
BBCموسیٰ الصدر 1978 سے لاپتہ ہیںانتباہ: اس سٹوری میں بعض تفصیلات چند قارئین کے لیے باعث تکلیف ہو سکتی ہیں!شمالی برطانیہ کی یونیورسٹی میں موجود کمپیوٹر سائسندان لاش کی ایک تصویر کا باغور مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ ایک معمے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا راز ہے جس نے مشرقِ وسطیٰ کو 50 سال تک اپنی گرفت میں جکڑے رکھا۔بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر حسن اُوگل نے کہا کہ ’کیا وہ اب ایسا لگتا ہے؟‘یہ ایک لاش کی باقیات کے چہرے کی ڈیجیٹل تصویر تھی۔ بی بی سی انویسٹیگیشن کے لیے اسے خصوصی الگورتھم سے گزارا گیا تھا۔ایک صحافی نے لاش کی اصل تصویر سنہ 2011 میں لیبیا کے دارالحکومت میں اُس وقت لی جب انھوں نے خفیہ مردہ خانے میں یہ لاش دیکھی۔ تب اُنھیں بتایا گیا کہ تھا کہ یہ لاش سحر انگیز شخصیت کے مالک شیعہ عالم موسیٰ الصدر کی ہو سکتی ہے، جو 1978 میں لیبیا میں لاپتہ ہو گئے تھے۔موسیٰ الصدر کی گمشدگی کے بعد نہ ختم ہونے والے سازشی نظریات اور مفروضوں نے جنم لیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ مارے گئے ہیں جبکہ کچھ کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور لیبیا میں کہیں قید ہیں۔اُن کے پیروکاروں کے خیال میں موسیٰ الصدر کی گمشدگی سنہ 1963 میں امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل کی سازش جیسی ہے۔ اس طویل اور حساس تحقیقات کے دوران بی بی سی ورلڈ سروس کی ٹیم کو لیبیا میں کئی دنوں تک نظر بند ہونا پڑا۔پیروکاروں کی موسیٰ الصدر سے شدید جذباتی وابستگی ہے کیونکہ سیاسی ساکھ اور لبنان کے آبائی پسماندہ شیعہ مسلمانوں کی آواز بننے والے مذہبی رہنما کے طور پر وہ انتہائی قابلِ احترام ہیں۔ اُن کے پیروکاروں نے شیعہ مسلک کے لیے اُن کی خدمات پر انھیں ’امام‘ کا لقب دیا، جو ایک زندہ شیعہ عالم کے لیے ایک غیر معمولی اعزاز ہے۔اُن کی پراسرار گمشدگی نے اُن کے پیروکاروں کے جذباتی لگاؤ کو مزید بڑھا دیا کیونکہ شعیہ اسلام کی سب سے بڑی شاخ بارہویں امام پر یقین رکھتے ہیں۔ شیعہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ بارہویں امام زندہ ہیں اور وقتِ آخر میں زمین پر انصاف قائم کرنے کے لیے واپس آئیں گے۔صدر کی گمشدگی نے دنیا کے سب سے زیادہ سیاسی، مذہبی اور نسلی طور پر غیر مستحکم خطے یعنی مشرق وسطیٰ کی تقدیر بھی بدل کر رکھ دی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ایران کو بھی کنٹرول کر سکتے تھے اور اس کے نتجے میں ایران نستاً زیادہ متعدل سمت میں آگے بڑھتا لیکن وہ عین اُس وقت اچانک غائب ہو گئے جب ایران میں انقلاب آ رہا تھا۔بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی شناخت کی کوششوں میں کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ تصویر لینے والے صحافی نے ہمیں بتایا کہ لاش غیر معمولی طور پر طویل القامت تھی۔کہا جاتا ہے کہ الصدر کا قد چھ فٹ پانچ انچ لمبا تھا لیکن اُن کے چہرے پر کوئی قابل شناخت خصوصیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔کیا ہم آخر کار اس معمے کو حل کر سکتے ہیں؟