
Getty Imagesایئر سٹرائیکس، فضائی جھڑپیں، ڈرونز سے دراندازی، میزائل حملے اور اب بالآخر فائر بندی۔۔۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان گذشتہ چار روز میں وہ سب کچھ ہو چکا ہے جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس وقت ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا سیز فائر دیرپا ہے بھی یا نہیں۔ابھی اس سیز فائر کو چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر سیزفائر کی خلاف ورزی کے الزام لگنے لگے۔انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے دعویٰ کیا کہ ’گذشتہ چند گھنٹوں سے ہمارے (پاکستان کے ساتھ) سمجھوتے میں مسلسل خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ یہ اس سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے جس پر ہم آج پہنچے تھے۔‘ انھوں نے اپنی بریفنگ کا اختتام اس مطالبے پر کیا کہ پاکستان خلاف ورزیاں دور کرے۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں انڈین الزام کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’پاکستان سیزفائر پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے اور کچھ علاقوں میں انڈیا کی جانب سے کی گئی خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستانی فورسز ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔‘سیز فائر کے بعد جہاں پاکستانی اور انڈین افواج اس تنازع میں اپنی کامیابیوں اور نقصانات کا حساب لگا رہے ہوں گے وہیں طاقت کے ایوانوں میں یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہو گا کہ اس سنگین بحران کے بعد دونوں ممالک کہاں کھڑے ہیں۔ساتھ ہی امریکہ کا اس تنازع میں کردار خاصا دلچسپ تھا اور اس کی ثالثی میں پہلے ہچکچاہٹ اور پھر دلچسپی کئی سوال چھوڑ گئی ہے۔لگ بھگ 88 گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس ناقابلِ یقین کشیدگی نے جہاں دونوں ممالک کے عوام کو 21ویں صدی میں ایک جدید جنگ کی خوفناک جھلک دکھائی ہے وہیں ماہرین سمجھتے ہیں کہ سیزفائر کے باوجود ابھی اس تنازع پر خطرناک غیریقینی کے بادل چھائے رہیں گے۔Getty Imagesثالثی میں امریکی ہچکچاہٹ کی وجہ کیا تھی؟ساڑھے تین روز تک دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر حملے کیے گئے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے لیکن سنیچر کی سہ پہر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک مختصر پوسٹ کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کر دیا۔جنوبی ایشیا میں پیدا ہوتے بحران پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ امریکہ ابتدائی طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں ہچکچکاہٹ کا شکار رہا۔واشنگٹن میں نیو لائنز انسٹیٹیوٹ برائے سٹریٹیجی و پالیسی کے سینیئر ڈائریکٹر کامران بخاری نے انڈیا پاکستان کے درمیان اس کشیدگی اور اس کے بعد ہونے والے سیزفائر کے بارے میں ہم سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔امریکی انتظامیہ کی جانب سے اس ہچکچاہٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس انتظامیہ کی ایک انتہائی واضح ڈاکٹرائن سامنے آئی ہے جو یہ ہے کہ اب یہ ماضی کی حکومتوں کی طرح کسی اور کے مسئلے کو اپنا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ کہتے ہیں کہ لڑنا ہے تو لڑو۔ اگر ہماری ضرورت ہے تو بتاؤ، ہم بیچ میں پڑیں گے۔ ’لیکن ہم اب آپ کی لڑائیاں نہیں نمٹائیں گے۔ ہم ثالثی کریں گے لیکن کسی فریق کو مجبور نہیں کر سکتے۔‘انھوں نے کہا کہ ’انڈیا اس بات سے خوش نہیں ہو گا کہ امریکہ نے پاکستان پر دہشتگردی کے خلاف اقدامات اٹھانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی پالیسی اب ختم کر دی ہے۔’واشنگٹن کی طرف سے نئی دہلی کے لیے یہ پیغام بھی آیا ہے کہ آپ اپنے معاشی مشکلات کا شکار پڑوسی سے کیوں لڑ رہے ہیں جب ہم آپ کو کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر چین کا مقابلہ کریں۔