
یہ 8 مئی کی ایک سرد اور خوشگوار صبح تھی۔ راولپنڈی میں ہلکی بارش ہو رہی تھی اور موسم نہایت دلفریب تھا، مگر 20 سالہ حیدر علی کے لیے یہ ان کی زندگی کی آخری صبح ثابت ہوئی۔بدھ کی رات حیدر علی نے راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں ہونے والے پی ایس ایل میچ کے دوران اپنا فوڈ سٹال سمیٹا، اور کچھ دیر کے لیے سکھ کا سانس لیا۔ اگلے دن میچ دوبارہ شیڈول تھا، اس لیے وہ جمعرات کی صبح نئی توانائی کے ساتھ جاگنے کے لیے جلدی لیٹ گئے۔وہ راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے قریب واقع فوڈ سٹریٹ میں ایک ریستوران کے شیڈ کے نیچے دوسرے مزدوروں کے ہمراہ سو رہے تھے۔صبح قریباً ساڑھے 10 بجے اچانک آسمان سے اترنے والے انڈیا کے ڈرون نے آٹھ بہنوں اور بزرگ والدین کے واحد کفیل حیدر علی کی زندگی کا چراغ گل کر گیا۔راولپنڈی کی فوڈ سٹریٹ پر 8 مئی کو انڈیا کے ڈرون گرنے کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے میں ایک نوجوان شدید زخمی ہوا جو بعد ازاں بے نظیر بھٹو ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔وہ نوجوان کوئی اور نہیں، لاہور کے علاقے کوٹ لکھپت کا رہائشی حیدر علی تھا، جو پی ایس ایل کے دوران سٹیڈیم کے باہر چپس اور دیگر اشیا فروخت کرتا تھا۔سکیورٹی فورسز نے واقعے کے فوراً بعد علاقے کو سیل کر کے ڈرون کا ملبہ تحویل میں لے لیا اور تحقیقات کا آغاز کیا۔عینی شاہدین کے مطابق ڈرون ایک درخت سے ٹکرایا، پھر زمین پر آ گرا، جس سے نہ صرف آگ بھڑک اٹھی بلکہ پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔آٹھ مئی کو راولپنڈی سمیت ملک کے کئی شہروں میں حکام نے انڈین ڈرون گرانے کا دعویٰ کیا تھا (فوٹو: سکرین گریب)راولپنڈی میں اس روز تین انڈین ڈرونز گرائے گئے تھے۔ ایک فوڈ سٹریٹ میں، دوسرا ریس کورس ٹرانزٹ کیمپ میں، اور تیسرا سکیم تھری کے قریب۔پولیس کے مطابق یہ ڈرونز کچھ دیر فضا میں منڈلاتے رہے، جس سے شہریوں میں سخت تشویش پیدا ہوئی۔20 سالہ حیدر علی آٹھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا جو لاہور روزگار کی تلاش میں راولپنڈی آیا تھا۔ وہ اپنے بوڑھے والد اور بہنوں کا سہارا بننا چاہتا تھا۔کرکٹ سٹیڈیم کے باہر فوڈ سٹریٹ میں پی ایس ایل میچز کے باعث انہیں روزگار کے آثار دکھائی دیے، جہاں وہ پچھلے تین دنوں سے سٹال لگا رہے تھے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔حیدر علی کی نماز جنازہ جمعے کو لاہور میں ادا کی گئی۔ان کے بھائی حسنین ہاشر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’گھر میں کہرام مچا ہوا ہے، بہنیں نڈھال ہیں، والدہ کچھ کہنے کے قابل نہیں۔ سب بس یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کا واحد سہارا چھن گیا۔‘حیدر علی جس شیڈ کے نیچے سو رہے تھے ڈرون سیدھا اسی سے ٹکرایا۔دھماکہ ہوا، شیشے ٹوٹے، شیڈ منہدم ہوا جس سے حیدر علی کو شدید چوٹیں آئیں، جب کہ دیگر شہری بھی زخمی ہوئے۔حیدر علی پنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے قریب فوڈ سٹریٹ میں چپس بیچنے کا کام کرتے تھے (فوٹو: سکرین گریب)حیدر علی کو فوری طور پر بے نظیر بھٹو ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ایمرجنسی وارڈ میں ان کا علاج جاری رہا۔ ڈاکٹروں نے جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر چند گھنٹوں بعد وہ دم توڑ گئے۔ان کے جسم پر مختلف مقامات پر چوٹیں آئی تھیں، مگر سب سے کاری ضرب ان کے سر پر آئی۔ہسپتال حکام کا کہنا ہے کہ وہ اگر پختہ چھت کے نیچے سو رہے ہوتے تو شاید جان بچ جاتی۔ مگر وہ ایک پلاسٹک شیڈ تلے سو رہے تھے، جو ان کی موت کی وجہ بن گیا۔ان کے چچا زاد بھائی نے بتایا کہ ’حیدر علی اپنے گھر کا واحد کفیل تھا، جو چند دن پہلے ہی روزگار کی امید میں راولپنڈی آیا تھا لیکن اب اس کی میت واپس پہنچی ہے اور آج اس کی تدفین کر دی گئی ہے۔‘انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک کسی حکومتی شخصیت نے خاندان سے رابطہ نہیں کیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری حکومت سے التجا ہے کہ حیدر کے لواحقین کی مالی مدد کرے تاکہ وہ زندگی کی گاڑی کو کھینچ سکیں۔‘