
یمن میں حکام نے انڈین نرس نمیشا پریا کی سزائے موت پر عملدرآمد مؤخر کر دیا ہے اور اِس اہم پیش رفت کے تناظر میں انڈیا کے ’مفتی اعظم‘ 94 سالہ کانتھاپورم ابوبکر مسلیار (جنھیں عرف عام میں شیخ ابوبکر احمد کے نام سے جانا جاتا ہے) کا خصوصی تذکرہ ہو رہا ہے۔نمیشا پریا کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں اور انھیں 16 جولائی (بدھ) کو سزائے موت دی جانی تھی تاہم عین وقت پر سزا پر عملدرآمد روک دیا گیا۔نمیشا کو طلال عبدو مہدی نامی یمنی شہری کے قتل کا مجرم پایا گیا اور اسلامی قوانین کے تحت نمیشا کو سزائے موت سے بچانے کے لیے ضروری تھا کہ طلال مہدی کے اہلخانہ انھیں معاف کر دیں تاہم انھوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔’سیو نمیشا پریا انٹرنیشنل ایکشن کونسل‘ نامی تنظیم اس انڈین نرس کو بچانے کی مہم چلا رہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کیرالہ کے ایک انتہائی قابل احترام اور بااثر مسلم مذہبی رہنما گرینڈ مفتی ابوبکر مسلیار نے نمیشا پریا کیس کے بارے میں ’یمن کے کچھ شیخوں‘ سے بات کی۔سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور ’سیو نمیشا پریا انٹرنیشنل ایکشن کونسل‘ کے رُکن سبھاش چندرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سیو نمیشا پریا انٹرنیشنل ایکشن کونسل کے اراکین نے مفتی اعظم سے ملاقات کی تھی جس کے بعد انھوں (ابوبکر) نے وہاں (یمن) کے کچھ بااثر شیخوں سے بات کی۔‘سبھاش چندرا نے کہا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ اس کے بعد ایک میٹنگ بلائی گئی جس میں مقتول شخص کے کچھ رشتہ داروں سمیت یمن کے بااثر لوگ شریک ہوئے۔‘نمیشا پریا کو 16 جولائی کو پھانسی دی جانی تھی اور شیخ ابوبکر کی مداخلت کے بعد مقتول شخص کے خاندان کے ساتھ بات چیت کے عمل کو تیز کر دیا گیا۔BBCنمیشا پریا کو 16 جولائی کو پھانسی دی جانی تھی مگر عین وقت پر سزا پر عملدرآمد روک دیا گیاشیخ ابوبکر احمد کون ہے؟شیخ ابوبکر احمد کو غیر رسمی طور پر انڈیا کے ’گرینڈ مفتی‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ سُنی تصوف اور تعلیم کے میدان میں اُن کی خدمات کو سراہا جاتا ہے تاہم خواتین سے متعلق اُن کے بیانات کی کئی بار مذمت کی جا چکی ہے۔کیرالہ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر اشرف کدکل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ اپنے پیروکاروں کے لیے ایک مقدس شخصیت کی طرح ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ ان میں جادوئی روحانی طاقتیں ہیں۔‘اُن کے مطابق ’شیخ احمد کا تعلق بریلوی فرقے سے ہے۔ ایک صوفی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے اُن کی تحسین کی تھی لیکن خواتین سے متعلق ان کے متنازع بیانات پر بارہا تنقید بھی کی گئی۔‘نمیشا پریا: مشرق وسطیٰ میں اب تک کتنے انڈین شہریوں کو سزائے موت دی گئی ہے؟دی ریئل کیرالہ سٹوری: سعودی عرب میں قید عبدالرحیم کو پھانسی سے بچانے کے لیے 34 کروڑ روپے کہاں سے آئے؟ہم نے ثقافتی اور سیاسی تجزیہ کار شاہ جہاں مدپت سے پوچھا کہ شیخ احمد کتنی طاقتور شخصیت ہیں؟ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈیا میں اگر کوئی چندر سوامی کا مقابلہ کر سکتا ہے، تو وہ یہ آدمی ہے۔ وہ سیاسی اور سماجی طور پر بہت مضبوط ہیں۔۔۔‘یاد رہے کہ چندر سوامی 90 کی دہائی میں انڈین سیاستدانوں میں کافی مقبولیت رکھتے تھے اور وہ اُس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے بہت قریب مانے جاتے تھے۔ بہت سے انڈین سیاستدان چندر سوامی کے آستانے پر حاضری دیتے تھے۔شیخ ابوبکر احمد نے یمن میں کن افراد سے رابطہ کیا؟شیخ ابوبکر احمد نے مقتول طلال مہدی کے خاندان سے رابطہ قائم کرنے کے لیے اپنی دیرینہ دوستی اور یمن میں ایک صوفی روایت ’آل باعلوی‘ کے سربراہ شیخ حبیب عمر بن حافظ کے ساتھ رابطوں کا استعمال کیا۔شیخ حبیب عمر یمن کے ایک مذہبی ادارے ’دار المصطفیٰ‘ کے بانی ہیں جہاں دنیا بھر سے لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ شیخ حبیب عمر یمن میں موجود تمام فرقوں اور گروہوں سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ شیخ یمن میں خانہ جنگی میں مصروف گروہوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔شیخ حبیب عمر ماضی میں کیرالہ کا دورہ بھی کر چکے ہیں جب انھیں یہاں ایک مسجد اور ’مدین سعادت اکیڈمی‘ کے افتتاح کے موقع پر بلایا گیا تھا۔ یہ اکیڈمی شیخ ابوبکر کے بیٹے نے قائم کی تھی۔شیخ ابوبکر احمد کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اُن (ابوبکر) کی مداخلت مکمل طور پر انسانی بنیادوں پر تھی۔ انھوں نے یمن میں موجود اپنے دوستوں کو صرف اتنا بتایا کہ شریعت میں یہ شق موجود ہے کہ کسی شخص کو خون کی رقم ادا کر کے غیر مشروط طور پر معافی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اُنھوں نے اس ضمن میں اپنی کوششوں کا آغاز گذشتہ جمعہ کو کیا تھا۔‘شیخ ابوبکر نے براہ راست بی بی سی سے بات نہیں کی۔شیخ ابوبکر کیسے معروف ہوئے؟شیخ ابوبکر اُس وقت اسلامی حلقوں میں مشہور ہوئے جب انھوں نے 1926 میں قائم ہونے والی سُنی تنظیم ’سمستا کیرالہ جمعیت العلما‘ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایک نیا راستہ چنا۔ یہ سُنی تنظیم 1986 تک متحد رہی لیکن پھر اس کے رہنماؤں میں نظریاتی اختلاف ہو گئے۔پروفیسر اشرف بتاتے ہیں کہ ’شیخ ابوبکر اُس بنیاد پرست سلفی تحریک کے خلاف تھے جس کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کو انگریزی زبان نہیں سیکھنی چاہیے کیونکہ یہ ’جہنم کی زبان‘ ہے یا مقامی زبان ملیالم نہیں سیکھنی چاہیے کیونکہ یہ ’نیئر کمیونٹی کی زبان‘ ہے۔ بنیاد پرست سلفی تحریک خواتین کی تعلیم کے بھی خلاف تھی مگر ان سب باتوں کے خلاف شیخ ابوبکر نے سخت موقف اپنایا جس کے باعث نظریاتی اختلافات پیدا ہوئے۔‘اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد شیخ ابوبکر نے اپنے پیروکاروں کی جانب سے بیرون ملک سے ملنے والے عطیات کی مدد سے تعلیمی اداروں کی تعمیر پر توجہ دی۔ پروفیسر اشرف کہتے ہیں کہ ’کم از کم 40 فیصد سنی مسلمان شیخ ابوبکر کے ساتھ کھڑے تھے۔ روایتی طور پر سُنی تنظیم انڈین یونین مسلم لیگ (IUML) کے ساتھ تھی، جو یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کا حصہ تھی لیکن شیخ ابوبکر نے ’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘ کی پالیسی اپنائی اور سی پی ایم کا ساتھ دیا۔‘پروفیسر اشرف کی طرح شاہجہاں مدپت بھی تعلیمی اداروں کی تعمیر میں شیخ ابوبکر کے کارناموں کا اعتراف کرتے ہیں۔شاہ جہاں کا کہنا ہے کہ 'کیرالہ میں اُن کی بہت زیادہ پیروکار ہیں، خواتین اور بین الاسلامی تعاون کے حوالے سے اُن کے خیالات کافی بنیاد پرست ہیں۔‘خواتین سے متعلق متنازع بیانسوشل ورکر ڈاکٹر خدیجہ ممتاز شیخ ابوبکر کے اُس بیان کی مذمت کرتے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’مسلمانوں کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا ضروری ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے کہا کہ مردوں کو دوسری بیوی رکھنی چاہیے تاکہ مرد پہلی بیوی کی ماہواری کے دوران اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ وہ خواتین کے بارے میں ایسے تشویشناک خیالات رکھتے ہیں۔ اس کے باعث ہمیں ان پر تنقید کرنا پڑی۔ ان کے اس نوعیت کے تبصروں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘ان تمام باتوں کے باوجود ڈاکٹر خدیجہ ممتاز کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انھوں نے نمیشا پریا کے معاملے میں اپنے وسیع رابطوں کا استعمال کیا، یہ خیال کیے بغیر کہ وہ ایک غیر مسلم خاتون ہیں۔‘نمیشا پریا: مشرق وسطیٰ میں اب تک کتنے انڈین شہریوں کو سزائے موت دی گئی ہے؟’میں ہر وقت اضطراب میں مبتلا رہتا ہوں‘: وہ قیدی جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دی جائے گیدی ریئل کیرالہ سٹوری: سعودی عرب میں قید عبدالرحیم کو پھانسی سے بچانے کے لیے 34 کروڑ روپے کہاں سے آئے؟نمیشا پریا: یمن میں سزائے موت پانے والی انڈین نرس کا خاندان ’خون بہا‘ کے بدلے معافی کی امید لیے صنعا جا پہنچادنیا میں سزائے موت کی شرح دس سال میں سب سے بلند مگر چین کے اعدادوشمار آج بھی ’پراسرار‘