
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل 6 جون 2022 میں شائع کی گئی تھی اسے یکم سے دس جون 1984 کے درمیان ہونے والے آپریشن بلیو سٹار میں قارئین کی دلچسپی کے سبب دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔آپریشن بلیو سٹار سے کچھ دیر پہلے جرنیل سنگھ بھنڈرانولے کے ساتھ لمبی سفید داڑھی اور صاف ستھری پگڑی پہنے ایک شخص کو گولڈن ٹیمپل میں بیٹھا دیکھا گیا تھا۔وہ دیکھنے میں دبلے پتلے ضرور تھے لیکن ان کے چہرے سے علم جھلکتا تھا۔ بظاہر وہ ایک گرنتھی (سکھ مذہب کا عالم) نظر آتے تھے لیکن حقیقت میں وہ ایک سپاہی تھے۔ یہ میجر جنرل شابیگ سنگھ تھے جنھوں نے گولڈن ٹیمپل میں انڈین فوجیوں کے خلاف لڑنے والے سکھوں کی صف بندی کی تھی۔جب انڈین فوج تین ماہ بعد گولڈن ٹیمپل میں داخل ہوئی تو انھوں نے ہی تقریباً 200 پیروکاروں کے ساتھ اس کا سامنا کیا تھا۔شابیگ سنگھ کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اور وہ سات زبانیں پنجابی، فارسی، اردو، بنگالی، گورکھالی، ہندی اور انگریزی بول سکتے تھے۔میجر جنرل شابیگ سنگھ کی شخصیتمیں نے یہ سوال ان کے چھوٹے بیٹے پربپال سنگھ کے سامنے رکھا جو اس وقت ریاست راجستھان کے بھیواڑی میں رہائش پزیر ہیں۔پربپال سنگھ نے جواب دیا: ’ان کا قد 5 فٹ 8 انچ تھا۔ وہ بہت اچھے ایتھلیٹ تھے۔ 18 سال کی عمر میں انھوں نے 100 میٹر کی دوڑ میں انڈین ریکارڈ کی برابری کی۔ اس کے علاوہ وہ بہت اچھے گھڑ سوار اور تیراک بھی تھے۔ لیکن وہ ہمیشہ سے فوج میں شامل ہونا چاہتے تھے۔‘وہ انڈیا کی طرف سے ہر جنگ میں شامل ہوئے۔اپنے فوجی کرئیر میں انھوں نےانڈیا کی جانب سے ہر جنگ لڑی، چاہے وہ دوسری جنگ عظیم ہو، 1947 میں پاکستان کے خلاف حملہ ہو یا سنہ 1962 کی انڈیا چین جنگ یا پھر 1965 اور 1971 کی پاک انڈیا جنگ ہو۔پربپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’انھیں 1942 میں کنگز کمیشن ملا تھا۔ انھوں نے برطانوی افواج کے ساتھ سنگاپور اور ملایا کو آزاد کرایا۔ 1948 میں انھوں نے کشمیر میں پاکستان کے خلاف جنگ لڑی، جہاں وہ بریگیڈیئر عثمان کے سٹاف آفیسر تھے۔ جب عثمان لڑائی میں مارے گئے تو وہ ان سے 20 گز کے فاصلے پر تھے۔‘پربپال سنگھ بتاتے ہیں کہ وہ 1962 کی جنگ میں تیز پور (مشرقی انڈیا کا شہر) میں تھے۔ وہ زخمی انڈین فوجیوں کو مزدور کی طرح اپنے کندھے پر اٹھا کر تیز پور ہسپتال لائے تھے۔’وہ 1965 کی جنگ میں حاجی پیر کے محاذ پر تھے۔ وہ واحد افسر تھے جنھیں براہ راست لیفٹیننٹ کرنل سے بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ سنہ 1969 میں وہ ناگالینڈ کی پوسٹنگ پر چلے گئے۔ جب بنگلہ دیش کا تنازع شروع ہوا تو وہ وہیں تھے۔‘شابیگ سے بنے بیگ1971 میں جب بنگلہ دیش کا تنازع شروع ہوا تو انڈین فوج کے سربراہ سیم مانیک شا نے انھیں دہلی طلب کیا جہاں انھیں مکتی باہنی کو تیار کرنے اور تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی۔یہ ایک خفیہ مشن تھا کیونکہ انڈیا دنیا کو یہ نہیں دکھانا چاہتا تھا کہ وہ مکتی باہنی کو تربیت دے رہا ہے۔ سرکاری طور پر انڈیا نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ اس نے مکتی باہنی کو تربیت دی تھی۔ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کا خیال تھا کہ مکتی باہنی کی تربیت میں شابیگ سنگھ کا بڑا کردار تھا۔اس وقت وہ روایت پسند سکھ نہیں تھے۔ لیکن جب ان سے مطالبہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے بال بھی کاٹ لیے۔ سکھوں میں بال نہ کاٹنے کی بڑی اہمیت ہے۔شابیگ سنگھ کے بیٹے پربپال سنگھ نے کہا: ’جب میرے والد مکتی باہنی کو تربیت دے رہے تھے، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں رہ رہے ہیں۔ جب ہم نے ان سے فون پر پوچھا کہ آپ اپنا پتہ بتائیں، تو انھوں نے کہا: مسٹر بیگ، حبیب ٹیلرنگ ہاؤس، اگرتلہ۔‘ ’وہ کافی دنوں تک گھر نہیں آئے، میری والدہ نے میرے بڑے بھائی سے کہا کہ تم چھٹی لے کر جا کر معلوم کرو کہ تمہارا باپ کہاں ہے، وہ خط کا جواب بھی نہیں دے رہے ہیں۔ جب میرا بھائی وہاں گیا تو انھوں نے کہا میں ٹھیک ہوں، میں زیر زمین آپریشن کر رہا ہوں، اب میں بریگیڈیئر شابیگ نہیں رہا، اب میرا نام بیگ ہے۔‘مکتی باہنی کو تربیتGetty Imagesایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کا خیال تھا کہ مکتی باہنی کی تربیت میں شابیگ سنگھ کا بڑا کردار تھابریگیڈیئر شابیگ سنگھ کو وسطی اور مشرقی بنگلہ دیش کے علاقے ڈیلٹا سیکٹر میں مکتی باہنی کی تربیت کا انچارج بنایا گیا تھا۔انھوں نے بہت سے ایسے لوگوں کو تربیت دی جنھوں نے پاکستانی فوج کو چھوڑ دیا جیسے میجر ضیا الرحمان اور محمد مشتاق جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر اور چیف آف آرمی سٹاف بنے۔شابیگ کی کوششوں نے بنگلہ دیش میں جنوری سے اکتوبر سنہ 1971 تک گوریلا تحریک کو اس حد تک بڑھایا کہ جب لڑائی شروع ہوئی تو پاکستانی فوج مزاحمت کرنے کی قوت تقریباً کھو چکی تھی۔آپریشن بلیو سٹار: ایسا فوجی آپریشن جس کی قیمت چکانے کے لیے اندرا گاندھی کو اپنی جان دینی پڑیمشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش: 13 دن کی جنگ کے دوران ڈھاکہ میں کیا ہوتا رہا؟جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاخالصتان تحریک کیا ہے اور سکھوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ پہلی بار کب اٹھایا گیا؟پربپال سنگھ کہتے ہیں: ’میرے والد نے مکتی باہنی کو ہتھیار چلانا سکھایا۔ گوریلا جنگ کی حکمت عملی سمجھائی۔ انھوں نے چٹاگانگ کی بندرگاہ پر ایک وقت میں پانچ چھوٹے جہاز مار گرائے۔ مکتی باہنی نے پاکستانی فوجی افسران پر گھات لگانا شروع کر دیا، انھوں نے ان کے قافلوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا، پلوں کو دھماکے سے اڑانے لگے اور اس بات کو یقینی بنانے لگے کہ پاکستانی فوج تک رسد نہ پہنچ سکے۔‘پرم وششٹ سیوا میڈلبریگیڈیئر شابیگ سنگھ کو بنگلہ دیش جنگ میں ان کی خدمات کے لیے حکومت ہند نے پرم وششٹ سیوا میڈل سے نوازا۔ اس سے قبل وہ اتی وششٹ سیوا میڈل بھی حاصل کر چکے تھے۔پربپال سنگھ کو آج بھی یاد ہے جب وہ اپنے والد کے ساتھ ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے راشٹرپتی بھون گئے تھے۔پربپال بتاتے ہیں: ’اس وقت صدر وی وی گری تھے۔ اشوک ہال میں میڈل کی تقسیم کی تقریب کے بعد انھوں نے ایک پارٹی دی۔ ہم لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ پھر سام مانک شا کی آواز گونجی، ’اوئے شابیگ، تیری سنگنی کہاں ہے؟‘ سب میرے والد کی طرف دیکھنے لگے، میرے والد نے کہا: ’سر، میں ابھی لے کر آتا ہوں‘، پھر سام میری والدہ سے ملے، میں نے بھی ان سے مصافحہ کیا، انھوں نے گورکھا جوان کی بیوی سے نیپالی میں بات بھی کی۔ وہ ایک اچھے انسان بھے جو سب کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔‘راؤ فرمان علی نے 10 لاکھ روپے کا انعام رکھا تھا1971 کی جنگ کے بعد شابیگ سنگھ کو جبل پور میں پاکستانی فوجیوں کے جنگی قیدی کیمپ کا انچارج بنایا گیا۔ جنرل نیازی اور پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران کو اسی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ایک بار جب شابیگ سنگھ جنگی کیمپ کے قیدی کے پاس جا رہے تھے تو ان کے بیٹے پربپال سنگھ نے بھی ان کے ساتھ وہاں جانے کی خواہش ظاہر کی۔پربپال بتاتے ہیں: ’جب میں وہاں پہنچا تو پاکستانی فوج کے کئی اعلیٰ افسران وہاں بیٹھے تھے۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی کمرے کے اندر آئے۔ آتے ہی انھوں نے میرے والد کی طرف دیکھا۔ نیازی نے ہنستے ہوئے کہا، پہچانا نہیں؟ فرمان علی نے کہا، ’نہیں، لیکن لگتا ہے کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔‘ میرے والد نے اپنی پگڑی اتار دی، ’آپ مسٹر بیگ ہیں‘ فرمان علی نے کہا تو میرے والد نے کہا ’آئی ایم جنرل شابیگ سنگھ۔‘انھوں نے کہا: ’پھر میں نے فرمان علی سے پوچھا کہ آپ نے ان سے اس لہجے میں بات کیوں کی؟ تو انھوں نے کہا: ’آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے والد کے سر پر 10 لاکھ روپے کا انعام تھا زندہ یا مردہ۔‘پربپال سنگھ نے کہا: ’انھوں نے ان پر انعام رکھا تھا کہ جو بھی انھیں مردہ یا زندہ پکڑے گا اسے 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ جب نیازی ٹرین کے ذریعے پاکستان واپس جا رہے تھے تو میں انھیں اپنے والد کے ساتھ سٹیشن تک چھوڑنے گیا تھا۔ میں نے ان کے لیے ایک مٹھائی کا ڈبہ اور کے ایل سہگل کے چھ ریکارڈ پیک کر دیے تھے۔ وہ بہت متاثر ہوئے۔‘Getty Imagesجنرل راؤ فرمان علیکرپشن کا الزام اور ملازمت سے برطرفیاس کے بعد وہ اتر پردیش کے بریلی میں تعینات ہوئے۔ بریلی کا علاقہ بہت بڑا تھا، اس کے اندر دو تین تربیتی مراکز ہوا کرتے تھے۔ وہیں ایک آڈٹ رپورٹ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جنرل شابیگ سنگھ نے اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جو فوج کے اعلیٰ افسران کو پسند نہیں آئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ جنرل شابیگ سنگھ کی ریٹائرمنٹ سے صرف ایک دن پہلے انھیں بغیر مقدمہ چلائے یا کورٹ مارشل کے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ان کی پنشن بھی روک دی گئی۔ ان پر کرپشن کے مزید الزامات بھی لگائے گئے۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ جبل پور سے ٹرانسفر ہونے پر انھوں نے چاندی کی شلوار جس کی قیمت 2500 روپے تھی تحفے کے طور پر قبول کی تھی۔ ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انھوں نے اپنے گھر کی تعمیر میں اپنی آمدنی کے ذرائع سے زیادہ رقم لگائی۔آپریشن بلیو سٹار پر مبنی کتاب ’امرتسر مسز گاندھیز لاسٹ بیٹل‘ لکھنے والے ستیش جیکب کہتے ہیں: ’حکومت کے اس اقدام نے جنرل شابیگ سنگھ کو بہت تلخ اور حکومت مخالف بنا دیا۔ انھوں نے حکومت کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا، عدالت نے ان الزامات کو غلط قرار دیا لیکن اس کے باوجود حکومت کے تئیں ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی دوران انھوں نے اپنے ذہنی سکون کے لیے مذہب کا سہارا لیا اور تب ہی وہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کے زیر اثر آ گئے۔‘جب جنرل شابیگ نے ستیش جیکب کو ڈانٹاستیش جیکب ایک اور قصہ سناتے ہیں: ’میں بھنڈرانوالے کو بہت پہلے سے جانتا تھا، کیونکہ میں اکثر ان کا انٹرویو کیا کرتا تھا۔ بھنڈرانوالے اکثر زمین پر بیٹھا کرتے تھے۔ ان کے پیچھے گاؤ تکیہ لگا ہوتا تھا۔‘وہ کہتے ہیں: ’ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا تھا، ایک جگہ بیٹھے بیٹھے میری ٹانگ تھک گئی تھی۔ میں نے آرام دینے کے لیے اسے تھوڑا سا پھیلایا جو کہ بھنڈرانوالے کو چھو گئی۔ میرے پاس بیٹھے جنرل شابیگ سنگھ نے غصے سے میری طرف دیکھ کر ٹوکا اور کہا، ہوشیار رہو، سنت جی ناراض ہو جائیں گے۔‘’شابیگ کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ بھنڈرانوالے مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب بھنڈرانوالا نے مجھے جنرل شابیگ سے بات کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا، ’آپ جنرل سے کیا بات کر رہے ہیں؟ میں نے انھیں ٹالنے کی کوشش کی لیکن بھنڈرانوالے نے اصرار کیا تو میں نے بتا دیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ جب میں نے ان سے کہا کہ جنرل مجھے تنبیہ کر رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ بدتمیزی نہ کریں، تو بھنڈرانوالے یہ سن کر ہنس پڑے۔‘گولڈن ٹیمپل میں عسکری صف بندیبھنڈرانوالے کے کہنے پر جنرل شابیگ گولڈن ٹیمپل میں رہنے لگے۔ بھنڈرانوالے نے انھیں گولڈن ٹیمپل کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی۔تین ماہ سے زیادہ وہاں رہ کر انھوں نے ہر وہ کام کیا جس سے انڈین فوجیوں کے لیے گولڈن ٹیمپل میں داخل ہونا مشکل ہو جائے۔پربپال سنگھ کہتے ہیں: ’لوگ کہتے تھے کہ شابیگ سنگھ گوریلا حکمت عملی کے ہو چی من (ویت نام کے رہنما) تھے۔ انھوں نے اپنے جنگجوؤں کو تہہ خانے اور مین ہول کے نیچے کھڑا کیا اور ان سے کہا کہ وہ انڈین فوجیوں کی ٹانگوں کو نشانہ بنائیں۔ زیادہ تر انڈین فوجیوں کو پیروں میں گولیاں لگیں۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ گولیاں کہاں سے آ رہی ہیں۔