
’میں نے اپنی زندگی میں شاید بچوں سے بھی اتنا پیار نہیں کیا جتنا پودوں سے کیا ہے۔ ان حالات میں جب ہمارے علاقے میں لوگوں کا باغبانی اور زراعت کی طرف رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، میں نے مری میں پھلوں اور سبزیوں کا ایک مثالی باغ اُگایا ہے۔‘یہ تعارف ہے ضلع مری کی یونین کونسل پوٹھہ شریف کے گاؤں سوئی کے مقامی شکیل عباسی کا، جنہوں نے نہ صرف اپنے باغ کو سنوارنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے بلکہ اُسے ذریعۂ معاش بھی بنا لیا ہے۔یہاں یہ بتانا نہایت اہم ہے کہ مری، کوٹلی ستیاں اور گلیات سمیت گرد و نواح کے علاقوں میں آج سے لگ بھگ 20 برس قبل زراعت کے شعبے میں مقامی آبادی کی دلچسپی قابلِ ذکر حد تک موجود تھی۔قریباً ہر گاؤں میں ہی مختلف اقسام کے پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی تھیں، جن میں گندم اور مکئی جیسی اجناس بھی شامل تھیں۔اس بنا پر یہ علاقہ زرعی خود کفالت کی ایک عمدہ مثال سمجھا جاتا تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رجحان بتدریج کم ہوتا چلا گیا، اور اب شاذ ہی کوئی ایسا گاؤں ہوگا جہاں زرعی سرگرمیوں کو پوری سنجیدگی سے جاری رکھا جا رہا ہو۔اس کے باوجود رواں برس مری اور گرد و نواح میں پھلوں اور سبزیوں کی خاصی اچھی پیداوار دیکھنے کو ملی ہے۔ یہاں آلو بخارا، خوبانی، سیب، ناشپاتی جب کہ بعض مقامات پر جامن اور دیگر موسمی پھلوں کی وافر پیداوار ہوئی ہے۔اس حوالے سے محکمہ زراعت مری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد احمد کا کہنا ہے کہ ’حکومت پنجاب کی جانب سے ان علاقوں میں زرعی سرگرمیوں کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں مقامی دیہی آبادی کو زراعت کی افادیت سے آگاہ کرنا، پودوں کی فراہمی اور ٹریکٹر جیسی زرعی سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔‘شکیل عباسی نے اپنے باغ میں آلو بخارا، امرود، خوبانی، پہاڑی آڑو، ناشپاتی، امرود، لیموں اور مالٹے اُگا رکھے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)ماہرینِ موسمیات کا کہنا ہے کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں نے فصلوں اور پھلوں کی پیداوار پر منفی اثرات ڈالے ہیں، تاہم اگر محنت اور توجہ سے کام کیا جائے تو ان فصلوں اور باغات کو بحال رکھا جا سکتا ہے۔‘مقامی شہری اور زمین دار شکیل عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کے پاس کم و بیش ایک سے دو کنال زمین ہے، جس پر وہ قریباً 70 مختلف اقسام کے پھل اور سبزیاں کاشت کر رہے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس زیادہ تر موسمی اور نایاب درخت موجود ہیں، جو میں نے اپنے باغیچے میں خود لگائے ہیں۔‘انہوں نے پھلوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’انہوں نے اپنے باغ میں مری کے روایتی پھلوں جیسے آلو بخارا، امرود، خوبانی، پہاڑی آڑو، ناشپاتی، امرود، لیموں اور مالٹا کے ساتھ ساتھ جامن بھی اُگا رکھے ہیں۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’میرے باغ میں سب سے زیادہ آلو بخارے کے درخت ہیں، جن میں تین سے چار اقسام شامل ہیں جبکہ سیب کی بھی تین چار مختلف اقسام میرے باغیچے کی زینت ہیں۔‘شکیل عباسی نے سبزیوں کے حوالے سے کہا کہ ’ایسی کوئی سبزی نہیں جو یہاں اگائی جائے اور اس کی نشوونما نہ ہو۔ بھنڈی، لہسن، پیاز، کھیرے اور بینگن سمیت کئی سبزیاں ان کے باغ میں باقاعدگی سے کاشت ہوتی ہیں اور عمدہ پیداوار دیتی ہیں۔