
Reutersحکومت نے جنگ بندی کو موثر بنانے کے لیے امریکی منصوبے کے تحت چند اقدامات کی منظوری دیحزب اللہ کے سربراہ نعیم قاسم نے لبنانی حکومت کی جانب سے ان کی تنظیم کو ایک امریکی منصوبے کے تحت غیر مسلح کرنے کی منظوری دیے جانے کے بعد دھمکی دی ہے کہ اگر اس منصوبے پر عمل کیا گیا تو ملک میں ’خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔‘واضح رہے کہ سات اگست کو لبنان کی حکومت نے کابینہ کے اجلاس میں اس منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے تحت جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بدلے حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جانا ہے۔ ملک کی حکومت نے اس کام کو مکمل کرنے کے لیے اس سال کے آخر کی ڈیڈ لائن رکھی ہے۔حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے اس قومی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت انیس سو ترتالیس میں شراکت اقتدار طے ہوا تھا۔ حزب اللہ کے ال منار چینل نے پندرہ اگست کو یہ بیان جاری کیا جس میں نعیم قاسم نے حکومت پر ملک کو ایک بڑے بحران سے دوچار کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔خبر کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھی ہو، نہ کہ ملک کو اسرائیلی حملہ آوروں کے حوالے کرنے کے لیے۔سات اگست کو لبنان حکومت کی کابینہ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق حکومت نے جنگ بندی کو موثر بنانے کے لیے امریکی منصوبے کے تحت چند اقدامات کی منظوری دی۔ان اقدامات کے مطابق طائف معاہدے، لبنان کے آئین اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق صرف حکومت کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ جنگ اور امن کے بارے میں فیصلے کرے، آئینی اداروں کے کردار کو مضبوط کیا جائے گا اور پورے ملک میں صرف ریاست ہی ہتھیار رکھ سکے گی۔اس اعلامیے کے تیسرے نکتے کے مطابق رفتہ رفتہ تمام غیر سرکاری مسلح تنظیموں، بشمول حزب اللہ، کا خاتمہ کیا جائے گا اور فوج سمیت سکیورٹی فورسز کی مدد کی جائے گی۔اس کے علاوہ اعلامیے کے مطابق پانچ مقامات سے اسرائیلی انخلا کے ساتھ سرحدی تنازع اور قیدیوں سے جڑے معاملات کو سفارت کاری سے حل کیا جائے گا تاکہ عام شہری سرحدی علاقوں میں اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔یہ بھی کہا گیا کہ لبنان کی زمین سے اسرائیلی فوج کے انخلا کو یقینی بناتے ہوئے سرحد پر زمینی، فضائی اور بحری خلاف ورزیوں کو مکمل طور پر روک دیا جاے گا اور لبنان اور اسرائیل کے درمیان بین الاقوامی سرحد کا مستقل تعین کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ لبنان اور شام کی سرحد کے تعین کی بات بھی کی گئی ہے۔اس اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکہ، فرانس، سعودی عرب، قطر سمیت لبنان کے دیگر دوستوں سے لبنان کی معیشت اور تعمیر نو کے لیے کانفرنس کی جائے گی تاکہ امریکی صدر کے اعلان کے مطابق ملک کو ترقی دلائی جا سکے۔اس اعلامیے کے مطابق لبنان کی سکیورٹی فورسز، خصوصی طور پر فوج، کے لیے بین الاقوامی مدد حاصل کی جائے گی تاکہ لبنان کے تحفظ سمیت معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اور میزائلوں کا انبار: حزب اللہ کی بقا کا سوال جس کا جواب ’صرف ایران کے پاس ہے‘سابق اسرائیلی ایجنٹوں کے انکشافات: خفیہ ایجنسی موساد نے لبنان میں ’پیجر حملوں کا منصوبہ‘ کیسے بنایا؟اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟اسرائیلی حملے میں مارے گئے حزب اللہ کے ’سیکنڈ ان کمانڈ‘ ابراہیم عقیل جن کے سر کی قیمت ستر لاکھ ڈالر تھییاد رہے کہ جون میں امریکی حکام کی جانب سے ایک منصوبہ لبنان کو پیش کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے حملوں کو روکنے، پانچ مقامات سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بدلے حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے۔ اسرائیلی فوج نے نومبر میں جنگ بندی کے بعد سے لبنان کے ان پانچ مقامات پر قبضہ جاری رکھا ہوا ہے۔حزب اللہ کے رہنما کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم اس وقت تک ہتھیاروں کے معاملے پر بات چیت کرنے کو تیار نہیں جب تک اسرائیلی حملے جاری ہیں جو ان کے مطابق جنگ بندی کی خلاف ورزی ہیں۔دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے حزب اللہ کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کے لیے ہیں۔حزب اللہ کی تنقید اور دھمکیحزب اللہ کے سربراہ قاسم نسیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فوج کو اندرونی اختلاف میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ان کی تنظیم غیر مسلح نہیں ہو گی اور ملک میں کسی قسم کے تنازع کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرائے گی۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ اور ان کی حامی جماعت نے ملک میں مظاہروں کا ارادہ معطل کر دیا ہے کیونکہ ابھی اس معاہدے میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل سات اگست کو کابینہ اجلاس کے بعد بیروت سمیت مختلف شہروں میں حزب اللہ کے سینکڑوں حامی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ الجدید ٹی وی کی جانب سے جاری فوٹیج میں جنوبی بیروت کی مضافات میں حزب اللہ کے جھنڈے اٹھائے نوجوان موٹر سائیکلوں پر گھومتے دیکھے گئے۔تاہم خطے میں امریکی ایلچی ٹام باراک نے لبنان کی کابینہ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے تاریخی، دلیرانہ اور درست قدم قرار دیا۔انھوں نے ایکس نامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا کہ کابینہ کا فیصلہ لبنان میں ایک ملک، ایک فوج کا حل قائم کرنے کی جانب قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم لبنان کے عوام کے پیچھے کھڑے ہیں۔‘ایک اور پوسٹ میں انھوں نے لکھا کہ وعدہ کیا گیا اور پورا کر دیا گیا۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لبنان کو حزب اللہ کی گرفت سے نکال کر نئے مستقبل کا امکان موجود ہے۔لبنان میں خانہ جنگی کا امکان؟لبنان کی نجی ویب سائٹ، العنبی، دروز سوشلسٹ جماعت پی ایس پی، سے منسلک ہے۔ اس ویب سائٹ پر حالیہ پیش رفت کے حوالے سے لکھا گیا کہ لبنان کو دو ہزار چھ جیسے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ویب سائٹ پر لکھا گیا کہ لبنان اس وقت ایک دھماکے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس تحریر کے مطابق حزب اللہ ایران کی مدد سے ملک کے صدر اور وزیر اعظم کی حکومت کو ایک خطرناک سیاسی بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔تحریر کے مطابق ایسے میں ایک صورت حال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسرائیل اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لبنان کے خلاف عسکری کاروائیوں میں اضافہ کر دے۔یاد رہے کہ چھ اگست کو حزب اللہ نے کہا تھا کہ لبنان کی حکومت اگر فوج کو ہتھیاروں پر ریاستی کنٹرول قائم کرنے کو کہے گی تو اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔Reutersخطے میں امریکی ایلچی ٹام باراک نے لبنان کی کابینہ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے تاریخی، دلیرانہ اور درست قدم قرار دیاحزب اللہ کیسے وجود میں آئی اور لبنان میں اسے کیسی حمایت حاصل ہے؟حزب اللہ کا لغوی مطلب 'خدا کی جماعت' کے ہیں۔ یہ لبنان کی ایک طاقتور تنظیم ہے جسے نہ صرف ملک کی پارلیمان اور حکومت میں قابلِ ذکر نمائندگی حاصل ہے بلکہ یہ ملک کی فوج کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ایران کی پشت پناہی سے سنہ 1980 کی دہائی میں تشکیل پانے والی یہ تنظیم لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلا کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہی ہے۔لبنان میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور ملک کے سرحدی علاقے پر اسرائیلی قبضے کے بعد شیعہ علما کے ایک چھوٹے سے گروہ کی اعانت سے اُبھرنے والی اس تنظیم کے اولین مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور لبنان سے غیرملکی فوجوں کا انخلا تھا۔