
Getty Imagesہیگ میں قائم کورٹ آف آربٹریشن یعنی ثالثی عدالت نے سندھ طاس معاہدے پر اپنے ایک فیصلے میں واضح کیا ہے کہ انڈیا اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ جمعے کے روز اپنے فیصلے میں ثالثی عدالت نے کہا کہ انڈیا کا سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اقدام عدالت کی قانونی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔یاد رہے کہ ستمبر 1960 میں انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد وادی سندھ کے دریاؤں کے پانی کو دونوں ممالک کے درمیان منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا تھا۔ تب سے اب تک دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 65 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔ تاہم رواں برس اپریل میں انڈیا نے پہلگام حملے کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آربٹریشن کورٹ کے حالیہ فیصلے کا جہاں پاکستان نے خیر مقدم کیا ہے وہیں انڈیا نے اسے مسترد کیا ہے۔Getty Imagesثالثی عدالت کے مطابق سندھ طاس معاہدے میں اسے معطل کرنے کی کوئی شق موجود نہیںثالثی عدالت کے فیصلے میں کیا کہا گیا ہے27 جون کو فیصلے میں ثالثی عدالت نے کہا کہ کسی ایک فریق کی جانب سے ثالثی کی کارروائی شروع ہونے کے بعد لیا گیا یکطرفہ فیصلہ عدالت کے دائرہ اختیار کو متاثر نہیں کرتا۔کورٹ آف آربٹریشن کا کہنا ہے کہ انڈیا کا یہ اقدام ’عدالت کی خود مختاری یا دائرہ اختیار کو محدود نہیں کر سکتا۔‘عدالت نے مزید کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں اسے ’معطل کرنے کی کوئی شق موجود نہیں اور نہ ہی کوئی فریق یک طرفہ طور پر تنازعات کو حل کیے جانے کے عمل کو روک سکتا ہے۔‘عدالت نے یہ بھی کہا کہ گو کہ انڈیا اس معاہدے کو ’معطل‘ قرار دے رہا ہے تاہم عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثالثی کی کارروائیوں کو بروقت، موثر اور منصفانہ طریقے سے آگے بڑھائے۔انڈیا کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں اس فیصلے کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ ثالثی عدالت کو غیر قانونی اور نام نہاد کورٹ آف آربٹریشن قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ اس عدالت نے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں سے متعلق ایک ’اضافی ایوارڈ‘ جاری کیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ ’انڈیا نے کبھی بھی اس نام نہاد ثالثی عدالت کے وجود کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمارا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس نام نہاد ثالثی ادارے کی تشکیل بذات خود سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘بیان کے مطابق ’اس کے نتیجے میں اس فورم کے سامنے کوئی بھی کارروائی اور اس کی جانب سے لیا گیا کوئی بھی فیصلہ غیر قانونی ہے۔‘بیان میں کہا گیا کہ ’پہلگام حملے کے بعد انڈیا نے بین الاقوامی قانون کے تحت ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو اس وقت تک معطل کیا ہے جب تک کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا اور اس وقت تک انڈیا اس معاہدے کے تحت اپنی کوئی ذمہ داری نبھانے کا پابند نہیں رہے گا۔‘دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ضمنی ایوارڈ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالتی فیصلے سے پاکستانی بیانیہ کو تقویت ملی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ انڈیا یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا اور ’پانی ہماری لائف لائن ہے۔‘Getty Imagesنام نہاد ثالثی ادارے کی تشکیل بذات خود سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے: انڈیااس فیصلے کا مطلب کیا ہے؟اس فیصلے کا انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے کیا مطلب ہے؟ بی بی سی کے اس سوال کے جواب میں بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی نے اسے پاکستان کے لیے خوش آئیند قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے حوالے سے یہ اچھی پیشرفت ہے۔ احمر بلال کے مطابق جب انڈیا نے معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا تو اس صورت حال میں ثالثی عدالت نے اس پر یہ ایوارڈ ایشو کیا جس کو سادہ زبان میں ضمنی حکم کہتے ہیں۔ان کے مطابق ’سندھ طاس معاہدے پر جو کارروائی چل رہی ہیں، یہ انڈیا کے اعلان سے متاثر نہیں ہو گی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کو ایک موقع ملا ہے کہ اسے کسی جوڈیشل فورم پر اپنے حق میں ایک فیصلہ مل گیا۔ اس کو انڈیا کا نقطہ نظر مان لیا جائے تو فوری طور پر کارروائی رک جانی چاہیے تھی جب تک انڈیا اس معطلی کے فیصلے کو واپس نہیں لیتا، تاہم اس کے بالکل مخالف آرڈر آ گیا۔‘دوسری جانب پالیسی ریسرچ ینڈ ایڈوائزری کونسل کے چیئرمین محمد یونس دھاگہ نے بی بی سی اردو کی فرحت جاوید سے اس فیصلے پر باتکرتے ہوئے کہا کہ ’ہم شروع سے ہی یہ کہہ رہے تھے کہ نہ کوئی پارٹی اس معاہدے کو منسوخ کر سکتی ہے نہ معطل اور نہ اس کو تبدیل کر سکتی ہے۔ دونوں فریقین اس پر عمل کے پابند ہیں۔‘ان کے مطابق ’انڈیا نے اس حوالے سے ایک سیاسی طور پر بیان تو دیا تھا تاہم مجھے یقین ہے کہ انڈیا کو ان کے قانونی ماہرین نے آگاہ کیا ہو گا کہ قانونی طور پر وہ ایسا کر نہیں سکتے۔‘’انڈیا کے لیے بڑا چیلنج‘آبی وسائل سے جڑے مسئلوں کو اجاگر کرنے والی انڈین صحافی نیروپما سُبرامنین نے بی بی سی کے عبید ملک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق تو یہ بات درست ہے کہ انڈیا یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے پرعملدرآمد کو معطل نہیں کر سکتا۔ ’ہاں اگر کوئی ایکفریق ایسا کرنا بھی چاہتا ہے تو اُسے اس حوالے سے کوئی مناسب حل یا جواز پیش کرنا ہوگا۔ یہ سب بھی تب مُمکن ہو سکے گا جب اس پر مذاکرات ہوں اور بات چیت ہو۔‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا اب ورلڈ بینک کی جانب سے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے بنائی جانے والی عدالت کے قیام سے متعلق سوال اُٹھا رہا ہے کہ وہ ایسا فیصلہ نہیں دے سکتی اور کیونکہ انڈیا کا ماننا ہے کہ یہ عدالت ہی غیر قانونی ہے۔‘نیروپما سُبرامنین نے اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’اس عدالت سے متعلق پاکستان کی ہی جانب سے ورلڈ بینک کو کہا گیا تھا کہ اس معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک عدالت قائم کی جائے تاہم تب انڈیا کہ کہنا تھا کہ اس سب پر ایک غیر جانبدار ماہر کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ دونوں مُمالک کے درمیان اس مسئلے کو دیکھیں۔‘ان کے مطابق ’ تاہم ورلڈ بینک نے فریقین کی بات مانی اور وہ ایسے کہ عدالت کا قیام بھی ہوا اور ایک غیرجانبدار فرد کو یہ معاملہ دیکھنے کے لیے بھی کہ دیا گیا۔ انڈیا کے لیے اب سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ دُنیا اس سب کو کیسے دیکھ رہی ہے۔‘ان کے مطابق ’یہاں انڈیا ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ ہماری جنگ یا لڑائی پاکستان کی فوج اور اُس کے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ رابطوں والے لوگوں سے ہے۔ تاہم ایسے میں انڈیا پر بیرونی دُنیا سے یہ دباؤ آئے گا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں آپ کی لڑائی تو فوج کے ساتھ ہے تو آپ عام لوگوں کو کیوں پریشان اور تکلیف پہنچانے والے اقدامات لے رہے ہیں۔‘نیروپما سُبرامنین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے لیے یہ بات سب سے بڑا چیلنج ہوگی اور دیکھنا ہو گا کہ انڈیا کی حکومت کیسے نمٹے گی۔شملہ اور جوہری و عسکری نوعیت کے سمجھوتے: پاکستان اور انڈیا کے درمیان اہم معاہدے کون سے ہیں اور اُن کی معطلی کا کیا مطلب ہو گا؟سندھ طاس معاہدے کی معطلی: کیا انڈیا پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئیپہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟دوسری جانب پاکستان کے سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن نے انڈیا کے اس موقف کو درست قرار دیا کہ یہ عدالت متنازع ہے۔ ان کے مطابق چونکہ سات رکنی عدالت مکمل ہونے کے لیے انڈیا نے اس پر اپنے دو ثالث مقرر ہی نہیں کیے اس لیے ’یہ مستقل ثالثی عدالت نہیں بلکہ ایک متنازع اور یکطرفہ عدالت ہے۔‘شیراز میمن نے دعویٰ کیا کہ ’عالمی بینک بھی اس رائے کا حامل تھا کہ کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں سے متعلق تکنیکی معاملات کو ثالثی عدالت کی بجائے غیر جانبدار ماہر کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔‘ان کے مطابق بالآخر پاکستان کے مسلسل نو سالہ اصرار کے بعد عالمی بینک نے ثالثی عدالت قائم کی اور ساتھ ہی انڈیا کے اصرار پر غیر جانبدار ماہر کو بھی مقرر کیا لیکن اس نامناسب طریقے سے نامکمل ثالثی عدالت کی تشکیل نے ’انڈیا کو ناخوش کیا۔‘Getty Imagesسندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کے منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی متنازع منصوبے کے حل کے لیے بھی کام کرتا ہے تاہم اگر کمیشن مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا تو معاہدے کے مطابق حکومتیں اسے حل کرنے کی کوشش کریں گی۔اس کے علاوہ، معاہدے میں ماہرین کی مدد لینے یا تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لیے ثالثی عدالت میں جانے کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔شملہ اور جوہری و عسکری نوعیت کے سمجھوتے: پاکستان اور انڈیا کے درمیان اہم معاہدے کون سے ہیں اور اُن کی معطلی کا کیا مطلب ہو گا؟سندھ طاس معاہدے کی معطلی: کیا انڈیا پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئیپہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟شملہ معاہدہ: ذوالفقار علی بھٹو کی ’چالاکی‘ اور اندرا گاندھی کی ’سیاسی غلطی‘پہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