
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی پہلگام واقعے اور پاکستان کے ساتھ جھڑپوں کے بعد جمعے کو پہلی مرتبہ کشمیر کا دورہ کریں گے اور پہاڑی علاقے میں سٹریٹجک نوعیت کی ریلوے لائن کا افتتاح کریں گے۔گذشتہ ماہ روایتی حریفوں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روز تک شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد 10 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔ان جھڑپوں میں دونوں جانب سے میزائلوں، ڈرونز اور توپ خانے کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں دونوں طرف 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بدھ کو وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نریندر مودی 1315 میٹر (4314 فٹ) میٹر طویل اور دریا سے 359 میٹر اونچے سٹیل اور کنکریٹ کے پُل کا افتتاح کریں گے۔‘’اس منصوبے کے ذریعے کشمیر اور ملک کے باقی حصوں کے درمیان ہر قسم کے موسم میں ریلوے کا بلاتعطل رابطہ بحال رہے گا۔‘توقع ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اس موقعے پر ایک خصوصی ٹرین کو روانہ کریں گے۔وزیراعظم آفس کے کا کہنا ہے کہ ’272 کلومیٹر (169 میل) اُدھم پور۔ سری نگر۔ بارہ مولہ ریلوے لائن کے راستے میں 36 سُرنگیں اور 943 پُل شامل ہیں۔ اس کی تعمیر کا مقصد علاقے میں نقل و حمل کے ذرائع کو بہتر بنانا اور سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا ہے۔‘اس منصوبے کا مرکز چناب پُل ہے جسے انڈیا ’دنیا کا بلند ترین ایک محراب والا ریلوے پُل‘ کہتا ہے جبکہ کئی سڑکیں اور پائپ لائن پُل اُونچے ہیں۔گنیز ورلڈ ریکارڈز نے تصدیق کی ہے کہ چناب پُل نے چین کے سب سے اونچے ریلوے پل ’نجیہ‘ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اس پُل سے انڈین فوجیوں کو آمدورفت آسان ہو گی جو پہلے خطرناک پہاڑی علاقے کے ذریعے سفر کرتے تھے (فائل فوٹو: روئٹرز)انڈین ریلوے نے 2 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس پل کو ’حالیہ تاریخ میں ملک میں ریلوے کا سول انجینیئرنگ کا سب سے بڑا شاہکار‘ قرار دیا ہے۔اس پُل کی تعمیر سے لوگوں کو سفر اور سامان کی نقل و حرکت میں سہولت میسر آئے گی۔ اس کے علاوہ انڈین فوجیوں کو آمدورفت میں بھی آسانی ہو گی جو اس سے قبل صرف خطرناک پہاڑی علاقے کی سڑکوں یا فضا کے ذریعے سفر کرتے تھے۔اس ریلوے لائن کی تعمیر کے بعد کٹرہ قصبے اور سری نگر کے درمیان سفر کا دورانیہ نصف یعنی تین گھنٹے تک رہ جائے گا۔یہ پُل چین سے متصل انڈیا کے برفانی علاقے لداخ میں بھی رسد کی نقل و حمل کو بھی آسان بنائے گا۔سنہ 2020 میں چین اور انڈیا کی فوجوں کے درمیان اس علاقے میں جھڑپیں ہو چکی ہیں جن میں کم سے کم 20 انڈین جبکہ چار چینی فوجی ہلاک ہوئے اور دونوں ممالک کی فوجیں آج بھی اس متنازعے علاقے میں آمنے سامنے ہیں۔