
Getty Imagesنوٹ: یہ تحریر پہلی مرتبہ 19 اپریل 2022 کو شائع کی گئی تھی، اس آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔19 اپریل 1993 کی اشاعت میں امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' کی نمایاں سٹوری تھی کہ ایک ماہ کے سیاسی ہنگامے کے بعد پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو بدعنوانی، بدانتظامی کے الزامات عائد کرتے ہوئے برطرف کر دیا ہے اور پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے۔رپورٹ میں مزید لکھا گیا کہ گذشتہ پانچ سال میں یہ تیسرا موقع ہے کہ صدر مملکت نے آئین میں حاصل بے تحاشہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کو برطرف کیا ہے، اس سے پہلے انھوں نے اگست 1990 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کو بدعنوانی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے برطرف کر دیا تھا۔نیویارک ٹائمز کے مطابق گذشتہ شام (18 اپریل) اندھیرا چھانے کے فوری بعد فوجی دستوں نے سرکاری ٹیلی وژن کا محاصرہ کر لیا اور اس کے ایک گھنٹے بعد صدر مملکت نے ٹیلی وژن پر آ کر حکومت کی برطرفی کے بعد عبوری وزیر اعظم کی تقرری کرنے کے ساتھ عوام سے رجوع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم عوام سے رجوع کر رہے ہیں، نئے عام انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق صدر نے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔نواز شریف حکومت کی برطرفی کے بعد یعنی 26 مئی 1993 کی سہ پہر سپریم کورٹ آف پاکستان کے نو رکنی بینچ نے چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب خان کی آئینی پٹیشن پر فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف حکومت کی برطرفی کے صدر غلام اسحاق خان کے فیصلے کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔جنگ اخبار میں تیس سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دینے والے صحافی الیاس چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ اس روز سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی نقول حاصل کرنے کے لیے اخبارات کے رپورٹرز جمع تھے کہ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ وہاں سے گزرے۔الیاس چوہدری کہتے ہیں کہ 'میں نے کاپیاں دینے والے عملے سے مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا کہ 'بھائی، مجھے کاپی ضرور دینا ورنہ جنگ والے مجھے نوکری سے نکال دیں گے، یہ آواز سُن کر جسٹس نسیم حسن شاہ رُک گئے اور خوشگوار لہجے میں مجھے مخاطب کر کے بولے 'اگر جنگ والے آپ کو نکال دیں تو آپ ہمارے پاس آ جائیں، ہم آپ کو بھی بحال کر دیں گے۔'الیاس چوہدری نے سپریم کورٹ کی کوریج کے تیس سال سے زائد تجربات پر مشتمل حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب 'سپریم کورٹ سے' میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف حکومت کی برطرفی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن درون پردہ کچھ ایسا ہوا کہ اگلے ہی روز لاہور ہائیکورٹ سے پٹیشن واپس لے کر آئین کی آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ میں دائر کر دی گئی۔'خالد انور سینیئر ایڈووکیٹ نے پیٹیش کی پیروی بڑے خوبصورت انداز میں کی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے آخر کار نواز شریف اسمبلی بحال کر دی۔ صدر غلام اسحاق خان کو اس بات کا بڑا قلق تھا۔'