میرا تعلق لبنان کے پہاڑی علاقے یمونہ سے ہے، جہاں طویل عرصے سے 1968 کے خوفناک موسم سرما کی کہانیاں سنائی جاتی رہی ہیں جب، برفانی تودہ گرنے سے علاقے میں تباہی ہوئی اور موسی الصدر شدید برف میں سے گزر کر گاؤں کی مدد کے لیے آئے۔مغرب سے ’ڈکٹیشن‘ لینے والا ایران اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا ’ازلی دشمن‘ کیسے بنابہائی مذہب کیا ہے اور قطر میں اس کے رہنما کو سوشل میڈیا پوسٹس پر سزا کیوں سنائی گئی؟شاہ سے امام خمینی تک: کیا یمنی حوثی ’ایران کی کٹھ پتلی‘ ہیں؟فضائی برتری، خفیہ ایجنٹ اور امریکی ہتھیار: اسرائیلی فوج ایران پر کیسے ’حاوی‘ ہوئی اور آگے کیا ہو گا؟Imam Sadr Foundationموسیٰ الصدر شیعہ مسلمانوں کے لیے قابل احترام شخصیت ہیںآج گاؤں والے جس حیرت کے ساتھ اس کہانی کو سنا رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی حیثیت کس قدر افسانوی ہو گئی ہے۔ ایک شخض نے اپنی اُس عمر کی یادیں دہرائیں جب وہ چار سال کے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہ خواب کی طرح تھا۔۔۔ وہ برف کے اُس پار جا رہے تھے،تمام گاؤں والے بھی اُن کے پیچھے تھے۔ میں صرف امام کی عبا کو چھونے کے لیے اُن کے پیچھے گیا۔‘سنہ 1968 تک یمونہ جیسے دور افتادہ گاؤں میں وہ اتنے مشہور نہیں تھے لیکن وہ آہستہ آہستہ قومی سطح پر شہرت حاصل کر رہے تھے۔ اس دہائی کے آخر تک وہ لبنان کی ایک بڑی شخصیت بن چکے تھے، جو بین المذاہب مکالمے اور قومی اتحاد کے حامی تھے۔اُن کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں اعزازی طور پر ’امام‘ کا لقب دیا گیا۔سنہ 1974 میںانھوں نے تحریک کا آغاز کیا، جس کے تحت ایسیسماجی اور سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس نے شیعہ عوام کی متناسب نمائندگی اور مذہب سے بالا تر ہو کر غربا کی مدد، سماجی اور معاشی آزادی کا مطالبہ کیا۔فرقہ واریت سے بچنے کے لیے وہ اتنے پرعزم تھے کہ انھوں نے چرچ میں بھی خطبات دیے۔Imam Sadr Foundationصدر نے ہمشہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے آواز اُٹھائی25 اگست 1978 کو موسی الصدر لیبیا گئے جہاں انھیں ملک کے رہنما کرنل محمد قذافی سے ملاقات کرنا تھی۔تین سال سے لبنان خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔ فلسطینی جنگجو فرقہ وارانہ تنازعات میں شامل ہو گئے تھے اور جنگجوؤں کی اکثریت جنوبی لبنان میں مقیم تھے، جہاں صدر کے زیادہ تر پیروکار رہتے تھے۔فلسطینی جنگجوؤں اور اسرائیل کے مابین سرحد پار فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا اور موسیٰ الصدر چاہتے تھے کہ فلسطینوں کی حمایت کرنے والے کرنل قذافی، لبنان کے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مداخلت کریں۔31 گست تک انھوں نے طرابلس میں کرنل قذافی سے ملاقات کا انتظار کیا اور چھ دن قیام کرنے کے بعد موسیٰ الصدر کو لیبیا کی سرکاری گاڑی میں طرابلس کے ہوٹل سے باہر جاتے ہوئے دیکھا گیا۔اُس کے بعد وہ دوبارہ کہیں نظر نہیں آئے۔