
Getty Imagesاسرائیل نے 16 جولائی کو دمشق میں صدارتی محل کے قریبی علاقے، شامی وزارت دفاع اور شامی فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملے کیے تھےشام میں فرقہ وارانہ تشدد کی ایک تازہ اور مہلک لہر نے جہاں ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں ملک کے طول و عرض میں اپنا کنٹرول قائم کرنے کی خواہاں شامی حکومت کی مشکلات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔حالیہ پُرتشدد جھڑپوں کا آغاز 13 جولائی کو ’دروز‘ اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کے اغوا کی خبر سامنے آنے کے بعد ہوا۔ یہ خبر سامنے آتے ہی جنوبی شام میں دروز ملیشیا اور سُنی بدو جنگجو مدِمقابل آ گئے۔دو دن بعد، یعنی 15 جولائی کو اسرائیل نے اس معاملے میں فوجی مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اُس کی افواج دروز آبادی کی حفاظت اور انھیں نشانہ بنانے والی شامی حکومت کی حامی افواج کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اتوار سے اب تک شام کے صوبہ سویدا میں کم از کم 350 افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔یاد رہے کہ ’دروز‘ اکثریت والے صوبے سویدا میں اپریل، مئی 2025 میں دروز جنگجوؤں اور شام کی نئی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی لڑائی میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل مارچ میں شام کے ساحلی صوبوں میں ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں سابق حکمران بشار الاسد کی حامی علوی اقلیت کے سینکڑوں افراد کے مارے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔شام میں اس مہلک بدامنی اور اس کے بعد پرتشدد اسرائیلی حملوں نے ایک ایسے ملک میں سکیورٹی کی خرابی کے خدشات کو پھر سے بھڑکا دیا ہے جو ایک دہائی سے زائد کی خانہ جنگی اور پھر دسمبر 2024 میں دمشق پر اسلام پسند باغیوں کے قبضے کا سامنا کر رہا ہے۔شام کے موجودہ سربراہ اور سابق جہادی احمد الشرع نے ملک کی اقلیتوں کے دفاع کا عزم ظاہر کیا ہے۔دروز کون ہیں؟Getty Imagesشام کے سیاسی نظام میں تاریخی طور پر دوروز نازک صورتحال کا شکار رہے ہیںدروز شام، لبنان، اسرائیل اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں مقیم عربی بولنے والی ایک مذہبی اقلیت ہیں۔ دروز عقیدہ شیعہ اسلام کی ایک شاخ ہے جس کی اپنی منفرد شناخت اور عقائد ہیں۔دروز برادری خود کو ’موحدون‘ کہتی ہے، یعنی ’وہ لوگ جو ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔‘ انھیں ’بنو معروف‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ’دروز‘ نام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نشتکین الدرزی (محمد بن اسماعیل الدرزی) سے منسوب ہے جنھوں نے لبنان اور شام میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔دروز کی اکثریت بنیادی طور پر لبنان، شام، اسرائیل اور اُردن میں آباد ہیں جبکہ دیگر ممالک میں بھی ان کی کچھ تعداد موجود ہیں۔ اس فرقے کے تقریباً 10 لاکھ پیروکاروں میں سے نصف شام میں رہتے ہیں، جہاں وہ آبادی کا تقریباً تین فیصد ہیں۔اسرائیل میں دروز کمیونٹی کو زیادہ تر ریاست کا وفادار سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کے ارکان فوجی خدمات میں حصہ لیتے ہیں۔ اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات کے مطابق اسرائیل اور اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں میں تقریباً 152,000 دروز آباد ہیں۔شام میں دروز کی موجودگی صدیوں پرانی ہے اور وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مشرقِ وسطیٰ (بلادِ شام) کی سیاست اور جنگوں میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ملک کے سیاسی نظام میں تاریخی طور پر دوروز نازک صورتحال کا شکار رہے ہیں اورتقریباً 14 سال جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران، جنوبی شام میں اُن کے جنگجو سرگرم رہے ہیں۔