چاہیے۔ ان کے بقول ’یہ اقدامات قانون کے مطابق کیے جا رہے ہیں۔ ٹریکنگ بینڈز یا ڈیوائسز فورتھ شیڈول میں شامل عادی یا پے رول پر رہائی پانے والے مجرموں کے لیے ہیں تاکہ ان کی نگرانی کی جا سکے۔‘پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی  کی نگرانی میں ایک وسیع ڈی این اے ڈیٹا بیس قائم کیا جائے گا (فوٹو: اے پی پی)مجرموں کا ڈی این اے ڈیٹا بیسدوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے قیدیوں اور عادی مجرمان کا ڈی این اے ریکارڈ مرتب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس منصوبے کے تحت پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی  کی نگرانی میں ایک وسیع ڈی این اے ڈیٹا بیس قائم کیا جائے گا۔ اس ڈیٹا بیس میں ان تمام افراد کا ریکارڈ موجود ہوگا جو کسی بھی قسم کی سنگین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ترجمان محکمۂ داخلہ بتاتے ہیں ’یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اُن تمام مجرموں کا ڈی این اے ڈیٹا بیس بنایا جائے جو عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں۔ اس فیصلے کا اطلاق پنجاب کی 44 جیلوں میں موجود قیدیوں پر ہوگا۔‘ان کے مطابق ’پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی گذشتہ کئی برسوں سے ڈی این اے کے نمونے لیتی آرہی ہے۔ قانون کے مطابق مشکوک افراد، ملزموں اور کیس سے جڑے لوگوں کا ڈی این اے لیا جاتا تھا۔ اس بار اس میں مجرموں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کے پاس اس وقت ڈی این اے کے 60 ہزار سے زیادہ نمونے موجود ہیں جبکہ اس فیصلے کے بعد ایک ملین تک کا ہدف دیا گیا ہے۔‘حکومت کی جانب سے اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے جس کی سربراہی سیکریٹری داخلہ نور الامین مینگل کر رہے ہیں۔اس گروپ میں ڈی جی پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی ڈاکٹر محمد امجد، سینٹر آف ایکسیلینس ان مالیکیولر بائیولوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر معاذ الرحمان، کنک ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی بائیومیڈیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر نگہت یاسمین، ڈی آئی جی اطہر وحید اور ڈائریکٹر ایڈمن پی ایفایس اے  ولید بیگ شامل ہیں۔ ورکنگ گروپ کو سات دن کے اندر اندر اپنی جامع سفارشات تیار کر کے سیکرٹری داخلہ کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ڈی این اے ڈیٹا بیس کا بنیادی مقصد یہ ہوگا کہ جرائم پیشہ افراد کی شناخت کا عمل تیز تر اور موثر بنایا جا سکے (فوٹو: اے ایف پی)ترجمان محکمہ داخلہ کے مطابق ’اس ورکنگ گروپ کی پہلی میٹنگ گذشتہ روز پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی میں ہوئی جس میں کئی طرح کی تجاویز زیر غور آئیں۔ ورکنگ گروپ نے ایک ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ جمع کروانی ہے جس کے بعد اس حوالے سے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔‘ورکنگ گروپ کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کے مطابق حکومت پنجاب اس فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔ اس منصوبے پر لاگت، استعمال ہونے والی مشینوں، ڈیٹا کی حفاظت اور دیگر پہلوئوں سے متعلق ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) ورکنگ گروپ ایک ہفتے کے بعد سیکرٹری داخلہ کو ایک رپورٹ کی صورت میں پیش کرے گا۔محکمہ داخلہ کے مطابق اس ڈی این اے ڈیٹا بیس کا بنیادی مقصد یہ ہوگا کہ جرائم پیشہ افراد کی شناخت کا عمل تیز تر اور موثر بنایا جا سکے۔ کسی بھی واردات کے بعد جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کا موازنہ فوری طور پر ڈی این اے ڈیٹا بیس سے کیا جا سکے گا جس سے مجرموں کی شناخت کے ساتھ ساتھ تفتیشی عمل میں بھی بہتری آئے گی۔یہ اقدام پنجاب حکومت کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار کو بڑھانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ کے مطابق ڈی این اے ریکارڈ حاصل کرنے کے عمل میں ان افراد کو بھی شامل کیا جائے گا جو بار بار جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں یا جو فورتھ شیڈول میں شامل ہیں۔محکمہ داخلہ کے مطابق ان تمام اقدامات کا مقصد کسی ایک واقعے پر رد عمل ظاہر کرنا نہیں بلکہ ایک جامع، مرحلہ وار اور مستقبل کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مؤثر نظام قائم کرنا ہے۔پنجاب حکومت کو یقین ہے کہ ٹریکنگ ڈیوائسز اور ڈی این اے ڈیٹا بیس کے قیام کے بعد صوبے میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئے گی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

معذور افراد کے لیے ٹیکس فری امپورٹڈ گاڑیاں حاصل کرنا مشکل کیوں؟

قلات میں عسکریت پسندوں کا قیدیوں کی وین پر حملہ، پانچ پولیس اہلکار اغوا

انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر جنگ کا خطرہ کتنا حقیقی ہے؟

پاکستان، انڈیا کشیدگی: وفاقی وزیر اطلاعات، ڈی جی آئی ایس پی آر سیاسی جماعتوں کو آج بریفنگ دیں گے

’ٹریکنگ ڈیوائسز اور قیدیوں کا ڈی این اے ڈیٹا بیس‘، پنجاب حکومت جرائم پر قابو پانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟

آج جس میزائل کا ہم نے تجربہ کیا وہ ایٹمی ہتھیار بھی لےجاسکتا ہے،رانا ثنا کی مودی کو دھمکی

ٹیکس لا ترمیمی آرڈینس 2025 کیلئے صدر مملکت نے منظوری دے دی

قومی سلامتی کی صورتحال، وزیر اطلاعات اور ڈی جی آئی ایس پی آر سیاسی رہنماؤں کو ’بیک گراؤنڈ بریفنگ‘ دیں گے

پاک بھارت کشیدگی، پیر کو ایرانی وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان

65 سالوں میں دوسرا گرم ترین اپریل ریکارڈ

یوتھ کا ناامید ہونا بڑا مسئلہ ہے، شاہد خاقان عباسی

پہلگام واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات میں ترکی شامل ہوا تو پاکستان خیرمقدم کرے گا: شہباز شریف

پہلگام واقعے کی آڑ میں کشمیریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مشعال ملک

انور مقصود کے ’ہاؤس اریسٹ‘ کا اجازت نامہ اچانک منسوخ: ’شو کینسل نہیں سینسر ہو گیا‘

پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی اشتعال انگیزیوں کے باوجود پاکستان کا ردعمل ذمہ دارانہ رہا: وزیر اعظم

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی