
BBCبرطانوی سپیشل فورسز کے سابق ارکان نے برسوں کی خاموشی توڑتے ہوئے بی بی سی پینوراما کو عراق اور افغانستان میں اپنے ساتھیوں کی جانب سے کیے جانے والے مبینہ جنگی جرائم کے حوالے سے آنکھوں دیکھا حال بتایا ہے۔پہلی بار عوامی سطح پر بیانات دیتے ہوئے سابق فوجیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کیسے انھوں نے ایس اے ایس کے ارکان کو نیند کی حالت میں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے زیرِ حراست افراد کو قتل کرتے دیکھا جن میں بچے بھی شامل تھے۔افغانستان میں ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے ایک نوجوان لڑکے کو ہتھکڑیاں لگائیں اور اسے گولی مار دی۔‘سابق فوجی نے کہا کہ قیدیوں کا قتل ’معمول بن گیا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی کی تلاشی لیتے، انھیں ہتھکڑیاں لگاتے اور پھر انھیں گولی مار دیتے۔ اس کے بعد پلاسٹک کی ہتھکڑیاں کاٹ دیتے تھے اور ان کی لاش کے پاس پستول رکھ دیتے۔‘ان بیانات میں ایسے جنگی جرائم کے الزامات شامل ہیں کہ جو ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط ہیں، جو اس مدت یعنی تین سال سے کہیں زیادہ ہیں جن کے خلاف برطانیہ میں پبلک انکوائری جاری ہے۔رائل نیوی کی ایلیٹ سپیشل فورس رجمنٹ ایس بی ایس کو بھی پہلی بار انتہائی سنگین الزامات میں ملوث کیا گیا ہے، جس میں نہتے اور زخمی افراد کو پھانسی دینا شامل ہے۔ایس بی ایس میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے کہا کہ کچھ فوجیوں میں ’موب مینٹیلیٹی‘ تھی اور انھوں نے ان کے رویے کو ’وحشیانہ‘ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سب سے پرسکون لوگوں کو تبدیل ہوتے دیکھا، ان میں نفسیاتی امراض کی سنگین خصوصیات ظاہر ہوئیں۔ وہ لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہے تھے، انھیں لگ رہا تھا کہ انھیں کوئی نہیں پکڑ سکتا۔‘برطانوی فوجیوں کو طالبان جنگجوؤں اور بم بنانے والوں سے بچانے کے لیے افغانستان میں خصوصی فورسز تعینات کی گئی تھیں۔ یہ جنگ برطانیہ کی مسلح افواج کے ارکان کے لیے ایک مہلک جنگ تھی جس میں 457 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔بی بی سی کی جانب سے نئے عینی شاہدین کی گواہی کے بارے میں پوچھے جانے پر وزارتِ دفاع نے کہا کہ وہ مبینہ جنگی جرائم کی جاری عوامی تحقیقات کی حمایت کرنے کے لیے ’مکمل طور پر پرعزم‘ ہے اور اس نے ایسے تمام سابق فوجیوں پر زور دیاکہ وہ سامنے آئیں جنھیں اس بارے میں معلومات ہیں۔انھوں نے کہا کہ وزارت دفاع کے لیے ایسے الزامات پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے جو انکوائری کے دائرہ کار میں ہوسکتا ہے۔BBCمبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات: ’برطانیہ کی سپیشل ایئر سروس کو افغانستان میں قتل کرنے کی کھلی چھوٹ تھی‘برطانوی سپیشل فورسز نے افغانستان میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا: بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹکیا برطانوی سپیشل فورسز نے معصوم افغان بچے قتل کیے؟اسرائیل پر ’وارکرائمز‘ کے الزامات: جنگی جرائم کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اور عدالت کن بنیادوں پر سزا دیتی ہے؟رجمنٹ میں ’نفسیاتی قاتل‘اس بار عینی شاہدین کی گواہی میں یوکے سپیشل فورسز کے سابق ارکان کے ہاتھوں ہلاکتوں کے بارے میں اب تک کا سب سے تفصیلی بیان پیش کیا گیا ہے، جس میں ایس اے ایس، ایس بی ایس اور متعدد معاون رجمنٹس شامل ہیں۔برطانیہ کی سپیشل فورسز میں یا ان کے ساتھ خدمات انجام دینے والے 30 سے زائد افراد کی گواہی ایس اے ایس کی جانب سے ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات کے بارے میں بی بی سی پینوراما کی برسوں کی رپورٹنگ پر مبنی ہے۔