مکہ اور مدینہ میں آباد طاقتور یہودی اور مسیحی قبائل کا عروج و زوال: مسلمانوں کے مقدس ترین شہر اسلام سے قبل کیسے تھے؟


Getty Imagesبہت سے مورخین کے مطابق، اسلام کے دو مقدس ترین شہروں مکہ اور مدینہ میں مسیحیت اور یہودیت کی تاریخ بہت قدیم ہےاگرچہ آج کے دور میں حجاز میں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا اثر و رسوخ دکھائی نہیں دیتا لیکن بہت سے مؤرخین کے مطابق اسلام کے دو مقدس ترین شہروں یعنی مکہ اور مدینہ میں مسیحیوں اور یہودیوں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔بیت لحم میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے کم از کم پانچ صدیوں قبل بھی عرب باشندے یہودیت کے بارے میں علم رکھتے تھے۔بی بی سی اردو کے فیچرز اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریںبائبل کے پرانے عہد نامے میں لکھا ہے کہ شمعونوں کے قبیلے چراگاہ کی تلاش میں اپنے مویشیوں کے ساتھ کوہ سینا کی سرزمین کی جانب گئے یہاں تک کہ وہ ماعان قبائل (موجودہ جنوبی اُردن) کی سرزمین پہنچ گئے۔ وہاں ان قبائل کی جنگ ہوئی جس کا اختتام شمعونوں کی فتح کے ساتھ ہوا۔شمعون حضرت یعقوب کے بیٹوں میں سے ایک تھے اور اُن کی نسل کو ’شمعون کے بیٹے‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ڈاکٹر اسرائیل وولفنسن سنہ 1920 کی دہائی میں دارالعلوم مصر میں سامی زبانوں کے پروفیسر تھے۔ اُن کے مطابق ’بائبل کے پرانے عہد نامے میں شمعونوں کی جس ہجرت کا ذکر ہے وہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں عرب سرزمین کی طرف پہلی ہجرت ہے جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہے۔‘عراقی مؤرخ جواد علی اپنی کتاب ’المفسل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ بعض مؤرخین کے مطابق یثرب کے ابتدائی باشندے ’صُعل‘ اور ’فالج‘ کہلائے جانے والے لوگ تھے جن پر حضرت داؤد کے دور میں حملہ ہوا اور انھیں قیدی بنا لیا گیا۔یاد رہے کہ یثرب مدینہ کا پرانا نام ہے۔ پھر ’عمالیقیوں‘ نے اس جگہ کو آباد کیا۔ حضرت موسیٰ نے اُن کے خلاف ایک لشکر بھیجا جس نے ان کو شکست دی اور ان کی جگہ یہودی آباد ہو گئے۔عباسی دور کے مؤرخ ابو فراج اصفہانی کے مطابق، حضرت موسیٰ کی جانب سے بھیجا گیا لشکر شہر کی پہلی یہودی بستی بنی۔ وہ لوگ شہر کے تمام اضلاع میں یہاں تک کہ بالائی علاقوں تک پھیل گئے۔اصفہانی کے مطابق ان لوگوں نے قلعے بنائے، کھیتی باڑی بھی کی اور طویل عرصے تک شہر میں رہے۔دسویں صدی ہجری کے اوائل میں مدینہ کے مؤرخ اور مفتی علی السمہودی لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ بیت المقدس کی زیارت کے دوران بنی اسرائیل کے ہمراہ مدینہ سے گزرے تھے۔ انھوں نے یثرب کو تورات میں بیان کیے گئے ایک نبی کی سرزمین کی نشانیوں کے عین مطابق پایا۔السہمودی اپنی کتاب ’خلصۃ الوفاء بی الاخبار دار المصطفیٰ‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ آنے والوں کے ایک گروہ نے یہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ ’چنانچہ وہ بنو قینقاع کے بازار کی جگہ پر آباد ہوئے، پھر کچھ عرب بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے اور اپنے دین کی طرف لوٹ آئے (یہودیت قبول کی) اور وہ مدینہ میں آباد ہونے والے پہلے لوگ تھے۔