
BBCچین آرکٹک شپنگ کے لیے ’پولر سیلک روڈ‘ منصوبہ تیار کر رہا ہے، یعنی قطب پر واقع شاہراہ ریشمسنہ 2023 کے اواخر میں جیسے ہی میگنس میلانڈ ناروے کے شمالی سرے پر واقع ایک چھوٹے سے قصبے کے میئر بنے، چین سے تین وفود ان کے دروازے پر پہنچے۔انھوں نے مُجھے بتایا کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس مقام کی سپر پاور بننا چاہتے ہیں، یعنی اس قطبی علاقے کی۔‘جب آپ آرکٹک کے بارے میں سوچتے ہیں تو چین فطری طور پر ذہن میں نہیں آتا ہے۔ لیکن یہ آرکٹک کا ایک بڑا کھلاڑی بننے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہ اس علاقے میں ریئل اسٹیٹ، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں شامل ہونے اور مستقل طور پر اس علاقے میں اپنی موجودگی کو قائم کرنے کی امید رکھتا ہے۔چین پہلے ہی خود کو ’آرکٹک ریاست‘ کے طور پر بیان کرتا ہے حالانکہ اس کا سب سے شمالی علاقائی دارالحکومت ہربن تقریباً وینس یعنی اٹلی کے جتنا ہی دور ہے۔لیکن آرکٹک تیزی سے دنیا کے اُن علاقوں کی صف میں شامل ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جہاں دُنیا کے اکثر مُمالک اپنی موجودگی اور اس پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ بیجنگ کو روس، یورپ، انڈیا اور امریکہ سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔آرکٹک پر قبضے کی دوڑ جاری ہے۔موسمیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آرکٹک کسی اور جگہ کے مقابلے چار گنا تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔ اس سے ماحولیاتی نظام، جنگلی حیات اور مقامی آبادی متاثر ہوتی ہے۔ آرکٹک بہت بڑا ہے جو دنیا کا تقریباً چار فیصد حصہ بنتا ہے۔لیکن عالمی طاقتوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی پشت پر آرکٹک میں مواقع کی ایک نئی دنیا کھلتی نظر آتی ہے۔آرکٹک میں پگھلنے والی برف خطے کے ناقابل یقین قدرتی وسائل، اہم معدنیات، تیل اور گیس تک رسائی کو آسان بناتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آرکٹک میں تقریبا 30 فیصد غیر استعمال شدہ قدرتی گیس پائی جاتی ہے۔اور یہ وہ علاقہ ہے کہ جو نئے سمندری تجارتی راستوں کے مرکز کی حیثیت رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ جس سے ایشیا اور یورپ کے مابین سفر کے وقت میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جدید دور کی تجارت میں وقت پیسے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ چین آرکٹک شپنگ کے لیے ’پولر سِلک روڈ‘ منصوبہ تیار کر رہا ہے، یعنی قطب پر واقع شاہراہ ریشم۔BBCتین براعظموں کو ملانے والی بندرگاہ کا خوابجب میں وہاں گیا تو کرکینز کی بندرگاہ ایک انتہائی بھیانک منظر پیش کر رہی تھی۔آرکٹک سرکل کے اندر مین لینڈ ناروے کے سب سے شمالی حصے پر کان کنی کا یہ سابقہ قصبہ تصویری پوسٹ کارڈ، برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں اور اس کے ارد گرد موجود پہاڑوں کے بالکل برعکس ہے۔وہاں بند دکانیں اور خالی گودام ہیں جن کی کھڑکیاں نہ جانے کب سے ٹوٹی پڑی ہیں اور ایسے مناظر جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ یہ ایک گمشدہ اور وقت سے کہیں دور پیچھے رہ جانے والے شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔لہذا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ممکنہ طور پر ایشیا سے کنٹینر اور جہازوں کی بڑی تعداد کے لیے یہ پہلی یورپی بندرگاہ بننے کے بہت قریب ہے مگر اس بات کا انحصار اس امر پر ہے کہ قطبی علاقے میں پھیلی برف کی یہ سفید چادر کتنی جلدی یہاں سے غائب ہوتی ہے۔شہر کے بندرگاہ کے ڈائریکٹر ٹیرجے جورگنسن ایک بالکل نئی بین الاقوامی بندرگاہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جب وہ یورپ کے ہائی نارتھ کو سنگاپور بنانے کی بات کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔’ہم کرکینز میں جو تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ایک ٹرانس شپمنٹ بندرگاہ ہے جہاں تین براعظم ملتے ہیں یعنی شمالی امریکہ، یورپ اور ایشیا۔ ہم سامان کو ساحل پر لے جائیں گے اور دوسرے جہازوں پر دوبارہ لوڈ کریں گے۔ ’ہمیں کسی کو اپنی زمین بیچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ برطانیہ کی کسی کمپنی کو اور نہ ہی کسی چینی کمپنی کو۔‘جنگ کے شعلوں میں گِھرے مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟العيالہ: متحدہ عرب امارات میں ٹرمپ کی آمد پر بال لہراتی لڑکیوں کا روایتی عرب رقص تنقید کی زد میں کیوں؟انڈیا میں ایپل کی فیکٹری کا خواب جو امریکہ، چین معاہدے سے ٹوٹ سکتا ہےروس کا جوہری ڈاکٹرائن کیا ہے اور اس میں نئی تبدیلیوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کیا مطلب ہے؟وہ کہتے ہیں کہ ’اگر زمین کی فروخت سے ’ناروے کے سلامتی کے مفادات‘ کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو ناروے میں سامنے آنے والے نئے قوانین جائیداد یا کاروبار کی منتقلی پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔‘ اُن کا مزید کہنا ہے کہ وہ جس چیز کا انتظار کر رہے ہیں وہ حکومت کی طرف سے واضح ہدایات ہیں کہ اس میں کس طرح کے اہم بنیادی ڈھانچے کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔میئر میلنڈ یقینی طور پر چین کے عزائم سے محتاط نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم چین پر انحصار نہیں کرنا چاہتے۔‘یورپ کو اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ آپ مطلق العنان حکومتوں پر کتنا انحصار کرنا چاہتے ہیں؟یورپی آرکٹک میں چین کے خریداری کے نقطہ نظر کو مسترد کیا جانے لگا ہے۔ مثال کے طور پر بیجنگ کی جانب سے ناروے اور سویڈن کی بندرگاہوں اور گرین لینڈ کے ایک ہوائی اڈے کو خریدنے کی حالیہ کوششوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔یہ دنیا کی سب سے بڑی ابھرتی ہوئی سپر پاور چین کو آرکٹک کے سب سے بڑے کھلاڑی روس کے ہاتھوں میں دھکیل رہا ہے۔BBCآرکٹک میں روس اور چین کا اشتراکروس آرکٹک ساحل کے نصف حصے پر قابض ہے اور وہ چینی سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہا ہے۔دونوں ممالک آرکٹک میں بھی فوجی تعاون کے ساتھ موجود ہیں۔ چین کے کوسٹ گارڈز اکتوبر میں پہلی بار روسی افواج کے ساتھ مشترکہ گشت کے دوران آرکٹک میں داخل ہوئے تھے۔ روں اور چین نے ایک ماہ قبل یہاں مشترکہ فوجی مشقیں کی تھیں۔ جولائی میں دونوں ممالک کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیاروں نے امریکہ میں الاسکا کے قریب آرکٹک سمندر میں گشت کیا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ بیجنگ اور ماسکو نیٹو کی طرف دیکھ رہے ہیں جس نے آرکٹک میں اپنی مشقیں تیز کر دی ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔آرکٹک کی سرحد سے متصل ہر ملک نیٹو کا رکن ہے، سوائے روس کے۔ فن لینڈ اور سویڈن نے یوکرین پر مکمل حملے کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی۔آزاد فریڈٹجوف نانسن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو اینڈریاس اوستھاگن آرکٹک کو روس اور چین کے تعاون کے لیے ’ایک آسان ہدف‘ قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’روس کو سرمایہ کاری اور تجارتی کرداروں کی ضرورت ہے جو آرکٹک ایل این جی یعنی مائع قدرتی گیس کے وسائل، تیل، یا شپنگ لین کے طور پر شمالی سمندری راستے کو ترقی دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اُن کے مطابق ’چین ایک ایسی ہی مارکیٹ ہے۔ دونوں ممالک اپنے سیاسی، اقتصادی، حتیٰ کہ فوجی تعاون کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔‘لیکن چین کا روس کے زیادہ قریب رہنے کا خواہاں نہیں ہے۔ وہ مغربی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے اور آرکٹک کے اندر اور باہر مغربی طاقتوں کے ساتھ کاروبار جاری رکھنا چاہتا ہے۔تاہم اس پر روس کو بھی تحفظات ہیں۔اوستھاگن کہتے ہیں کہ ’روس اور چین کے تعلقات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرنے کے لیے محتاط رہیں۔ روس چین کو اپنے آرکٹک میں بہت گہرائی میں جانے دینے کے بارے میں محتاط ہے۔‘ماسکو وہاں اپنے قدرتی وسائل پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور اطلاعات کے مطابق یہ امریکہ سمیت دیگر آرکٹک سرمایہ کاروں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔BBCروس سے الرٹ ناروے روس سٹریٹجک ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کے لیے اپنے حصے کے آرکٹک پر بھی انحصار کرتا ہے، خاص طور پر اس کے جزیرہ نما کولا پر جو جوہری صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور اس کے مشہور شمالی بیڑے کا گھر ہے۔سرد جنگ کے زمانے میں یہ قصبہ جاسوسوں کی آماج گاہ کے طور پر جانا جانے لگا جو مغرب اور سوویت یونین کے درمیان ایک فرنٹ لائن ہے۔ناروے کا خیال ہے کہ روس اس علاقے میں نئی بھرتیوں اور نئے آنے والوں کو تربیت دینے اور یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے بمبار طیارے اڑانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔اگرچہ روس اور ناروے براہ راست کسی جنگ میں شریک نہیں ہیں مگر ناروے کے شمال میں تقریبا 200 کلومیٹر طویل زمینی سرحد حملے کی زد میں دکھائی دیتی ہے۔ ناروے اور روس کو الگ کرنے والے دریائے پاسوک کے صاف پانی کے بارے میں مجھ سے بات کرتے ہوئے کرنل جورن کلیر کہتے ہیں ’ہم اسے یہاں مقامی طور پر دیکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے ناروے کی روشن پیلی اور روس کی سرخ اور سبز سرحدی چوکیاں ہیں۔‘یوکرین پر مکمل حملے کے بعد سے جی پی ایس جیمنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے تجارتی جہازوں کے کپتانوں کو نیویگیشن سسٹم تبدیل کرنا پڑا ہے۔ کرنل کلیر نے مجھے بتایا کہ ’سرحد کے ذریعے جاسوسی کے واقعات ’سگنل انٹیلی جنس سے لے کر ناروے بھیجے جانے والے ایجنٹوں تک‘ میں اضافہ ہوا ہے۔‘ناروے اور اس کے نیٹو اتحادی بھی آرکٹک میں روسی جاسوس آبدوزوں اور دیگر بحری جہازوں سے الرٹ ہیں۔BBCسرد جنگ کے دور کی مشترکہ فوجی کمان میں داخل ہونے کے لیے اعلیٰ سکیورٹی کلیئرنس ملنے کے بعد میں دیکھ سکتا ہوں کہ ناروے اس خطرے پر کس طرح نظر رکھتا ہے۔ یہ آرکٹک سرکل کے اندر بوڈو میں کوارٹز کے پہاڑ کے اندر گہرائی میں ہے۔ہمیں سرنگوں اور نگرانی کے کمروں کی ایک بھول بھلیاں ملتی ہیں جہاں ناروے زمین، ہوا اور سمندر سے حقیقی انداز میں خفیہ معلومات جمع کرتا ہے جو اپنے آرکٹک پانیوں میں اور اس کے قریب مشکوک نظر آنے والے جہازوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ نیٹو اتحادیوں کے ساتھ ہر چیز حقیقی وقت میں شیئر کی جاتی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ یورپ میں داخل ہونے کے خواہش مند کسی بھی روسی جہاز کو سب سے پہلے ناروے کے پانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔پہاڑی ہیڈ کوارٹر میں ایجنٹوں کو مغرب کے خلاف کریملن کی ہائبرڈ جنگ کے حصے کے طور پر زیر آب ’اہم بنیادی ڈھانچے‘ کے آس پاس جاسوسی اور تخریب کاری کے اشارے ملتے ہیں۔اہداف میں زیر سمندر مواصلاتی کیبلز شامل ہیں جو براعظموں کو جوڑتی ہیں اور ایک دن میں کھربوں ڈالر کے مالی لین دین میں مدد کرتی ہیں اور تیل اور گیس کی پائپ لائنیں بھی اس سب میں شامل ہیں۔ناروے برطانیہ سمیت یورپ کو قدرتی گیس کا ایک بڑا سپلائر ہے خاص طور پر جب سے یوکرین پر اس کے مکمل حملے کے بعد روسی برآمدات پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ماسکو آرکٹک میں اپنی فوجی صلاحیتوں کو جدید بنا رہا ہے۔ اس کے پاس جاسوس اور جوہری آبدوزوں کا ایک بڑا بیڑا ہے۔ اگر ان کا سراغ نہیں لگایا گیا تو وہ ممکنہ طور پر یورپ بھر کے دارالحکومتوں میں میزائلوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور امریکہ کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔BBCناروے کے جوائنٹ ہیڈکوارٹرز کے سربراہ وائس ایڈمرل رون اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ سے کہا ہے کہ اسے اپنے دفاع کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے لیکن آرکٹک کے اندر ’مفادات کا ایک بہت بڑا ٹکراؤ‘ موجود ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ 'یہ امریکی ہوم لینڈ ڈیفنس کے بارے میں بھی ہے۔۔۔ انھوں نے کہا کہ روس کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کا ارتکاز، روس جو صلاحیتیں تعینات کر رہا ہے وہ نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ کے خلاف بھی ہیں۔‘وائس ایڈمرل اینڈرسن کو یقین نہیں ہے کہ کوئی بھی فریق آرکٹک میں تنازعے کا سامنا کر رہا ہے لیکن یوکرین جیسے دیگر مقامات پر عالمی تناؤ میں اضافے کے ساتھ آرکٹک میں پھیلنے کے امکانات موجود ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 'وائس ایڈمرل کی ٹیم ہر بدھ کی سہ پہر روس کے شمالی بحری بیڑے سے معمول کی کال کرتی ہے تاکہ مواصلاتی ذرائع کھلے رہیں۔ کیس بھی صورت میں۔‘BBCاگر آپ کرکینز کو چھوڑ کر قطب شمالی کی طرف بڑھتے ہیں تو آپ کو ناروے کے شاندار جزیرے سلوبارڈ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ برفانی تودوں، گلیشیئرز اور لوگوں سے زیادہ قطبی ریچھوں کا گھر ہے۔سوالبارڈ آرکٹک وسائل کے لئے عالمی طاقتوں کے مابین کشمکش کا مرکز ہے۔ ناروے کے جزیرے پر ایک معاہدہ ہے جس کے تحت اس پر دستخط کرنے والے تمام ممالک کے لوگوں کو ویزا کے بغیر وہاں کام کرنے کی اجازت ہے۔ زیادہ تر کانوں، سیاحت اور سائنسی تحقیق کے لیے کام کرنے والے ہیں۔یہ سننے میں ہم آہنگی سی لگتی ہے لیکن یوکرین پر مکمل حملے کے بعد سے یہاں کی کچھ برادریوں میں قوم پرست طاقتوں کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ان میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی یاد میں روسی بستی کی طرف سے فوجی پریڈ، روسی انفراسٹرکچر پر سوویت پرچم لہرانا اور بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات شامل ہیں کہ چینیوں نے فوجی جاسوسی کے لئے اپنے سلوبارڈ ریسرچ سٹیشن کو دوہرا مقصد بنا لیا ہے۔BBCاس بات سے قطع نظر کہ یہ سچ ہے یا نہیں مقامی میئر ٹیرجے اونیوک کا کہنا ہے کہ ’یہ کہنا بے وقوفی ہوگی کہ مختلف ممالک کے تحقیقی مراکز میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کا کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’یقینا وہاں یہ سب ہے۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ دنیا آرکٹک فومو کی لپیٹ میں ہے۔‘میں جس دن میں سلوبارڈ پہنچا تو یہ ناروے کا قومی دن تھا۔ ناروے کے قومی لباس میں ملبوس مقامی سکول بچے اپنے والدین کے پریڈ کرنے کے لیے سڑکوں پر موجود تھے جو کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔لانگ ایئربین دنیا کا سب سے شمالی شہر ہے۔ مرکزی سڑک کے نیچے آرکٹک کے پانیوں سے تیز دھوپ چمک رہی ہے اور چاروں طرف برف اور برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ ہیں۔میں جہاں بھی دیکھتا ہوں مجھے دکان کی کھڑکیاں، پرام اور خواتین کے بال نیلے، سفید اور سرخ ناروے کے جھنڈوں سے سجے نظر آتے ہیں۔ شاید میں نے اس کا تصور کیا تھا لیکن تمام خوشیوں کے درمیان ایسا محسوس ہوا جیسے اس دن ایک اور ناقابل بیان احساس تھا اور وہ یہ کہ ’سلوبارڈ ہمارا ہے!‘BBCاس خطے کی مقامی برادریاں جن میں سے نصف سے زیادہ روسی آرکٹک میں رہتی ہیں اکثر محسوس کرتی ہیں کہ اقتدار میں موجود لوگوں کی طرف سے ان لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرنے میں ناکامی ہوئی ہے جو طویل عرصے سے اس خطے کو اپنا گھر کہتے آئے ہیں۔گرین لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کارکن میوکی ڈورانا کا کہنا ہے کہ ’جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی پہلی صدارت کے دوران ملک خریدنا چاہتے ہیں تو انھیں اُن کی یہ بات سُن کر ہنسی آئی۔ لیکن اس بار یہ مختلف محسوس ہوتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’موجودہ عالمی سیاسی صورتحال کی وجہ سے طاقت کے کھیل اور وسائل کے لئے مسابقت کی وجہ سے حالات بہت زیادہ سنگین ہوے چلے جا رہے ہیں۔‘وہ اور مقامی برادریوں کے دیگر لوگ یورپی ممالک پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ’آب و ہوا کے مسائل‘ کی بات کر کے یہاں کی مقامی زمینوں کو حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔'BBCوہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم سبز نوآبادیات یا ترقیاتی جارحیت کہتے ہیں جہاں وہ واقعی زمینوں سے زیادہ سے زیادہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔‘اُن کا کہنا ہے کہ ’آرکٹک ہمارے لیے صرف ایک موضوع نہیں ہے یہ صرف ایک دلچسپی نہیں ہے، یہ ایک مطالعہ نہیں ہے، یہ لفظی طور پر ہماری زندگیاں اور حقیقی جدوجہد اور جذبات اور بہت غیر منصفانہ ناانصافیاں ہیں۔'انھوں نے کہا کہ حکومت اور سیاستدانوں کو عوام کے لئے کام کرنا ہے۔ لیکن میں نے یہ نہیں دیکھا۔ یہ زیادہ تر سفارتی الفاظ ہیں۔کچھ عرصہ پہلے آپ آرکٹک کی غیر معمولیت کے بارے میں بات سنتے تھے جہاں آرکٹک سے متصل آٹھ ممالککینیڈا، روس، امریکہ، فن لینڈ، سویڈن، ناروے، ڈنمارک اور آئس لینڈ چھ آرکٹک مقامی برادریوں کے نمائندوں اور چین اور برطانیہ سمیت دیگر مبصر ممالک سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دنیا کے اس ناقابل یقین حصے کی حفاظت اور حکمرانی کے لئے مل کر کام کرتے تھے۔لیکن اب یہ بڑی طاقتوں کی سیاست کا وقت ہے۔ ممالک تیزی سے اپنے مفادات کے لئے کام کر رہے ہیں۔آرکٹک میں اب بہت سارے حریف ممالک کے ساتھ غلط تشریح یا غلط اندازہ لگانے کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔روس نے پاکستان کے ساتھ تنازع میں انڈیا کی کھل کر حمایت کیوں نہیں کی؟انڈیا میں ایپل کی فیکٹری کا خواب جو امریکہ، چین معاہدے سے ٹوٹ سکتا ہےٹرمپ کی ’پنچایت‘ پر پاکستانیوں کو خوشی مگر انڈینز کا سوال: ’امریکی صدر نے مداخلت کیوں کی؟‘العيالہ: متحدہ عرب امارات میں ٹرمپ کی آمد پر بال لہراتی لڑکیوں کا روایتی عرب رقص تنقید کی زد میں کیوں؟روس کا جوہری ڈاکٹرائن کیا ہے اور اس میں نئی تبدیلیوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کیا مطلب ہے؟