‘دوسری جانب پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکہ نے جلد ہی یہ اندازہ لگا لیا کہ یہ معاملہ بہت سنگین بحران کی شکل لے سکتا ہے، اس لیے انھوں نے درجہ حرارت نیچے لانے اور دونوں ممالک سے بات چیت کر کے سیزفائر کروایا۔ ’پاکستان نے بالکل صحیح وقت پر انڈیا کو جواب دیا، اور یہ پیغام دیا کہ اس کی اچھائی کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔‘تاہم سی این این کو ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ جمعے کے جو امریکی محکمہ خارجہ کو خطرناک انٹیلیجنس موصول ہوئی کہ یہ تنازع کس حد تک سنگین ہو سکتا ہے تو اس کے پاس ثالثی میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔ Getty Imagesسیزفائر دیرپا ہو گا یا نہیں؟کامران بخاری کے مطابق ’یہ سیزفائر بہت کمزور ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا کی جانب سے جو پاکستانی شہروں پر ایئر سٹرائکس کی گئیں اس کے بعد سے انڈیا پاکستان کے درمیان کشیدگی کے پرانے ضوابط ختم ہو گئے ہیں۔‘ان کی رائے ہے کہ ’ہم دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔‘’اس کے ضوابط بھی نئے ہوں گے، ایک نیو نارمل شروع ہو رہا ہے، وہ کیا ہے یہ ابھی کھل کر سامنے نہیں آیا اور صورتحال خاصی غیر یقینی ہے۔‘انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اب دونوں نے دستانے اتار دیے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ جوہری طاقتیں ہونے کے باوجود وہ ایک محدود جنگ کر سکتے ہیں جس کی وجہ جدید ٹیکنالوجی ہے۔ ’اب کروز اور بیلسٹک میزائلوں، ڈرونز، ایئر ڈیفنس اور اپنی ہی سرحد میں رہ کر حملہ کرنے والے طیاروں کا دور ہے۔ اب شاید ان کے لیے ایک دوسرے کے اوپر میزائل داغنا کوئی بڑی بات نہ رہے۔'یہاں اس نئے دور میں نئے قواعد و ضوابط اور نئے نارملز کے بارے میں ابھی ہم مزید جانیں گے۔'انھوں نے کہا کہ ’چھ سال پہلے بالاکوٹ کے بعد کی مثال لے لیں، اس وقت انڈیا کا ایک پائلٹ واپس کر کے صورتحال رک گئی تھی کیونکہ یہ ڈر تھا کہ بات بڑھ نہ جائے۔ ’اب وہ بات بڑھ چکی ہے اور بڑھنے کے بعد سامنے آیا ہے کہ محدود جنگ ممکن ہے۔ پہلے سیزفائر کی خلاف ورزی اگر ایل او سی پر چھوٹے اسلحے سے ہوتی تھی، اب یہ خلاف ورزی بین الاقوامی سرحد پر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔‘سابق انڈین سفیر کے سی سنگھ نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا کہ ’یہ سیزفائر خوش آئند اور یقیناً آئی ایم ایف کی قسط دینے سے پہلے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے لیے کچھ شرائط رکھی گئی ہوں گی جو ہمیں آگے جا کر سمجھ آئیں گی۔ ’لیکن سیزفائر مکمل ہونا چاہیے صرف بین الاقوامی سرحد پر نہیں، لائن آف کنٹرول پر بھی ہونا چاہیے۔ یہ ہمیں آنے والے دنوں میں معلوم ہو گا کہ اس بارے میں مزید کیا بات ہوتی ہے۔‘سابق پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے کہا کہ 'خواہش تو یہی ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے دہشتگردی، مسئلہ کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کرنے کی طرف جائیں گے نہ کہ اسے جنگ کے میدان میں جا کر حل کرنے کی کوشش کریں گے۔'سیزفائر معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے کہا کہ 'یہ معاہدہ کمزور ہے، ابھی خبریں آ رہی ہیں ایل او سی پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ اگر سیزفائر کو بچانے ہے تو نیوٹرل وینیو پر بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔’ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ظاہر ہے کہ یہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔‘یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایک طرف امریکہ اور پاکستان نے غیر جانبدار مقام پر کشمیر سمیت دیگر مسائل پر حل کے لیے مذاکرات کی تائید کی ہے تاہم انڈیا نے اس فائر بندی کو ایک الگ طرح سے دیکھا گیا ہے۔ Getty Images’سندھ طاس معاہدے کی تلوار پاکستان پر لٹکتی رہے گی‘خبررساں ادارے روئٹرز کی جانب سے چار انڈین اور پاکستانی حکومت کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی گئی ہے کہ سیز فائر معاہدے میں اس وقت سندھ طاس معاہدے کی بحالی کی بات نہیں کی گئی اور یہ تاحال معطل ہے۔ جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے سیز فائر کے بعد پانی کی تقسیم کے تنازع کو حل کرنے کے لیے بات چیت کی امید ظاہر کی ہے۔ خیال رہے کہ 22 اپریل کو پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف جو اقدامات اٹھائے گئے تھے ان میں سے ایک سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی تھی۔ اس کے بعد سے پاکستان کی جانب سے انڈیا پر دریائے چناب کا پانی روکنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے اور پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر انڈیا نے کوئی غیرقانونی سٹرکچر بنا کر پانی کا رخ موڑنے یا روکنے کی کوشش کی تو اس سٹرکچر کو تباہ کر دیا جائے گا۔کامران بخاری سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ ایک طویل عرصے تک دونوں ممالک کے درمیان ایک مسئلہ رہے گا اور انڈیا اس پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’مودی حکومت یہ جانتی ہے کہ طویل عرصے تک جنگ لڑنا بھی اس کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ اس صورتحال میں سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہو گا، اور یہاں وہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کو وہ استعمال کرتے رہیں گے اور یہ تلوار پاکستان پر لٹکائے رکھیں گے۔ ’یہ پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے طریقے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا۔‘Getty Imagesاس بارے میں بات کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے کہا کہ ’خواہش تو یہی ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے نہ صرف پانی کا مسئلہ بلکہ دہشتگردی اور مسئلہ کشمیر کا بھی حل نکالیں نہ کہ اسے جنگ کے میدان میں جا کر حل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘انڈین ٹی وی چینلز پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں یہ سوالات پوچھے جا رہے ہیں کہ آیا انڈیا کو امریکی ثالثی کا سہارا لے کر سیزفائر کرنا چاہیے تھا اور کیا انڈیا کو پاکستان کے خلاف کشیدگی جاری رکھنی چاہیے تھی۔ بی بی سی کے ریجینل ایڈیٹر برائے جنوبی ایشیا امبراسن ایتھیراجن کے مطابق ’انڈیا ایک بار پھر یہ دلیل دے سکتا ہے کہ اس نے پاکستان کے ایٹمی ڈیٹرنس کے باوجود پاکستان کے اندر دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔’مجموعی طور پر دہلی کو یہ احساس بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے پرانے حریف کی فضائی طاقت اس کی سوچ سے کچھ زیادہ ہے، اور انڈیا نئے ہتھیاروں کے حصول پر اربوں خرچ کرنے کے باوجود فیصلہ کُن ضرب لگانے میں ناکام رہا ہے۔‘دوسری جانب ’پاکستانی فوج اپنے ملک کی عوام کو بتا سکتی ہے کہ وہ کس طرح انڈیا کی جارحیت کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ایک طرح سے پاکستانی افواج اس تنازعے میں ایک اور فاتح کے طور پر ابھری ہیں کیونکہ بظاہر پورا ملک اور اس کی عوام اُن کے پیچھے کھڑے ہیں۔’یاد رہے کہ صرف دو سال قبل سابق وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کی جانب سے پاکستانی فوج کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔‘ٹرمپ کی ’پنچایت‘ پر پاکستانیوں کو خوشی مگر انڈینز کا سوال: ’امریکی صدر نے مداخلت کیوں کی؟‘’امریکی ثالثی‘ اور ڈی جی ایم اوز کی گفتگو: پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’سیز فائر‘ کا نفاذآپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ایس 400، آکاش اور براک 8: انڈیا کا فضائی دفاعی نظام جو لڑاکا طیاروں کے ساتھ میزائلوں کو بھی روکنے کی صلاحیت رکھتا ہےرفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںپاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