دسمبر 2024 میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے، دروز کمیونٹی نے جنوبی شام پر کنٹرول قائم کرنے کی ریاستی کوششوں کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ جبکہ شام میں دروز کے مختلف دھڑے نئی حکومت کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کے لحاظ سے تقسیم ہیں، بہت سے دھڑوں نے سویدا میں شامی فوج کی موجودگی پر اعتراض کیا ہے اور دروز جنگجوؤں کے شامی فوج میں انضمام کی مخالفت کی ہے۔Reutersشامی افواج اسرائیلی مداخلت کے باوجود غیر قانونی ملیشیاز کو سویدا سے نکالنے میں کامیاب رہی ہےشامی حکومت کی جانب سے دروز قبیلے کے افراد پر حالیہ حملوں کی مذمت اور جنوبی شام میں امن بحال کرنے کے عزم کے باوجود، اس کی فوج پر اقلیتوں پر حملے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ حکومتی افواج دروز افراد کی ہلاکت میں ملوث رہی ہیں۔ اس طرح کی اطلاعات نے شامی حکام کے تئیں دروز کمیونٹی کے افراد میں عدم اعتماد کو ہوا دی ہے۔بشار الاسد کے اچانک زوال کے بعد، اسرائیل شام کی اقلیتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش میں اپنی شمالی سرحد کے قریب مقیم دروز کمیونٹی سے رابطے میں ہے۔ اس نے شام میں فوجی مقامات اور سرکاری افواج پر حملہ کرتے ہوئے خود کو تیزی سے اقلیتوں کے علاقائی محافظ کے طور پر پیش کیا ہے جن میں شام میں مقیم کرد، دروز اور علوی شامل ہیں۔فاطمی خلافت اور ’دروز‘ فرقے کا جنم: عوام کو رات کو نہ سونے اور کتے مارنے جیسے حکمنامے جاری کرنے والے خلیفہ الحاکم کی داستانشامی افواج پر علوی برادری کے افراد کے قتل کا الزام: شام پر 50 برس تک حکمرانی کرنے والا یہ اقلیتی فرقہ کیا ہے؟دمشق: بنو اُمیہ کا دارالخلافہ رہنے والا وہ قدیم شہر جس نے کئی خلفا اور بادشاہوں کا عروج و زوال دیکھابشار الاسد کے زوال کے بعد نتن یاہو کا گولان پر نئی آبادکاری کا منصوبہ لیکن اسرائیل کے لیے یہ پہاڑیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟مئی میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے دوران بھی اسرائیل نے دمشق میں صدارتی محل کے قریب حملے کیے تھے اور کہا تھا کہ یہ دروز آبادی پر حملوں کے خلاف ایک انتباہ ہے۔ تاہم، شام اور لبنان میں کچھ دروز شخصیات نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ خطے میں اپنی توسیع پسندانہ خواہشات کو آگے بڑھانے کے لیے فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دے رہا ہے۔اسرائیل اب شام پر حملہ کیوں کر رہا ہے؟اسرائیل کی جانب سے فضائی حملوں میں شامی اہداف کو نشانہ بنانے کا سلسلہ 15 جولائی سے شروع ہوا۔ جہاں منگل کو فضائی حملے سویدا میں سکیورٹی فورسز اور گاڑیوں کو نشانہ بنانے تک محدود تھے وہیں بدھ 16 جولائی کو اسرائیل نے دمشق میں صدارتی محل کے قریبی علاقے، شامی وزارت دفاع اور شامی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کرتے ہوئے اپنے حملوں کا دائرہ وسیع کر دیا۔شام کے فوجی ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنانے کا واقعہ اس شامی ٹی وی چینل کی لائیو نشریات میں دیکھا گیا جس کی عمارت سڑک پار واقع ہے۔شام نے ان اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس کی افواج اقلیتی دروز فرقے کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے یہ سب کر رہی ہیں۔اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے 16 جولائی کو دمشق پر اسرائیلی حملے شروع ہونے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’دمشق میں انتباہی عمل ختم ہو گیا، اب تکلیف دہ ضربیں لگیں گی۔‘یہ حملے دسمبر 2024 کے بعد سے شام میں اسرائیل کی سب سے سنگین کارروائی ہیں، جب اس نے ملک بھر میں سینکڑوں فوجی اہداف کو تباہ کیا اور شام میں گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے بفرزون پر قبضہ کیا تھا۔ اسرائیل نے شام پر متعدد بار حملہ کیا ہے، جس کا مقصد نئی حکومت کو فوجی صلاحیتوں میں اضافے سے روکنا ہے کیونکہ وہ نئی شامی حکومت کو بھی اسرائیلی سلامتی کے لیے ایک ممکنہ خطرہ سمجھتا ہے۔تازہ ترین حملوں نے بنیادی طور پر شامی فوج کی جنوبی شام میں تعیناتی کے خلاف ایک انتباہ اور رکاوٹ کا کام کیا ہے۔ اسرائیل اس علاقے میں ایک غیر عسکری زون بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے خاص طور پر اپنے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ ملک کی شمالی سرحد کے قریب اسلام پسند جنگجوؤں کی موجودگی کا خدشہ ہے۔شامی حکومت کا کیا کہنا ہے؟AFPشام کے عبوری صدر احمد الشراع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کھلی جنگ کا آپشن موجود تھاشام کے عبوری صدر احمد الشراع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کھلی جنگ کا آپشن موجود تھا تاہم امریکہ، سعودی عرب اور ترکی کی ثالثی نے خطے کو بچا لیا۔جمعرات کی صبح نشر ہونے والے پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب میں شامی صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل شامی عوام کے اتحاد کو توڑ کر شام کو ایک نہ ختم ہونے والے انتشار کے سلسلے میں دھکیلنا چاہتا ہے۔الشراع کا کہنا ہے کہ شام کے عوام جنگ سے نہیں ڈرتے اور اس صورتحال میں ان کے پاس دو آپشنز تھے۔’یا تو ہم اقلیتی دروز فرقے کی سلامتی کی قیمت پر اسرائیل کے ساتھ کھلے تصادم کی طرف جاتے۔۔۔ یا دروز کے معززین اور شیخوں کو ہوش کے ناخن لینے کی اجازت دی جائے اور قومی مفاد کو ان لوگوں پر ترجیح دی جائے جو دوسروں کی ساکھ کو داغدار بنانا چاہتے ہیں۔‘شامی صدر کا کہنا ہے کہ ریاست نے شامیوں کے مفادات کو ترجیح دی۔الشراع کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی مداخلت کے باوجود ان کی فوج استحکام بحال کرنے اور غیر قانونی دھڑوں کو سویدا سے نکالنے میں کامیاب رہی ہے۔عالمی ردعمل کیا رہا ہے؟امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکہ شام میں حالیہ تشدد پر ’بہت فکرمند‘ ہے۔ 16 جولائی کو اسرائیلی حملوں کے بعد ان کا یہ بھی کہنا تھا: ’ہم نے مخصوص اقدامات پر اتفاق کیا ہے جو اس پریشان کن اور خوفناک صورتحال کو ختم کر دیں گے۔‘لبنان، عراق، قطر، اردن، مصر اور کویت سمیت کئی عرب ریاستوں نے شامی حکومت اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی کارروائی کو شام پر ’اسرائیل کے صریح حملوں‘ کے طور پر بیان کیا۔ترکی نے جو بشار الاسد کے زوال کے بعد شام میں ایک اہم حصہ دار ہے، ان حملوں کو ’امن، استحکام اور سلامتی کے لیے شامی کوششوں کے خلاف تخریب کاری کی کارروائی‘ قرار دیا۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی سویدا اور دمشق میں اسرائیل کے ’بڑھتے ہوئے‘ حملوں کی مذمت کی ہے۔آگے کیا ہو سکتا ہے؟اس تازہ تشدد نے شام میں سکیورٹی اور سیاسی منظر نامے کی نزاکت کو واضح کیا ہے اور یہ لہر شام بھر میں نئے فرقہ وارانہ حملوں کے خدشات کو ہوا دے رہی ہے۔جیسا کہ الشرع شام پر اپنا کنٹرول قائم کرنے اور اس کے مختلف گروہوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ان کی اسلام پسندوں کی اکثریت والی حکومت کئی برسوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے شام میں گہری جڑیں رکھنے والی فرقہ وارانہ تقسیم کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ ان فرقہ وارانہ جھڑپوں اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے شام میں ریاست کی تعمیر اور جنگ کے بعد بحالی کی کوششوں کے بھی پٹڑی سے اترنے کا خطرہ ہے۔امکان یہی ہے کہ اسرائیل شام کی نئی حکومت اور جنوب میں اس سے منسلک اسلام پسند جنگجوؤں کو اپنے لیے ایک اہم خطرہ سمجھتا رہے گا اور ایسے گروپوں کو جمع کرنے کے لیے کوشش کرتا رہے گا جو نئی شامی حکومت سے خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔فاطمی خلافت اور ’دروز‘ فرقے کا جنم: عوام کو رات کو نہ سونے اور کتے مارنے جیسے حکمنامے جاری کرنے والے خلیفہ الحاکم کی داستانصلاح الدین ایوبی سے نتن یاہو تک: شامی دروز فرقہ جس کے ’تحفظ‘ کے لیے اسرائیل نے دمشق میں بمباری کیدمشق: بنو اُمیہ کا دارالخلافہ رہنے والا وہ قدیم شہر جس نے کئی خلفا اور بادشاہوں کا عروج و زوال دیکھااحمد الشرع کے باغی اتحاد کا جہادی ماضی سے لاتعلقی کا دعویٰ لیکن کیا ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