
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے کہا ہے کہ حالیہ پاکستان انڈیا کشیدگی کے دوران یوٹیوب پر کوئی چینل بلاک نہیں کیا گیا، تاہم ریاست مخالف مواد کو ہٹایا گیا ہے۔پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس سینیٹر پلوشہ خان کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں سوشل میڈیا پر جنگی حالات کے دوران جاری ’ریاست مخالف پروپیگنڈا‘ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی کارکردگی زیرِ بحث آئی۔کمیٹی کی چیئرپرسن نے اجلاس کے دوران سوال اٹھایا کہ حالیہ کشیدہ حالات میں جب ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات تھے، سوشل میڈیا پر ریاست کے خلاف منفی بیانیہ کیوں چلتا رہا؟انہوں نے استفسار کیا کہ ایسے حالات میں پی ٹی اے نے کون سے اقدامات کیے؟ اور کیا کسی یوٹیوب چینل کو بلاک کیا گیا؟اس موقعے پر پی ٹی اے کے چیئرمین نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اتھارٹی کے پاس دو بنیادی اختیارات ہوتے ہیں یا تو پورا چینل بلاک کر دیا جائے یا صرف مخصوص مواد کو۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ شکایات کی نوعیت کیا ہے اور ان کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے۔چیئرمین پی ٹی اے نے واضح کیا کہ ’ابھی تک کسی فرد یا ادارے کی جانب سے کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو مکمل طور پر بلاک کرنے کی براہ راست درخواست موصول نہیں ہوئی۔ تاہم روزانہ کی بنیاد پر پی ٹی اے کو اوسطاً 300 شکایات موصول ہوتی ہیں جن کا تعلق نامناسب یا قابل اعتراض مواد سے ہوتا ہے۔’پانچ ماہ میں 45 ہزار شکایات‘چیئرمین پی ٹی اے نے مزید بتایا کہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران پی ٹی اے کو مجموعی طور پر 45 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سب سے زیادہ شکایات یوٹیوب، ٹک ٹاک اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز کے خلاف تھیں۔’یوٹیوب سے متعلق شکایات کا تناسب 90 فیصد، ٹک ٹاک سے 76 فیصد اور فیس بک سے 72 فیصد ہے۔‘انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ سرکاری اداروں کی سہولت کے لیے پی ٹی اے نے ایک الگ پورٹل بھی متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے شکایات تیزی سے درج کروائی جا سکتی ہیں۔چیئرمین پی ٹی اے نے وضاحت کی کہ سوشل میڈیا کمپنیاں ماضی میں پاکستان کو ایک ’چھوٹی مارکیٹ‘ تصور کرتی تھیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اجلاس کے دوران زور دیا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا جائے کہ وہ پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کریں تاکہ ان سے براہِ راست رابطہ ممکن ہو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہتر معاونت ملے۔اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے وضاحت کی کہ سوشل میڈیا کمپنیاں ماضی میں پاکستان کو ایک ’چھوٹی مارکیٹ‘ تصور کرتی تھیں، اسی لیے ان کی دلچسپی کم تھی۔ تاہم اب پی ٹی اے نے بارہا زور دیا ہے کہ یہ کمپنیاں مقامی موجودگی اختیار کریں تاکہ شکایات کے ازالے میں آسانی ہو۔پی ٹی اے کے مطابق اگر شکایات سیاسی مواد سے متعلق ہوں تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اکثر انکار کر دیتے ہیں۔ ’ایسی شکایات پر کمپنیوں کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ آزادی اظہار کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے وہ مداخلت نہیں کرتیں۔‘انہوں نے بتایا کہ جب انفرادی طور پر صارفین شکایت کرتے ہیں تو کمپنیاں خود صارف کو جواب دیتی ہیں اور اس کی بنیاد پر ایک الگ پراسیس شروع ہوتا ہے۔اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ قومی سلامتی، ریاستی اداروں کی ساکھ اور عوامی جذبات سے کھیلنے والے مواد کے خلاف مؤثر اور فوری کارروائی کے لیے مزید قانون سازی اور سوشل میڈیا کمپنیوں پر دباؤ ناگزیر ہے۔سینیٹ کمیٹی نے سفارش کی کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے متعلق ایک جامع حکمتِ عملی تیار کی جائے تاکہ نہ صرف ریاست مخالف مواد کی مؤثر روک تھام ہو بلکہ اظہارِ رائے کی آزادی کا بھی تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