‘اس کہانی کی تائید ایک ضعیف حدیث سے بھی ملتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تمام انبیا بشمول حضرت موسیٰ نے مکہ میں کعبہ کی زیارت کی۔ اِس سے ان کے زمانے میں یہودیوں کی موجودگی کے امکان کی نشاندہی ہوتی ہے۔سنہ 1927 میں شائع ہونے والے اپنے مقالے ’قبل از اسلام اور ابتدائی اسلامی دور میں عرب ممالک میں یہودیوں کی تاریخ‘ میں ڈاکٹر وولفنسون لکھتے ہیں کہ بائبل کے پرانے عہد نامے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے اور عرب مورخین کے تحریروں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ بعد میں آنے والی یہودیوں کی بڑی تعداد سے قبل بھی یثرب اور خیبر میں یہودی موجود تھے۔حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد یہودیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہكتاب تاريخ اليهود في بلاد العرب في الجاهلية وصدر الإسلامایک قدیم نقشہ جس میں مدینہ کے داخلی اور خارجی راستے دکھائے گئے ہیںڈاکٹر وولفنسون کے مطابق حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد یہودیوں کی جزیرہ نما عرب کی طرف، بالخصوص حجاز کی طرف، نقل مکانی میں اضافہ ہوا۔ وہ اس نقل مکانی کی وجہ اس زمانے میں فلسطین میں آبادی میں اضافے اور رومیوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ کو قرار دیتے ہیں۔ابو فراج الاصفہانی اپنے کتاب میں ذکر کرتے ہیں کہ جب رومیوں نے بنی اسرائیل کو لیونٹ میں شکست دی تو انھوں نے ’انھیں روند ڈالا، انھیں قتل کیا اور ان کی عورتوں سے ہمبستری کی۔‘ بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو بہدل بھاگ کر حجاز میں موجود یہودیوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ یاد رہے کہ لیونٹ موجودہ دور کے شام، اردن، لبنان، فلسطین، اسرائیل اور ترکی کے جنوبی علاقے پر مشتمل علاقے کو کہا جاتا ہے۔الاصفہانی مزید لکھتے ہیں کہ لیونٹ اور حجاز کے درمیان موجود صحرا کی وجہ سے حجاز بنی اسرائیل کے لیے رومیوں سے محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ جب رومی بادشاہ نے یہودی پناہ گزینوں کو واپس لانے کے لیے اپنے سپاہیوں کو بھیجا تو ’ان (رومیوں) کی پیاس سے موت ہوئی۔‘الاصفہانی کے مطابق بنو نضیر اور ان کے ساتھ آنے والے وادی بطحان میں آباد ہوئے جو یثرب کی نمایاں وادیوں میں سے ایک ہے جبکہ بنو قریظہ اور ان کے ساتھ آنے والے وادی محزور میں آباد ہوئے۔یاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟اصحابِ کہف: سینکڑوں برسوں تک سونے والے نوجوانوں اور اُن کے کتے کا واقعہ مسیحی روایات اور قرآن میں کیسے بیان کیا گیا؟وہ مزید لکھتے ہیں کہ یمن سے اوس اور خزرج کے قبائل کی ہجرت سے قبل مدینہ میں آباد یہودیوں میں بنو عکرمہ، بنو ثعلبہ، بنو محمّر، بنو زغورہ، بنو قینقاع، بنو زید، بنو نضیر، بفضل، بنو عکرمہ، بنو ثعلبہ، بنو محمّر، بنو زغورا اور بنو الفصیص شامل تھے۔الاصفہانی بنی اسرائیل کے یہودیوں کے ساتھ وہاں عربوں کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یثرب کے بعض عربوں نے یہودیت اختیار کر لی تھی۔ ان کے مطابق، ان میں بنو الحرمین، بنو مرثد، بنو نایف، بنو معاویہ، بنو حارثہ، بنو بحثہ اور بنو الثقہ شامل تھے۔عرب مؤرخین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یثرب کے یہودیوں کے پاس بے پناہ دولت اور زرعی مہارت تھی۔ السمھودی لکھتے ہیں کہ یہودیوں کا اس وقت تک شہر پر تسلط برقرار رہا جب تک ماریب بند ٹوٹنے کے باعث اوس اور خزرج یمن سے ہجرت کر کے یثرب نہیں آ گئے۔السمھودی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یثرب میں آباد یہودی قبائل کی تعداد 20 سے زیادہ تھی، اور ان کے پاس 70 سے زیادہ ’اتم‘ یا قلعے تھے لیکن وہ ’فنا ہو گئے۔‘ السمھودی نے اس کی وجوہات بیان نہیں کی ہیں۔جہاں تک مکہ کا تعلق ہے، یثرب کے مقابلے میں وہاں یہودیوں کی قابل ذکر آبادیوں کے تاریخی ثبوت نہیں ملتے ہیں۔ قدیم تاریخی ذرائع میں مکہ میں یہودیوں کی رہائش یا عبادت گاہوں کی موجودگی کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم، یہودی تجارتی مقاصد کے لیے اس شہر کا رخ کرتے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے مکہ کے لوگ یثرب آتے جاتے تھے۔Getty Imagesعرب مؤرخین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یثرب کے یہودیوں کے پاس بے پناہ دولت اور زرعی مہارت تھیمؤرخ السمھودی اپنی کتاب میں اوس اور خزرج اور یثرب میں آباد دیگر یہودی قبائل کے درمیان اتحاد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اتحاد تب تک قائم رہا جب تک دونوں یمنی قبائل کو بڑی اہمیت اور بہت زیادہ دولت حاصل نہیں ہو گئی۔ اس کے بعد، بنو قریظہ اور بنو نضیر کو خدشہ پیدا ہوا کہ اوس اور خزرج کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا اس لیے انھوں نے اس اتحاد توڑنے کی کوشش کی۔مؤرخین کے مطابق، اوس و خزرج اور دیگر یہودی قبائل کے درمیان اختلافات میں سب سے نمایاں اوس اور خزرج کے سردار مالک بن عجلان کی جانب سے دیگر یہودیوں کے خلاف لیونٹ میں اپنے چچازاد بھائیوں سے مدد طلب کرنا تھی۔الاصفہانی اور ابن اثیر الجزری لکھتے ہیں کہ ابو جبیلہ الغسانی جو اس وقت لیونٹ میں حاکم تھے، یثرب کے یہودیوں کی طاقت کو توڑنا چاہتے تھے۔ ’اس نے ان کے قائدین کو قتل کروا دیا۔ ابن عجلان نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا یہاں تک کہ اس نے 80 سے زیادہ آدمیوں کو قتل کر دیا۔‘الاصفہانی مزید لکھتے ہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے ایک دوسرے کی حمایت ترک کر دی۔ اگر انھیں اوس یا خزرج میں سے کسی ایک سے خطرہ ہوتا تو وہ دوسرے قبیلے سے اپنی حفاظت کے لیے مدد طلب کرتے تھے۔ چنانچہ یہودیوں کا ہر ایک گروہ اوس یا خزرج میں سے کسی ایک قبیلے کی امان میں چلا گیا۔یہودی محقق ولفنسن نے اس قصے پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے ’یوم بعثت‘ کی جانب اشارہ کرتے ہیں جس میں اوس اور خزرج کے درمیان ایک شدید جنگ ہوئی تھی۔ اس جنگ کے دوران، ان میں سے بعض نے بنو قریظہ اور بنو نضیر سے مدد طلب کی تھی۔بنو نضیر اور بنو قریظہ نے بنو قینقاع پر حملہ کر کے انھیں بھاری نقصان پہنچایا کیوں کہ انھوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف بنو خزرج کی مدد کی تھی۔وولفنسن مزید لکھتے ہیں کہ ’اس دن کے بعد، یہودیوں نے عرب قبائل میں اپنا مقام واپس پا لیا اور اوس اور خزرج ان کی طاقت کو مدِنظر رکھتے تھے۔‘مسیحیت اور عرب مجوسیGetty Imagesجزیرہ نما عرب میں یہودیت کے مقابلے میں مسیحیت کی تاریخ کافی نئی ہےاس میں کوئی شک نہیں کہ جزیرہ نما عرب میں یہودیت کے مقابلے میں مسیحیت کی تاریخ کافی نئی ہے۔مصنف اور ماہر الہیات پادری لوئس چیکو کا کہنا ہے کہ ابتدا میں مسیحیت عربوں تک پہنچ گئی تھی۔ حضرت عیسٰی کے اِن پہلے پیروکاروں کو ’مجوسی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اگرچہ بائبل میں یہ نہیں لکھا کہ یہ مجوسی عرب تھے۔ چیکو کا خیال ہے کہ یہ غالباً عرب تھے کیوں کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ کو سونا، لوبان اور مرر پیش کیا تھا جو کہ عربوں میں عام ہے۔چیکو نے اس کی تصدیق کی ہے کہ عرب سرزمین میں داخل ہونے والے حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے سب سے پہلے سینٹ پال داخل ہوئے تھے۔ ان کے مطابق، سینٹ پال یہودیوں سے بھاگ کر جزیرہ نما عرب گئے، جہاں وہ ایک مدت تک رہے۔تاہم اسلامی فلسفے کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ابراہیم الفیومی کا خیال ہے کہ مسیحیت عرب سرزمین میں اس لیے زیادہ نہیں پھیل پائی کیوں کہ اس کی مقدس کتاب کا عربی میں ترجمہ نہیں کیا گیا اور وہ تمام عرب جنھوں نے مسیحیت قبول کی وہ غیر ملکی زبان جانتے تھے۔چیکو اپنی کتاب ’جزیرہ نما عرب میں مسیحیت کی تاریخ‘ میں الطبری کی تاریخ اور ابن ہشام کی سوانح عمری کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن تلمہ حجاز جانے والوں میں سے تھے۔ ابن تلمہ جنھیں ’بارتھولمیو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے حضرت عیسیٰ کے ان شاگردوں میں سے ایک تھے جنھیں انھوں نے خود اپنے شاگرد کے طور پر منتخب کیا تھا۔یروشلم کے بشپ سینٹ جیمز کے ترجمے میں کہا گیا ہے کہ بارتھولومیو نے فلسطین کی سرزمین اور اس کے آس پاس کے علاقوں بشمول حمص، قیصریہ، سامریہ اور حجاز کے صحرا میں مسیحیت پھیلائی۔ہُدہُد کی خبر سے شیش محل تک: سورج پرست ملکہ سبا کے حضرت سلیمان کے ہاتھ ایمان لانے کا واقعہ اسلام اور دیگر مذاہب میںعبدالمطلب کی دعا، ابابیل کا حملہ اور ’عذاب کا مقام‘: کعبہ پر ابرہہ کی لشکر کشی کا قصہتاہم، جواد علی کہتے ہیں کہ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ مسیحیت جزیرہ نما عرب میں کب آئی۔ ان کا کہنا کہ تحریری دستاویزات کی تلاش ہی اس کا پتہ لگانے کا واحد طریقہ ہے۔عراقی مؤرخ کا خیال ہے کہ مسیحیت عرب دنیا میں راہبوں، تجارت اور غلاموں کے ذریعے پھیلی۔ تاہم وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ مسیحیت جزیرہ نما عرب میں اس طرح جبری نقل مکانی کے ذریعے داخل ہوئی، جیسا کہ کچھ یہودیوں کی حجاز، یمن یا بحرین کی طرف نقل مکانی سے ہوا تھا۔ اس کی وضاحت وہ یہ کہتے ہوئے کرتے ہیں کہ مسیحیت رفتہ رفتہ رومی اور ساسانی سلطنتوں میں پھیل گئی اور پھر یہ رومیوں اور ان لوگوں کا سرکاری مذہب بن گیا جو ان کے تابع ہوئے۔ نتیجتاً، مسیحیت کو اجتماعی طور پر کسی غیر ملک میں نقل مکانی کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔مشرقی مسیحیتGetty Imagesجواد علی کے مطابق، بہت سے مسیحی مشنری یا راہب علم اور منطق میں مہارت رکھتے تھے جس کی مدد سے انھوں نے کچھ قبائلی رہنماؤں کو قائل لیا اور ان کا مذہب تبدیل کرنے میں کامیاب رہے۔علی کا خیال ہے کہ یہ قبائلی رہنما اور ان کے عرب حکمران مسیحی تو بن گئے لیکن انھوں نے رومن مسیحیت کو اختیار نہیں کیا بلکہ مشرقی مسیحیت کو اپنایا جو قسطنطنیہ کے چرچ سے مختلف تھی اور اسے اپنا مذہب تسلیم کیا۔ اس مسیحیت کو رومیوں کی نظر میں آرتھوڈوکس مسیحیت سے الگ سمجھا جاتا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ ان میں سے کچھ عربوں کو مسیحیت اپنانے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ کچھ نے دوسروں پر اثر انداز ہو کر انھیں بت پرستی سے دور کر دیا لیکن وہ ان کا مذہب ترک کروانے میں مکمل کامیاب نہ ہو سکے۔ اس لیے وہ دونوں مذاہب کے بارے میں شک میں رہے کیوں کہ وہ خدا کی وحدانیت، شراب نوشی کی ممانعت اور دوسری چیزوں کو اپنانا نہیں چاہتے تھے۔ تاہم قبل از اسلام کا ایک ایسا گروہ،جسے حنیف کہا جاتا ہے، بھی تھا جس نے بت پرستی کو رد کیا اور کسی خاص عقیدے کو مانے بغیر خدا کی وحدانیت پر یقین کیا۔جواد علی کہتے ہیں کہ مکہ، طائف، یثرب اور جزیرہ نما عرب کے دیگر مقامات پر مسیحی غلام بھی موجود تھے جو لوگوں کو کہانیاں سناتے اور ان سے مسیحیت کے بارے میں گفتگو کرتے۔شیخو کا خیال ہے کہ اسلام سے پہلے یثرب کے غیر یہودی لوگوں نے منات کی عبادت کرنے کے بعد مسیحیت قبول کی تھی، جو قبل از اسلام کے دور کے مشہور بتوں میں سے ایک تھا۔ شیخو کی رائے کی تائید پانچویں صدی ہجری کے مسلم فلاسفروں میں سے ایک الشہرستانی کی کتاب ’الملال و النحل‘ سے ہوتی ہے جس کے مطابق میں کہا ہے کہ ’دو مخالف گروہوں میں سے ایک اہل کتاب اور دوسرا ناخواندہ تھا، اور ناخواندہ وہ تھے جو لکھنا نہیں جانتے تھے، تو یہودی اور مسیحی مدینہ میں جبکہ ناخواندہ مکہ میں تھے۔‘خانہ کعبہ کے اندر مسیحیتكتاب "أخبار مكة وما جاء فيها من الآثار من تحقيق الأستاذ الدكتور عبد الملك بن عبد بن دهيش، القاضي والفقيه السعودي"دمشق کی لائبریری میں امام الازرقی کی کتاب کے پہلے صفحے کی تصویرشیخو کا کہنا ہے کہ مکہ میں عرب مسیحی مصنفین کا سب سے پرانا واضح بیان وہ تھا جس کا ذکر ’دوسرے جرہم‘ قبیلے کی تاریخ کے دوران کیا گیا تھا، جس کے مطابق جرہم قبیلے نے بنی اسماعیل کے بعد حجاز پر قبضہ کیا اور انھیں مکہ میں مقدس گھر کی نگہبانی اور کعبہ کی چابیاں دی گئیں۔اگرچہ ریاست جرہم کی صحیح مدت معلوم نہیں ہے، شیخو نے عرب مؤرخین جیسے ابن الاثیر، ابن خلدون، ابو الفیدہ اور دیگر کا حوالہ دیا ہے کہ جرہم کے چھٹے بادشاہ کو عبد المسیح ابن بقیہ ابن جرہم کہا جاتا تھا۔جیسا کہ ابو الفراج اصفہانی کی کتاب میں ذکر کیا گیا ہے کہ مکہ کے مقدس حرم میں بنو جرہم کی دیکھ بھال میں ایک خزانہ موجود تھا، جس میں کعبہ کو پیش کیے گئے زیورات اور تحائف شامل ہوتے تھے۔امام شمس الدین الذہبی کے ’سیار علم النبلاء‘ میں الازرقی نے یہ بھی بتایا کہ کعبہ کے دروازے کے ساتھ والے کالم پر مسیح اور ان کی والدہ حضرت مریم کی تصویر کنندہ تھی۔ الازراقی نے مزید کہا کہ فقیہ عطا بن رباح نے کہا کہ یہ تصویر عبداللہ بن زبیر کے دور میں خانہ کعبہ کو جلانے کے وقت تباہ ہو گئی تھی۔الازرقی نے مسیحیوں کے ایک قبرستان کی موجودگی کا بھی ذکر کیا۔ شیخو کا کہنا ہے کہ ’مسجد مریم‘، جس کا ذکر المقدسی نے اپنے جغرافیہ میں مکہ کے قریب کیا ہے، قبل از اسلام دور کی کسی چرچ یا مذہبی یادگار سے وابستہ رہی ہو گی۔طلوع اسلامGetty Imagesسنہ 1913 میں باب مکہپیغمبر اسلام کی یثرب کی طرف ہجرت کے بعد، جسے بعد میں انھوں نے مدینہ کا نام دیا، مہاجرین اور انصار اور یثرب کے یہودیوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کے لیے ایک دوستانہ معاہدہ کیا، جسے ’مدینہ کا معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔تاہم یہود اور انصار کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا جو بالآخر ایک سیاسی بحران کا باعث بنا۔وولفنسون کے مطابق، پیغمبر اسلام کی یثرب میں آمد کو صرف 18 ماہ گزرے تھے جب وہاں کا ماحول کشیدہ ہو گیا اور ’ہر گروہ نے ایک دوسرے کو ہوشیار رہنے اور دوسرے سے بچنے کی نصیحت کی۔‘ وولفنسون کے مطابق یروشلم سے کعبہ نماز کی سمت تبدیل کرنے جیسی تبدیلیوں نے بحران کو مزید بڑھا دیا۔مدینہ میں سیاسی بحران ہجرت کے دوسرے سال بنو قینقاع، پھر بنو نضیر اور آخر کار قریظہ کی بے دخلی کے ساتھ شروع ہوا، اس کے بعد معاہدوں کو توڑنے اور ’جنگ خندق‘ یا ’احد کی جنگ‘ میں مسلمانوں کے خلاف ان کے اتحاد کی خبریں آئیں۔ یہودیوں میں سے کچھ مارے گئے، جب کہ ان کے امیر مدینہ کے شمال میں خیبر کی طرف ہجرت کر گئے۔ہجرت کے ساتویں سال، خیبر کی جنگ ہوئی، جو مسلمانوں نے یہودیوں کے خلاف لڑی، جب مؤرخین نے قریش اور غطفان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے میں ان کی شرکت کی اطلاع دی۔مسلمانوں کے محاصرے اور لڑائی کے بعد یہودیوں نے امن معاہدے کی درخواست کی۔ پیغمبر اسلام نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے یہودیوں کو اس شرط پر اپنی زمینوں پر رہنے کی اجازت دی کہ وہ اپنی فصل کا آدھا حصہ مسلمانوں کو دیں۔ فدک کے یہودیوں نے جو آج کے حائل علاقے میں خیبر کے شمال میں ایک زرعی زمین ہے اور آج کے تبوک کے علاقے میں تیما کے یہودیوں نے بھی بغیر کسی لڑائی کے صلح کی تھی۔مؤرخین کی طرف سے شواہد ہیں کہ بنو قریظہ کے کچھ یہودی بعد میں مدینہ واپس آئے اور یہ کہ دوسرے قبیلوں کے یہودی بھی تھے جن کا مسلمانوں کے ساتھ میل جول تھا۔بخاری اور مسلم میں ذکر کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کی وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔جہاں تک مسیحیت کا تعلق ہے، ابن ہشام کی سوانح عمری میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب پیغمبر اسلام حجاز کے مضافات میں تبوک پہنچے تو عائلہ (عقبہ کے گورنر) کے حکمران یوحنا (جان) بن روبہ ان کے پاس آئے اور پیغمبر اسلام سے صلح کی اور انھیں سلام کیا۔شیخو نے اپنی کتاب میں عباسی دور کے مؤرخ ابو الحسن المسعودی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’یوحنا بن رباح عائلہ کا بشپ تھا، اور وہ 9 ہجری میں پیغمبر اسلام کے پاس آیا جب وہ تبوک میں تھے، اور اس نے وہاں اس شرط پر صلح کی کہ ہر بالغ کو ہر سال ایک دینار ملے گا۔‘اسلام کے ابتدائی ایام میں مسیحیوں کی موجودگی کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ان میں سے جواد علی نے لسان العرب سے ادبی مؤرخ ابن منظور اور جلال الدین السیوطی نے اپنی کتاب ’الدر المنتھر‘ میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے ’عدی بن حاتم الطائی کو دیکھا کہ اس نے سونے کی صلیب پہنی ہوئی تھی۔‘اصحابِ کہف: سینکڑوں برسوں تک سونے والے نوجوانوں اور اُن کے کتے کا واقعہ مسیحی روایات اور قرآن میں کیسے بیان کیا گیا؟ہُدہُد کی خبر سے شیش محل تک: سورج پرست ملکہ سبا کے حضرت سلیمان کے ہاتھ ایمان لانے کا واقعہ اسلام اور دیگر مذاہب میںیاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟عبدالمطلب کی دعا، ابابیل کا حملہ اور ’عذاب کا مقام‘: کعبہ پر ابرہہ کی لشکر کشی کا قصہجب حجر اسود 22 سال کے لیے کعبہ سے اکھاڑ لیا گیا

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید سائنس اور ٹیکنالوجی

حکومتی ٹیکس یا ٹیمو کی کوئی ’چال‘: پاکستان میں چینی شاپنگ ایپ پر اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟

مشکوک شواہد، متنازع اڑان اور کریڈٹ لینے کی دوڑ: کیا واقعی ہوائی جہاز رائٹ بردرز کی ایجاد تھی؟

جب حادثے نے ایک ڈاکٹر کی 12 سالہ یادداشت مٹا دی: ’پرانی ای میلز پڑھ کر پتا چلا کہ میں ایک بُرا آدمی، سخت گیر باس تھا‘

ہماری سانس سے بدبو کیوں آتی ہے اور اس سے کیسے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے؟

ایک ایسی پینٹ تیار جو اے سی کی ضرورت کو کر دے گا ختم

گوگل سروسز کیلئے اے آئی ہیلپرز کا فیچر متعارف

خبردار! بلوٹوتھ ہیڈفونز سے خفیہ نگرانی اور جاسوسی کا خطرہ ہوسکتا ہے:ماہرین

مائیکروسافٹ کا بڑا اعلان، ہزاروں ملازمین کو برطرف کر دیا

وہ کیمیائی راز جو شہد کو طویل عرصے تک تازہ اور خراب ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں

پاکستان میں 25 سال بعد مائیکرو سافٹ کا دفتر کیوں بند ہو رہا ہے؟

سلطنتِ فارس یعنی دنیا کی پہلی سُپر پاور: ایک پہاڑی قبیلے کا گمنامی سے نکل کر دنیا کی تقریباً آدھی آبادی پر حکومت کرنے کا سفر

فارسی سلطنت یعنی دنیا کی پہلی سُپر پاور: ایک پہاڑی قبیلے کا گمنامی سے نکل کر دنیا کی تقریباً آدھی آبادی پر حکومت کرنے کا سفر

کون سے کاموں کیلئے چیٹ جی پی ٹی کو کبھی استعمال نہیں کرنا چاہیے؟

گوگل کروم فوری اپ ڈیٹ کرنا کیوں ضروری؟ جانیے

ائیرفون پلگ پر یہ دائرے کیوں ہوتے ہیں؟ جانیے

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی