ہائیپوگیمی: وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین جو اپنے سے کم قابل مردوں سے رشتہ جوڑنے پر مجبور ہیں


Getty Imagesخواتین کا شادی کرنا ایک زمانے سے سماجی وطیرہ رہا ہے۔ اب چاہے وہ پریوں کی کلاسیکی کہانی میں سنڈریلا اور پرنس چارمنگ ہو یا پھر معروف انگریزی ناول نگار جین آسٹن کے ناول ’پرائڈ اینڈ پریجڈس‘ کے مرکزی کردار الزبتھ بینیٹ اور مسٹر ڈارسی کی شادیاں کیوں نہ ہوں۔لیکن جیسے جیسے خواتین زیادہ تعداد میں اعلیٰ تعلیم اور مالی خودمختاری حاصل کر رہی ہیں ان روایتی رویوں میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔اور اسی کے متعلق آسٹریا کی یونیورسٹی آف ویانا سے تعلق رکھنے والی ماہرِ عمرانیات نادیہ سٹائبر کہتی ہیں کہ 'آج کے نوجوانوں میں ایک بڑھتا ہوا عدم توازن نظر آ رہا ہے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔'اس کا نتیجہ یہ نظر آ رہا ہے کہ اگرچہ زیادہ تر خواتین ایسے شریکِ حیات کی خواہاں ہوتی ہیں جو تعلیمی یا معاشرتی لحاظ سے ان کے برابر ہو لیکن انھیں اکثر دوسرے درجے کے انتخاب پر سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے جسے پارٹنرنگ 'ڈاؤن' یا کم تر رشتہ کہا جا رہا ہے۔سماجی علوم میں اس رجحان کو 'ہائپوگیمی میں اضافے' طور پر بیان کیا جاتا ہے۔kkshepel/Getty Imagesشادی کی تقریب کا جشنہائپوگیمی کیا ہے؟ہائپوگیمی سے مراد سماجی، معاشی یا تعلیمی حیثیت میں خود سے کم تر کسی شخص سے شادی کرنا یا رومانوی تعلق قائم کرنا ہے۔روایتی طور پر اس کا الٹ ہائپرگیمی زیادہ عام اور سماجی طور پر قابل قبول رہا ہے رہا ہے جس میں عورت کسی اعلیٰ حیثیت والے مرد سے رشتہ کرتی ہے۔ ثقافتی طور پر خواتین کو ہمیشہ ایسے مردوں کی تلاش کی ترغیب دی گئی ہے جو مالی طور پر مستحکم، عمر میں بڑے یا تعلیم یافتہ ہوں۔Historical Picture Archiveسنڈریلا کی کہانی ہائپرگیمی کی مثال ہے جس میں وہ غلامی کی زندگی سے نکل کر پرنس چارمنگ سے شادی کرتی ہےبرطانوی ماہرِ عمرانیات اور لندن کے تھنک ٹینک سیویٹاس میں پروفیسر کی سطح کی فیلو محقق کیتھرن ہاکم کہتی ہیں کہ 'تاریخی طور پر، لڑکوں کو لڑکیوں کی نسبت زیادہ تعلیم دی جاتی تھی کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ انھیں کام کرنا ہے جبکہ لڑکیاں گھریلو کام سیکھتی تھیں۔'ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'میاں بیوی کے درمیان عمر اور تعلیم کا بڑا فرق مردانہ بالادستی کو فروغ دیتا رہا۔ لیکن اب مرد و زن کے درمیان تعلیمی برابری جدید اور خوشحال معاشروں کی پہچان ہے۔'اعداد و شمار میں تبدیلیحالیہ اعداد و شمار اس بدلتی ہوئی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ سنہ 2023 میں پیو ریسرچ سنٹر کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں 24 فیصد خواتین ایسی ہیں جن کی تعلیم ان کے شوہروں سے زیادہ تھی جبکہ سنہ 1972 میں یہ شرح 19 فیصد تھی۔اسی تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ 29 فیصد شادیوں میں میاں بیوی تقریباً ایک جتنا کماتے تھے۔ اگرچہ پرانا ماڈل اب بھی غالب ہے، جس میں آدھے سے زیادہ مرد مرکزی یا واحد کمانے والے ہوتے ہیں لیکن 16 فیصد شادیوں میں یہ کردار خواتین نے سنبھالا ہوا تھا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے پچاس برسوں میں ایسی خواتین جن کی آمدنی ان کے شوہروں کے برابر یا اس سے زیادہ تھی ان کی تعداد تقریباً تین گنا ہو گئی ہے۔