پینوراما پہلی بار یہ بھی انکشاف کر سکتی ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ان کے دور میں بار بار متنبہ کیا گیا تھا کہ برطانیہ کی سپیشل فورسز افغانستان میں عام شہریوں کو ہلاک کر رہی ہیں۔عینی شاہدین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ عراق اور افغانستان میں کارروائیوں کے دوران ملک کی ایلیٹ رجمنٹوں کی جانب سے جنگی قوانین کو باقاعدگی سے اور جان بوجھ کر توڑا جا رہا تھا۔ان قوانین میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں میں لوگوں کو جان بوجھ کر صرف اس صورت میں ہلاک کیا جا سکتا ہے جب وہ برطانوی فوجیوں یا دوسروں کی زندگیوں کے لیے براہ راست خطرہ ہوں۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ایس اے ایس اور ایس بی ایس کے ارکان اپنے ہی قوانین بنا رہے تھے۔ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے ان لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، 'اگر کوئی ہدف پہلے بھی دو یا تین بار فہرست میں آیا تھا، تو ہم انھیں ہلاک کرنے کے ارادے سے جاتے تھے، انھیں پکڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی تھی۔'ان کا کہنا تھا کہ 'کبھی کبھی ہم چیک کرتے تھے کہ اور ہدف کی شناخت کی تصدیق کرتے اور پھر انھیں گولی مار دیتے ۔ لیکن اکثر سکواڈرن صرف وہاں جا کر ان تمام آدمیوں کو مار ڈالتا تھا جو انھیں وہاں ملتے تھے۔'ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک عینی شاہد نے کہا کہ قتل 'نشہ آور چیز' بن سکتا ہے اور ایلیٹ رجمنٹ کے کچھ ارکان افغانستان میں 'اس احساس کے نشے میں مبتلا' تھے۔انھوں نے کہا کہ 'بہت سارے نفسیاتی قاتل' تھے۔انھوں نے کہا، 'کچھ کارروائیوں میں فوج گیسٹ ہاؤس جیسی عمارتوں میں جاتی تھی اور وہاں موجود تمام لوگوں کو ہلاک کر دیتی تھی۔ وہ اندر جاتے اور وہاں سوتے ہوئے سبھی لوگوں کو گولی مار دیتے۔ لوگوں کو نیند میں مارنا جائز نہیں ہے۔ 'ایس بی ایس میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق اہلکارنے بی بی سی کو بتایا کہ کسی علاقے کو کنٹرول میں لانے کے بعد حملہ آور ٹیمیں علاقے میں گھس کر وہاں موجود کسی بھی شخص کو گولی مار دیتیں ، لاشوں کی جانچ کرتیں اور زندہ بچ جانے والے شخص کو بھی ہلاک کر دیتیں۔'انھوں نے کہا 'یہ متوقع ہوتا، ڈھکا چھپا نہیں تھا، سب جانتے تھے۔'جان بوجھ کر ایسے زخمی افراد کو ہلاک کرنا جو خطرہ نہیں ہیں بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔ لیکن ایس بی ایس کے سابق اہلکار نے پینوراما کو بتایا کہ زخمی افراد کو باقاعدگی سے ہلاک کیا جاتا ہے۔انھوں نے ایک آپریشن کے بارے میں بتایا جس کے دوران ایک ڈاکٹر کسی ایسے شخص کا علاج کر رہا تھا جسے گولی لگی تھی لیکن وہ اب بھی سانس لے رہا تھا۔'پھر ہمارا ایک آدمی اس کے پاس آیا۔ ایک دھماکا ہوا۔ اس کے سر میں انتہائی قریب سے گولی ماری گئی تھی،'انھوں نے مزید کہا کہ یہ ہلاکتیں 'مکمل طور پر غیر ضروری' تھیں۔ یہ قتل ہے۔'Getty Imagesبی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے شہریوں کے قتل کے الزامات سے آگاہ کیا تھا گواہوں کے بیانات کے مطابق ایس اے ایس کے سینیئر آپریٹرز نے حملہ کرنے والی ٹیموں کے مزید جونیئر ممبروں سے ان الفاظ میں مرد قیدیوں کو ہلاک کرنے کو کہا کہ 'وہ ہمارے ساتھ اڈے پر واپس نہیں آ رہے' یا 'یہ قیدی، یقینی بنائیں کہ یہ نشانے سے ہٹے نہیں۔'زیر حراست وہ لوگ ہوتے جنھوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے، سپیشل فورسز نے ان کی تلاشی لیتی اور عام طور پر انھیں ہتھکڑیاں لگائی جاتی تھیں۔برطانوی اور بین الاقوامی قوانین فوجیوں کو جان بوجھ کر نہتے شہریوں یا جنگی قیدیوں کو قتل کرنے سے روکتے ہیں۔ایس اے ایس کے ایک سابق آپریٹر نے عراق میں ایک آپریشن کے بارے میں بھی بتایا جس کے دوران کسی کو قتل کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ 'میں دیکھ سکتا تھا کہ بالکل واضح تھا کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، وہ مسلح نہیں تھا۔ یہ شرمناک ہے۔ اس میں کوئی پیشہ ورانہ مہارت نہیں ہے۔'انھوں نے مزید کہا کہ قتل کی کبھی بھی مناسب طریقے سے تحقیقات نہیں کی گئیں۔ایس اے ایس کے سابق فوجی کے مطابق یہ مسئلہ رجمنٹ کے افغانستان منتقل ہونے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا اور 'سینئر کمانڈر اس سے آگاہ تھے'۔یہ گواہی اور 2006میں عراق میں ایس اے ایس آپریشنز سے بی بی سی کو حاصل ہونے والے نئے ویڈیو شواہد بھی پینوراما کی اس سابقہ رپورٹ کی تائید کرتے ہیں کہ ایس اے ایس سکواڈرن کے اہلکاروں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں ہلاکتوں کی گنتی جاری رکھی۔ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ایس اے ایس کے کچھ ارکان نے اپنا ذاتی حساب کتاب رکھا اور ایک آپریٹر نے افغانستان کے چھ ماہ کے دورے کے دوران درجنوں افراد کو ذاتی طور پر ہلاک کیا۔ان کے ایک سابق ساتھی کا کہنا تھا کہ 'ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ہر آپریشن میں کسی کو ہلاک کرنے کی کوشش کر رہے تھے، ہر رات کوئی نہ کوئی مارا جاتا تھا۔'سابق ساتھی نے مزید کہا کہ 'آپریٹر سکواڈرن میں بدنام تھا، وہ واقعی ایک نفسیاتی مریض کی طرح لگ رہا تھا۔'ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس اے ایس کے اندر بدنام ہونے والے ایک واقعے میں آپریٹر نے مبینہ طور پر پہلے ایک افسر کو ایک شخص کو دوبارہ گولی نہ مارنے کا کہا لیکن پھر اس زخمی افغان شخص کا گلا کاٹ دیاتھا۔ ایک اور سابق ساتھی کا کہنا تھا کہ 'اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جا کر زخمی شخص کو اپنے چاقو سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ یہ قتل اپنے نام کرنا چاہتا تھا۔'گواہی کے مطابق مبینہ جرائم کا علم چھوٹی ٹیموں یا انفرادی سکواڈرن تک محدود نہیں تھا۔ایک سابق اہلکار نے کہا کہ برطانیہ کی سپیشل فورسز کے کمانڈ ڈھانچے کے اندر 'ہر کوئی جانتا تھا' کہ کیا ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 'میں ذاتی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہو رہا لیکن ہر کوئی جانتا ہے، جو کچھ ہو رہا تھا اس کے لیے واضح منظوری تھی۔'عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے ایس اے ایس اور ایس بی ایس کے ارکان مرنے والوں کی لاشوں پر نام نہاد 'ڈراپ ہتھیار' نصب کرتے تھے تاکہ موقعے پر سپیشل فورسز کی ٹیموں کی جانب سے باقاعدگی سے لی جانے والی تصاویر میں ایسا لگ سکے کہ وہ مسلح ہیں۔ایس اے ایس کے ایک سابق آپریٹر کا کہنا تھا کہ 'وہ اپنے ساتھ ایک جعلی دستی بم لے کر جاتے تھے، جو پھٹ نہیں سکتا تھا۔'ایک اور سابق اہلکار سابق اہلکارنے کہا کہ آپریٹرز اے کے -47 رائفلیں لے کر جاتے جن میں فولڈنگ سٹاک ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کے بیگز میں باآسانی آ جاتی اور اسے کسی لاش کے ساتھ رکھنا آسان ہوتا ہے۔'BBCایس اے ایس کے ایک سابق اہلکار نے کہا کہ قتل کرنا ایک ’نشہ آور چیز‘ بن سکتا ہےرپورٹس ’افسانہ‘ تھیںگواہوں کے مطابق اس کے بعد افسران پوسٹ آپریشنل رپورٹس کو غلط ثابت کرنے میں مدد کرتے تاکہ حملہ کرنے والی ٹیموں کی کارروائیوں کی جانچ پڑتال سے بچا جا سکے۔سابق فوجیوں میں سے ایک کا کہنا تھا کہ 'ہم جانتے تھے کہ واقعات کا سنگین جائزہ کیسے لکھا جائے تاکہ انھیں ملٹری پولیس کے حوالے نہ کیا جائے۔'ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ایسا لگے کہ فائرنگ کا واقعہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے تو آپ کو قانونی مشیر یا ہیڈ کوارٹر کے عملے کے کسی افسر کی جانب سے فون کال موصول ہوگی۔ وہ آپ سے بات کی وضاحت کرنے میں آپ کی مدد کریں گے۔''تمہیں یاد ہے کسی نے اچانک حرکت کی تھی؟ ' 'جی ہاں، میں اب یاد آیا۔' اس طرح کی چیز۔'یو کے ایس ایف کے ایک اور تجربہ کار نے کہا کہ یہ رپورٹس 'ایک افسانہ' تھیں۔