
سنہ 1325 میں سلطان غیاث الدین تغلق بنگال میں فتح حاصل کرنے کے بعد دہلی واپس آ رہے تھے جب اُن کے ساتھ ایک بڑا حادثہ پیش آیا۔دہلی سے چند کلومیٹر پہلے، اُن کے استقبال کے لیے بنایا گیا لکڑی کا ایک چبوترہ اُن پر آن گرا جس کے نتیجے میں عیاث الدین تغلق کی موت ہو گئی۔اس واقعے کا ذکر مؤرخ ضیا الدین بارانی کی کتاب ’تاریخ فیروز شاہی‘ میں بھی ملتا ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ’یہ چبوترہ بارش کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے منہدم ہوا تھا۔‘اپنی زندگی ہی میں غیاث الدین تغلق نے ’تغلق آباد‘ میں اپنے لیے ایک مقبرہ تعمیر کروا لیا تھا اور انھیں اُسی رات اس مقبرے میں دفن کر دیا گیا۔ کچھ مؤرخین نے سلطان کی یوں اچانک موت کو ایک سازش قرار دیا ہے۔ تین دن بعد غیاث الدین کے بیٹے نے دہلی کا تخت سنبھالا اور اپنا نام ’محمد بن تغلق‘ رکھا۔اور یہیں سے دہلی سلطنت کی تین صدیوں پر محیط تاریخ کے سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور کا آغاز ہوا۔ محمد بن تغلق ہی کے زمانے میں مراکشی سیاح ابن بطوطہ ہندوستان آئے اور انھوں نے محمد بن تغلق کے دربار میں دس سال گزارے۔محمد بن تغلق کے والد کے دور کے مؤرخ ضیا الدین بارانی بھی محمد بن تغلق کے دربار سے طویل عرصے تک منسلک رہے۔معروف مؤرخ ابراہیم ایرالی اپنی کتاب ’دی ایج آف روتھ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بارانی نے محمد بن تغلق کی خامیوں اور ان کے غلط کاموں کو بیان کیا ہے، اور انھوں نے اُن کے کچھ اچھے کاموں کی تعریف بھی کی ہے۔‘ ’لیکن ابن بطوطہ نے محمد بن تغلق کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ زیادہ تر واضح تھا کیونکہ انھوں نے ہندوستان سے واپسی کے بعد لکھا تھا، چنانچہ وہ محمد بن تغلق سے نہیں ڈرتے تھے۔‘دوہری شخصیت: ’شیطان کا دل، صوفی کی روح‘قرون وسطی کے مورخین نے محمد بن تغلق کو دوہری شخصیت کا حامل شخص قرار دیا ہے جن میں بہت سی اچھائیاں اور برائیاں موجود تھیں۔ایک طرف تو وہ بہت مغرور تھے اور دوسری طرف بہت عاجز بھی۔ ان کے کردار میں جہاں جان لیوا مظالم کی تفصیلات ہیں وہیں دل کو چھولینے والی ہمدردی بھی ہے۔ابن بطوطہ نے اپنی کتاب ’ریحلہ‘ میں اُن کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اس شہنشاہ کو ایک طرف تحفے دینے اور دوسری طرف خون بہانے کا شوق تھا۔ ایک طرف اس کے دروازوں پر غریبوں کو امیر بنایا گیا تو دوسری طرف کچھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔‘مؤرخ رابرٹ سیول اپنی کتاب ’اے فارگیٹن ایمپائر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک طرف ایک صوفی تھا جس کا دل شیطان کا تھا اور دوسری طرف ایک شیطان تھا جس کی روح ایک صوفی کی تھی۔‘Getty Imagesدہلی میں واقع غیاث الدین تغلق کا مقبرہرابرٹ سیول لکھتے ہیں کہ ’محمد بن تغلق ہمیشہ نئے انداز میں سوچتے تھے، لیکن اُن میں صبر کا فقدان تھا اور وہ اپنی بات پرڈٹ جاتے تھے۔‘اس دور کے تقریباً تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ محمد بن تغلق کے دور میں شروع کیے گئے زیادہ تر منصوبے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے۔