Mark Lawrence/TV Timesجین آسٹن کی ناول پرائڈ اور پریجوڈس کو بعد میں ٹی وی سیریز میں پیش کیا گیا جو کہ بہت مقبول ہوئییہ تبدیلیاں پرانی صنفی روایات کو چیلنج کر رہی ہیں اور تعلقات کی توقعات کو دوبارہ تشکیل دے رہی ہیں، جس سے اکثر موجودہ حقیقت اور پرانی سماجی ترجیحات کے درمیان ایک قسم کی کشمکش پیدا ہو رہی ہے۔اگنائٹ دیٹنگ کی میچ میکر مشیل بیگی کہتی ہیں: 'اگرچہ کچھ خواتین اب بھی سماجی و معاشی طور پر بہتر شریکِ حیات کی تلاش میں ہوتی ہیں، لیکن بہت سی خواتین روایتی حیثیت کے معیار کے بجائے اب جذباتی ہم آہنگی، مشترکہ اقدار اور باہمی احترام کو اہمیت دیتی ہیں۔'وہ کہتی ہیں کہ 'یہ نیا رجحان برابری پر مبنی تعلقات کی طرف ایک وسیع تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں رشتے میں درجہ بندی والے ڈھانچے کے بجائے شراکت اور ذاتی خوشی کو اہمیت دی جاتی ہے۔'مز ہاکم کے مطابق یورپ اور شمالی امریکہ میں تعلیمی برابری اب سب سے عام رجحان بن چکی ہے۔وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'تقریباً نصف، بلکہ بعض اوقات تین چوتھائی جوڑوں میں تعلیمی برابری پائی جاتی ہے۔ تقریباً ایک تہائی خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ شوہر کا انتخاب کرتی ہیں، جبکہ تقریباً پانچواں حصہ مردوں کا ایسا ہوتا ہے جو تعلیم میں اپنی بیویوں سے کم ہوتے ہیں۔ لہٰذا تعلیمی برابری اب معمول بن چکی ہے۔'’سب سے زیادہ خرچ زیورات پر آتا ہے‘: نمود و نمائش سے بھرپور مہنگی شادیاں جو لوگوں کو مقروض بنا دیتی ہیںجنوبی کوریا کے سیاستدان مردوں میں خودکشی کے رجحان کا ذمہ دار خواتین کو کیوں ٹھہرا رہے ہیں؟پاکستانی خواتین کو رشتہ ایپس پر مردوں کے دھوکے کا سامنا: ’خود کو کنوارہ ظاہر کرنے والے شخص کی اپنی 17 سال کی بیٹی تھی‘چینی خواتین کے مصنوعی بوائے فرینڈ: ’یہ دھوکہ دینے جیسا ہے لیکن مجھے اس کی ضرورت ہے‘عالمی معیاراگرچہ مغربی معاشروں میں 'ہائپوگیمی' (یعنی خواتین کا کم تعلیمی یا سماجی حیثیت والے مردوں سے شادی کرنا) اب زیادہ نمایاں رجحان نظر آ رہا ہے لیکن دنیا کے بہت سے حصوں میں اب بھی 'ہائپرگیمی' (یعنی خواتین کا بہتر حیثیت والے مردوں سے شادی کرنا) غالب رجحان ہے۔امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ سے تعلق رکھنے والی ماہرِ عمرانیات سونالڈے دیسائی کہتی ہیں کہ ہندو مذہبی کتابوں میں ایک ہی ذات میں شادی کرنے کو افضل قرار دیا گیا ہے لیکن وہاں 'انُلوما' شادی کی اجازت ہے جس میں مرد کسی نچلی ذات کی عورت سے شادی کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس 'پرتیلوما' شادی یعنی مرد کا اپنے سے کسی اونچی ذات کی عورت سے شادی کرنا ممنوع ہے۔MarcoVDM/Getty Imagesانڈیا میں ایک ہی ذات میں 95 فیصد شادیاں ہوتی ہیں اور اسے عام طور پر والدین یا رشتہ دار طے کرتے ہیںوہ بتاتی ہیں کہ انڈیا میں اب بھی زیادہ تر شادیاں والدین یا رشتہ داروں کے ذریعے طے کی جاتی ہیں اور تقریباً 95 فیصد شادیاں اپنی اپنی ذات میں انجام پاتی ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والے شادی کے اشتہارات میں عموماً دلہے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عمر میں بڑا، قد میں لمبا اور کم از کم دلہن کے برابر تعلیم یافتہ ہو۔وہ مزید کہتی ہیں: 'تاہم تحقیقی شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 'ہائپوگیمی' میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی شادیاں ہو رہی ہیں جن میں عورت مرد سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔'ایران بھی اس رجحان کی ایک نمایاں مثال ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے اس ملک میں خواتین مین یونیورسٹی تعلیم کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود معاشرے میں اب بھی مردوں کو بنیادی کفالت کرنے والا سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بہت سی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ایسا شریکِ حیات تلاش کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جو 'قابل قبول' ہوں اور ایسے میں وہ بعض اوقات غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں۔Grigorev_Vladimir/Getty Imagesایران میں خواتین شادی کے پرانے رویے کو چیلنج کر رہی ہیںلیکن نئی نسل کی خواتین برسوں سے چلی آ رہی روایتی توقعات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ وہ ذاتی خودمختاری، کریئر اور اس بات کو اہمیت دے رہی ہیں کہ آج کے ایرانی معاشرے میں ایک رشتہ کا مطلب کیا ہونا چاہیے۔چین میں حقارت امیز اصطلاح 'شینگ نو' (چھوٹ جانے والی عورتیں) اُن اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو 20 کے آخر یا 30 کی دہائی تک شادی نہیں کر پاتیں۔ جاپان میں بھی خواتین نے شادی میں تاخیر کرنا یا اسے مکمل طور پر ترک کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ مالی طور پر خودمختار ہو چکی ہیں اور روایتی صنفی کرداروں کا بوجھ اٹھانا نہیں چاہتیں۔اس کے برعکس ناروے اور سویڈن جیسے ممالک ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک میں مضبوط صنفی برابری کی پالیسیاں، فیاضانہ زچگی و پدری کی چھٹیاں اور خواتین کی بھرپور معاشی شمولیت کی وجہ سے برابری پر مبنی رشتے عام ہیں۔مز سٹیبر کہتی ہیں کہ 'ہر معاشرے میں سماجی دباؤ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔'وہ کہتی ہیں کہ 'مغرب میں، اگرچہ خواتین اپنے شوہروں سے زیادہ نہیں کماتیں لیکن اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے ان کی معاشرتی حیثیت اچھی ہوتی ہے۔ ان کے پاس فیصلہ کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور وہ گھریلو فیصلوں میں برابر کی شریک ہوتی ہیں جبکہ بعض دوسرے معاشروں میں ایسا کم ہی دیکھا جاتا ہے۔'سوشل میڈیا کے اثراتاگرچہ عملی طور پر ہائپرگیمی یعنی بہتر سماجی یا مالی حیثیت کے شریکِ حیات کا رجحان کم ہو چکا ہے مگر سوشل میڈیا پر یہ اصطلاح اب بھی مقبول ہے اور اکثر کسی امیر یا بااثر شخص کو لبھانے کے طریقوں کے بارے میں مشورے اور ٹپس دیکھنے کو ملتے ہیں۔'پاسپورٹ بروز' اور 'ٹریڈ وائف' (یعنی روایتی گھریلو بیوی) جیسے وائرل رجحانات ہائپر گیمی کو دوبارہ ترویج دیتے نظر آتے ہیں۔ 'پاسپورٹ بروز' میں مغربی مرد ایسے ممالک میں شریک حیات تلاش کرتے ہیں جہاں روایتی صنفی کرداروں کو اپنایا جاتا ہے جبکہ 'ٹریڈ وائف' (روایتی گھریلو بیوی) کی تحریک کے تحت سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والی خواتین گھریلو زندگی کو فروغ دینے اور خواتین کو دولت مند شوہروں کی تلاش کی ترغیب دیتی ہیں۔