بلوچستان میں مبینہ شدت پسندوں کی لاشوں اور تدفین کا تنازع: ’لواحقین آئیں، مانیں وہ دہشت گرد تھا، ہمیں لاشوں سے کیا لینا دینا ہے‘


BBCسکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مبینہ شدت پسندوں کے لواحقین کی جانب سے بنائی گئی فرضی قبریںبلوچستان میں ریاست پاکستان اور علیحدگی پسند مسلح تنظیموں کے درمیان جاری تنازع کے بیچ ایک نیا تنازع جنم لے رہا ہے۔ یہ تنازع ہے ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مبینہ مسلح شدت پسندوں کی لاشوں کا جس میں ایک جانب خود ریاست ہے تو دوسری جانب ہلاک ہونے والوں کے لواحقین۔اس تنازع کی ایک مثال بی بی سی کو ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ میں دیکھنے کو ملی جہاں تین افراد کی چھ قبریں ہیں۔ تین قبریں وہ ہیں جن میں موجود تین افراد کو ریاستی اداروں نے یہ کہہ کر دفنایا کہ وہ ایسے علیحدگی پسند جنگجو تھے جو سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہوئے، جبکہ دیگر تین قبریں ایسی ہیں جو اِن ہی افراد کے اہلخانہ نے علامتی طور پر بنا رکھی ہیں کیوںکہ اُن کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے انھیں اُن کے پیاروں کی لاشیں دینے سے انکار کر دیا تھا۔واضح رہے کہ یہ افراد ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت شہر کے قریب ڈننُک نامی مقام پر 29 اپریل کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوئے تھے۔لواحقین کے مطابق ان تینوں افراد کو 17 مئی کو تربت شہر میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ کے ساتھ موجود قبرستان میں دفنایا گیا تھا۔ لواحقین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سرکاری سطح پر ان افراد کی تدفین کے ایک روز بعد، یعنی 18 مئی کو، جب وہ لاشوں کو لینے گئے تو انھیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ان افراد کے لواحقین میں سے ایک کی بہن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا بھائی علیحدگی پسند تنظیم کا حصہ تھا۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ’وہ جو بھی تھا اب ختم ہو گیا، اس کی لاش ہمیں دے دی جائے۔‘ اُن کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انھیں پہلے لاش دینے سے متعلق یقین دہانی کرائی گئی تھی تاہم مایوس ہونے کے بعد انھوں نے علامتی قبریں بنا لیں۔BBCفضیلہ بلوچ: ’وہ جو بھی تھا اب ختم ہو گیا، اس کی لاش ہمیں دے دی جائے‘دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ ’اس طرح کے معاملے میں اگر لواحقین آ جائیں، ضابطے کی کاروائی پوری کریں اور یہ مانیں کہ ہلاک ہونے والا دہشت گرد تھا، تو ہمیں ان لاشوں سے کیا لینا دینا ہے۔‘یاد رہے کہ یہ بلوچستان میں اس نوعیت کا پہلا تنازع نہیں۔ اس سے قبل جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد بھی ایسا ہی ایک تنازع اس وقت پیدا ہوا تھا جب سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی کے بعد چند لاشیں کوئٹہ لائی گئی تھیں اور یہ کہا گیا تھا کہ یہ مبینہ حملہ آور تھے۔BBCجعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے مبینہ شدت پسندوں کی تدفین کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں کی گئی تھی اور ان کی لاشوں کی حوالگی کے حوالے سے تنازع پیدا ہوا تھاتاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے زیراہتمام احتجاج کے بعد مظاہرین ہسپتال سے چند لاشیں لے جانے میں کامیاب ہوئے جنھیں بعد میں بازیاب کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد بی وائی سی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ ترجمان افواج پاکستان لیفٹینینٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’ڈاکٹر ماہ رنگ یا بی وائی سی والے کون ہوتے ہیں کہ دہشت گردوں کی لاشیں ان کے حوالے کی جائیں، ریاست پراسیکیوٹ کرے گی اور اس سلسلے میں ایک ضابطہ کار ہے۔‘ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی لاشیں اور تدفین کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟ اور ایسے افراد کے لواحقین کے کیا حقوق ہیں؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اگر ریاست ایسے افراد کی لاشیں اُن کے لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے انھیں خود دفن کر دیتی ہے تو اس کے ایک شورش زدہ صوبے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جہاں جبری گمشدگی بھی ایک بڑا حل طلب لیکن متنازع معاملہ ہے؟یاد رہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں لاشوں کو نہ صرف لاوارث قرار دے کر دفن کیا جاتا رہا ہے بلکہ ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے کوئٹہ کے نواحی علاقے دشت میں ایسے لوگوں کی تدفین کے لیے دو بڑے قبرستان بھی بنائے گئے ہیں۔BBCکوئٹہ کے قریب دشت کے علاقے میں واقع وہ قبرستان جہاں زیادہ تر ناقابل شناخت لاشوں کی تدفین کی جاتی ہےتاہم جعفر ایکسپریس کے واقعے کے بعد سرکاری حکام کی یہ رائے سامنے آئی ہے کہ بعض عناصر اور تنظیمیں عسکریت پسندوں کی لاشوں کو لے کر اُن کو ’گلوریفائی کرنا چاہتے ہیں۔‘ (یا اُن کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں) وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ’آئین پاکستان اور قوانین کے تحت ریاست کے خلاف لڑنے والے ہارڈ کور دہشت گردوں کو گلوریفائی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘’چھ قبروں‘ کا تنازعجن تین افراد کی چھ قبروں کے بارے میں بی بی سی کو علم ہوا ہے اُن کے اہلخانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم دو افراد کے اہلخانہ نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔فضیلہ بلوچ تیسرے مبینہ عسکریت پسند کی بہن ہیں جنھوں نے بی بی سی سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس واقعے کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں میڈیا سے معلوم ہوا کہ مارے جانے والوں میں میرا بھائی بھی شامل ہے۔‘ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا بھائی ’گھر والوں کو بتائے بغیر پہاڑوں میں چلا گیا تھا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم پہلے ہسپتال گئے تو وہاں اُس کی لاشیں نہیں تھیں۔ اس کے بعد ہم ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ لاشیں لواحقین کے حوالے کی جائیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا جس کے بعد ہم نے سی پیک روڈ کو دو روز کے لیے بند کیا۔‘فضیلہ کے مطابق ’وہاں سکیورٹی اہلکار آئے اور ہمیں احتجاج ختم نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی جس کی وجہ سے ہم نے احتجاج ختم کیا۔‘انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد ہم عدالت سمیت تمام متعلقہ اداروں کے پاس گئے لیکن لاشیں نہیں دی گئیں۔‘ ان کے بقول ’ہم نے سرکاری حکام کو یقین دہانی کرائی کہ ہم لاشوں کو لے کر کوئی جلوس نہیں نکالیں گے لیکن جب امید ختم ہو گئی تو ہم نے ان کی تین علامتی قبریں بنوائیں اور ان میں ان کی استعمال کی چیزوں کو دفن کر دیا۔‘لاپتہ پیاروں کی متلاشی بلوچ خواتین: ’دل سے ڈر ختم ہو چکا، بس کسی بھی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کو واپس لانا ہے‘جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانی’میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں‘رحیم زہری کی مبینہ جبری گمشدگی: ’ان کے سامنے قرآن رکھا لیکن انھوں نے مار مار کر بے ہوش کر دیا‘اُن کا کہنا تھا کہ ’بعد میں 17 مئی کو تربت شہر میں تعلیمی چوک کے قریب سکیورٹی فورسز کے کیمپ کے ساتھ قبرستان میں جب اُن کو دفن کیا گیا تو ہم 18 مئی کو ہم وہاں گئے تاکہ ان لاشوں کو نکال کر اپنے علاقوں میں لے آئیں اور ان کو مناسب انداز سے دفن کریں، لیکن اس کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔‘ اس موقع پر، بی بی سی کی معلومات کے مطابق، فضیلہ بلوچ کو حکام نے ان کے بھائی کی شناخت کرنے میں مدد فراہم کی۔تاہم فضیلہ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ ’اگر حکومت ان کو وہاں بھی مناسب انداز سے دفن کرتی تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا، لیکن اُن کے مطابق ایسا نہیں کیا گیا۔شدت پسندوں کی لاشیں اور قانوناس حوالے سے سینیئر وکیل عمران بلوچ کا کہنا ہے کہ ’متعلقہ مجسٹریٹ کو ضابطہ فوجداری کے تحت ایک درخواست دی جاتی ہے اور مارے جانے والے شخص سے تعلق کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’جب تعلق ثابت ہو تو مجسٹریٹ لاش لواحقین کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرتا ہے۔‘ان کے مطابق ’یہ ایک قسم کا سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے جو ہسپتال کی انتظامیہ کو دے کر لاش حاصل کی جا سکتی ہے۔‘تاہم اگر ایسے سرٹیفیکیٹ کے باوجود لاش نہ دی جائے تو؟ عمران بلوچ کے مطابق ’اگر مجسٹریٹ کے حکم کے باوجود لاش کو حوالے نہیں کیا جاتا ہے تو پھر متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں یہ بتایا جا سکتا ہے کہ مجسٹریٹ کے حکم پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، جبکہ خود اسی مجسٹریٹ کے پاس توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کی جا سکتی ہے۔‘اُن کا کہنا تھا ’یہ معاملہ آئینی حقوق کے بھی زمرے میں آتا ہے جس کے پیش نظر ہائیکورٹ بھی میں اس حوالے سے درخواست دی جا سکتی ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ اُن کے سامنے مجسٹریٹ کے سامنے 8 سے 10 ایسی درخواستیں آ چکی ہیں جن پر ’مجسٹریٹ کے حکم پر لوگوں نے ہسپتال سے اپنے لواحقین کی لاشیں حاصل کیں۔‘ماہرین کیا کہتے ہیں؟بلوچستان کے اُمور کے ماہر رفیع اللہ کاکڑ کے مطابق ’لاشوں کو لواحقین کے حوالے نہ کرنے اور خود ریاست کی جانب سے اُن کی تدفین کرنے سے نقصان یہ ہو گا کہ اس سے بلوچ مسنگ پرسنز یا بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مؤقف کو تقویت ملنے کا زیادہ امکان ہے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’ریاست کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے اور اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔‘اس سوال پر کہ ریاست عسکریت پسندوں کی لاشوں کو حوالے نہ کر کے اُن کی ’گلوریفیکیشن‘ کو روکنا چاہتی ہے تو کیا اس طریقے سے تشدد میں کمی آ سکے گی، اُن کا کہنا تھا کہ ’ڈیجیٹل دور میں تصور بدل گیا ہے۔‘ان کی رائے کے مطابق ’بلوچ عسکریت پسند اکثر ڈیجیٹل ورلڈ میں آپریٹ کر کے بلوچ نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کر رہے ہیں۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومت کی یہ سوچ ہے کہ وہ لاشوں کو حوالے نہ کر کے نوجوانوں کو تشدد کی جانب راغب ہونے سے بچائے گی تو مجھے یہ نہیں لگتا ہے کہ یہ اتنا کارآمد ثابت ہو سکے گا بلکہ اس سے غم و غصہ بڑھے گا۔‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان مکران ریجن کے کوآرڈینیٹر اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر غنی پرواز بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’جب کوئی مارا جاتا ہے اور اس کے لواحقین کہتے ہیں کہ لاشِیں ان کے حوالے کی جائیں تو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔‘’خودسے لاشوں کو دفنانا غلط ہے۔ نواب اکبر بگٹی کی میت کو جس انداز سے دفنایا گیا اس سے اشتعال میں اضافہ ہوا جس کا پاکستان اور بلوچستان دونوں کو نقصان ہوا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’جنیوا کنوینشن کے تحت بھی یہی ہے کہ جن لوگوں نے غلط کام کیا ہے اور جب وہ مارے جاتے ہیں تو ان کی لاشوں کو حوالے کرنا چاہیے اور لاشوں کے ساتھ اچھا سلوک اور برتاؤ ہونا چاہیے۔‘حکومت کا کیا موقف ہے؟BBCسرفراز بگٹی: ’ہمیں بالکل اعتراض نہیں اگر لواحقین آئیں، ضابطے کی کاروائی پوری کریں اور مانیں کہ وہ دہشت گرد تھا، تو ہمیں ان لاشوں سے کیا لینا دینا ہے‘وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ہلاک ہونے والوں کی شناخت ہوتی ہے اور پھر لاش لواحقین کے حوالے ہوتی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’عمومی طور پر بہت سارے کیسز میں لواحقین آتے ہیں تو حکومت لاشیں ان کے حوالے کرتی ہے لیکن بہت سارے کیسز میں ان کے لواحقین نہیں آتے بلکہ کبھی کوئی کمیٹی اور کبھی کوئی اور آتا ہے جو اس کو گلوریفائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہمیں بالکل اعتراض نہیں اگر لواحقین آئیں، ضابطے کی کاروائی پوری کریں اور مانیں کہ وہ دہشت گرد تھا، تو ہمیں ان لاشوں سے کیا لینا دینا ہے۔‘جب وزیر اعلیٰ کی توجہ لاشوں کی حوالگی کے حوالے بین الاقوامی کنوینشنز کی جانب دلائی گئی جن کا حوالہ ماہرین نے دیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی مخصوص قانون ان کے علم میں نہیں ہے تاہم ان کے مطابق ’اقوام متحدہ کے قوانین وہاں لاگو ہوتے ہیں جہاں دو ممالک کے درمیان لڑائی ہو۔ یہ تو خالصتاً ایک دہشت گردی ہے اور اگر کوئی دہشت گردی میں ایپل اور اورینجز کا موازنہ کرے تو یہ مناسب بات نہیں ہے۔‘ایک سوال پر وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ بہت سے لوگ خود ساختہ طور پر لاپتہ ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’آج کالعدم بی ایل اے اپنی فہرستیں دے کہ کون کون سے لوگ اس کے ساتھ ہیں تو اس سے کم از کم یہ پتہ چل جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جو کالعدم بی ایل اے کے ساتھ بھرتی ہوئے ہیں۔‘وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ دہشت گرد جن کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں ہوتا ہے وہ کارروائیوں میں یا خودکش حملوں میں مارے جاتے ہیں تو پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ نام لاپتہ افراد میں بھی شامل ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’اکثر خاندانوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ ان کا بچہ دہشت گرد گروہ میں شامل ہو چکا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’میری ان خاندانوں سے درخواست ہے، جن کے بچے عسکریت پسند گروہ میں شامل ہو چکے ہیں یا گھر سے دور ہیں، جن کے پاس ان کے بارے معلومات نہیں تو وہ حکومت اور علاقے کے عمائدین کے ساتھ اس کو شیئر کریں تاکہ کل وہ کسی دہشت گردی کی سرگرمی میں مارا جائے تو خاندان کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘اس سوال پر کیا کہ حکومت شدت پسندوں کی تدفین کے حوالے سے کوئی باقاعدہ پالیسی لا رہی ہے، کیونکہ اب ان کے اہلخانہ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، تو وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’ہماری پالیسی واضح ہے کہ آئیں، اپنی شناخت کرائیں۔‘انھوں نے کہا ’پتہ کیسے چلے گا کہ کون مرا ہے؟ شناخت ہونا ضروری ہے ورنہ کل وہ لاپتہ افراد کی فہرست یا کسی اور فہرست میں شامل ہو گا۔‘’ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ یہ کون ہے، کس خاندان سے اس کا تعلق ہے اور کب سے عسکریت پسندی کر رہا ہے، اس کے لیے تحقیقات کا ایک تسلسل ہے اور اگر وہ پورا ہوتا ہے تو لاش سے ہمارا کیا لینا دینا ہے۔ وہ جائیں اس کو دفنائیں۔‘لاپتہ پیاروں کی متلاشی بلوچ خواتین: ’دل سے ڈر ختم ہو چکا، بس کسی بھی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کو واپس لانا ہے‘جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانی’میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں‘رحیم زہری کی مبینہ جبری گمشدگی: ’ان کے سامنے قرآن رکھا لیکن انھوں نے مار مار کر بے ہوش کر دیا‘سوراب حملے میں ہلاک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنھوں نے چند روز قبل 18ویں گریڈ پر ترقی پائی تھیخضدار میں سکول بس پر حملے کے بعد پاکستان میں غم و غصہ: بی بی سی نے سی ایم ایچ کوئٹہ میں کیا دیکھا؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

افغانستان سے جانور لانے پر پابندی، بلوچستان کی منڈیوں میں قیمتیں بڑھ گئیں

بیلاروس اور پاکستان نے فضائی تعاون میں نئے باب کا آغاز کردیا، آئی ایس پی آر

بلوچستان میں 90 روزہ حراست کا نیا قانون، اب کوئی لاپتہ ہوا تو خودساختہ ہوگا، سرفراز بگٹی

قازقستان کے سفیرکی وفاقی وزیرمواصلات سے ملاقات، باہمی تعاون کے فروغ کا عزم کیا

ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے قومی اتفاق رائے اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، صدر مملکت

’سامنے آنے کی جرأت کرتی ہیں اس لیے نشانہ بنتی ہیں‘، خواتین ٹک ٹاکرز خوف کا شکار

پاک بھارت معاہدوں کی منسوخی پرکوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، دفتر خارجہ

نیپرا نے کے الیکٹرک کیلئے بجلی سستی اور باقی ملک کیلیے مہنگی کردی گئی، نوٹیفکیشن جاری

کراچی میں ایک بار پھر زلزلے کے جھٹکےمحسوس کئے گئے

وزیراعظم دو روزہ دورے پر سعودی عرب روانہ

خودکشی کرنے والے مفرور قیدی کا ویڈیو بیان منظرِعام پر

کال سینٹرز کے ذریعے 400 ارب کی ڈیجیٹل ڈکیتیاں

ثنا یوسف کا قتل: انسیل کلچر اور پاکستانی ڈراموں میں مجرمانہ ذہنیت کے ’ہیرو‘

ثنا یوسف کا قتل اور انسیل کلچر: ’ہمارے ڈرامے سکھا رہے ہیں کہ لڑکی نہ مانے تو اس کے پیچھے پڑ جاؤ پھر وہ مان جائے گی‘

پنجاب حکومت کا عیدالاضحیٰ پرقیدیوں کو سزاؤں میں خصوصی معافی کا اعلان، نوٹیفکیشن جاری

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی