’وزنجام‘: 180 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی گہرے پانی کی بندرگاہ انڈیا کے لیے اتنی خاص کیوں ہے؟


Getty Imagesوزنجام انڈیا کا پہلا ڈیپ سی شپمنٹ ٹرمینل ہے جہاں بڑے سائز کے مال بردار جہاز لنگر انداز ہو سکیں گےانڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ دنوں ملک کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ’وزنجام‘ بندرگاہ کے ٹرمینل کا افتتاح کرتے ہوئے اسے انڈیا کے سمندری انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی میں ایک ’اہم پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔یاد رہے کہ ’وزنجام‘ انڈیا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہو گی جہاں دنیا کے بڑے سے بڑے تجارتی جہاز بھی لنگر انداز ہو سکیں گے۔ اس بندرگاہ کو انڈین حکومت اور گوتم اڈانی سپیشل اکنامک زون (اے پی ایس ای زیڈ) کے اشتراک کے ساتھ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اڈانی گروپ کے مطابق اس منصوبے کی مجموعی لاگت 180 ارب روپے ہو گی۔یہ بندرگاہ جزوی طور پر گذشتہ سال جولائی سے فعال ہے لیکن اسے مکمل طور پر فعال ہونے میں مزید تین برس لگیں گے اور اس پر تعمیراتی کام سنہ 2028 تک مکمل ہو پائے گا۔وزیر اعظم مودی نے افتتاحی تقریب کے بعد منعقدہ عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’وزنجام بندرگاہ ریاست کیرالہ اور پورے ملک میں اقتصادی استحکام کا باعث بنے گی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک طرف مواقع سے بھرا وسیع سمندر ہے اور دوسری طرف فطرت کا حُسن ہے۔ اس کے درمیان وِزنجام کا انٹرنیشنل ڈیپ واٹر (گہرے سمندر) ملٹی پرپز بندرگاہ ہے جو نئے دور کی ترقی کی علامت ہے۔‘وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ انڈیا کے غلامی میں جانے سے قبل عالمی جی ڈی پی میں انڈیا کا بڑا حصہ ہوتا تھا اور اس کی بڑی وجہ بحری تجارت ہی تھی۔وزیر اعظم کی یہ تقریر سننے والوں میں رُکن پارلیمان اور کانگریس کے رہنما ششی تھرور بھی موجود تھے جنھوں نے اپنی ایک کتاب میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مغل اور بطور خاص اورنگزیب کے دور میں عالمی جی ڈی پی میں انڈیا کی ایک چوتھائی کی حصہ داری تھی۔بی بی سی اردو نے بیورو آف ریسرچ آن انڈسٹری اینڈ اکانومک فنڈامنٹلس (بریف) کے ڈائریکٹر آفاق حسین سے اس بندرگاہ کے متعلق بات کی اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔آفاق حسین کے مطابق یہ انڈیا کی پہلی ڈیپ سی ٹرانس شپمنٹ ٹرمینل، یعنی گہرے سمندر کی بندرگاہ، ہے۔ اُن کے مطابق اس نوعیت کی ایک بندرگاہ پہلے دبئی پورٹ کے پراجیکٹ کے تحت ’کوچی‘ میں بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔انھوں نے بتایا کہ اب تک انڈیا میں 10 سے 12 میٹر گہرے ٹرمینل ہی موجود تھے جبکہ بڑے تجارتی بحری جہازوں کو لنگر انداز ہونے کے لیے لگ بھگ 20 میٹر یا اس سے زیادہ گہرائی والے ٹرمینل درکار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق 20 فٹ لمبے تجارتی کنٹینرز (ٹی ای یوز) سے لدے بڑے تجارتی جہازوں کو لنگر انداز ہونے کے لیے گہرے پانیوں کے ٹرمینل درکار ہوتے ہیں۔’اڈانی پورٹس اینڈ سپیشل اکناملک زون لمیٹڈ‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر کرن اڈانی نے اس پورٹ کی افتتاحی تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وِزنجام ٹرانس شپمنٹ ٹرمینل میں سنہ 2028 تک 50 لاکھ ٹی ای یوز کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت ہو گی۔بین الاقوامی تجارت پر رپورٹنگ کرنے والے ادارے ’بلومبرگ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس بندرگاہ کا افتتاح ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع ’ٹیرف اقدامات‘ کے باعث عالمی سپلائی چین ہل کر رہ چکی ہے۔