
بنگلہ دیش میں گذشتہ برس طلبا تحریک کے ذریعے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 15سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا، جس بعد احتجاجی مظاہرے ایک معمول بن چکے ہیں اور اسی طرح مظاہرین کی گرفتاریاں بھی۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بدھ کو دارالحکومت ڈھاکہ میں کم از کم چھ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں حسینہ واجد کے حق اور مخالفت میں سیاسی مظاہرے، ورکرز کی ہڑتال اور جماعت اسلامی کے ایک رہنما کی سزائے موت سے رہائی کی خوشی میں ریلی بھی شامل تھی۔جماعت اسلامی کے رہنما اظہر السلام نے رہائی کے بعد وہاں موجود ہزاروں حمایتیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں 14 برس کے بعد جیل سے رہا ہوا ہوں۔ ماضی میں کوئی انصاف نہیں تھا، ہم توقع کرتے ہیں کہ عدالت آنے والے دنوں میں انصاف کرے گی۔‘سپریم کورٹ نے انہیں جنگی جرائم سے رہائی دی اور سزائے موت ختم کی ہے۔دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتوں نے ان کی رہائی کے خلاف مظاہرے کرنے کی کال دی ہے۔نگراں حکومت نے جون 2026 میں عام انتخابات کا اعلان کر رکھا ہے اور سیاسی جماعتیں ریلیوں اور مظاہروں کے ذریعے اس کی تیاری کر رہی ہیں، تاہم ان مظاہروں کی وجہ سے ٹریفک جام بھی ایک معمول بن چکا ہے۔گوشت فروخت کرنے والے ایک دکاندار نے کہا کہ ’تمام بڑی سڑکیں بلاک ہیں۔ ہمیں اپنے کام کا شیڈول تبدیل کرنا پڑا۔ میں اب آدھی رات کو کام شروع کرتا ہوں۔‘ایک 45 سالہ خاتون نے کہا کہ ’صورتحال پیچیدہ ہے۔ مظاہرے کسی بھی وقت پرتشدد ہو سکتے ہیں۔ میں کام پر گئے اپنے شوہر کو عام طور پر کال نہیں کرتی لیکن جب وہ دفتر سے گھر میں تھوڑی سی بھی دیر کرتے ہیں تو میں فکرمند ہو جاتی ہوں۔‘بنگلہ دیش کے عبوری رہنما ڈاکٹر محمد یونس انتخابات کے انعقاد تک نگران حکومت کے چیف ایڈوائزر کی حیثیت سے قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے جماعتوں سے اتحاد قائم کرنے اور شدید سیاسی طاقت سے گریز کرنے پر زور دیا ہے۔حکومت نے سنیچر کو متنبہ کیا کہ ’غیر معقول مطالبات‘ اور رکاوٹیں اس کے کام میں ’مسلسل رکاوٹ‘ ڈال رہی ہیں۔ڈاکٹر یونس نے کہا ہے کہ انتخابات دسمبر کے اوائل میں کرائے جا سکتے ہیں لیکن بعد میں ہونے سے حکومت کو اصلاحات کے لیے مزید وقت ملے گا۔