
’اب ویڈیوز بناتے ہوئے نہ صرف میں بلکہ مجھ جیسی دیگر خواتین ٹک ٹاکرز بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں کوئی ہماری ویڈیو دیکھ کر پرتشدد رویہ اختیار نہ کر لے۔‘یہ کہنا ہے ایک نوجوان سوشل میڈیا انفلوئنسر اور ٹک ٹاکر اقرا قیوم کا جن کے خیال میں خواتین کے لیے سوشل میڈیا پر کام کرنا جتنا آسان لگتا ہے اتنا ہے نہیں۔اسلام آباد میں ٹک ٹاکر ثنا یوسف اور حالیہ عرصہ کے دوران پاکستان میں دیگر ٹک ٹاکرز کے ساتھ پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے بعد اب خواتین ٹک ٹاکرز کو خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ دو جون 2025 کو اسلام آباد کے سیکٹر جی-13 میں 17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں۔اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں کم از کم چار خواتین ٹک ٹاکرز کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں بیشتر کو غیرت کے نام پر اور ایک کو ذاتی دشمنی یا رقابت کے باعث نشانہ بنایا گیا۔ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کے علاوہ جنوری 2025 کے دوران کوئٹہ میں 15 سالہ امریکی نژاد پاکستانی لڑکی حرا انور کو بھی ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے پر اعتراض کرتے ہوئے قتل کیا گیا تھا۔اسی طرح فروری 2025 میں جہلم کے نواحی علاقے میں 20 سالہ انسا ساجد کو ان کے بھائیوں نے غیرت کے نام پر اس وقت قتل کر دیا جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنا رہی ہیں۔جبکہ جنوری 2024 میں گجرات میں 14 سالہ صبا افضال کو ان کی 18 سالہ بہن نے مبینہ طور پر ٹک ٹاک ویڈیو کے تنازع پر فائرنگ کر کے قتل کیا۔اردو نیوز نے اس تشویشناک رجحان پر مختلف ٹک ٹاکرز سے بات کی ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ موجودہ حالات میں خود کو کتنا محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین سے بھی گفتگو کی گئی ہے تاکہ اس بڑھتے ہوئے تشدد کی وجوہات اور ممکنہ حل پر روشنی ڈالی جا سکے۔پولیس کے مطابق ملنے سے انکار پر نوجوان نے ثنا یوسف کو قتل کر دیا۔ فوٹو: ثنا یوسف انسٹا’یہ صرف فرد کا قتل نہیں، اظہار کی آزادی پر حملہ ہے‘نوجوان ٹک ٹاکر اقرا قیوم نے اردو نیوز سے گفتگو میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہیں۔ یہ صرف افراد کا قتل نہیں بلکہ خواتین کی خودمختاری، اظہار رائے اور سوشل میڈیا پر محفوظ جگہ کی نفی ہے۔’سوشل میڈیا آج کے دور میں خواتین کے لیے خود کو منوانے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا اہم ذریعہ ہے، لیکن بدقسمتی سے بعض اوقات اس کی قیمت جان سے چکانی پڑتی ہے۔‘اقرا قیوم کا کہنا ہے کہ خواتین ٹک ٹاکرز کے خلاف پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے پیچھے مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان کے مطابق کچھ لوگ خواتین کو ترقی کرتا اور آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے، جبکہ بعض افراد حسد یا ذاتی دشمنی کے باعث ایسے انتہائی اقدامات کر بیٹھتے ہیں۔’کچھ لوگ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے تشدد کی راہ اپناتے ہیں اور ایسے عناصر بھی معاشرے میں موجود ہیں جو خواتین کو صرف ایک مخصوص دائرے میں محدود دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تمام وجوہات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود خواتین کس قدر مختلف خطرات کا سامنا کر رہی ہیں۔‘بطور سوشل میڈیا انفلوئنسر، اقرا عزیز نے خواتین ٹک ٹاکرز کو چند اہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوکیشن ہرگز شیئر نہ کریں خاص طور پر اس وقت جب آپ کسی سفر پر ہوں۔’موبائل فون اور ایپس جیسے ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب کی پرائیویسی سیٹنگز کو باقاعدگی سے چیک کریں تاکہ ذاتی معلومات محفوظ رہیں۔ وہ خبردار کرتی ہیں کہ اگرچہ فینز کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن ہر فالوور دوست نہیں ہوتا، اس لیے اجنبی لوگوں سے رابطے میں حد مقرر رکھیں۔ اقرا قیوم مزید کہتی ہیں کہ سفر کے دوران قریبی دوستوں یا اہل خانہ کو اپنی لوکیشن اور تصاویر وقتاً فوقتاً شیئر کرتے رہیں، اور سوشل میڈیا پر بات چیت کو محدود رکھتے ہوئے کسی پر غیر ضروری اعتماد نہ کریں۔جنوری 2025 میں امریکی نژاد پاکستانی ٹک ٹاکر حرا انور کو قتل کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی’سامنے آنے کی جرات کرتی ہیں اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے‘ڈیجیٹل رائٹس کی ماہر اور ’بولو بھی‘ تنظیم سے وابستہ فریحہ عزیز کے مطابق حالیہ واقعات معاشرے میں انتہاپسندی کی ایک اور خطرناک لہر کی عکاسی کرتے ہیں جہاں کسی فرد کی محض سوشل میڈیا پر موجودگی یا اظہار رائے کو بنیاد بنا کر اس کے خلاف پرتشدد کارروائی کی جاتی ہے۔ان کے بقول ’تشدد کی کوئی بھی صورت، کسی بھی وجہ سے، قابلِ جواز نہیں ہو سکتی۔ چاہے وہ کسی خاتون کی ٹک ٹاک ویڈیو ہو، اس کی رائے ہو یا صرف اس کی موجودگی۔‘فریحہ عزیز نے کہا کہ صنفی عنصر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ کئی بار صرف اس وجہ سے بھی خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ بولنے یا سامنے آنے کی جرأت کرتی ہیں۔’خواتین کو اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ کیونکہ انہوں نے یہ تصویر لگائی یا پبلک میں آئیں تو یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔ جبکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں برداشت کی حد ختم ہوتی جا رہی ہے اور ریاستی ردعمل اکثر ناکافی ہوتا ہے‘۔ ان کے مطابق ایک واقعے میں مجرم کو پکڑ لینا کافی نہیں، جب تک سماجی سطح پر گفتگو نہیں ہوگی، تب تک اس رجحان کو نہیں روکا جا سکتا۔معروف ٹک ٹاکر اور سوشل میڈیا انفلوئنسر عبدالہئ صدیقی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بدقسمتی سے ٹک ٹاک کو منفی انداز میں دیکھا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک عالمی سطح کا مثبت پلیٹ فارم بھی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اس کے لیے گائیڈ لائنز تیار کی جا رہی ہیں، تاہم ابھی تک کوئی حتمی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ روحان زکی کے مطابق سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو معاشرے میں اثاثہ سمجھا جانا چاہیے، اگر انہیں رہنمائی اور مناسب سہولت دی جائے تو وہ مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔’ایف آئی اے کو چاہیے کہ وہ ایک واضح پالیسی بنائے جس کے تحت انفلوئنسرز کو فوری رسپانس، تحفظ اور شکایات کے مؤثر ازالے کی سہولت دی جائے، جیسے ہیلپ لائن یا فوری رسپانس سسٹم۔‘عزت کے نام پر بھی خواتین سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو قتل کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پیروحان زکی کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں حسد اور مقابلے کا رجحان شدید ہے، خاص طور پر جب ایک شخص تیزی سے ترقی کرے اور دوسرا پیچھے رہ جائے۔ یہی حسد اکثر پرتشدد رویوں کو جنم دیتا ہے۔’اگر کوئی ایک انفلوئنسر بھی کسی واقعے کا شکار ہو جائے تو صرف ایک فرد نہیں، بلکہ پوری کمیونٹی متاثر ہوتی ہے، جس کا عالمی سطح پر بھی منفی تاثر جاتا ہے۔ چونکہ یہ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف شہرت حاصل کرتے ہیں بلکہ ملک کے لیے آمدن کا ذریعہ بھی بنتے ہیں، اس لیے انہیں تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہونی چاہیے۔‘