قذافی کی سکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ وہ روم روانہ ہو گئے ہیں حالانکہ بعد میں ہونے والی تحقیقات میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔قذافی کے دور میں لیبیا میں آزاد صحافت ناممکن تھی لیکن 2011 میں، بہارِ عرب کے بعد لیبیا میں قذافی حکومت کے خاتمے کے بعدموسیٰ الصدر کی گمشدگی کے معاملے پر چھان بین کے لیے راہ ہموار ہوئی۔لبنانی نژاد سویڈش صحافی قاسم حمادہ کو حکومت مخالف احتجاج کی رپورٹنگ کے دوران طرابلس میں ایک خفیہ مردہ خانے کے بارے میں پتہ چلا۔ اُن کے ایک ذرائع نے بتاتا کہ وہاں موسیٰ الصدر کی باقیات ہو سکتی ہیں۔BBC2011 میں لبنان نژاد سویڈ ش صحافی قاسم حمادہ لیبیا گئے جہاں انھیں موسیٰ الصدر کے بارے میں خبر ملیاُس کمرے کے فریج میں 17 لاشیں تھیں جن میں سے ایک بچے کی تھی، باقی سب بالغ مرد تھے۔ قاسم کو بتایا گیا کہ یہ لاشیں تقریباً تین دہائی پرانی ہیں۔ یہ عین وہ وقت ہے جب موسی الصدر لاپتہ ہوئے تھے اور ان میں سے ایک لاش ان سے مشابہت رکھتی تھی۔قاسم نے مجھے بتایا کہ ’مردہ خانے کے عملے نے جب ایک دراز کھولی اور لاش نظر آئی تو فوری طور پر میرے دماغ میں دو چیزیں آئیں۔‘قاسم نے کہا کہ پہلی بات تو یہ تھی کہ وقت گزرنے کے باوجودبھی چہرے، جلد کی رنگت اور بال ابھی تک موسیٰ الصدر سے مشابہت رکھتے تھے۔دوسرا یہ کہ اس شخص کو قتل کیا گیا کیونکہ قاسم کے بقول لاش کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یا اُن کی پیشانی پر زور سے کوئی چیز لگی ہے یا اُن کی بائیں آنکھ کے اوپر گولی لگی۔لیکن ہمیہ کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ موسیٰ الصدر تھے؟Kassem Hamadéمردہ خانے کے ایک ملازم نے لاش قاسم حمادہ کو دکھائیقاسم نے مردہ خانے میں جوتصویر لی تھی وہ لے کر ہم بریڈ فورڈ یونیورسٹی پہنچے جو گذشتہ 20 برسوں سے ایک خصوصی الگورتھم پر کام کر رہے جیسے Deep Fake Recogniation کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سافٹ وئیر ہے جو تصاویر کے درمیان پیچیدہ مماثلتوں کی نشاندہی کرتا ہے اور نا مکمل تصاویر کے معاملے میں بھی مختلف ٹیسٹوں میں انتہائی قابل اعتماد ثابت ہوا ہے۔اس ٹیم کی قیادت کرنے والے پروفیسر یوگیل نے مردہ خانے میں لی جانے والی تصویر کا صدر کی زندگی میں مختلف مراحل میں لے گئی چار دیگر تصاویر سے موازنہ کیا۔جس کے بعد سافٹ وئیر نے مردہ خانے میں لی گئی تصویر کی سکورنگ کی، ہائی سکورنگ کا مطلب ہے کہ یہ وہ شخص ہے یا اُس کے خاندان کا کوئی شخص ہے۔اگر تصویر کا سکور 50 سے کم ہو تو اس کا مطلب یہ تصویر کسی ایسے شخص کی ہے جو صدر سے تعلق نہیں رکھتا۔ 60 سے 70 سکورکنگ کا مطلب ہے کہ یہ اُنہی کی یا اُن کے قریبی رشتے دار کی تصویر ہے۔ 70 سے اوپر کا مطلب ہے کہ تصویر سو فیصد میچ کر گئی ہے۔پروفیسر یوگیل نے بتایا کہ تصویر کا سکور 60 ہے یعنی ’زیادہ امکان‘ یہی ہے کہ ’یہ موسیٰ الصدر‘ ہی تھے۔اس نتیجے کو جانچنے کے لیے پروفیسر نے اپنے الگورتھم کا استعمال کرتے ہوئے صدر کے خاندان کے چھ افراد کے ساتھ تصویر کا موازنہ کیا اور پھر مشرق وسطیٰ کے 100 دیگر مردوں کی تصاویر کے کے ساتھ بھی موازنہ کیا گیا جو کسی نہ کسی طرح اُن سے مشابہت رکھتے تھے۔BBCمردہ خانے میں لاش کی لی گئی تصویر کا موازنہ موسیٰ الصدر کے خاندان کے افراد اور اُن کی اپنی تصاویر کے ساتھ کیا گیااس موازنے کے دوران خاندانی تصاویر کا سکور بہتر رہا لیکن سب سے بہتر سکور مردہ خانے کی تصویر اور صدر کی اصل تصویروں کے موازنے کے بعد سامنے آیا۔یہ تمام چیزین یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ قاسم نے موسیٰ الصدر کی لاش دیکھی ہو اور حقیقت یہ ہے کہ اُن کی سر پر زخم تھا جو اس امکان کو تقویت دیتا ہے کہ موسیٰ الصدر کو قتل کیا گیا ہو۔صحافی قاسم کی مردہ خانے میں لی گئی تصویر دیکھنے کے چار سال بعد میں سنہ 2023 میں عینی شاہدین سے بات چیت اور خود لاش دیکھنے کے لیے لیبیا گیا۔ہم جانتے تھے کہ یہ حساس معاملہ ہےلیکن اس کے باوجود ہم لیبیا کے ردعمل سے حیران رہ گئے۔BBCصحافی قاسم حمادہ، اس علاقے کا نام بھول گئے تھے جہاں انھوں نے 2011 میں دورہ کیا تھادارالحکومت طرابلس میں کام کرتے ہوئے دوسرے دن ہم خفیہ مردہ خانے تلاش کر رہے تھے۔ بی بی سی کی ٹیم کے ساتھ موجودہ صحافی قاسم حمادہ، اس علاقے کا نام بھول گئے تھے جہاں انھوں نے 2011 میں دورہ کیا تھا لیکن انھیں قریبی ہسپتال کا نام یاد تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ ہسپتال قریب ہی ہے اور ہم اُس جانب چلتے گئے۔اچانک قاسم نے کہا کہ ’یہی جگہ ہے اور یقینی طور پر یہی وہ عمارت ہے جہاں مردہ ِخانہ ہے۔‘ہم اس عمارت کے بیرونی حصے ہی کی ویڈیو بنا سکتے تھے کیونکہ اندر ویڈیو بنانے کے لیے ہمارے اجازت نامے منسوخ کر دیے گئے تھے۔ اگلے ہی دن، نامعلوم افراد کے ایک گروپ نے بغیر کسی وضاحت کے ہمیں محصور کر لیا، بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ لیبیا کے انٹیلیجنس سروس سے وابستہ تھے۔ہمیں لیبیا کی انٹیلجنس کے زیر نگرانی ایک جیل میں لے جایا گیا اور جاسوسی کے الزام میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہم سے بار بار پوچھ گچھ کی گئی اور کہا گیا کہ یہاں کوئی مدد کو نہیں آئے گا اور ہم دہائیوں تک یہیں رہیں گے۔ہم نے تکلیف دہ حالت میں چھ دن حراست میں گزارے۔ آخر کار بی بی سی اور برطانیہ کی حکومت کے دباؤ کے بعد ہمیں رہا کر دیا گیا اور ملک بدر کر دیا گیا۔یہ احساس کہ ہم بھی اس خبر کا حصہ بن گئے ہیں کافی پریشان کن تھا۔ لیبیا اب بھی دو حریف انتظامیہ گروہوں میںتقسیم ہے اور جیل کے عملے نے یہ اشارہ کیا کہ لیبیا کی انٹیلیجنس کو قذافی کے سابق وفادار چلا رہے ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ بی بی سی موسی الصدرکیگمشدگی کی تحقیقات کرے۔Getty Imagesصدر کے لاپتہ ہونے کے چند دن کے بعد ستمبر 1978 میں ایرانی انقلاب کے دوران احتجاج کی تصویرایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ موسیٰ الصدر کو قتل کیا گیا۔امریکہ میں کام کرنے والے لبنانی ماہر تعلیم ڈاکٹر حسین کینان نے بتایا کہ سنہ 1978 میں صدر کے لاپتہ ہونے کے ایک ہفتے بعد وہ واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ گئے تو انھیں بتایا کہ موسیٰ الصدر کو قتل کر دیا گیا۔اُن کی اس بات کی تائید لیبیا کے سابق وزیر انصاف مصطفیٰ عبدالجلیل نے کی، جنھوں نے سنہ 2011 میں قاسم کو بتایا کہ ’دوسرے یا تیسرے دن، انھوں نے کاغذات میں جعلسازی کی اور کہا کہ وہ اٹلی جا رہے ہیں اور انھوں نے ’اسے لیبیا کی جیلوں میں مار ڈالا۔‘انھوں نے بتایا کہ اس سارے معاملے میں کرنل قذافی ہی نے احکامات جاری کیے تھے۔قذافی نے موسیٰ الصدر کو مارنے کے احکامات کیوں جاری کیے؟اس معاملے پر ایرانی اُمور کے ماہر اینڈریو کوپر کا کہنا ہے کہ قذافی کچھ ایرانی افراد کے سخت گیر نظریات سے متاثر تھے اور اُنھیں خطرہ تھا کہ موسیٰ الصدر ایرانی انقلاب کے مقاصد میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔موسیٰ الصدر نے بہت سے ایرانی انقلابیوں کی حمایت کی جو اس وقت کے حکمران شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے لیکن ایران کے بارے میں ان کا اعتدال پسند نقطہ نظر اسلامی سخت گیر انقلابیوں کے نظریات سے مختلف تھا اور وہ صدر کو ناپسند کرتے تھے۔کوپر کا کہنا ہے کہ گمشدگی سے ایک ہفتہ قبل موسیٰ الصدر نے ایران کے شاہ کو مدد کی پیشکش کی تھی۔شاہ کی سوانح عمری کے لیے اپنی ریسرچ کے دوران کوپر نے شاہ کی خفیہ پولیس کے سابق ڈائریکٹر پرویز سبیتی کا انٹرویو کیا۔ سبیتی نے انھیں بتایا کہ موسیٰ الصدر نے شاہ کو لکھے گئے خط میں اسلامی سخت گیر حلقوں کی طاقت کم کرنے کے لیے پالیسی میں تبدیلیاں متعارف کروانے کی پیشکش کی ہے جو حزب اختلاف کے اعتدال پسند عناصر کو اپنے جانب راغب کر سکے۔ایران میں لبنان کے ایک سابق سفیر نے شاہ کو لکھے گئے خط کی تصدیق کی ہے۔ خلیل الخلیل نے ہمیں بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے 7 ستمبر 1978 کو شاہ سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔کوپر کا کہنا ہے کہ ایرانی سخت گیر انقلابیوں تک یہ معلومات پہنچ گئیں تھیں۔BBCہر سال 31 اگست کو موسیٰ الصدر کی تنظیم ’امل‘ ان کی گمشدگی پر احتجاج کرتی اور بازیابی کا مطالبہ کرتی ہےلیکن ایرانی وہ واحد نہیں ہیں جو موسی الصدر کو مارنا چاہتے تھے۔لیبیا کے کرنل قذافی جنوبی لبنان سے اسرائیل پر حملہ کرنے والے فلسطینی جنگجوؤں کی عسکری حمایت کر رہے تھے اور اُس وقت دیے گئے اپنے انٹرویوز میں صدر نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ساتھ تنازع کا حل تلاش کرنے کی بات کی تھی۔فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا ماننا تھا کہ موسیٰ الصدر کو خدشہ تھا کہ وہ (پی ایل او)لبنان کی عوام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور کرنل قذافی کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں کہ انھں لگام ڈالی جائے۔جہاں بہت سے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ موسیٰ الصدر مار دیے گئے ہیں وہیں کئی افراد کے خیال میں وہ ابھی تک زندہ ہیں۔ان میں 1970 کی دہائی میں قائم کی گئی اُن کی تنظیم ’امل‘ بھی شامل ہے، جو اب لبنانی شیعہ کی ایک طاقتور سیاسی جماعت ہے۔لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر اور امل کے سربراہ نبیہ بری کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ مر گئے ہیں۔