
محمد اظہر، جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نمایاں نام ہیں، کا تعلق لاہور کے ایک معزز ارائیں خاندان سے تھا۔انہوں نے اپنی تعلیم لاہور کے مشہور ادارے ہیلی کالج آف کامرس سے مکمل کی جہاں تجارت اور کاروبار کے بنیادی اصول سیکھے۔ یہ تعلیمی پس منظر ان کے مستقبل کے کاروباری اور سیاسی کیرئیر کی بنیاد بنا۔میاں اظہر نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ایک کامیاب تاجر کے طور پر کیا اور وہ پاکستان کے بڑے سٹیل مینوفیکچررز میں سے ایک بن گئے، جہاں وہ ایفکو سٹیل انڈسٹریز کے سی ای او کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی بتاتے ہیں کہ میاں محمد اظہر نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1960 کی دہائی کے اواخر میں ایک عام سیاسی کارکن کے طور پر کیا۔اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ میاں محمد اظہر نے 1970 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار عبد الحفیظ کاردار کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔’اگرچہ سقوط ڈھاکہ اور ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں ان کا کوئی واضح سیاسی کردار نظر نہیں آتا، لیکن کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی برادری کے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے شریف خاندان کے قومیائے گئے صنعتی یونٹس کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔‘70 کی دہائی کے آخر میں جب جنرل ضیاء الحق نے بلدیاتی نظام متعارف کرایا، میاں اظہر اس نظام کا حصہ بنے۔ 1987 میں وہ لاہور کے میئر منتخب ہوئے اور 1991 تک اس عہدے پر خدمات انجام دیں۔ ان کا یہ دور لاہور کی ترقی اور انتظامی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔قومی اسمبلی اور مسلم لیگ سے وابستگی90 کی دہائی میں میاں اظہر کی سیاسی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا جب وہ نواز شریف کے قریبی ساتھی بنے۔1988 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف کے خالی کردہ حلقہ این اے-95 لاہور سے انہیں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے لیے منتخب کیا گیا۔میاں محمد اظہر نے ہم خیال گروپ کے ارکان کے ساتھ مل کر پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم) یا پی ایم ایل-ق کی بنیاد رکھی (فوٹو: اے پی پی)1990 سے 1993 تک وہ پنجاب کے گورنر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے، جو ان کے سیاسی کیرئیر کا ایک اہم سنگ میل تھا۔1997 کے عام انتخابات میں میاں اظہر نے لاہور کے مضافاتی علاقے شاہدرہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔ اس وقت وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما تھے تاہم نواز شریف کی قیادت سے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے پارٹی کے اندر ہم خیال گروپ تشکیل دیا، جس میں خورشید محمود قصوری، غلام سرور چیمہ، اور دیگر شامل تھے۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کا قیامنواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد، جب پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا، میاں محمد اظہر نے ہم خیال گروپ کے ارکان کے ساتھ مل کر پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم) یا پی ایم ایل-ق کی بنیاد رکھی۔یہ جماعت 2002 میں پرویز مشرف کی حمایت یافتہ ’کنگز پارٹی‘ کے طور پر سامنے آئی اور میاں اظہر اس کے صدر بنے۔ پی ایم ایل-ق نے 2002 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور وفاقی و صوبائی سطح پر اہم کردار ادا کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پارٹی کی مقبولیت کم ہوتی گئی اور میاں اظہر کا سیاسی اثر و رسوخ بھی متاثر ہوا۔میاں اظہر کی قیادت میں پی ایم ایل-ق نے کارکنوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، اور ان کی شرافت اور اصول پسندی کی وجہ سے انہیں کارکنوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔انہوں نے ہمیشہ کارکنوں کے مسائل کو ترجیح دی اور ان کے لیے پنجاب سول سیکریٹریٹ میں ایک دفتر بھی قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ کارکنوں کے مسائل حل کر سکیں۔پاکستان تحریک انصاف اور تازہ سیاسی سفروقت کے ساتھ ساتھ میاں محمد اظہر نے اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کی۔ وہ 2024 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے اور لاہور سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔میاں محمد اظہر نے اپنی سیاسی زندگی کے آخری ایام تک آئین و قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی (فوٹو: اے پی پی)ان کے بیٹے، حماد اظہر، بھی پی ٹی آئی کے اہم رہنما بنے اور 2018 سے 2022 تک متعدد وزارتی عہدوں پر فائز رہے، جن میں وزیر توانائی اور وزیر خزانہ کے عہدے شامل ہیں۔میاں محمد اظہر نے اپنی سیاسی زندگی کے آخری ایام تک آئین و قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی۔ ان کے کردار کی شرافت اور اصول پسندی کی وجہ سے ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کا احترام کرتے تھے۔حماد اظہر اور 9 مئی کے واقعاتمیاں محمد اظہر کے بیٹے حماد اظہر، جو پیشے کے لحاظ سے بیرسٹر ہیں، نے اپنے والد کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھایا۔ وہ 2018 کے عام انتخابات میں لاہور کے حلقہ این اے-126 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور عمران خان کی کابینہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔9 مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور عسکری املاک پر حملوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے کئی رہنما روپوش ہو گئے جن میں حماد اظہر بھی شامل ہیں۔ان کے خلاف نقص امن سمیت مختلف مقدمات درج کیے گئے، اور وہ تاحال روپوش ہیں۔حماد کی روپوشی نے ان کے خاندان کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا کی، اور میاں محمد اظہر کی وفات کے موقع پر سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے مطالبہ کیا کہ حماد کو اپنے والد کا جنازہ اٹھانے کی اجازت دی جائے۔میاں محمد اظہر کی وفات22 جولائی 2025 کو میاں محمد اظہر کا انتقال ہوا۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے لے کر دیگر رہنماؤں جیسے کہ مسرت چیمہ اور سردار منصور نے ان کی شرافت، اصول پسندی، اور سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ان کی وفات کو پاکستانی سیاست میں شرافت کے ایک باب کے خاتمے سے تعبیر کیا گیا۔ میاں محمد اظہر نے اپنی پوری زندگی اصولوں پر مبنی سیاست کی اور ہمیشہ کارکنوں کے حقوق کی آواز اٹھائی۔ ان کے انتقال نے نہ صرف ان کے خاندان بلکہ ان کے سیاسی ساتھیوں میں ایک بڑا خلا چھوڑا ہے۔میاں محمد اظہر کی زندگی پاکستانی سیاست میں شرافت، اصول پسندی، اور کارکنوں سے وابستگی کی ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں، جن میں لاہور کے میئر، پنجاب کے گورنر، اور قومی اسمبلی کے رکن کے عہدے شامل ہیں۔ان کی قائم کردہ پی ایم ایل-ق نے ایک وقت میں پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا، اور ان کی سیاسی جدوجہد نے انہیں کارکنوں کے دلوں میں ایک خاص مقام دیا۔ان کے بیٹے حماد اظہر نے ان کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھایا، لیکن موجودہ حالات میں ان کی روپوشی نے خاندان کے لیے نئے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ میاں محمد اظہر کی زندگی پاکستانی سیاست کے عروج و زوال کی ایک داستان ہے۔ انہوں نے ایک عام کارکن سے لے کر قومی اسمبلی کے رکن اور پنجاب کے گورنر تک کا سفر طے کیا۔ان کی شرافت، اصول پسندی، اور کارکنوں سے وابستگی نے انہیں ایک منفرد مقام عطا کیا۔ ان کی وفات سے پاکستانی سیاست ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئی، لیکن ان کی میراث ان کے بیٹے حماد اظہر اور ان کے سیاسی نظریات کے ذریعے زندہ رہے گی۔