‘شکیل عباسی نے جنگلی سؤروں اور دیگر جانوروں سے فصلوں اور پھلوں کو بچانے کے لیے حفاظتی باڑ لگا رکھی ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)ان کا باغیچے کی دیکھ بھال کے حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی محنت سے اس کی نگہداشت کی ہے۔ وہ کسی اور کی مدد لینے میں اطمینان محسوس نہیں کرتے۔انہوں نے جنگلی سؤروں اور دیگر جانوروں سے فصلوں اور پھلوں کو بچانے کے لیے حفاظتی باڑ لگا رکھی ہے۔انہوں نے حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے پودوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں حکومت یا کسی تنظیم سے پودے نہیں لیتا کیونکہ وہ نسلی پودے نہیں ہوتے۔ ان کے بیج معیاری نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے بہتر نتائج حاصل نہیں ہوتے۔‘شکیل عباسی کے مطابق انہوں نے اپنے باغ میں 70 اقسام کے تمام پودے خود اگائے ہیں، اور قلم تراشی کے ذریعے ایک خوبصورت باغیچہ تخلیق کیا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ مری اور آس پاس کے علاقوں میں کھیتی باڑی کا رجحان کم ہونے کے باوجود وہ کیسے باغبانی قائم رکھے ہوئے ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ مجھے کافی عرصے سے باغبانی کا شوق ہے۔ اسی شوق کی خاطر میں نے اپنے گھر میں کوئی جانور نہیں رکھا کیونکہ وہ پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔’میں نے شاید اپنی اولاد سے بھی اتنا پیار نہیں کیا جتنا ان پودوں سے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دوسرے لوگ بہانے بناتے ہیں، میں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ انسان اگر چاہے تو ایک شاندار باغیچہ قائم کر سکتا ہے۔‘ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر ایکسٹینشن ڈاکٹر محمد احمد نے بتایا کہ ’مری میں بعض اوقات موسمی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ پھل ضائع ہو جاتے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: فیاض عالم)انہوں نے پھلوں کی فروخت کے حوالے سے بتایا کہ ’وہ ہر سال درجنوں پیٹیوں میں پھل پیک کر کے مری شہر اور گرد و نواح کے علاقوں میں فروخت کرتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہر سال اتنی پیداوار ہو جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اس کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں بلکہ اپنی مناسب گزر بسر بھی ممکن بنا لیتے ہیں۔‘انہوں نے اس تاثر کو مکمل طور پر رَد کیا کہ ’مری کی زمین اب زرخیز نہیں رہی۔ ہماری زمین آج بھی زرخیز ہے اور اگر لوگ محنت کریں تو اچھی خاصی کاشت کاری ممکن ہے۔‘ ’آپ اگر زمین پر دو گھنٹے محنت کریں، تو وہ آپ کو چار گھنٹے کی محنت کے برابر پھل دے گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اب لوگوں نے زمین سے رشتہ توڑ لیا ہے، اور آبائی علاقوں کو چھوڑ کر شہروں کا رخ کر لیا ہے۔‘ضلع مری میں اس مرتبہ عمدہ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کے حوالے سے اردو نیوز نے محکمہ زراعت پنجاب مری کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر ایکسٹینشن ڈاکٹر محمد احمد سے رابطہ کیا۔انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس خطے کی زمین آج بھی زرخیز ہے اور جن علاقوں میں مقامی لوگ اس کی مناسب دیکھ بھال کرتے ہیں، وہاں پھل اور سبزیاں بھرپور انداز میں پیدا ہوتی ہیں۔‘ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’مری میں بعض اوقات موسمی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ پھل ضائع ہو جاتے ہیں۔‘ان کے مطابق علاقے میں اکثر ژالہ باری اور طوفانی بارشوں کے باعث درختوں پر لگے پھل جھڑ جاتے ہیں یا خراب ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں پھل کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔’اسی طرح بعض اوقات برفباری اس وقت ہو جاتی ہے جب پودوں پر پھول آ چکے ہوتے ہیں۔ یہی پھول بعد میں بارآور ہو کر پھل بناتے ہیں، لہٰذا اگر برفباری کی وجہ سے پھول جھڑ جائیں تو اُس سال پھل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ ژالہ باری یا طوفان نہ آئیں تو پیداوار بہتر ہوتی ہے۔‘ ڈاکٹر احمد نے اس سال پھلوں کی بہتات کی ایک بڑی وجہ موسم کی بہتری کو بھی قرار دیا ہے (فائل فوٹو: شکیل عباسی)ڈاکٹر احمد نے اس سال پھلوں کی بہتات کی ایک بڑی وجہ موسم کی بہتری کو بھی قرار دیا ہے۔انہوں نے اس خیال کو بھی مسترد کیا کہ ’کسی پودے کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ایک سال پھل دے اور اگلے سال نہ دے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پودے کی پیداوار کا انحصار مکمل طور پر موسمی حالات اور مقامی لوگوں کی محنت پر ہوتا ہے۔‘محکمہ زراعت کی جانب سے مقامی آبادی کو سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر محمد احمد نے بتایا کہ ’ہر سال فروری کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں لوگوں کو مختلف اقسام کے پودے جن میں آلو بخارا، خوبانی وغیرہ شامل ہیں، مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر فراہم کیے جاتے ہیں۔‘انہوں نے مقامی آبادی کو زراعت کی طرف راغب کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’تحصیل مری اور تحصیل کوٹلی ستیاں کے 45-45 دیہات میں روزانہ کی بنیاد پر محکمہ زراعت کے نمائندے جاتے ہیں۔ وہ ہر گاؤں میں جا کر زراعت کے فوائد سے متعلق شعور اجاگر کرتے ہیں اور لوگوں کو اس شعبے میں دلچسپی لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’اس کے علاوہ مقامی کسانوں کو ’کسان کارڈ‘ اور حکومت پنجاب کے دیگر زرعی منصوبوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس سال صرف مری میں چار کاشت کاروں میں چار ٹریکٹر تقسیم کیے گئے ہیں، جو مقامی زراعت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔‘نورین حیدر کے مطابق ہمیں اپنے طرزِ کاشت کو بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ ہم آہنگ بنانا ہو گا (فوٹو: شکیل عباسی)ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کام کا تجربہ رکھنے والی ماہر نورین حیدر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مری اور کوٹلی ستیاں میں اگر حالیہ برسوں میں حکومت یا مقامی افراد نے پھلوں، سبزیوں اور زراعت کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے ہیں تو ممکن ہے کہ ان کا ثمر اب سامنے آ رہا ہو۔‘انہوں نے اس حوالے سے ایک مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’کچھ دہائیاں قبل سوات میں زیتون کے درخت پھل نہیں دیتے تھے۔ اس وقت حکومت نے سپین سے قلم منگوا کر مقامی پودوں کی قلم کاری کی، جس کے نتیجے میں 10 سے 20 سال بعد سوات میں زیتون کی بھرپور کاشت ممکن ہو سکی۔ آج پاکستان بھر میں سوات کا زیتون معروف اور دستیاب ہے۔‘نورین حیدر کا کہنا تھا کہ ’بعید نہیں کہ مری اور اس کے گرد و نواح میں بھی حکومت کی جانب سے ماضی میں کوئی ایسی مداخلت (انٹروینشن) کی گئی ہو، جس کا اثر اب دکھائی دے رہا ہو۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار پر براہ راست اثر ضرور پڑتا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کا واحد مؤثر راستہ ’مطابقت‘ ہے یعنی ہمیں اپنے طرزِ کاشت کو بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ ہم آہنگ بنانا ہو گا تاکہ فصلوں اور پھلوں کی بہتر نگہداشت اور پیداوار ممکن بنائی جا سکے۔‘