تاہم انھوں نے کبھی بھی اپنی ناکامی کو اپنی ناکامی نہیں سمجھا اور ہمیشہ اس کے لیے دوسرے لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ابن بطوطہ لکھتے ہیں کہ ’سلطان ہمیشہ خون بہانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ وہ لوگوں کی ساکھ کی پرواہ کیے بغیر چھوٹے جرائم میں بڑی بڑی سزائیں دیتے تھے۔ ہر روز سینکڑوں لوگوں کو زنجیروں اور رسیوں سے باندھ کر ایک بڑے ہال میں لایا جاتا تھا، جن لوگوں کو سزائے موت سنائی جاتی انھیں موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔‘’ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا تھا جب خون نہ بہایا جاتا ہو۔ ان کے محل کے مرکزی دروازے پر خون دکھائی دیتا تھا۔ ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو عبرت کے طور پر محل کے مرکزی دروازے کے سامنے پھینک دیا جاتا تاکہ کوئی بھی سلطان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔ جمعہ کے علاوہ ہفتے کے چھ روز سزائیں سنائی جاتی تھیں۔‘Getty Imagesابن بطوطہ لکھتے ہیں کہ ’سلطان ہمیشہ خون بہانے کے لیے تیار رہتے تھے‘سخت گیروقت کے ساتھ محمد بن تغلق انسان دوست کے بجائے ایک سخت گیر انسان بن گئے۔ضیا الدین بارانی اپنی کتاب ’تاریخ فیروز شاہی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اسلام اور پیغمبر اسلامکی تعلیمات میں احسان اور عاجزی پر زور دیا گیا تھا، لیکن محمد بن تغلق نے انھیں توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔‘ابن بطوطہ لکھتے ہیں کہ جب محمد بن تغلق کے چچا زاد بھائی بہاؤالدین گورچاسپ نے ان کے خلاف بغاوت کی تو محمد تغلق نے ان کی کھال اُتروا دی۔ایک اور واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے ابن بطوطہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ شخص کے الفاظ سننے پر اسے زنجیروں میں جکڑ کر 15 دن تک بھوکا رکھا گیا اور اس کے بعد بھی ’جب اُس شخص نے اپنے الفاظ واپس نہ لیے تو سلطان نے انھیں زبردستی انسانی فضلہ کھلانے کا حکم دیا۔ سپاہیوں نے سلطان کے احکامات کی تعمیل کی۔‘جب واسکو دے گاما نے کیرالہ میں مکّہ جانے والے خواتین اور بچوں سے بھرے بحری جہاز کو نذر آتش کیاسراج الدولہ کے قتل کا معمہ اور ’نمک حرام ڈیوڑھی‘: 250 سال سے ’غداری کا طعنہ‘ سننے والے میر جعفر کے ورثا کی کہانیمکہ اور مدینہ میں آباد طاقتور یہودی اور مسیحی قبائل کا عروج و زوال: مسلمانوں کے مقدس ترین شہر اسلام سے قبل کیسے تھے؟سیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایادہلی کے تخت پر بیٹھنے والے 32 سلطانوں میں سے صرف دو سلطان ایسے تھے جن پر مظالم ڈھانے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔محمد قاسم فرشتہ نے اپنی کتاب ’تاریخ فرشتہ‘ میں لکھا ہے کہ ’اگر ہم اس وقت کے سلطانوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو بے رحمی اور دہشت اس وقت کے سلطانوں کی ضرورت تھی جس کے بغیر وہ حکمران نہیں رہ سکتے تھے۔ لیکن محمد بن تغلق نے اس ظلم کو اس حد تک پہنچا دیا کہ اس کا الٹا اثر ہوا۔