روزنامہ نوائے وقت کے سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق نے سپریم کورٹ میں کئی ہفتوں تک اس کیس کی کوریج کی۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'نواز شریف اسمبلی کی تحلیل سے قبل صدر غلام اسحاق خان نے اگست 1990 میں بدعنوانی کے الزامات پر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تھا اور پھر آئین کی آرٹیکل 58 (2) بی کو بروئے کار لاتے ہوئے دوسری مرتبہ انھوں نے 19 اپریل 1993 کو نواز شریف حکومت کو انھی الزامات کی بنیاد پر برطرف کر دیا۔''بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا لیکن ان کی درخواست سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد مسترد کرتے ہوئے صدر مملکت کے فیصلے کو درست قرار دیا لیکن یہی معاملہ جب نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کی صورت میں پیش آیا تو سپریم کورٹ نے ایک طویل سماعت کی اور پٹیشن کی سماعت کی ابتداء میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ سپریم کورٹ اب کی بار اسلمبلیوں کی تحلیل کے معاملے کو کسی اور نظر سے دیکھ رہی ہے۔۔۔'Getty Imagesجاوید صدیق بھی الیاس چوہدری کے اس نکتے کی تصدیق کرتے ہیں کہ 'کیس کی سماعت کے آغاز پر ہی نظر آ رہا تھا کہ فاضل ججز حکومت کی برطرفی اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے صدر مملکت کے اختیارات کے حوالے سے استفسارات کر رہے تھے اور اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے تھے۔''یہ بات دلچسپ تھی کہ دوسری جانب صدر مملکت کے وکیل شریف الدین پیرزادہ سے ججز بہت ہی گہرائی میں جا کر سوالات کر رہے تھے۔ بینچ میں شامل ججز کی طرف سے یہ خواہش ان کے ریمارکس کے ذریعے نمایاں ہو رہی تھی کہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کو جڑیں پکڑنے کے لیے مناسب موقع ملنا چاہیے۔'جاوید صدیق کہتے ہیں کہ 'اس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نسیم حسن شاہ چیف جسٹس تھے، جسٹس عبدالقادر شیخ، جسٹس شفیع الرحمان بینچ میں شامل تھے ایک فاضل جج جسٹس افضل لون بھی تھے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ شریف فیملی کی اتفاق فاؤنڈری کے لیگل ایڈوائزر بھی رہ چکے تھے۔''نواز شریف کی طرف سے کارپوریٹ سیکٹر کے معروف قانون دان خالد انور پیش ہوئے اور انھوں نے اس آئینی امور سے متعلق کیس میں کمال کی مہارت اور قابلیت کا مظاہرہ کیا۔' جاوید صدیق کہتے ہیں کہ خالد انور تابناک ماضی رکھنے والے خاندان سے تھے کیونکہ وہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے صاحبزادے تھے۔Getty Imagesالیاس چوہدری نواز شریف کی طرف سے پیش ہونے والی وکلا ٹیم کے بارے میں دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس بننے والے ثاقب نثار سے کیس میں خالد انور کے جونیئر تھے اور وہ سماعت کے دوران عقبی نشستوں پر رپورٹرز کے ساتھ بیٹھتے تھے۔'جاوید صدیق کہتے ہیں کہ 'بعد میں بڑے مقدمات میں شریف خاندان کی طرف سے پیش ہونے والے سینیئر قانون دان اکرم شیخ بھی اس کیس میں خالد انور کے معاون تھے، اکرم شیخ پاناما کیس اور جنرل مشرف کے خلاف غداری کیس میں بھی نواز شریف کی طرف سے وکالت کرتے رہے۔'جاوید صدیق کہتے ہیں کہ 'کورٹ کی طرف سے مقرر کیے جانے والے معاون سینیئر قانون دان ایس ایم ظفر نے صدر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو برطرف کرنے کے اختیار کے حق میں دلائل دیے۔ ایس ایم ظفر نے اس حوالے سے متعدد ترقی یافتہ ملکوں اور جمہوری معاشروں سے مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی جیسے ملک میں بھی ایسا اختیار حاصل رہا ہے اور بقول ان کے کچھ ملکوں میں تو مختلف وجوہ کی بنا پر ایک سال میں چار چار مرتبہ اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں۔