
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں نوے کی دہائی کے دوران خواتین کے لیے ایک پولیس سٹیشن قائم کیا گیا تھا۔ لیکن تقریباً تین دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی آج تک اس تھانے میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔خواتین کے لیے مخصوص پولیس سٹیشنز کا قیام اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خواتین کو بااختیار بنانے کے وژن کا حصہ تھے۔جس تھانے میں آج تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، وہ ویمن پولیس سٹیشن پشاور کی پولیس لائن میں واقع ہے۔ یہ پولیس سٹیشن 1994 میں قائم ہوا تھا۔ اس میں خاتون ایس ایچ او تعینات ہیں اور ان کے ماتحت تقریباً 159 خواتین کانسٹیبل کام کرتی ہیں۔ویمن پولیس سٹیشن پشاور کی ایڈیشنل ایس ایچ او مغیث منیر کے مطابق یہ تھانہ ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں دیگر پولیس سٹیشنز بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے ایس ایس پی آپریشنز متعلقہ کیسز ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہاں تعینات پولیس اہلکار شکایت کنندہ خواتین کو درخواست لکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور قانونی معاونت بھی مہیا کرتی ہیں۔1994 میں پہلا ویمن پولیس سٹیشن ایبٹ آباد، 1996 میں پشاور اور 2021 میں سوات میں قائم ہوا۔ایبٹ آباد ویمن پولیس سٹیشن میں گزشتہ سات آٹھ ماہ کے دوران صرف دو ایف آئی درج کی گئی ہیں۔ اس سے قبل درج کیے گئے مقدمات کا ریکارڈ حاصل کرنے لیے جب ڈی ایس پی آفس سے رابطہ کیا گیا تو جواب دیا گیا کہ متعلقہ ڈیٹا چیک کرنے کے بعد فراہم کر دیا جائے گا۔ڈی ایس پی آفس کے مطابق 1994 میں قائم ہونے کے بعد ویمن پولیس سٹیشن ایک خودمختار حیثیت سے کام کر رہا تھا لیکن بعد میں تفتیشی امور کے لیے مرد اہلکاروں کو اس میں شامل کر دیا گیا۔تقریباً چار برس قبل سوات میں قائم ہونے والے ویمن پولیس سٹیشن میں رواں برس بھکاریوں، منشیات اور خواتین کے خلاف تشدد کے تقریباً 50 مقدمات درج ہوئے ہیں۔اے آئی جی انیلہ اناز ٹریفک پولیس افسر بھی رہ چکی ہیں۔ (فوٹو: محکمۂ پولیس)سوات ویمن پولیس سٹیشن کی ایس ایچ او نیلم شوکت کے مطابق تھانے میں 22 خواتین اہلکار ہیں جن کے ساتھ سکیورٹی کے لیے مرد اہلکار بھی موجود ہیں جبکہ کیسز کی تفتیش کے لیے بھی ان خواتین کو مرد اہلکاروں سے مدد چاہیے ہوتی ہے۔صوبۂ خیبر پختونخوا میں اس وقت 244 پولیس سٹیشنز کام کر رہے ہیں جن میں خواتین کے لیے صرف تین پولیس سٹیشنز ہیں۔ ان کے ساتھ ماڈل پولیس سٹیشنز بھی قائم ہیں جبکہ خواتین پر تشدد کے انسداد اور ان کے مسائل کے حل کے لیے 20 ’جینڈر ڈیسک‘ پر خواتین اہلکار تعینات ہیں۔اے آئی جی جینڈر انیلہ ناز کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے تین ویمن پولیس سٹیشنز میں خواتین کا عملہ تعینات ہے جو متاثرہ خواتین کو مدد فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا وہ چاہتی ہیں کہ خواتین فیلڈ میں فعال کردار ادا کریں اور اس بارے میں انہوں نے اعلٰی حکام سے بات بھی کی ہے۔انیلہ ناز نے بتایا کہ ’ویمن پولیس سٹیشنز میں تعینات خواتین کا کردار اتنا ہوتا ہے کہ وہ چھاپے کے لیے جائیں، تلاشی کے کام میں مدد فراہم کریں اور قانونی رہنمائی مہیا کریں۔‘خیبر پختونخوا میں خواتین پولیس اہلکار مختلف عہدوں پر تعینات ہیں۔ (فوٹو: یو این ڈی پی)’کمی صرف اس چیز کی ہے کہ مرد ساتھی افسر ہمیں سپورٹ کریں، اور سینیئرز ہم پر اعتماد کریں چونکہ ہم بھی ان کی طرح کام کر سکتے ہیں، خواتین بھی اپنا کام ذمہ داری اور بہترین انداز میں کر سکتی ہیں۔‘مردوں کے اس معاشرے میں خواتین پولیس فورس میں شامل ہونے سے گریز کرتی تھیں کیونکہ پولیس سروس کو مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں صوبائی حکومت نے خواتین پولیس اہلکاروں کی بھرتی شروع کی اور ان کو فیلڈ میں کچھ عرصے کے لیے ہی سہی، مگر اہم عہدوں پر تعینات بھی کیا۔