ایس بی ایس کے ساتھ کام کرنے والے ایک انٹیلی جنس افسر نے ان رپورٹس کا ذکر کیا جن میں کہا گیا تھا کہ وہ فائرنگ کے تبادلے کی زد میں آگئے تھے جبکہ تصاویر میں لاشوں کے سروں میں لگی گولیاں صاف نظر آ رہی ہیں۔غلط کاغذی کارروائی سے رائل ملٹری پولیس کی جانب سے ممکنہ تحقیقات روکنے میں مدد مل سکتی تھی، لیکن برطانوی سپیشل فورسز کی کارروائیوں نے افغان کمانڈروں اور افغان حکومت کے عہدیداروں میں گہری تشویش پیدا کی۔اجلاسوں میں شریک متعدد افراد کے مطابق ڈیوڈ کیمرون نے جون 2010 سے نومبر 2013 کے درمیان وزیر اعظم کی حیثیت سے افغانستان کے سات دورے کیے، جس عرصے کے دوران ایس اے ایس پبلک انکوائری کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی۔ انھیں افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے بار بار ان خدشات سے آگاہ کیا گیا۔افغانستان کے قومی سلامتی کے سابق مشیر ڈاکٹر رنگین دادفر سپانتا نے پینوراما کو بتایا کہ صدر کرزئی نے بارہا اس مسئلے کا ذکر کیا۔انھوں نے کہا کہ کیمرون کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ برطانیہ کی سپیشل فورسز کی کارروائیوں کے دوران بچوں سمیت شہریوں کی ہلاکت کے الزامات ہیں۔نیٹو میں امریکہ کے سابق سفیر، جنرل ڈگلس لوٹ نے کہا کہ افغان صدر 'رات کے وقت چھاپوں، شہریوں کی ہلاکتوں اور حراستوں کے بارے میں اپنی شکایات اتنی مستقل کرتے رہے کہ کہ کوئی بھی سینئر مغربی سفارت کار یا فوجی رہنما اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرتا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک بڑی پریشانی تھی'۔جنرل لوٹ نے کہا کہ یہ حد درجہ غیر معمولی ہوتا اگر برطانوی افواج کے خلاف کوئی ایسا دعویٰ کیا جاتا جس کے بارے میں برطانوی چین آف کمانڈ کو علم نہیں ہوتا۔لارڈ کیمرون کے ایک ترجمان نے پینوراما کو بتایا کہ 'لارڈ کیمرون کی یاداشت کے مطابق صدر کرزئی کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل عمومی طور پر نیٹو افواج کے بارے میں تھے اور برطانیہ کی سپیشل فورسز کے حوالے سے مخصوص واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔'ترجمان نے یہ بھی کہا کہ 'یہ درست ہے کہ ہم انکوائری کے سرکاری نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔'انھوں نے مزید کہا کہ 'کوئیایسے بات جس کے مطابق لارڈ کیمرون نے سنگین مجرمانہ غلط کاموں کے الزامات پر پردہ ڈالنے کے لیے ملی بھگت کی، سراسر فضول ہے۔'امریکہ اور فرانس سمیت بہت سے دوسرے ممالک کے برعکس، برطانیہ کے پاس اپنی ایلیٹ سپیشل فورس رجمنٹوں کی کوئی پارلیمانی نگران نہیں ہے۔ ان کے اقدامات کی سٹریٹجک ذمہ داری بالآخر وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع اور سپیشل فورسز کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے۔سابق ڈائریکٹر آف سروس پراسیکیوشن بروس ہولڈر کے سی نے پینوراما کو بتایا کہ انھیں امید ہے کہ عوامی تحقیقات میں اس چیز کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ لارڈ کیمرون کو برطانوی سپیشل فورسز کی کارروائیوں میں مبینہ شہری ہلاکتوں کے بارے میں کتنا علم تھا۔بروس ہولڈر کا کہنا تھا کہیہ جاننا ضروری ہے کہ بیماری کس حد تک بڑھ چکی ہے۔برطانوی حکومت اور فوج پر ’جنگی جرائم چھپانے‘ کا الزام’سینیئر برطانوی فوجی افسران نے غیر مسلح افغان باشندوں کو قتل کرنے کے شواہد چھپائے‘اسرائیل پر ’وارکرائمز‘ کے الزامات: جنگی جرائم کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اور عدالت کن بنیادوں پر سزا دیتی ہے؟روس پر جنگی جرائم کا الزام، یہ کیا ہوتے ہیں اور مقدمہ کیسے چلایا جاتا ہے؟کیا برطانوی سپیشل فورسز نے معصوم افغان بچے قتل کیے؟برطانوی سپیشل فورسز نے افغانستان میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا: بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