صدر اگر زندہ ہوتے تو اُن کی عمر 97 سال ہوتی۔سنہ 2011 میں جب صحافی قاسم حمادہ نے خفیہ مردہ خانے کا دورہ کیا تو انھوں نے صرف لاش کی تصویر ہی نہیں کھنیچی بلکہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے وہ لاش سے کچھ بالوں کے نمونے لینے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے ان بالوں کو امل کے دفتر کے اہلکاروں کو دیا تاکہ وہ اس کا تجزیہ کر سکیں۔موسیٰ الصدر کے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ میچ سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ آیا یہ لاش موسیٰ الصدر کی تھی تاہم امل کے دفتر نے کبھی بھی قاسم کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا۔لبنان کی حکومت کی جانب سے صدر کی گمشدگی کی تحقیقات کے لیے مقرر کیے گئے عہدیداروں میں سے ایک جج حسن الشامی کا کہنا ہے کہ امل نے انھیں بتایا کہ ’تکنیکی خرابی‘ کی وجہ سے بالوں کے نمونے ضائع ہو گئے تھے۔ہم نے اپنے چہرے کی شناخت کے نتائج موسیٰ الصدر کے بیٹے سید صدرالدین صدر کو بھجوائے۔ انھوں نے اپنیتنظیمامل کے سینیئر اہلکارحج سمیح حیدوس اور جج الشامی کے ساتھ ہم سے ملاقات کی۔اُن تمام افراد کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے نتائج سے متفق نہیں۔Imam Sadr Foundationصدرالدین کا کہنا تھا کہ لاش کی تصویر دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ اُن کے والد کی لاش ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور لیبیا کی جیل میں قید ہیں۔اس بات کی تائید کے لیے بی بی سی کو کوئی ثبوت نہیں ملا۔لیکن ہماری تحقیقات کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ لبنانی شیعوں کے لیے یہ عقیدہ کہ موسیٰ الصدر اب بھی زندہ ہیں، بہت طاقتور ہے۔ ہر سال 31 اگست کو اُن کی تنظیم امل موسیٰ الصدر کی گمشدگی کی برسی مناتی ہے۔ہم نے امل کے موجودہ سربراہ کے انٹرویو کے لیے متعدد بار اُن کے دفتر سے رابطہ کیا اور اپنے تحقیقاتی نتائج پر اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن اُن کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔بی بی سی نے لیبیا کے حکام سے اپنی تحقیقات پر موقف جاننے کی کوشش اور یہ بھی پوچھا کہ بی بی سی کی ٹیم کو لیبیا کی انٹیلجنس سروس نے کیوں حراست میں لیا لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔بہائی مذہب کیا ہے اور قطر میں اس کے رہنما کو سوشل میڈیا پوسٹس پر سزا کیوں سنائی گئی؟مغرب سے ’ڈکٹیشن‘ لینے والا ایران اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا ’ازلی دشمن‘ کیسے بناایران سے ملک بدر ہونے والے افغان باشندوں پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام: ’پولیس نے ویزا اور پاسپورٹ پھاڑ کر مجھے مارا پیٹا‘اشرف پہلوی: ’مغربی سوچ کی حامل‘ شہزادی جنھوں نے امریکی و برطانوی ایجنسیوں کے تعاون سے فوجی بغاوت کروا کر ایران کی حکومت گرائیایران کے اعلیٰ ترین حلقوں تک مبینہ رسائی رکھنے والی کیتھرین شکدم اسرائیلی جاسوس یا تجزیہ کار؟قدیم تہذیبوں میں ’جہنم‘ کا تصور اور دنیا کے مذاہب میں عالم برزخ کو کیسے بیان کیا گیا