ضلع چترال کی سابق ڈی پی او سونیا شمروز اور خود اے آئی جینڈر انیلہ ناز ٹریفک پولیس افسر رہ چکی ہیں۔خورشید بانو گزشتہ 30 برس سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خواتین کو ویمن پولیس سٹیشن کے بارے میں آگاہی نہیں اس لیے انھیں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پولیس سٹیشن ایسی جگہوں پر ہونے چاہییں کہ عام خواتین یا متاثرہ خواتین آسانی سے وہاں جا سکیں۔‘ماہرین کے مطابق ’خیبر پختونخوا میں خواتین اہلکاروں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے‘ (فائل فوٹو: کرم پولیس)انہوں نے مزید کہا کہ ’خیبر پختونخوا میں ’خالی جگہ پُر‘ کے طور پر خواتین اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ صرف تعیناتی کافی نہیں۔ ہمارے پاس پولیس سٹیشن اور محکمۂ پولیس میں ایس پی، ایس ایس پی اور اے آئی جی سطح کی خواتین افسران موجود ہیں لیکن ان کے پاس اختیارات نہیں۔ پنجاب اور سندھ میں بڑے عہدوں پر خواتین فائز ہیں اور ان کے پاس اختیارات بھی ہیں۔‘صوبہ پنجاب اور سندھ میں خواتین پولیس افسران فیلڈ میں سرگرم نظر آتی ہیں۔ لاہور کی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس شہربانو نقوی نے ہجوم میں ایک عورت کو بچایا۔ اسی طرح اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس دانیہ رانا نے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن میں بھی حصہ لیا جبکہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے فوری بعد پولیس آپریشن کی قیادت خاتون اے ایس پی سوہائے عزیز تالپور نے کی۔خیبر پختونخوا کے سابق اے آئی جی اختر علی شاہ کے خیال میں ماضی میں حکومتوں نے بہت سی چیزیں محض یہ دکھانے کے لیے کیں کہ صوبے کی خواتین کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے۔چینی قونصلیٹ پر حملے کے بعد آپریشن کی قیادت اے ایس پی سوہائے عزیز تالپور نے کی تھی (فائل فوٹو: روئٹرز)انہوں نے کہا کہ پشاور اور ایبٹ آباد میں خواتین کے لیے مخصوص پولیس سٹیشن، پولیس لائن میں قائم کیے گئے تھے جہاں خواتین کی رسائی نہ صرف مشکل تھی بلکہ عملی لحاظ سے ممکن بھی نہیں تھی۔اختر علی شاہ کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواتین اہلکاروں کی تعداد ہزاروں میں نہیں سینکڑوں میں ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔’ہر پولیس سٹیشن میں اتنی خواتین اہلکار ہونی چاہییں کہ متاثرہ خاتون آسانی سے اپنی شکایت درج کرا سکیں۔ خواتین اے ایس آئی، ہیڈ کانسٹیبل کی تعداد بہت کم ہے۔ اگر کسی خاتون کو گرفتار کرنا ہوں تو خواتین اہلکاروں کو بھیجا جاتا ہے اور تفتیش مرد ہی کرتے ہیں۔‘پشاور ہائیکورٹ کے ایک سینیئر وکیل طارق افغان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ خواتین کے مسائل نہیں یا وہ شکایت درج کرانا نہیں چاہتیں۔’وومن پولیس سٹیشن تک ہر علاقے کی خواتین کی رسائی نہیں۔ صرف ایک بار تھانے کا چکر لگانا نہیں ہوتا کہ صرف ایف آئی آر درج کر لیں اور ہمارے جیسے ملک صرف ادارے ہی سب کچھ کریں۔‘ماہرین سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں قائم خواتین کے مخصوص تھانے بااختیار نہیں (فائل فوٹو: چترال پولیس)پشاور کے سینیئر صحافی جاوید عزیز خان سمجھتے ہیں کہ صوبے میں قائم خواتین کے مخصوص تھانے بااختیار نہیں اور ممکن ہے کہ اعلٰی افسران بھی یہ سوچ رکھتے ہوں کہ ثقافتی مسائل اور مقامی روایات کی وجہ سے خواتین چھاپے نہیں مار سکتیں اور رات کے وقت پیٹرولنگ نہیں کر سکتیں اسی لیے انہیں سوفٹ پوسٹنگ دی جاتی ہے۔’میری رائے میں یہی مسائل ہیں جن کی وجہ سے خواتین کو باقاعدہ ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پی ایز جیسے اہم عہدوں پر تعینات نہیں کیا جاتا حالانکہ وہ تمام خواتین اہلکار اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے مکمل طور پر قابل ہیں۔