‘’اس سے ان کی طاقت بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ محمد بن تغلق ایک تعلیم یافتہ، مہذب اور باصلاحیت شخص تھے، لیکن ان کے دل میں اپنے لوگوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔‘Getty Images’تاریخ فرشتہ‘ میں لکھا ہے کہ ’محمد بن تغلق ایک تعلیم یافتہ، مہذب اور باصلاحیت شخص تھے، لیکن ان کے دل میں اپنے لوگوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں تھی‘غیر ملکیوں کے ساتھ اچھا سلوکبہت سے مؤرخین نے محمد بن تغلق کے دور حکومت میں غیر ملکی مسافروں کے ساتھ اچھے سلوک کے بارے میں لکھا ہے۔ابن بطوطہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ ’جیسے ہی میں سلطان کے سامنے گیا تو اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا کہ تمہاری آمد مبارک ہے۔ فکر نہ کرو۔‘بطوطہ کے مطابق سلطان محمد نے انھیں نقد انعام بھی دیا۔ بعدازاں انھیں تین دیہات اور اس کے بعد دو مزید دیہات کی جاگیر دی گئی، جس سے انھیں سالانہ آمدنی ہوئی۔ابن بطوطہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’سلطان نے مجھے خدمت کے لیے دس ہندو غلام بھی دیے۔ اتنا ہی نہیں مجھے دہلی کا قاضی مقرر کیا گیا حالانکہ میں مقامی زبان بالکل نہیں جانتا تھا۔ سلطان کا رویہ غیر ملکی بادشاہوں کے ساتھ بھی خوشگوار تھا۔‘مصنف ابراہیم ایرالی کے مطابق ’محمد بن تغلق نے چین کے بادشاہ کو 100 گھوڑے، 100 غلام، 100 رقاص، 1200 سے زیادہ کپڑے، زری ملبوسات، ٹوپیاں، تلواریں، موتیوں کی کڑھائی والے دستانے اور 15 خواجہ سرا بھیجے۔‘Getty Imagesبطوطہ کے مطابق سلطان محمد نے انھیں تین دیہات اور اس کے بعد دو مزید دیہات کی جاگیر دیمحمد تغلق کی راستبازیدہلی سلطنت کی تاریخ پر گہری نظر ڈالنے سے حکمرانوں اور ان کے والدین کے ساتھ ان کے تعلقات کے مختلف پہلوؤں کا پتہ چلتا ہے۔مؤرخ ستیش چندر نے اپنی کتاب ’قرون وسطیٰ کا ہندوستان: سلطنت سے مغلوں تک‘ میں ذکر کیا ہے کہ محمد بن تغلق اپنی والدہ کا بہت احترام کرتے تھے اور ہر معاملے پر اُن سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ تاہم، انھوں نے فوجی کیمپوں میں خواتین کی موجودگی پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔بہت سے مؤرخین نے لکھا ہے کہ سلطان کو شراب پینا بھی پسند نہیں تھا۔معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب نے اپنی کتاب ’قرون وسطیٰ کے ہندوستان کی اقتصادی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ ’محمد بن تغلق کی خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے باہر سے آنے والے مسلمانوں اور منگولوں کے علاوہ ہندوؤں کو بھی اہم عہدوں پر فائز کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے لوگوں کو ان کے مذہب سے زیادہ اُن کی اہلیت کی بنیاد پر پرکھا۔‘محمد بن تغلق عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے اور فلکیات، فلسفہ، ریاضی اور منطق پر عبور رکھتے تھے۔ابن بطوطہ نے محمد بن تغلق کی راستبازی کی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ ’ایک بار سلطان کے ایک ہندو درباری نے قاضی سے شکایت کی کہ سلطان نے اس کے بھائی کو بغیر کسی وجہ کے موت کی سزا سنا دی ہے۔ سلطان ننگے پاؤں قاضی کے دربار میں گئے اور اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔ قاضی نے سلطان کے خلاف فیصلہ سنایا اور انھیں جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ سلطان نے قاضی کے حکم کی تعمیل کی۔‘ابن بطوطہ مزید لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ سلطان نے اس کی کچھ رقم دینی ہے۔ اس بار بھی قاضی نے سلطان کے خلاف فیصلہ سنایا اور سلطان نے شکایت کنندہ کو رقم ادا کی۔غریبوں کی مددجب ہندوستان کے کئی حصوں میں شدید قحط پڑا اور دارالحکومت میں گندم کی قیمت چھ دینار تھی تو سلطان محمد بن تغلق نے حکم دیا کہ دہلی کے ہر غریب اور امیر شخص کو 750 گرام فی کس کے حساب سے چھ ماہ تک روزانہ گندم فراہم کی جائے۔ابن بطوطہ اپنی کتاب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’عام دنوں میں بھی سلطان نے دہلی کے لوگوں کے لیے عوامی باورچی خانے کھولے، جن میں روزانہ کئی ہزار لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ سلطان نے بیماروں کے لیے ہسپتال اور بیواؤں اور یتیموں کے لیے پناہ گاہیں بھی کھولیں۔‘دین کے معاملے میں محمد بن تغلق کے خیالات میں بہت سے تضادات تھے۔بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ جو لوگ ان کے دور حکومت میں نماز نہیں پڑھتے تھے ان کے ساتھ بہت سختی سے نمٹا جاتاتھا۔لیکن معاصر مورخین ضیاء الدین بارانی اور عبدالمالک اسامی کا خیال ہے کہ سلطان محمد ایک غیر مذہبی شخصیت کے حامل تھے۔بارانی کے مطابق ’اگرچہ وہ سلطان کے درباری تھے ، لیکن سطان نے ان کے سامنے کہا تھا کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ جس طرح کا سلوک کر رہے تھے وہ اسلامی روایات میں تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔‘مورخ اسحاقی نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا کہ محمد بن تغلق کو ہمیشہ ملحدوں کے ساتھ کھڑے دیکھا گیا ہے۔درحقیقت محمد بن تغلق کی عادت جس نے اس وقت کے مسلمان علماء کو ناراض کر دیا تھا وہ یہ تھی کہ وہ ’یوگیوں اور سادھوؤں کی سرپرستی‘ کرتے تھے۔ابراہم ایرالی نے یہ بھی لکھا ہے کہ 'بہت پرتشدد رجحان رکھنے کے باوجود محمد ایک جین راہب جینا پربھا سوری کے مداح تھے۔ مگر ان کی دوسرے مذاہب کے بارے میں جاننے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی سوچ اور ثقافتی دلچسپیاں وسیع تھیں۔‘سرمائے کی تبدیلی کا متنازعہ فیصلہتقریباً تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ محمد بن تغلق کا سب سے متنازعہ فیصلہ اپنی حکومت کو دہلی سے دولت آباد (مہاراشٹر میں دیوگری) منتقل کرنا تھا۔سلطان کے خیال میں یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا جسے کامیاب ہونا چاہیے تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔بارانی لکھتے ہیں، ’اس اچانک فیصلے کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں نہیں سوچا گیا کیونکہ یہ سلطان کا ذاتی فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ اس لیے بھی ناکام رہا کیونکہ محمد نے نہ صرف دارالحکومت دولت آباد (دیوگری) منتقل کیا بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ دہلی کی پوری آبادی کو وہاں ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔‘بہت سے دہلی والوں نے دولت آباد یا دیوگیری جانے سے انکار کر دیا اور اپنے گھروں میں چھپ گئے۔ابن بطوطہ کے مطابق سلطان نے پورے شہر کی تلاشی لی۔ جس میں اس کے سپاہیوں کو دہلی کی سڑکوں پر ایک اپاہج اور ایک نابینا شخص ملا۔ ان دونوں کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا۔انھوں نے مزید لکھا، 'سلطان نے حکم دیا کہ معذور شخص کو توپ کے منہ سے باندھ دیا جائے اور نابینا شخص کو دہلی سے دیوگیری جانے کے 40 دن کے راستے میں گھسیٹا جائے۔ اس شخص کو سڑک پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا اور صرف اس کی ٹانگ دیوگیری تک پہنچ سکتی تھی۔‘یہ خبر ملتے ہی کچھ چھپے ہوئے لوگ بھی دہلی چھوڑ کر چلے گئے اور دہلی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ مورخین لکھتے ہیں کہ خوفزدہ ہوئے لوگوں نے اپنا فرنیچر اور سامان لے جانے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی۔Getty Imagesبہت سے دہلی والوں نے دولت آباد یا دیوگیری جانے سے انکار کر دیا اور اپنے گھروں میں چھپ گئےواپسی کا فیصلہلیکن راجدھانی کو دیوگیری منتقل کرنے کے فیصلے نے دہلی کی بربادی کا آغاز کر دیا تھا۔’دہلی کبھی اتنی خوشحال تھا کہ اس کا موازنہ بغداد اور قاہرہ سے کیا جاتا تھا۔ لیکن اس شہر کو اس طرح تباہ کر دیا گیا کہ یہاں کی عمارتوں میں رہنے کے لیے ایک بلی اور کتا بھی نہیں بچا۔ کئی نسلوں سے دہلی میں رہنے والے لوگوں کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ دیوگیری کے راستے میں ہی کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔ اور یہاں تک کہ دیوگیری پہنچنے والے بھی اپنے شہر سے باہر رہنے کا درد برداشت نہیں کر سکے۔‘آخر کار محمد بن تغلق نے دیوگری آنے والے لوگوں کو دہلی واپس آنے کی اجازت دے دی۔انھوں نے محسوس کیا کہ جس طرح انہیں دہلی سے جنوب کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا ، اسی طرح وہ دیوگیری سے شمال کو کنٹرول نہیں کرسکتے تھے۔بہت سے لوگ خوشی خوشی دہلی لوٹ آئے، جب کہ کچھ نے اپنے کنبوں کے ساتھ دیوگیری میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ بہت سے ماہرین کا ماننا ہے کہ راجدھانی کے بہت سے لوگوں کی دہلی واپسی کے باوجود دہلی اپنی پرانی شان دوبارہ حاصل نہیں کرسکا۔Getty Imagesدہلی کبھی اتنی خوشحال تھا کہ اس کا موازنہ بغداد اور قاہرہ سے کیا جاتا تھاکرنسی کا فیصلہ بھی ناکام رہامحمد بن تغلق کی جانب سے علامتی کرنسی متعارف کرانے کے فیصلے پر بھی کافی تنازعہ ہوا تھا۔چونکہ 14 ویں صدی میں دنیا میں چاندی کی کمی تھی، سلطان نے چاندی کے ٹینک کے سکوں کو تانبے کے سکوں سے بدل دیا۔درحقیقت انھیں چین اور ایران سے سائن کرنسی چلانے کا خیال آیا جہاں اس وقت یہ رائج تھی۔لیکن محمد کے پاس اس پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے نہ تو انتظامی ادارہ تھا اور نہ ہی تربیت یافتہ افراد۔پروفیسر ستیش چندر اپنی کتاب قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں لکھتے ہیں کہ ’اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی جعلی سکّے بازار میں آ گئے اور لوگ ہر لین دین میں سکّے کی قیمت کے مطابق سکّے دینے لگے، نہ کہ اس پر موجود سکّے کی قیمت کی بنیاد پر۔ ہر ایک شخص نے تانبے کے جعلی سکّوں میں حکومت کو اپنے واجبات دینا شروع کر دیے۔‘جب سلطان نے محسوس کیا کہ ان کا ٹوکن کرنسی منصوبہ ناکام ہوگیا ہے تو انھوں نے اس عمل کو روکنے کا فیصلہ کیا۔سلطان نے اعلان کیا کہ جس کے پاس تانبے کے سکّے ہیں وہ خزانے میں جمع کرا سکتا ہے اور انھیں سونے اور چاندی کے سکّوں میں تبدیل کرسکتا ہے۔ضیاء الدین بارانی کے مطابق ’تانبے کے اتنے سکّے خزانے میں پہنچے کہ پہاڑ بن گئے۔ اس ناکامی نے سلطان کی ساکھ کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا اور اس نے محمد بن تغلق کو اپنی قوم کے ساتھ مزید سخت بنا دیا۔‘مشہور مورخ ایشوری پرساد نے اپنی کتاب ’ہندوستان میں مسلم حکمرانی کی مختصر تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ ’عام لوگوں کے لیے تانبا صرف تانبا تھا۔ عوام ٹوکن کرنسی میں لین دین کے عمل کو نہیں سمجھ سکے۔ سلطان نے اس حقیقت کو بھی دھیان میں نہیں رکھا کہ ہندوستان کے لوگ قدامت پسند تھے اور تبدیلی سے خوفزدہ تھے ، بھلے ہی حکمران ہندوستانی نژاد نہ ہو۔‘دہلی کے باہر انتقالتاریخ بتاتی ہے کہ محمد بن تغلق نے کسی پر بھروسہ نہیں کیا۔ لہٰذا وہ بغاوت کو کچلنے کے لیے ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جاتے تھے اور اس مشق نے ان کی فوج کو بری طرح تھکا دیا تھا۔1345 میں محمد بن تغلق گجرات میں باغیوں کو کچلنے کے لیے دہلی سے روانہ ہوئے اور کبھی دہلی واپس نہیں لوٹ سکے۔اس مہم کے دوران سلطان کی فوج میں طاعون کی وبا پھیل گئی۔ گجرات میں، سلطان نے باغی محمد تاگی کو شکست دی لیکن تاگی سندھ کی طرف بھاگ گئے۔Getty Images20 مارچ سنہ 1351 کو محمد بن تغلق نے دریائے سندھ کے کنارے چٹھہ سے تقریبا 45 کلومیٹر کے فاصلے پر آخری سانس لیاس دوران محمد کو تیز بخار ہوا لیکن مورخین نے لکھا ہے کہ صحت یاب ہونے کے بعد وہ تاگی کے پیچھے سندھ چلے گئے جہاں انھوں نے دریائے سندھ کو بھی عبور کیا لیکن پھر انھیں دوبارہ بخار ہو گیا۔20 مارچ سنہ 1351 کو محمد بن تغلق نے دریائے سندھ کے کنارے چٹھہ سے تقریبا 45 کلومیٹر کے فاصلے پر آخری سانس لی۔اس وقت کے ایک مورخ عبدالقادر بدایونی نے لکھا کہ ’نہ تو سلطان کو اپنے لوگوں سے اتنی محبت اور عزت مل سکی اور نہ ہی عوام انھیں صحیح طریقے سے سمجھ سکے۔ سلطان نے اپنی رعایا اور رعایا نے سلطان سے آزادی حاصل کی۔‘قریبی عزیزوں کی موت، نالائق جانشینی کا سوال اور قلعوں پر قبضے کی ضد: اورنگزیب کی زندگی کے آخری 27 سالمغل سلطنت کے زوال کے بیج بونے والے مراٹھا جنگجو جن کو اورنگزیب نے ’پہاڑی چوہا‘ کہا جب واسکو دے گاما نے کیرالہ میں مکّہ جانے والے خواتین اور بچوں سے بھرے بحری جہاز کو نذر آتش کیاسراج الدولہ کے قتل کا معمہ اور ’نمک حرام ڈیوڑھی‘: 250 سال سے ’غداری کا طعنہ‘ سننے والے میر جعفر کے ورثا کی کہانیمکہ اور مدینہ میں آباد طاقتور یہودی اور مسیحی قبائل کا عروج و زوال: مسلمانوں کے مقدس ترین شہر اسلام سے قبل کیسے تھے؟جب تیل سے مالا مال دبئی، ابوظہبی اور عمان پاکستان یا انڈیا کا حصہ بنتے بنتے رہ گئے