
17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل کا مقدمہ ان کی والدہ فرزانہ یوسف کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے۔ فرزانہ یوسف نے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا:
"شام کے قریب پانچ بجے ایک اجنبی شخص ہمارے گھر میں داخل ہوا، اس نے کالے رنگ کی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے ہوئے تھے، اور اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ میرے شوہر گھر پر موجود نہیں تھے، اور میرا چھوٹا بیٹا چترال گیا ہوا تھا۔ وہ شخص سیدھا کمرے میں گیا اور ثنا پر فائرنگ کر دی، دو گولیاں اس کے سینے پر لگیں۔ ہم نے شور مچایا تو وہ بھاگ نکلا، محلے والے جمع ہو گئے۔ ہم نے زخمی ثنا کو پڑوسی کی گاڑی میں ڈال کر فوراً اسپتال پہنچایا، مگر وہ راستے میں دم توڑ گئی۔ میری نند لطیفہ شاہ موقع پر موجود تھی، ہم دونوں قاتل کو پہچان سکتے ہیں اگر وہ سامنے آئے۔ میری بیٹی سوشل میڈیا پر بہت مشہور تھی، مگر کسی کو کیا خبر تھی کہ شہرت کی قیمت جان بن جائے گی۔"
ثنا یوسف کی لاش کا پوسٹ مارٹم مکمل کر کے پمز اسپتال نے میت ورثاء کے حوالے کر دی ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بعد ملزم کی تلاش کے لیے جدید طریقے اختیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اعلیٰ پولیس افسر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "ملزم کو کسی صورت فرار ہونے نہیں دیا جائے گا، ہم نے فوری گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔" ان کے مطابق سیف سٹی کیمروں کی مدد سے جائے وقوعہ کے اطراف کی نگرانی جاری ہے جبکہ جی-13/1 کے علاقے کی جیو فینسنگ بھی ہو رہی ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ قاتل کو شناخت کرنے والے گواہ موجود ہیں، اور واقعہ کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور سامنے آئے گا۔ سوشل میڈیا پر سرگرم ایک نوجوان لڑکی کا یوں قتل ہونا نہ صرف اس کے چاہنے والوں کے لیے صدمہ ہے بلکہ یہ واقعہ شہری سیکیورٹی اور خواتین کی حفاظت سے متعلق کئی سنجیدہ سوالات بھی کھڑا کر رہا ہے۔
یہ افسوسناک سانحہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ سوشل میڈیا شخصیات کی زندگیوں کو درپیش خطرات کو سنجیدگی سے لیا جائے، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے جرائم پر فوری اور موثر کارروائی کو یقینی بنائیں۔