sturti/Getty Imagesسوشل میڈیا سے ایک بار پھر ہائپرگیمی کو جلا مل رہی ہےمز بیگی کہتی ہیں: 'یہ تحریکیں اکثر روایتی ازدواجی زندگی کی خواہش کی عکاسی کرتی ہیں، اور بعض اوقات ہائپرگیمی کے ڈھانچے کو مثالی بنا کر پیش کرتی ہیں۔'وہ مزید کہتی ہیں کہ 'یہ سب جدید دور کے تعلقات کے پیچیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے، جہاں افراد ذاتی خودمختاری اور معاشرتی توقعات کے درمیان توازن قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں، اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ کس قدر مختلف طریقوں سے اپنے تعلقات میں اطمینان تلاش کرتے ہیں۔'تاہم مس سٹیبر سنہ 1950 کی دہائی کے روایتی صنفی کرداروں کے پھر سے رواج میں آنے کے متعلق شکوک و شبہات رکھتی ہیں حالانکہ وہاں ہائپرگیمی کو صرف قابلِ قبول ہی نہیں بلکہ قابلِ رشک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ 'یہ رجحان شاید سوشل میڈیا کے چند مخصوص انفلوئنسرز میں دیکھا جائے، مگر مجموعی آبادی کے رجحانات اس طرف بالکل اشارہ نہیں کرتے ہیں۔'’زیادہ کمانے والی بیویاں عام نہیں‘مز سٹیبر یہ بھی کہتی ہیں کہ جب خواتین کسی کم تعلیم یافتہ یا کم آمدنی والے مرد سے تعلق قائم کرتی ہیں تو یہ اکثر مردوں کے لیے کشمکش کا باعث بنتا ہے کیونکہ یہ روایتی مردانگی کے تصور کو چیلنج کرتا ہے۔وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'مسئلہ یہ نہیں کہ خواتین کم پر سمجھوتہ کر رہی ہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا مرد اس بات کو قبول کر سکتے ہیں کہ ان کی شریکِ حیات ان سے زیادہ تعلیم یافتہ یا کامیاب ہوں۔'PeopleImagesاگرچہ خواتین زیادہ تعداد میں یونیورسٹی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں لیکن مردوں سے زیادہ کمانے والی خواتین شاذونادر کے زمرے میں ہی آتی ہیںکچھ ماہرینِ عمرانیات کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے خواتین کی تعلیم کا معیار بلند ہو رہا ہے ویسے ویسے معاشرتی ڈھانچے خاموشی سے روایتی صنفی کرداروں کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے تنخواہوں میں فرق، جزوقتی ملازمت کی ترویج، یا ایسے کام کے ماحول جو کریئر اور ماں بننے کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل بنا دیتے ہیں اور اس طرح مردوں کی معاشی بالادستی کو تقویت ملتی ہے۔مز ہاکم کہتی ہیں: 'ہر جگہ مرد عموماً اپنی بیویوں سے زیادہ کماتے ہیں کیونکہ بیویاں اور مائیں اکثر جزوقتی یا ایسی نوکریاں کرتی ہیں جن میں تسلسل نہیں ہوتا ہے۔'وہ مزید کہتی ہیں: 'یہاں تک کہ 'برابری پر مبنی' سکینڈینیویائی (شمالی یورپی) ممالک میں بھی شوہر اوسطاً گھر کی آمدنی کا تین چوتھائی حصہ کماتے ہیں۔ زیادہ کمانے والی خواتین یا بیویاں عام نہیں ہیں بلکہ استثنی ہیں اور شاذونادر کے زمرے میں آتی ہیں۔'چینی خواتین کے مصنوعی بوائے فرینڈ: ’یہ دھوکہ دینے جیسا ہے لیکن مجھے اس کی ضرورت ہے‘’مردانگی کا بحران اور سماجی بانجھ پن‘: مردوں میں بے اولادی کی وجوہات کیا ہیں؟ وہ روایت جس کے تحت لڑکیوں کو اپنی شادی ختم کرنے کے لیے لاکھوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیںوہ نئے شواہد جو ’کزن کے درمیان شادیوں‘ پر پابندی کے مطالبے کی وجہ بن رہے ہیں’سیکس کریں گے نہ ڈیٹنگ اور نہ ہی شادی اور بچے‘: دنیا بھر میں پھیلتی ’فور بی‘ تحریک کیا ہے؟’نوکری کرنی ہے، جاؤ پہلے شوہر سے اجازت لے کر آؤ‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

