
برطانیہ کی حکومت پاکستان سمیت چند ممالک کے ایسے افراد پر پابندیاں عائد کرنے کی تیاری کر رہی ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ مقررہ مدت سے زیادہ قیام کر کے سیاسی پناہ کا دعویٰ دائر کر دیتے ہیں۔اخبار دی گارڈئین نے برطانوی حکام کے حوالے سے منگل کو رپورٹ کیا کہ حکومت نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ مل کر ایسے طریقوں پر کام کر رہی ہے جن کی مدد سے مختلف ممالک کے ایسے مشتبہ افراد کی معلومات جمع کی جا سکیں۔حکومت کے مطابق ان پابندیوں کی زد میں پاکستان کے علاوہ ممکنہ طور پر نائیجیریا اور سری لنکا کے تارکین وطن آئیں گے۔مائیگریشن سے متعلق امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی سکیم کس حد تک کامیاب ہو گی، اس کا انحصار نئے متعارف کرائے گئے ماڈلز اور ان کے ساتھ کام کرنے والی انٹیلیجنس پر ہو گا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس لگ بھگ 10 ہزار سیاسی پناہ کے متلاشی افراد ورک یا سٹڈی ویزہ پر برطانیہ پہنچے اور وہ برطانوی ٹیکس دہندگان کے اخراجات پر ہوٹلوں میں مقیم رہے۔برطانیہ کے ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سیاسی پناہ کے متلاشی یہ افراد باقاعدہ ویزے پر ملک میں داخل ہوئے تھے لیکن پھر انہوں نے حکومت کے خرج پر رہائش اور سہولیات حاصل کیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستان، نائیجیریا اور سری لنکا سے آنے والوں کی ہے۔برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے والوں کی تعداد جون 2024 میں سات لاکھ 28 ہزار تک پہنچ گئی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)دی گارڈیئن نے اس سے قبل سنیچر کو رپورٹ کیا تھا حکومت ایسے غیرملکی طلبہ کی تعداد میں کمی کرنے کے منصوبے پر کاربند ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ کچھ عرصہ بعد سیاسی پناہ کی درخواست دائر کر دیتے ہیں۔اس سلسلے میں حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے ویزہ ہولڈزر کو سیاسی پناہ سے متعلق سہولیات فراہم کرنے سے قبل ان کی جانب سے جمع کرائی گئی بینک سٹیٹمنٹس کو اپنی جانچ کا حصہ بنائیں۔حکومت کی جانب سے یہ اقدام ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب گزشتہ ہفتے برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر کی لیبر پارٹی کو لوکل الیکشن میں پناہ گزینوں جیسے مسائل پر ووٹرز کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ برطانوی حکومت اگلے ماہ ایک وائٹ پیپر جاری کرے گی جس میں بتایا جائے کہ تارکین وطن کی تعداد (جو گزشتہ برس جون میں سات لاکھ 28 ہزار تک پہنچ گئی تھی) کو کیسے کم کیا جا رہا ہے۔