بلومبرگ کے مطابق گذشتہ ماہ عالمی سطح کی شپنگ کی بڑی کمپنیوں اے پی مولر-میئرسک اے/ایس نے تجارت پر محصولات کے اثرات پر تنقید کی تھی۔اس حوالے سے کرن اڈانی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ انڈیا مستقبل میں سمندری تجارت کے حجم میں کمی نہیں دیکھ رہا ہے اور درحقیقت انڈیا کے لیے یہ ایک سنہرا موقع ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’چونکہ یورپ اور چین تجارتی جنگ سے متاثر ہو رہے ہیں اس لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ انڈیا بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ایسا کہنا زرا غلط ہو گا۔‘Getty Imagesاس منصوبے کی مجموعی لاگت 180 ارب روپے ہےوزیر اعظم مودی کا مزید کہنا تھا کہ اس بندرگاہ کو ’بڑے مال بردار جہازوں کے لنگر انداز ہونے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اب تک انڈیا کی 75 فیصد شپمنٹ سرگرمیاں غیر ملکی بندرگاہوں سے کی جاتی تھیں، جس کے نتیجے میں ملک کے لیے اہم محصولات کا نقصان ہوتا تھا۔‘’لیکن اب صورت حال بدلنے والی ہے۔ بیرون ملک خرچ ہونے والے فنڈز کو اب ملک کی ترقی میں استعمال کیا جائے گا۔‘تجزیہ کار آفاق حسین کے مطابق پہلے انڈیا کے پاس ٹرانس شپمنٹ کے لیے کوئی ڈیڈیکیٹڈ (مختص) ٹرمینل نہیں تھا اور بڑے تجارتی جہاز شپمنٹ کے لیے کولمبو، دبئی اور سنگاپور کی گہرے سمندر کی بندرگاہوں کا استعمال کرتے تھے۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ ایران کے چابہار پورٹ میں اڈانی گروپ کی شراکت ہے لیکن ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے اس کا براہ راست استعمال نہیں ہو پا رہا ہے اس لیے وزنجام بندرگاہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔گوتم اڈانی پر امریکہ میں ’رشوت‘ کا الزام جو انڈیا کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہےٹرمپ اور مودی کی ملاقات میں جوابی محصولات اور اڈانی سے متعلق سوال زیرِ بحثشاپور جی سکلت: انڈیا کے امیر خاندان میں پیدا ہونے والے سیاستدان، جنھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’ٹاٹا‘ استعمال نہ کیابیلجیئم میں گرفتار ہونے والے ہیروں کے مفرور تاجر میہل چوکسی کو انڈیا وطن واپس کیوں لانا چاہتا ہے؟’دی ہندو‘ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق اس پبلک پرائیوٹ شراکت داری (پی پی پی) والے پراجیکٹ میں اب تک تقریبا 7000 کروڑ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، جس میں سے کرن اڈانی کے مطابق 4300 کروڑ کی سرمایہ کاری اُن کی کمپنی اے پی ایس ای زیڈ نے کی ہے۔انھوں نے نامہ نگاروں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس پورٹ کو فروغ دینے کے دوسرے مرحلے کے لیے ان کی کمپنی 1200 سے 1300 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرے گی۔Getty Imagesارب پتی تاجر گوتم اڈانی کے بڑے بیٹے کرن اڈانی اے پی ایسی ای زیڈ کے سربراہ ہیںان کے مطابق دوسرے مرحلے میں بریک واٹر کو مزید وسیع کیا جائے گا اور اس کی گہرائی کو مزید 12 میٹر تک بڑھایا جائے گا۔اس طرح بریک واٹر کی مجموعی گہرائی 28 میٹر یعنی نو منزلہ عمارت کے برابر ہو جائے گی۔ یہ ملک کا سب سے گہرا بریک واٹر ہو گا جس کی تعمیر کے لیے کیرالہ کی ریاستی حکومت نے 1387 کروڑ روپے کی فنڈنگ دی ہے۔کیرالہ کی ریاستی حکومت نے بندرگاہ کو تعمیر و ترقی کے لیے سنہ 2015 میں اڈانی کے ’اے پی ایس ای‘ کے ساتھ ایک معاہدے کیا تھا جس کے تحت اڈانی کو 40 سال تک بندرگاہ کی تعمیر، اس کے انتظام اور منتقلی میں رعایت ملی گی۔ اس کے ساتھ اس میں 20 سال کی مدت کی توسیع کی بھی شق ہے۔چیلنجز کیا ہیں؟اس سوال کے جواب میں آفاق حسین نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ انڈیا کو ٹرانس شپمنٹ کو ہینڈل کرنے کا تجربہ نہیں ہے مگر چونکہ اڈانی گروپ اس شعبے میں ایک بین الاقوامی پلیئر ہے، اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ انٹرنیشنل معیار کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔انھوں نے کہا کہ ایک بار جب یہ پورٹ بن کر تیار ہو گیا تو پھر یہ چیلنج ہو گا کہ کیا ہم اسے ٹرانس شپمنٹ کے لیے کامیاب بین الاقوامی مرکز بنا سکیں گے؟ کیا اس کے لیے ہم دنیا کی بڑی شپمنٹ کمپنیوں کو اس بات پر قائل کر سکیں گے کہ وہ اس بندرگاہ کو اپنے تجارتی روٹ میں شامل کریں؟یاد رہے کہ یہ بندرگاہ گلوبل شپنگ روٹ سے صرف 10 ناٹیکل میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ جمعہ کے روز افتتاح کے موقع پر اخبارات میں اڈانی گروپ نے اشتہار شائع کیا تھا اور اُن کے مطابق اس پورے منصوبے پر 180 ارب روپے کی مجموعی لاگت آئے گی۔آفاق حسین نے کہا گلوبل شپمنٹ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کسی بھی ملک کی مہارت دیکھی جاتی ہے، اور یہ کہ ٹرن آراؤنڈ کتنا تیز ہے یعنی کسی بندرگاہ پر ایک جہاز سے سامان کو دوسرے جہاز یا ایک کنٹینر سے دوسرے کنٹینر میں کس قدر تیزی سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ان کے نزدیک ایک چیلنج ریگولیٹری پہلو بھی ہے کہ درآمد اور برآمد کے قواعد اور ضوابط کو کس قدر ڈیجیٹل سسٹم کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے، تاکہ اس میں وقت کا زیاں نہ ہو ورنہ اس کی وجہ سے شپمنٹ کی لاگت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ چونکہ اڈانی انڈیا میں بندرگاہوں کے انتظام اور انصرام کے سب سے بڑے پلیئر ہیں اس لیے انھیں اپنے پورٹس اور ٹرمینل کو اس نئے پورٹ سے ہم آہنگ کرنے میں آسانی ہو گی۔انھوں نے کہا اس کے علاوہ بڑے جہازوں کو اپنے بندرگاہ پر لانے کی ذمہ داری بھی اڈانی گروپ پر ہو گی۔ مسٹر حسین کے مطابق ان کے لیے یہ نسبتا آسان ہو سکتا ہے کیونکہ اسرائیل میں ہائیفا پورٹ میں ان کی شراکت داری ہے اور وہ گجرات میں اپنے پورٹ مندرا کے ساتھ یہ کام چھوٹے جہازوں کے ذریعے پہلے ہی کر رہے ہیں۔بحری تجارت پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے نظر رکھنے والے آفاق حسین نے بتایا انڈیا آنے والے شپمنٹ کے علاوہ وزنجام پورٹ امریکہ یورپ، افریقہ اور مشرقی ایشیا کے درمیان بین الاقوامی روٹ کے شپمنٹ کو بھی سہولت فراہم کر سکے گا۔بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق اڈانی گروپ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جنیوا میں ہیڈکوارٹر رکھنے والی میڈیٹیرینین شپنگ کمپنی نے مارچ میں اپنی جیڈ شپنگ سروس کے راستے میں وِزنجام کو شامل کیا ہے۔ اس کے روٹ میں یورپ سے ایشیا تک چین، جنوبی کوریا، سنگاپور، سپین اور اٹلی کی بندرگاہیں شامل ہیں۔آفاق حسین کے مطابق ملک کے علاوہ یہ منصوبہ اڈانی گروپ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو ان کے پہلے سے موجود نیٹ ورک کو مزید تقویت بخشے گا۔گوتم اڈانی پر امریکہ میں ’رشوت‘ کا الزام جو انڈیا کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہےبیلجیئم میں گرفتار ہونے والے ہیروں کے مفرور تاجر میہل چوکسی کو انڈیا وطن واپس کیوں لانا چاہتا ہے؟بائیجوز: ریاضی کے ’خبطی ٹیچر‘ جو ایک ٹیوشن کلاس سے ارب پتی بنے اور پھر زوال کا شکار ہوئےرتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایانوئل ٹاٹا: 100 ارب ڈالر سے زیادہ آمدن والی کمپنی کے نئے سربراہ جو رتن ٹاٹا کے سوتیلے بھائی ہیںدنیا کے 10 ’امیر ترین خاندان‘ لیکن ان کے پاس اتنا پیسہ آیا کہاں سے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ پر ’قبضے‘ کے منصوبے کی منظوری دے دی

نپولین: افریقہ کے دور افتادہ جزیرے سینٹ ہیلینا پر فرانسیسی جرنیل کے آخری ایام کیسے گزرے

کراچی میں آج اور کل کس وقت گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے؟ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی

’سادہ مگر طاقتور‘: صفائی کے لیے آزمودہ سرکہ کیا جراثیم اور بیکٹیریا کو بھی ختم کرتا ہے

’وزنجام‘: 180 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی گہرے پانی کی بندرگاہ انڈیا کے لیے اتنی خاص کیوں ہے؟

کبھی پوپ تو کبھی ’بدی کی علامت‘: ٹرمپ کی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر پر تنقید، ’آپ کو پتا ہو گا کہ سرخ لائٹ بُرے لوگوں کی نشانی ہے‘

سونے کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔۔ جانیں فی تولہ سونا مہنگا ہو کر کتنے کا ملنے لگا؟

صرف 10 منٹ میں گنے کا رس گھر پر کیسے بنائیں؟ جانیں 7 زبردست فائدوں والا بازار جیسا لذیذ جوس بنانے کا آسان طریقہ

غزہ میں اسرائیلی کارروائی کا دائرہ بڑھانے کے لیے ہزاروں ریزرو فوجی طلب

کبھی پوپ تو کبھی ’بدی کی علامت‘: ٹرمپ کی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر پر تنقید کیوں؟

قومی اتحاد کے اظہار کو عمران خان کی رہائی سے مشروط کرنا پی ٹی آئی کی کم فہمی ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف

مودی کی کھوپڑی خراب ہوگئی ہے۔۔ مولانا طارق مسعود نے بھارت کو کیا دو ٹوک پیغام دے ڈالا؟

کارل ڈونٹز: جرمن فوج کے وہ ایڈمرل جنھیں ہٹلر نے خودکشی کرنے سے پہلے اپنا جانشین منتخب کیا تھا

انڈیا اور بنگلہ دیش کی ایک دوسرے پر عائد تجارتی پابندیاں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا عندیہ ہیں؟

انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر جنگ کا خطرہ کتنا حقیقی ہے؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی