
Getty Imagesاگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری میں خود کو ’امن قائم کرنے والا‘ کہتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ قدم رکھا تھا لیکن ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعے میں امریکہ کو شامل کر کے انھوں نے انتہائی ڈرامائی قدم اٹھایا ہے۔عہدہ سنبھالنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں امن لانے کے بجائے ٹرمپ اب ایک ایسے خطے کی قیادت کر رہے ہیں جو بڑے پیمانے پر جنگ کے دہانے پر ہے، ایک ایسی جنگ کے دہانے پر جس میں امریکہ ایک فعال فریق بن چکا ہے۔سوشل میڈیا پر امریکی افواج کی جانب سے ایران کے تین جوہری مقامات کو نشانہ بنانے کے اعلان کے صرف دو گھنٹے بعد ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے قوم سے خطاب میں اس کارروائی کو ’شاندار کامیابی‘ قرار دیا۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ ان کے یہ اقدام دیرپا امن کی راہ ہموار کریں گے کیونکہ ایران کے پاس جوہری طاقت بننے کی صلاحیت باقی نہ رہے گی۔ایران کا کہنا ہے کہ اس کے انتہائی محفوظ فردو جوہری تنصیب کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔ کون درست ہے، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنا جوہری پروگرام ترک نہ کیا تو آئندہ حملے ’زیادہ تباہ کن اور کہیں زیادہ آسان‘ ہوں گے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’ابھی بہت سے اہداف باقی ہیں‘ اور امریکہ ان پر ’تیزی، درستگی اور مہارت‘ کے ساتھ حملہ کرے گا۔صدر کے اعتماد بھرے بیانات کے باوجود ایران میں امریکی فوجی مداخلت اور اس کا ممکنہ تسلسل امریکہ، خطے اور دنیا کے لیے بدترین منظرنامے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ امریکی اقدام کے نتیجے میں ’افراتفری کا سلسلہ‘ شروع ہو سکتا ہے اور یہ کہ مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی ’کشیدگی کی حالت‘ میں ہے۔آیت اللہ علی خامنہ ای امریکی حملے کی صورت میں خبردار کر چکے ہیں کہ ایران خطے میں امریکی اہداف کو نشانہ بنائے گا ایسے میں امریکہ بھی جواب دینے پر مجبور ہو سکتا ہے۔BBCفردو میں جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا گيا ہے’دو ہفتے‘ دو دن میں بدل گئےٹرمپ نے رواں ہفتے کے شروع میں یہ بیان دیا تھا کہ ایران کو ’غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے‘ ہوں گے۔ ان کے اس بیان نے صدر کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں سے ان کی واپسی مشکل ہو گئی ہے۔ ایران نے بھی جوابی دھمکیوں کے ذریعے خود کو ایسی ہی پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔اسی طرح جنگیں شروع ہوتی ہیں اور پھر یہ ان میں شامل لوگوں کے اختیار اور تصور سے باہر پھیل جاتی ہیں۔جمعرات کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانیوں کو دو ہفتے کی مہلت دی تھی لیکن یہ مہلت توقع سے کہیں کم نکلی اور صرف دو دن بعد ہی سنیچر کی رات کو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ انھوں نے ایران کے خلاف کارروائی کر دی ہے۔کیا یہ دو ہفتے کا اعلان مذاکرات کو چانس دینے کی کوشش تھی؟ کیا یہ ایرانیوں کو ایک جھوٹے اطمینان میں مبتلا کرنے کی چال تھی؟ یا پھر صدر کے نامزد کردہ ثالث سٹیو وٹکوف کی قیادت میں پس پردہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں؟حملوں کے فوری بعد کے حالات کے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں لیکن سوشل میڈیا پوسٹ اور اپنے خطاب میں ٹرمپ نے امن کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ شاید ایک پرامید سوچ ہو۔ اگرچہ اسرائیل نے ایران کی عسکری صلاحیتوں کو کمزور کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن آیت اللہ کے پاس اب بھی ہتھیار موجود ہیں۔صورتحال بہت جلد بگڑ سکتی ہے۔سب سے طاقتور بنکر شکن بم جو امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے لیے استعمال کیےایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بارے میں اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟کیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟اسرائیل کی ایران کا ایٹمی پروگرام روکنے کی کوشش جو مشرقِ وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی ’نئی دوڑ شروع کر سکتی ہے‘اب انتظار کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ ایران تین اہم تنصیبات پر حملے کا کیا جواب دیتا ہے؟ ان تین تنصیبات میں اس کے جوہری پروگرام والی تنصیب فردو بھی شامل ہے۔ٹرمپ شاید امید کر رہے ہیں کہ امریکی حملے ایران کو مذاکرات کی میز پر زیادہ رعایتیں دینے پر مجبور کریں گے، لیکن ایسے آثار نظر نہیں آتے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جو ملک اسرائیلی حملوں کے دوران بات چیت پر آمادہ نہیں ہوا کیا وہ امریکی بمباری کے بعد زیادہ مائل ہو گا۔اور اگرچہ ٹرمپ نے یہ تاثر دیا کہ امریکی حملہ ایک ہی بار ہونے والی کامیاب کارروائی تھی لیکن اگر حقیقت اس کے برعکس ہوئی تو اس پر دوبارہ حملے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ یا پھر صدر نے معمولی عسکری کامیابی کے بدلے ایک بڑا سیاسی خطرہ مول لے لیا ہے۔’امن قائم کرنے والے‘ صدر کو سیاسی نقصانات کا خطرہان خطرات میں داخلی سیاسی خدشات بھی مضمر ہیں جن میں بین الاقوامی سالمیت سے متعلق سوالات بھی موجود ہیں۔امریکہ کی جانب سے ایران پر کسی بھی ممکنہ حملے سے قبل نہ صرف ڈیموکریٹس بلکہ امریکہ کی اپنی 'امریکہ فرسٹ' تحریک کی جانب سے تنقید کی جا رہی تھی۔صدر کی جانب سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تینوں قریبی مشیروں کو اپنے پیچھے کھڑے کرنے کا غیر معمولی فیصلہ ممکنہ طور پر اپنی جماعت میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔امریکی نائب صدر جے ڈی وینس خاص طور پر امریکی خارجہ پالیسی کو محدود کرنے کے حوالے سے بیانات دیتے رہے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ ٹرمپ اب بھی دوسرے ممالک کے امور میں مداخلت پر یقین نہیں رکھتے اور ان کے حامیوں کو ان کی حمایت کرنی چاہیے۔اگر یہ امریکہ کا ایران پر واحد حملہ ہے تو ممکنہ طور پر اس صورت میں ٹرمپ اپنے حامیوں میں موجود خدشات کو دور کر پائیں گے۔ لیکن اگر اس سے امریکہ کو ایک بڑے تنازع کا حصہ بننا پڑا تو صدر اپنے حامیوں کو ہی اپنے خلاف کھڑا پائیں گے۔سنیچر کا حملہ ایک ایسے صدر کی جانب سے ایک جارحانہ عمل تھا جو یہ فخر سے کہتے رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی اور ماضی کے صدور کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ انھوں نے ملک کو مختلف عالمی تنازعات میں دھکیلا تھا۔ٹرمپ نے اپنی چال چل دی ہے۔ اب آگے کیا ہوتا ہے یہ مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں نہیں۔ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بارے میں اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟سب سے طاقتور بنکر شکن بم جو امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے لیے استعمال کیےاسرائیل کی ایران کا ایٹمی پروگرام روکنے کی کوشش جو مشرقِ وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی ’نئی دوڑ شروع کر سکتی ہے‘ایرانی حکام کی فردو سمیت تمام تین جوہری تنصیبات پر حملے کی تصدیقحیفہ: انڈیا سے تاریخی اور اقتصادی رشتہ رکھنے والا ’سٹریٹیجک‘ اسرائیلی شہر جسے ایرانی حملوں میں نشانہ بنایا گیاایران اسرائیل تنازعے میں امریکی صدر ٹرمپ کیا اقدامات اٹھا سکتے ہیں؟ایران اور امریکہ کے درمیان ’مثبت‘ بات چیت: متنازع ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کیوں ہو رہے ہیں؟