جاوید صدیق کے بقول 'ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں کی تحلیل اور حکومتوں کی برطرفی کے عمل سے ڈرنا نہیں چاہیے کیونکہ بتدریج اس سے معاملات سیاسی استحکام کی طرف جاتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ججز کا ذہن جو ریمارکس میں ظاہر ہو رہا تھا وہ بار بار اسمبلیوں کی تحلیل اور آئین کی آرٹیکل 58 (2) بی کے تحت صدر کو حاصل بے پناہ اختیارات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے۔'جاوید صدیق کہتے ہیں کہ 9 رکنی بینچ نے کثرت رائے سے نواز شریف حکومت کی بحالی کا فیصلہ دیا لیکن ایک جج جنھوں نے اس فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا وہ آگے چل کر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی نئے پہلوؤں میں نمایاں ہوا۔'اختلافی نوٹ جسٹس سجاد علی شاہ کا تھا جن کا تعلق سندھ سے تھا اور انھوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں برملا لکھا کہ انھی الزامات کی بنیاد پر اس سے قبل سپریم کورٹ نے اگست 1990 میں بے نظیر بھٹو کی برطرفی کے فیصلے کو درست قرار دیا اور اب انھی الزامات کے تحت اپریل 1993 میں برطرف کی جانے والی نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کو غلط قرار دیا جا رہا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بحال نہ کرنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان کا تعلق چھوٹے صوبے سے تھاَ اور اس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے سے صوبائی عصبیت ظاہر ہوتی ہے۔'معروف صحافی اظہر سہیل سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے حوالے سے اپنی کتاب 'سازشوں کا دور' میں لکھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے واحد سندھی جج نے تن تنہا دیگر تمام ججوں سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ 'اس سے قبل ملک کے دو سندھی وزرائے اعظم کو اسی دستور کی اسی آرٹیکل کے تحت رخصت کیا گیا، تو عدالت عظمیٰ کی طرف سے ان فیصلوں کی توثیق کی گئی مگر جب پنجابی وزیر اعظم کی باری آئی تو بساط پلٹ دی گئی اور اسمبلی کے ساتھ حکومت بھی بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔'اظہر سہیل لکھتے ہیں کہ 'اس مقدمے کا اہم پہلو یہ بھی تھا کہ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ مالی بدعنوانی کے الزام کو کسی حکومت کی برطرفی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ کچھ عرصہ بعد انھی چیف جسٹس صاحب کی ایک سنگین بدعنوانی کا تذکرہ قومی اخبارات کی زینت بنا کہ کس طرح کراچی کے ایک پلاٹ کی خاطر ملک کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سنگین بدعنوانی کے مرتکب ہو ئے۔'چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کو کراچی میں پلاٹ کی الاٹمنٹ کا معاملہ الیاس چوہدری نے اپنی کتاب میں زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ 'نواز شریف کی حکومت کی بحالی اور صدر غلام اسحاق خان کے حکم کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ صدر غلام اسحاق کو ہضم نہیں ہوا اور انھوں نے دستاویزات کے ساتھ ایک خبر پشاور سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے 'فرنٹیئر پوسٹ' کے چیف ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی تک پہنچائی۔ یہ خبر نمایاں انداز میں شائع ہوئی جس میں تفصیل سے درج تھا کہ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے کراچی میں پلاٹ کی الاٹمنٹ کے لیے درخواست حکومت کو دی تاکہ وہ کراچی میں مقدمات کی سماعت کے دوران وہاں قیام کے لیے گھر تعمیر کر سکیں لیکن الاٹمنٹ کے فوری بعد کئی گنا زیادہ قیمت پر چیف جسٹس صاحب نے وہ پلاٹ فروخت کر دیا۔ اس خبر کی اشاعت سے چیف جسٹس کی بہت سبکی ہوئی۔'جب ایک انڈین شہری وزیر اعظم بننے پاکستان پہنچےمحمد علی جناح کی زندگی کے آخری 60 دن: بانیِ پاکستان کو زیارت منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا؟فقیر ایپی: جنگِ آزادی کا ’تنہا سپاہی‘ جس نے پاکستان بننے کے بعد علیحدہ مملکت کا اعلان کیا’ریلیکس میجر، گولی مت چلانا‘: 12 اکتوبر کی یادیںالیاس چوہدری کہتے ہیں کہ 'نواز شریف اور ان کے حامی سیاسی رہنما اسمبلی بحالی کے فیصلے کے حوالے سے اس قدر جذباتی تھے کہ انھوں نے اس فیصلے کو 'گولڈن ورڈز' میں لکھوا کر قومی اسمبلی اور سینیٹ ہال کی درمیانی لابی میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔'چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو نے بعد ازاں ایک ایسا تبصرہ کیا جو کہ ضرب المثل بن گیا۔سینیئر تجزیہ کار عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ 'بے نظیر بھٹو نے استعارے کی زبان میں اس فیصلے کو 'چمک' کا نتیجہ قرار دیا اور اس کا مطلب واضح تھا کہ عدلیہ نواز شریف کے ہاتھوں بِک گئی ہے کیونکہ چمک کا اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نہیں تھا۔''اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ عدلیہ سے پیپلز پارٹی کو کبھی انصاف نہیں ملا اور اس حوالے سے یہ تبصرہ کرنے میں حق بجانب تھیں کیونکہ دوسری طرف نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے کی حمایت تب بھی حاصل تھی جب ان کی حکومت صدر مملکت نے ختم کر دی تھی۔ لیکن ایک ہی جیسے دو کیسوں میں بالکل مختلف فیصلے کے باعث بے نظیر کا یہ شکوہ بجا تھا۔'اس حوالے سے جاوید صدیق کہتے ہیں کہ 'بے نظیر بھٹو کے دل میں یہ خلش تھی کہ میری حکومت بھی 58 (2) بی کے تحت ہی برطرف کی گئی لیکن اس کو تو بحال نہیں کیا گیا لیکن جب نواز شریف کی حکومت بحال کی گئی تو بے نظیر بھٹو نے اسے چمک کا نتیجہ قرار دیا۔ سیاسی حلقوں اور قانونی حلقوں پر بہت بحث ہوئی اور بے نظیر بھٹو کے اعلیٰ عدالتوں کے حوالے سے رویے پر سوالات اٹھائے گئے۔ بعد میں بے نظیر بھٹو نے غلام اسحاق کی طرف سے دائر کردہ ریفرنسوں کی سماعت کرنے والی عدالتوں کو 'کینگرو کورٹس' قرار دیا۔'سینیئر تجزیہ کار عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ 'یہ نکتہ ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں حکومتوں کی برطرفی کے پیچھے ایک مشترکہ فیکٹر کارفرما تھا اور وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے بے نظیر بھٹو اور پھر نواز شریف کی جمہوری حکومت کو بادل نا خواستہ قبول کیا تھا۔ پہلے بے نظیر بہت بڑی سیاسی قوت کے ساتھ پاکستان واپس آئی تھی اور پھر جنرل ضیا الحق کی حادثاتی موت کے بعد اسٹیبلشمنٹ مارشل لا لگانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ اس طرح یہ راستہ نکالا گیا کہ ابتدا میں ان حکومتوں کو چلنے دیا جائے اور پھر ان کو کمزور، بے اختیار اور بدنام کر کے برطرف کر دیا جائے۔'لیکن اظہر سہیل اپنی کتاب میں اس حوالے سے مختلف وجوہات لکھتے ہیں جن میں بھارت کے شہر ممبئی میں ہونے والے بم حملے اور ان کا پاکستان پر الزام جبکہ امریکی انتظامیہ کے پاس ایسی تصاویر کی موجودگی جن میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل جاوید ناصر کی دھماکے کے ملزمان میمن برادران کے ساتھ تصاویر کا معاملہ بھی شامل تھا۔Getty Imagesاظہر سہیل لکھتے ہیں کہ 'صدر مملکت نے وزیر اعظم نواز شریف کو جنرل جاوید ناصر سے وضاحت طلب کرنے اور اور جواب تسلی بخش نہ ہونے کی صورت میں تبدیل کر دینے کی ہدایت کی۔''ایک طرف تو امریکی انتظامیہ بھارت کے فراہم کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے پر تلی بیٹھی تھی اور دوسری جانب 17 اپریل کی شام کو وزیر اعظم نواز شریف نے 'میں استعفیٰ نہیں دوں گا اور میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا' کا نعرہ بلند کر کے صدر غلام اسحاق خان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔'عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ 'یہ سب فیکٹرز اپنی جگہ موجود سہی لیکن اصل بات یہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نے قومی سیاست کو اپنے زیر اثر رکھنے کے لیے یہ تمام اقدامات اٹھائے اور اس سلسلے کی پہلی کڑی بے نظیر حکومت کا خاتمہ تھا جس کے لیے ان کو نواز شریف اور ان کے اسلامی جمہوری اتحاد سے تائید مل گئی۔''اور پھر اسی کی دوسری کڑی نواز شریف کی حکومت تھی جس کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو مدد مل گئی بے نظیر بھٹو کی طرف سے، اور یہ وہ دور تھا جس کے بارے میں بعد میں کہا گیا کہ سیاستدانوں نے سیکھ لیا ہے کہ کسی کے کہنے پر ایک دوسرے کی مخالفت کرنی ہے لیکن کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونا۔ یہی وہ نکتہ تھا جو بعد میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت کی صورت میں سامنے آیا۔'جاوید صدیق کہتے ہیں کہ اس معاملے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو نے 6 اگست 1990 کو اپنی حکومت کی برطرفی کے وقت صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے اپنے شوہر آصف علی زرداری پر لگائے جانے والے 'مسٹر ٹین پرسنٹ' کے الزامات سے نہ صرف کلیئر کروا لیا بلکہ انہی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں آصف علی زرداری نے وزیر سرمایہ کاری کا حلف لیا۔عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ 'یہ بڑی کلاسیکل مثال ہے کہ جب ہماری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کرپشن کا بیانیہ بنایا جاتا ہے تو ایسے ہی واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ جب بے نظیر حکومت کو برطرف کیا گیا تو اخبارات میں ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ آصف زرادری پر مسٹر ٹین پرسنٹ ہونے کے علاوہ بھی بڑے الزامات تھے جن میں لوگوں کی زمینوں پر قبضے بھی شامل تھے۔''یہ بھی بتایا کہ گورنر ہاؤس لاہور سے جب ان کی گرفتاری عمل میں آئی تو ان کے قبضے ایک بریف کیس کرنسی اور دوسرا بریف کیس سونے کی اشیا سے بھرا ہوا برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن جب اسی آصف علی زرداری کو صدر غلام اسحاق خان نے اپریل 1993 میں وزیر بنایا تو کسی نے نہیں پوچھا کی کرنسی اور سونے سے بھرے بریف کیسوں کا کیا بنا اور یہ کہ وہ ٹین پرسنٹ کی کرپشن کا حساب کب ہو گا؟''بعد میں اس طرح کے کیس بنائے گئے جب بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف کی گئی لیکن نتیجہ ان کیسوں کا بھی کچھ نہیں نکلا۔'عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ 'حقیقت یہ ہے کہ آج تک پاکستان میں کسی سیاستدان پر کرپشن کا کیس ثابت نہیں کیا جا سکا حالانکہ دنیا میں مضبوط ترین سسٹم پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ہے لیکن وہ ان سیاستدانوں کے خلاف کبھی کچھ ثابت نہیں کر سکی۔ حالانکہ عدلیہ بھی بہت سے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوا سمجھی جاتی ہے۔'حمزہ شہباز: سیاست میں تایا کا شاگرد جو سب کو ساتھ لے کر چلنے میں ماہر ہےجب ایک اور پاکستانی وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیا تھانواز شریف: ’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ سے مستعفی ہونے تکمشرقی پاکستان اسمبلی کے خوں چکاں واقعات اور ڈپٹی سپیکر کا پراسرار قتل’ریلیکس میجر، گولی مت چلانا‘: 12 اکتوبر کی یادیںجب ایک انڈین شہری وزیر اعظم بننے پاکستان پہنچے