سنہ 1989 کے طائف معاہدے نے، جس نے لبنان کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور ملیشیاؤں کو غیر مسلح کرنے پر زور دیا، اس نے حزب اللہ کو اپنے فوجی ونگ کو ایک 'اسلامی مزاحمت' فورس کے طور پر تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جو اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے وقف ہے، اور اسے اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی۔1990 کی دہائی تک بھی اسرائیل سرحد کے ساتھ لبنانی زمین کے ایک وسیع حصے پر قابض تھا تاہم مئی 2000 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک نے نام نہاد 'سکیورٹی زون' سے دستبرداری اختیار کر لی جسے حزب اللہ کے عسکری ونگ کی کامیابی سے تعبیر کیا گیا۔حزب اللہ نے 1992 سے لبنان کے قومی انتخابات میں حصہ لیا ہے اور ایک بڑی سیاسی طاقت بن چکی ہے۔گروپ اور اس کے اتحادیوں نے 2022 کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو دی تھی، لیکن اس کے بعد سے نئی حکومت نہیں بن سکی ہے اور اس کے پاس نگران انتظامیہ میں وزرا موجود ہیں۔لبنان میں سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے بھی اس تنظیم نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ ایک طاقتور سیاسی ادارے کے طور پر، حزب اللہ پورے لبنان میں سکول، ہسپتال، ثقافتی ادارے اور خیراتی ادارے بھی چلاتی ہے جبکہ تنظیم کا اپنا ٹی وی سٹیشن 'المنار' کے نام سے قائم ہے۔سنہ 2006 میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار سے حملہ کیا جس میں آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے اور دو کو اغوا کر لیا گیا، جس کا نتیجہ جنگ کی شکل میں نکلا۔اسرائیلی فوجیوں نے جنوبی لبنان پر حملہ کر کے حزب اللہ کے خطرے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے جنوبی لبنان اور بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے مضبوط ٹھکانوں پر بمباری کی، جب کہ حزب اللہ نے اسرائیل پر تقریباً 4000 راکٹ داغے۔34 روزہ لڑائی کے دوران 1,125 سے زیادہ لبنانی، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، مارے گئے جبکہ اسرائیل کو بھی اپنے 119 فوجیوں اور 45 عام شہریوں کی ہلاکت کا نقصان سہنا پڑا۔اس جنگ کے خاتمے کے بعد حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ اگر وہ جان لیتے کہ اسرائیل جواباً کیا کرے گا تو وہ چھاپے کی اجازت نہ دیتے۔2006 کے بعد سے حزب اللہ نے اپنے جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ کیا اور اپنے ہتھیاروں کو بہتر بنایاتاہم ازہ ترین تنازع اکتوبر 2023 میں اس وقت شروع ہوا جب حزب اللہ نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کے جواب میں ایک دوسرا محاذ کھول دیا۔ گذشتہ ستمبر میں کشیدگی اس وقت بڑھی جب اسرائیل نے ناقابل یقین حد تک حزب اللہ کے اندر گھس کر پہلے پیجر دھماکوں میں گروہ کے اراکین کی ہلاکت کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنایا اور اس کے بعد والکی ٹاکیز بھی اسی طرح استعمال ہوئیں۔دوسری جانب فضائی حملوں اور جنوبی لبنان پر زمینی حملے میں عام شہریوں سمیت چار ہزار افراد ہلاک ہوئے اور خصوصی طور پر حزب اللہ کی حمایت کرنے والے علاقوں میں بہت جانی اور مالی نقصان کے علاوہ حزب اللہ کو بھی بھاڑی چوٹ پہنچی۔بہت سے رہنما قتل ہوئے، حسن نصر اللہ سمیت، جو تین دہائیوں سے حزب اللہ کا چہرہ تھے۔ ان کے جانشین نعیم قاسم، جو حسن نصر اللہ جتنے بااختیار نہیں، نے تسلیم کیا ہے کہ ان کو 'تکلیف دہ' نقصانات پہنچے ہیں۔نومبر میں جنگ بندی کا اعلان ایک طرح سے حزب اللہ کی جانب سے ہتھیار پھینکنے کے برابر تھا جسے امریکہ، برطانیہ سمیت بہت سے ممالک میں دہشت گرد گروہ سمجھا جاتا ہے۔اسرائیلی حملے میں مارے گئے حزب اللہ کے ’سیکنڈ ان کمانڈ‘ ابراہیم عقیل جن کے سر کی قیمت ستر لاکھ ڈالر تھیاسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟سابق اسرائیلی ایجنٹوں کے انکشافات: خفیہ ایجنسی موساد نے لبنان میں ’پیجر حملوں کا منصوبہ‘ کیسے بنایا؟ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اور میزائلوں کا انبار: حزب اللہ کی بقا کا سوال جس کا جواب ’صرف ایران کے پاس ہے‘حزب اللہ کیا ہے اور وہ عسکری لحاظ سے کتنی طاقتور ہے؟