‘’فوج نے آپریشن بلیو سٹار میں اپنے بہترین کمانڈوز بھیجے، جو سفید سنگ مرمر کے پس منظر پر سیاہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔ اندھیرے میں وہ فوراً سکھ علیحدگی پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔‘جنرل وی کے سنگھ، جو بعد میں انڈیا کے چیف آف آرمی سٹاف بنے، انھوں نے اپنی سوانح عمری ’کریج اینڈ کنوکشن‘ میں لکھا: ’میجر جنرل شابیگ سنگھ کی نگرانی میں گولڈن ٹیمپل کے دفاع کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ تمام ہتھیار زمین سے صرف چند انچ کی اونچائی پر رکھے گئے تھے۔‘’اس کا مطلب یہ تھا کہ نہ صرف حملہ آور فوجیوں نے اپنی ٹانگیں کھو دیں، بلکہ وہ رینگ کر آگے بڑھنے کا آپشن بھی کھو بیٹھے، کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کے سروں میں گولی لگ جاتی۔‘’حملے سے پہلے، جنرل برار حالات کا جائزہ لینے کے لیے سادہ کپڑوں میں گولڈن ٹیمپل کے اندر گئے، شابیگ سنگھ، جو دوربین کے ذریعے سارا منظر دیکھ رہے تھے، نے انھیں فوراً پہچان لیا لیکن انھوں نے اپنے جنگجوؤں سے کہا کہ وہ جنرل برار سے نہ الجھیں۔‘Getty Imagesسابق فوجی سربراہ جنرل ویدیا گولڈن ٹمپل سے باہر آتے ہوئےبعد ازاں سینیئر صحافی شیکھر گپتا نے دی انڈین ایکسپریس کے 4 جون سنہ 2014 کے شمارے میں ’دی آڈیسیٹی آف انکومپیٹینس‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا: ’انڈین جرنیلوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ ان کا مقابلہ اناڑیوں سے نہیں، بلکہ ایسے لوگوں سے تھا جس کی قیادت ان جیسا ہی شخص کر رہا تھا اور اگر وہ ان سے بہتر نہیں تو برابر تو تھا ہی، انھوں نے ان سب کے ساتھ کام کیا تھا اور بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران مکتی باہنی کے جنگجوؤں کو تربیت دے کر نام کمایا تھا۔‘شیکھر گپتا لکھتے ہیں: ’گولڈن ٹیمپل کے دفاع میں کوئی وسیع حکمت عملی یا پرانے زمانے کی گوریلا جنگ کا استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ بٹالین سطح کے سپاہیوں کے ذریعے ایک عمارت کا دفاع کیا گیا۔‘’انھوں نے فٹ بال کے میدان کے آدھے حصے کے برابر علاقے کو مکمل طور پر کور کیا ہوا تھا جہاں سے انڈین فوجیوں کو کھلی جگہ سے ہوتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔ یہ ان کے خیال میں پہلے سے طے شدہ ’قتل گاہ‘ تھی جسے فوجی زبان میں FIBUA کہا جاتا ہے۔‘’شابیگ کو یہ غلط فہمی نہیں تھی کہ وہ جیت جائیں گے۔ وہ انڈین فوجیوں کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانا چاہتے تھے تاکہ وہ ناگزیر کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کرتے رہیں تاکہ صبح تک اتنا ہجوم ہو کہ فوجی کارروائی روک دی جائے۔ اگر انڈین فوج گولڈن ٹیمپل کی طرف ٹینک نہ بھیجتی تو وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہو جاتے۔‘جنرل شابیگ کی موتجنرل کلدیپ برار اپنی کتاب ’آپریشن بلیو سٹار دی ٹرو سٹوری‘ میں لکھتے ہیں: ’ہمیں جنرل شابیگ سنگھ کی لاش تہہ خانے میں ملی۔ مرنے کے بعد بھی وہ ہاتھ میں کاربائن پکڑے ہوئے تھے۔ ان کا واکی ٹاکی ان کے جسم کے پاس زمین پڑا تھا۔‘لیکن جنرل شابیگ سنگھ کے بیٹے پربپال سنگھ نے ان کی موت کے بارے میں مختلف بیان دیا ہے۔وہ کہتے ہیں: ’میں بہت سے لوگوں سے ملا جنھیں آپریشن بلیو سٹار کے بعد جودھ پور جیل بھیج دیا گیا تھا، انھوں نے مجھے بتایا کہ جنرل شابیگ سنگھ کی وفات پہلے ہی دن یعنی 5 جون کو ہو گیا تھا۔‘ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کی موت کا اعلان 6 تاریخ کو کیا تھا جبکہ وہ ایک دن پہلے ہی مر چکے تھے۔وہ کہتے ہیں: ’مشین گن کے برسٹ سے انھیں سات گولیاں لگیں تھیں۔ بھنڈرانوالے نے ان کی میت کو لٹا کر ان کے لیے دعا کی، انھوں نے لاش کو صاف کیا، پھر اس تہہ خانے میں لے گئے۔ جب آرٹیلیری سے فائرنگ ہوئی تو ان کا جسم گر گیا اور ملبے میں دب گیا۔‘مارک ٹلی اور ستیش جیکب اپنی کتاب ’امرتسر، مسز گاندھیز لاسٹ بیٹل‘ میں لکھتے ہیں: ’شابیگ سنگھ کی لاش 9 جون تک پوسٹ مارٹم کے لیے نہیں بھیجی گئی، لیکن اس کے باوجود ان کا مکمل پوسٹ مارٹم نہیں ہو سکا کیونکہ ان کی لاش گلنا شروع ہو گئی تھی۔‘حکومت کا شابیگ سنگھ کی لاش دینے سے انکارجب شابیگ سنگھ کے گھر والوں کو ان کی موت کا علم ہوا تو ان کی بہو نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ویدیا کو فون کیا اور پوچھا کہ ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپریشن بلیو سٹار میں ہمارے سسر کی موت ہو گئی ہے۔ کیا آپ ہمیں ان کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟‘پربپال سنگھ کہتے ہیں: ’جنرل ویدیا نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ کوئی آپریشن بلیو اسٹار نہیں ہوا ہے۔ فوج نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔‘’میں بھاگ کر چندی گڑھ پہنچا۔ وہاں میں نے گورنر بی ڈی پانڈے کو فون کیا اور کہا، ’میں اپنے والد کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘ لیکن گورنر پانڈے نے کہا ’میں آپ کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو مجھے ہزاروں لوگوں کو اس کی اجازت دینی ہو گی۔‘’پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس آپریشن میں ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں، تو انھوں نے فون بند کر دیا، اس کے بعد انھوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔ تین دن تک میں ان کے گھر کے گیٹ کے باہر کھڑا رہا کہ میں ان سے اپنی فریاد کہوں لیکن مجھے کامیابی نہیں ملی۔‘’میرے والد کی آخری رسومات کب ہوئیں، کیسے ہوئيں، میں کچھ نہیں جانتا۔ انھوں نے نہ تو ہمیں ان کی کوئی چیز دی اور نہ ہی ان کی راکھ دی۔‘جولائی سنہ 1984 میں حکومت کی طرف سے جاری ایک وائٹ پیپر میں بتایا گیا کہ آپریشن بلیو سٹار میں 83 فوجی اہلکار مارے گئے جن میں چار افسران بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ 273 فوجی اور 12 اہلکار زخمی ہوئے۔’مجھے عوام نہیں، دشمن سے لڑنے کی تربیت دی گئی‘: آپریشن بلیو سٹار کے سربراہ جنھیں جنرل ضیا مرتے دم تک آم اور کینو بھیجتے رہےہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیابنگلہ دیش کا قیام: کیا جنگ شروع کرنے کے لیے انڈیا بہتر وقت کے انتظار میں تھا؟وہ ’چھکا‘ جس نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک ممکنہ جنگ ٹال دیپاکستان اور انڈیا کی عسکری قیادت نے چار روز کی لڑائی سے کیا سیکھا؟