پنجاب میں طوفانی بارشوں اور آندھی سے تباہی: کم از کم آٹھ افراد ہلاک، 45 زخمی

پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

پاکستان نے ’باعثِ بدنامی‘ ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

ہائیپوگیمی: وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین جو اپنے سے کم قابل مردوں سے رشتہ جوڑنے پر مجبور ہیں

پاکستان نے ’بدنامی کا باعث بننے والے‘ ڈی پورٹ شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

آتش زنی کا شبہ، خاندان کی ہلاکت اور شواہد ضائع ہوجانا: برطانیہ میں انصاف کے منتظر پاکستانی نژاد ڈاکٹر شکور کی کہانی

گجرات سے آئے چار سیاح جن کی لاشیں سکردو میں دریا کنارے سے ملیں: ’ریسکیو اہلکار رسیوں کی مدد سے نیچے گئے‘

طیارہ طوفان کی زد میں۔۔ مسافروں کی دوران پروز کلمہ پڑھتے ہوئے دل دہلا دینے والی ویڈیو سامنے آگئی

شاہراہِ بلتستان پر ہلاک ہونے والے 4 نوجوان دوست کون تھے؟ افسوس ناک تصاویر اور ویڈیوز منظرِ عام پر

سونے کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں.. جانیں 1 تولہ سونا مہنگا ہو کر کتنے کا ملنے لگا؟

’یہ کیسا دھماکہ تھا؟‘: وہ المناک لمحہ جب ٹائٹن آبدوز سمندر کی گہرائی میں تباہ ہوئی

وجے شاہ بمقابلہ علی خان محمودآباد: ’آج کے انڈیا میں شاید گاندھی، نہرو اور امبیدکر کو بھی محبِ وطن نہ سمجھا جاتا‘

پی آئی اے طیارہ ہائی جیکنگ: جب ہائی جیکروں کو دھوکہ دینے کے لیے پاکستان کا حیدرآباد انڈیا کا بھوج بن گیا

’بس، بہت ہو گیا‘: نیتن یاہو کے لیے ہنگامہ خیز ہفتہ، غزہ میں بھوک اور عالمی ’سفارتی سونامی‘ کے بیچ خاموش بیٹھے ٹرمپ

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شیلز کا خوف اور ٹوٹے پھوٹے مکان: ’میری بیٹی تو اب رات کو ستاروں سے بھی ڈرنے لگی ہے‘

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی