وجے شاہ بمقابلہ علی خان محمودآباد: ’آج کے انڈیا میں شاید گاندھی، نہرو اور امبیدکر کو بھی محبِ وطن نہ سمجھا جاتا‘


انڈیا پاکستان کے حالیہ تنازعے نے جہاں دونوں ممالک کو سفارتی طور پر سرگرم عمل کر دیا ہے وہیں انڈیا میں دانشوروں اور تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد تقسیم کا شکار بھی ہیں۔ گذشتہ دنوں جہاں انڈیا کی ایک درجن سے زیادہ یونیورسٹیوں کے رواں اور سابقہ وائس چانسلرز سمیت 200 لکچرار اور پروفیسروں نے اشوکا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر علی خان محمودآباد کی سوشل میڈیا پوسٹ کے خلاف تحریری بیان جاری کیا، وہیں دانشوروں کی ایک بڑی برداری اور ٹیچرز ایسوسی ایشن نے ان کے حق میں آواز بلند کی۔اگرچہ علی خان محمود آباد کو سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے لیکن انڈیا میں ایک طبقہ عدالتِ عظمیٰ کی اس ’فراخدلی‘ کو اظہارِ رائے کی آزادی کو زک پہنچانے کے مترادف سمجھتا ہے۔دوسری جانب یہ مباحثہ بھی جاری ہے کہ ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر ایک پروفیسر کو گرفتار کر لیا جاتا ہے جبکہ کھلے عام انڈین حکومت کے ’آپریشن سندور‘ کے بارے میں فوج کے مؤقف کو میڈیا کے سامنے رکھنے والی کرنل صوفیہ قریشی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے بی جے پی رہنما کنور وجے شاہ کی گرفتاری تو نہیں ہوتی البتہ عدالت کے حکم کے بعد ان کے خلاف شکایت ضرور درج کر دی جاتی ہے۔اظہارِ رائے کی آزادی کے علمبرداروں نے عدالتِ عظمی کے فیصلے پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ معروف ماہر تعلیم اور اشوکا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر بھانو پرتاپ مہتا نے 24 مئی کو شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’سپریم کورٹ کا حکمنامہ ہمارے اپنے حقوق پر سایہ ڈال رہا ہے۔‘جبکہ دوسری جانب ترنمول کانگریس کی رہنما اور رکن پارلیمان مہوا موئترا اپنے ایک انٹرویو میں وجے شاہ کے عدم کارروائی اور اور علی خان کی گرفتار پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ’مسلم کُش‘ اقدام قرار دیا۔ان کے علاوہ بہت سے دوسرے اخباروں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنا اداریہ بھی لکھا ہے۔ اگرچہ دونوں معاملوں میں عدالت کی جانب سے ایس آئی ٹی (تفتیشی ٹیم) بنائی گئی ہے لیکن سوشل میڈیا پر اس بارے میں گرما گرم بحث جاری ہے۔ابھی تک کیا ہوا ہے؟گذشتہ اتوار کو علی خان محمود آباد کو دہلی میں ان کے گھر سے ریاست ہریانہ کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ایسا ان پرحکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک نوجوان رکن کی طرف سے دائر کی گئی شکایت کی بنیاد پر کیا گیا تھا جس میں ان پر قومی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے اور مذہبی گروپس کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔بہر حال بدھ کو سپریم کورٹ نے علی خان محمود آباد کی رہائی کا حکم دیا لیکن ان کے خلاف تحقیقات روکنے سے انکار کر دیا۔عدالت نے کہا کہ ’ایف آئی آر کی وجہ بننے والی دو آن لائن پوسٹس کے حوالے سے ہم مطمئن ہیں لیکن تحقیقات کو روکنے کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔‘ عدالت نے مزید کہا کہ تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم اس کیس کو مزید دیکھے گی۔ججوں نے علی خان محمود آباد کو ان پوسٹوں سے متعلق کوئی آن لائن آرٹیکل لکھنے یا آن لائن بیان دینے سے بھی روک دیا ہے اور انھیں اپنا پاسپورٹ جمع کروانے کا کہا ہے۔فیصلے کے فوراً بعد اشوکا یونیورسٹی نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مسٹر محمود آباد کو ضمانت دینے کے عدالت کے فیصلے پر اسے ’دلی خوشی‘ ہوئی ہے اور ضمانت نے ’اشوکا یونیورسٹی میں ان کے خاندان اور ہم سب کو بہت سکون فراہم کیا ہے۔‘دوسری جانب کنور وجے شاہ نے گذشتہ روز اپنے سوشل میڈیا پوسٹ پر تحریری اور زبانی بیان دیا ہے جس میں انھوں نے اپنے متنازع بیان کے لیے معافی مانگی ہے۔’پھر سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں‘انھوں نے کہا کہ ’پچھلے دنوں پہلگام میں ہونے والے قابل مذمت قتل کے معاملے سے میں بہت اداس اور پریشان ہوں، ملک کے لیے میری بے انتہا محبت اور انڈین فوج کے لیے ہمیشہ عزت رہی ہے، میرے ذریعے کہے گئے الفاظ سے اگر کسی فرقے، مذہب، ملک کے لوگوں کو دکھ پہنچا ہے تو یہ میری زبان کی بھول تھی، میرا مقصد کسی مذہب، ذات پات اور فرقے کو ٹھیس پہنچانے، مجروح کرنے کا نہیں تھا۔’میں بھول سے اپنے کہے گئے الفاظ کے لیے تمام انڈین فوج سے، بہن کرنل صوفیہ سے، اور ساری قوم سے پوری طرح سے معافی کا طلبگار ہوں اور پھر سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں۔‘انھوں نے کرنل صوفیہ قریشی کو 'دہشت گردوں کی بہن' کہا تھا۔اگرچہ ان کے معافی نامے پر 22 مئی کی تاریخ درج ہے لیکن سوشل میڈیا پر انھوں نے گذشتہ روز اسے 23 تاریخ کو پوسٹ کیا ہے۔مہوا موئترا نے انڈیا کے مؤقر اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے علی خان محمود آباد اور وجے شاہ کے معاملے کا موازنہ کرتے ہوئے کہا: ’ان دونوں کے خلاف ان ہی تین دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ لیکن علی کے معاملے میں کسی بی جی پی ورکر کی شکایت پر آپ جاتے ہیں اور پولیس انھیں ان کے گھر سے صبح سویرے ساڑھے چھ بجے اٹھا لیتی ہے، جیسے کہ آپ کسی بڑے مطلوبہ دہشت گرد کو اٹھا رہے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب ان کی اہلیہ نو ماہ کی حاملہ ہیں۔’لیکن وجے شاہ کے معاملے میں جو کہ بہت ہی واضح اور صاف جرم ہے مدھیہ پردیش پولیس کچھ نہیں کرتی ہے۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کو از خود نوٹس لینی پڑتی ہے اور وہ پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کہتی ہے۔ مدھیہ پردیش پولیس دباؤ میں آ کر انھی دفعات 152، 196 (1 بی) اور دفعہ 197 (1 سی) کے تحت جن کے تحت علی محمود آباد کے خلاف کیس درج ہوا تھا ایف آئی آر درج کرتی۔ لیکن پولیس وجے شاہ کے معاملے میں کچھ نہیں کرتی ہے۔‘’آپریشن سندور پر تبصرہ کرنے پر‘ پروفیسر علی خان محمودآباد کی گرفتاری: ’یہ پوسٹ انڈیا کی سالمیت کو کیسے خطرے میں ڈال رہی ہے؟‘کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق متنازع بیان پر سپریم کورٹ بھی برہم: ’ملک سنگین صورتحال سے گزر رہا ہو تو ہر لفظ ذمہ داری سے بولنا چاہیے‘انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران ’انفارمیشن وار‘ اور وہ فوجی اہلکار جو اس ’جنگ‘ کا چہرہ بن گئے’آئی فون انڈیا میں نہیں امریکہ میں بنائیں‘: ٹرمپ کا غیر معمولی بیان اور کنگنا رناوت کی ٹویٹ جس پر انھیں معافی مانگنی پڑیGetty Imagesمہوا موئترا اپنے بیباک انداز کے لیے جانی جاتی ہیں’انھیں مسلمان ہونے کی وجہ سے اٹھایا گیا‘’اس کے بعد ہائی کورٹ پولیس کو کہتی ہے کہ آپ نے اس طرح سے ايف آئی آر درج کی ہے کہ آپ اسے بعد میں ختم کر سکیں۔ وجے شاہ سپریم کورٹ میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم معافی مانگتے ہیں، شکر ہے کہ سپریم کورٹ ان کی معافی کو قبول نہیں کرتی اور اسے بیہودہ قرار دے کر مسترد کر دیتی ہے اور تحقیقاتی کمیٹی قائم کرتی ہے۔ لیکن وہ ابھی بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’انھی دفعات پر آپ نے علی محمود آباد کو گرفتار کر لیا۔ کیوں؟ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تردد نہیں ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر علی محمود آباد جیسی شخصیت، ان کی تعلیم، ان کے خاندانی پس منظر، ان کی انڈیا اور عالمی سطح پر تعلیمی خدمات کو دیکھیں اور اگر انھیں اٹھایا جا سکتا ہے تو آپ سوچیں کہ انڈیا میں رہنے والے 200 ملین مسلمانوں کے ساتھ تو ماب لنچنگ کے ساتھ ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘معروف ٹی وی ہوسٹ ارنب گوسوامی نے علی خان محمود آبادپر ایک پروگرام میں کہا کہ ’اس پروفیسر نے جو کچھ کیا ہے وہ ناقابلِ معافی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ہمارا ملک پاکستان کے ساتھ جنگ میں ہے وہ انڈین فوجی کو مذہبی خطوط پر تقسیم کر رہے ہیں۔‘ان کے پروگرام کے ایک حصے کو شیئر کرتے ہوئے آلٹ نیوز کے شریک بانی اور فیکٹ چیکر محمد زبیر نے لکھا کہ ’ارنب میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف بی جے پی کے وزیر وجے شاہ سے ان کے ریمارکس پر سوال کریں۔ وہ سیکریٹری خارجہ (وکرم مصری) اور ان کے خاندان پر دائیں بازو کے حملے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے لیکن اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان پر بغیر کسی قصور کے حملہ کریں گے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔‘عدالت کے فیصلے پر سوالبہر حال اس معاملے میں عدالت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کی کیسی تعریف وضع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔دی ہندو نے کوشل کشور بنام ریاست اترپردیش (2023) کے ایک مقدمے کے حوالے سے لکھا کہ ایک آئینی بنچ نے دہرایا کہ آرٹیکل 19(2) میں درج بنیادیں مکمل ہیں۔ آئینی فریم ورک میں کوئی اضافی پابندیاں نہیں، چاہے وہ کتنی ہی نیک نیتی پر مبنی کیوں نہ ہوں۔ ججوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’کسی کو بھی ایسی رائے دینے پر ٹیکس یا جرمانہ نہیں کیا جا سکتا جو آئینی اقدار کے مطابق نہ ہو۔‘اسی حوالے سے بمبئی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس گوتم پٹیل نے دی ہندو کو بتایا: ’میں نہیں مانتا کہ مسٹر محمود آباد کی کسی بھی پوسٹ میں فطری طور پر کوئی قابل اعتراض بات ہے۔ ان میں کوئی بھی چیز آرٹیکل 19(2) میں متعین کردہ پیرامیٹرز کی خلاف ورزی کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ ’یہاں تک کہ اگر پوسٹیں پیچیدہ ہوں یا ان کی متعدد تشریحات کی جا سکتی ہیں تو بھی آئینی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ اظہار رائے کے حق کی حمایت کرنے والی تشریح کو غالب ہونا چاہیے۔‘Getty Imagesپرتاپ بھانو مہتا دہلی میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے صدر اور سی ای او رہ چکے ہیںپرتاپ بھانو مہتا نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ کس طرح عدالت کا فیصلہ ہمارے حقوق پر اثر ڈال رہا ہے۔انھوں نے لکھا کہ ’سب سے پہلے، حکم کی شرائط بذات خود حقوق کا ایک ناجائز انکار ہے۔ خان، جو ایک ماہر تعلیم ہیں، سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا پاسپورٹ حوالے کر دیں اور لکھنے سے باز آ جائیں۔ یہ راحت کی بات ہے کہ وہ جیل میں نہیں ہیں۔ لیکن درحقیقت سپریم کورٹ انھیں پہلے ہی ایک غیر یقینی مدت کے لیے سزا دے چکی ہے، ایسی سزا جس کے وہ مستحق نہیں ہیں۔‘انھوں نے مزید لکھا: ’یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ سپریم کورٹ اتنا بھولا ہے کہ جس طرح سے سماجی کنٹرول کا استعمال کیا جا رہا ہے اور طریقہ کار کی علامت کے ذریعے آزادی کو کم کیا جا رہا ہے وہ اسے نہیں سمجھتا۔ طریقہ کار قانون کے لیے بہت اہم ہے، اور صحیح طریقے سے کیا جانا، قانونی تحفظ کا ایک لازمی عنصر بن سکتا ہے۔’انڈیا میں یہ کوئی راز نہیں ہے کہ طریقہ کار حفاظتی اقدام نہیں ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے جس کے پیچھے قانونی پیشہ چھپا ہوا ہے تاکہ حقوق اور انصاف کے بنیادی معاملات کو دھندلا دیا جائے۔‘دریں اثنا اس حوالے سے وطن پرستی کی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔ بھانو پرتاپ مہتا لکھتے ہیں: 'ایک بات تو یہ ہے کہ حب الوطنی ایک مبہم اور غیر واضح چیز ہے۔ معیار کون طے کرتا ہے؟ موجودہ معیارات کے تحت، مجھے پورا یقین ہے کہ مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، اور ممکنہ طور پر بی آر امبیدکر کو بھی مختلف مواقع پر غیر محب وطن سمجھا گیا ہوتا۔ کچھ طریقوں سے بات کو حب الوطنی کی طرف منتقل کر کے عدالت، شعوری یا غیر شعوری طور پر، کسی نظریے کو قانونی حیثیت دے رہی ہے، بولنے یا آزادی کی حفاظت نہیں کر رہی ہے۔ حب الوطنی پر سکول ماسٹر بننا عدالت کا کام نہیں ہے۔'’آئی فون انڈیا میں نہیں امریکہ میں بنائیں‘: ٹرمپ کا غیر معمولی بیان اور کنگنا رناوت کی ٹویٹ جس پر انھیں معافی مانگنی پڑی’آپریشن سندور پر تبصرہ کرنے پر‘ پروفیسر علی خان محمودآباد کی گرفتاری: ’یہ پوسٹ انڈیا کی سالمیت کو کیسے خطرے میں ڈال رہی ہے؟‘کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق متنازع بیان پر سپریم کورٹ بھی برہم: ’ملک سنگین صورتحال سے گزر رہا ہو تو ہر لفظ ذمہ داری سے بولنا چاہیے‘انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران ’انفارمیشن وار‘ اور وہ فوجی اہلکار جو اس ’جنگ‘ کا چہرہ بن گئےانڈین ریاست بہار میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں نوجوان کا قتل، بھائی زخمی: ’میرے بیٹے کو مسلمان ہونے اور باڈی بنانے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘’پاکستانی عوام بھائیوں کی طرح ہیں‘: کیا انڈیا کے ’آپریشن سندور‘ کے بعد ترکی نے پاکستان کا ساتھ دیا؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

پنجاب میں طوفانی بارشوں اور آندھی سے تباہی: کم از کم آٹھ افراد ہلاک، 45 زخمی

پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

پاکستان نے ’باعثِ بدنامی‘ ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

ہائیپوگیمی: وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین جو اپنے سے کم قابل مردوں سے رشتہ جوڑنے پر مجبور ہیں

پاکستان نے ’بدنامی کا باعث بننے والے‘ ڈی پورٹ شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

آتش زنی کا شبہ، خاندان کی ہلاکت اور شواہد ضائع ہوجانا: برطانیہ میں انصاف کے منتظر پاکستانی نژاد ڈاکٹر شکور کی کہانی

گجرات سے آئے چار سیاح جن کی لاشیں سکردو میں دریا کنارے سے ملیں: ’ریسکیو اہلکار رسیوں کی مدد سے نیچے گئے‘

’یہ کیسا دھماکہ تھا؟‘: وہ المناک لمحہ جب ٹائٹن آبدوز سمندر کی گہرائی میں تباہ ہوئی

وجے شاہ بمقابلہ علی خان محمودآباد: ’آج کے انڈیا میں شاید گاندھی، نہرو اور امبیدکر کو بھی محبِ وطن نہ سمجھا جاتا‘

پی آئی اے طیارہ ہائی جیکنگ: جب ہائی جیکروں کو دھوکہ دینے کے لیے پاکستان کا حیدرآباد انڈیا کا بھوج بن گیا

’بس، بہت ہو گیا‘: نیتن یاہو کے لیے ہنگامہ خیز ہفتہ، غزہ میں بھوک اور عالمی ’سفارتی سونامی‘ کے بیچ خاموش بیٹھے ٹرمپ

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شیلز کا خوف اور ٹوٹے پھوٹے مکان: ’میری بیٹی تو اب رات کو ستاروں سے بھی ڈرنے لگی ہے‘

’ذمہ داران سے سختی سے نمٹا جائے گا‘: شمالی کوریا میں پانچ ہزار ٹن وزنی نیا جنگی جہاز جو کِم جانگ اُن کی موجودگی میں الٹ گیا

’بسواراجو‘ کی ہلاکت: انڈین پولیس کمانڈوز کی ہلاکت کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کا یونیورسٹی سٹوڈنٹ سے سرکردہ ماؤ نواز باغی رہنما بننے کا سفر

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں لائیو شیلز کا خوف اور ٹوٹے پھوٹے مکان: ’میری بیٹی تو اب رات کو ستاروں سے بھی ڈرنے لگی ہے‘

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی