
ذوالحج کا چاند نمودار ہوتے ہی ملک بھر میں قربانی کی تیاریوں کا آغاز ہو جاتا ہے، اور ہزاروں لوگ مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے مناسب جانور خرید سکیں۔ لیکن قربانی کا جانور خریدنا محض ایک مرحلہ ہے، اصل آزمائش تب شروع ہوتی ہے جب وہ جانور گھر آتا ہے اور یہی وہ وقت ہے جہاں اکثر لوگ بنیادی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔
جانور کو جب نئی جگہ لایا جاتا ہے تو وہ نہ صرف ماحول سے ناآشنا ہوتا ہے بلکہ شور شرابے اور لوگوں کی موجودگی سے پریشان بھی ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر بچوں کی جانب سے مسلسل چھیڑ چھاڑ اسے ذہنی دباؤ میں مبتلا کر سکتی ہے۔ جانوروں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر نصیب اللہ ملک نے اسی حوالے سے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اہم نکات پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا کہ جانور کو منڈی سے گھر لا کر فوراً نہلانا خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت اس کا جسمانی درجہ حرارت بلند ہوتا ہے۔ فوری نہلانے سے اس کی طبیعت بگڑ سکتی ہے، اس لیے ابتدائی دنوں میں اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ پانی سے غسل کی۔
غذا کی بات کریں تو ڈاکٹر نصیب اللہ کا مشورہ ہے کہ جانور کے آگے ہر وقت چارہ رکھنے کے بجائے اسے دن میں دو مرتبہ خوراک دی جائے — ایک صبح اور ایک شام۔ اسی طرح پانی بھی وقت مقررہ پر پلایا جائے تاکہ اس کا نظام ہضم متوازن رہے۔
گرمی سے بچانے کے لیے سب سے اہم قدم یہ ہے کہ جانور کو او آر ایس یا گلوکوز دیا جائے، تاکہ وہ جسمانی طور پر تروتازہ رہے اور ڈیہائیڈریشن کا شکار نہ ہو۔ اس کے بعد اگر ضرورت ہو تو ہلکی پھلکی فزیو تھراپی کے ذریعے اسے مزید آرام فراہم کیا جا سکتا ہے۔
یہ سب باتیں اس لیے اہم ہیں کیونکہ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کے آرام، سہولت اور تکلیف کا خیال رکھنا بھی عبادت کا حصہ ہے۔ جانور ایک امانت ہوتا ہے، اور اس کا احترام ہماری عبادت کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