ولور : دکی میں پشتون قبیلہ ہوشخیل کا جرگہ، لڑکی کی شادی کے لیے رقم کی حد مقرر


کوئٹہ کے وسطی علاقے میں رہائش پذیر گل محمد (فرضی نام) کو پانچ سال لگے ولور (جہیز) کی رقم جمع کرنے میں لیکن یہ رقم جمع کر کے بھی اپنی شادی کرنے سے قاصر ہے، کیوں کہ اسے مزید پیسے بھی جمع کرنے ہیں تاکہ شادی کی رسومات کے دوران جو اخراجات ہونے وہ پورے ہوسکیں، اس لیے وہ بیرون ملک کام کرنے کے بعد مزید محنت مزدوری کرنے پر جت گیا ہے۔ یہ صرف گل محمد کی کہانی نہیں بلکہ پاکستان کے پشتون قبائل کے ہر مرد اور عورت کی کہانی ہے، جن کو "ولور" کے نام سے ایک ایسی رسم کا شکار کیا گیا ہے، جس کو پورا کرنے کے لیے ان کو سالوں محنت اور انتظار کرنا پڑتا ہے، جبکہ لڑکے کے سسرال والے ولور کی رقم ادا کیے بغیر شادی کے لیے کسی صورت راضی نہیں ہوتے اس لیے قابل نوجوان بھی اپنی مرضی کے خلاف سخت محنت طلب کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس رسم اور اس کے وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی طلب نے اب لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس رسم کو کچھ لگام دینا چاہیے، اسی ضمن میں سال 2023 میں بلوچستان کے ضلع کوہلو میں مقیم زرکون قبائل نے ایک جرگہ منعقد کرکے اس حوالے سے ایک لائحہ عمل طے کیا اور اس کو باقاعدہ ایک جرگے کے ذریعے نافذ بھی کردیا۔ زرکون قبائل کے جرگے نے متفقہ فیصلے کی روشنی میں ولور کی زیادہ سے زیادہ رقم 6 لاکھ مقرر کی، جبکہ دیگر اضافی رسومات کا بھی خاتمہ کرنے کا اعلان کیا، اس کے علاوہ جرگے نے دولہا کے خاندان کے لیے شادی کے دن دلہن کے خاندان کو بطور دعوت صرف دو دنبے دینے کی حد مقرر کی جبکہ بہن اور بیٹی کو بھی جائیداد میں حصہ دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ بہن یا بیٹی کی شادی کے لیے رقم لینے کی رسم "ولور" کسے کہتے ہیں؟ ولور پشتو زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں وہ رقم جو دولہا شادی کے لیے دلہن کے والدین یا خاندان کو ادا کرتا ہے، یہ رقم شادی بیاہ کے دوسرے اخراجات سے ہٹ کر ہوتی ہے، اس کو ولور کہا جاتا ہے، جواز یہ دیا جاتا ہے کہ والدین اس رقم سے اپنی بیٹی کے لیے سامان خریدیں گے، تاہم وقت کے ساتھ اس کی طلب اور لاگت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پشتون قبائل کےساتھ بلوچستان کے بلوچ قبائل میں بھی یہ رسم موجود ہے، جس کو لب کہتے ہیں۔ ولور کی رسم کتنی پرانی ہے؟ ولور کی رسم بہت زیادہ قدیم نہیں بلکہ اس حوالے سے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ رسم پشتون معاشرے میں کرنسی کا نظام آنے کے بعد رائج ہوا اور وقت کے ساتھ یہ مضبوط ہوتی چلی گئی، اب یہ باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے، کرنسی آنے سے قبل اجناس کے بدلے اجناس دیے جاتے تھے، ولور کی اصولی طور پر دو چیزوں کے لیے لی جاتی ہے، کڑدا ر اور خوشئے کڑدار سےمراد گھریلو استعمال کی وہ چیزیں ہیں جو والدین کی جانب سے اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر دی جاتی ہیں، اس میں کپڑوں سے لے کر برتنوں تک ضرورت کی تمام اشیا شامل ہیں، آج کل اس میں موبائل، فریج، ٹی وی، اور واشنگ مشین سمیت بہت سی چیزوں کو شامل کیا گیا ہے۔ خوشئے کا لفظ اس کھانے کے لیے مستعمل ہے جو شادی کے موقع پر تقریب میں آنے والے لوگوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ قبائلی نظام کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ ولور کی روایت سب سے بڑے پشتون قبائل خلجی میں دوسروں سے زیادہ مضبوط رہی ہے، ہوتک، خروٹی، اندڑ اور ترہ کئی اس کی ذیلی شاخیں ہیں، اس کے علاوہ زرکون، اچکزئی، کاکڑ اور نورزئی میں بھی یہ رسم موجود ہے، جو امیر اور غریب دونوں شادی کے موقع پر پیسے لیتے ہیں۔ بلوچستان کے ضلع دکی میں آباد ناصر قبیلے کی ذیلی شاخ ہوشخیل قبیلے نے بھی اس رسم کے حوالے سے رواں سال جولائی کے آخری ہفتے میں ایک جرگہ ملک پائند خان کی رہائش گاہ پر منعقد کیا، جس میں قبیلے کے نمائندہ افراد علمائے کرام، قبائلی عمائدین، ملکان صاحبان، مشران اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، جنہوں نے اس حوالے سے مشاورت کی اور دس نکات پر ایک متفقہ فیصلہ دیا۔ جرگہ نے جن دس نکات پر فیصلہ دیا ان میں پہلا یہ ہے کہ ولور کی رقم صرف 10 لاکھ روپے ہوگی، منگنی کے دن دسمال (یہ رومال لانے کی رسم ہے، جو دولہے کے بازو پر لگایا جاتا ہے) لانے کے لیے صرف اپنے خاندان کے مرد اور خواتین شامل ہوں گی، نکاح سادگی سے صرف چائے پر ہوگا، کھانا اور دیگر اخراجات نہیں کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ دسمال کے دن داماد کے لیے غیر ضروری سامان سوٹ کیس، موبائل، انگوٹھی، گھڑی، دیگر قیمتی سامان پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔ داماد کے لیے صرف کپڑے، واسکٹ، ٹوپی، بوٹ کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سامان نہیں دیا جائے گا۔ چوتھا یہ کہ غوٹہ منگنی سے شادی تک صرف ایک دن مقرر ہوگی، لڑکے کے گھر سے صرف پانچ سے چھ خواتین جاسکتی ہیں، سامان دینے اور لانے پر پابندی ہوگی اور ٹیکرئ دینے پر پابندی ہوگی تاکہ دونوں گھرانوں پر بوجھ نہ ہو۔ پانچواں یہ کہ شادی میں چھوٹی بارات کے موقع پر خاندان کے مختصر مرد اور خواتین کو بارات میں جانے کی اجازت ہوگی۔ اب یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ صرف اپنے قریبی عزیزوں کو منگنی اور شادی کے دن بلاتے ہیں، آس پاس گلی محلے کو بھی دعوت نہیں دیتے ہیں۔ چھٹا یہ کہ منگنی اور شادی کے موقع پر عورتوں کیلیے مرد ڈھول نہیں بجا سکتا، عورتیں خود دریہ یا ڈھول بجا سکتی ہیں، ایم پی تھری پر مکمل پابندی ہوگی۔ ساتواں یہ کہ منگنی اور شادی میں ہوائی فائرنگ پر مکمل پابندی ہوگی۔ آٹھواں یہ کہ شادی میں خشئی یا خوشئے لینے پر مکمل طور پر پابندی ہوگی۔ تانبو صرف 6 ہزار روپیہ مقرر ہے جبکہ دروازہ بندش پر مکمل طور پر پابندی ہوگی۔ نواں یہ کہ بلاوجہ طلاق یا رشتہ توڑنے پر 10 لاکھ روپیہ جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ لڑکی کی طرف سے خلع لینے پر بھی لڑکی والے 10 لاکھ روپیہ جرمانہ ادا کریں گے۔ دسواں یہ کہ اگر کسی نے منگنی دسٹہ سٹہ کرنا ہوا تو اس صورت میں حق مہر ایک لاکھ روپیہ مقرر ہے۔ اس حوالے سے جرگہ کی طرف سے قائم کمیٹی کے ممبر عبدالخالق نے "ہماری ویب" کو بتایا کہ میرا تعلق ناصر قبیلے کے ذیلی قبیلے "ہوشخیل" سے ہے۔ہمارے قبیلے نے 24 جولائی کو ایک اہم جرگہ منعقد کیا، جس کا مقصد شادی اور نکاح سے جُڑے مہنگے اور پیچیدہ رسم و رواج کا جائزہ لینا اور ان کے خلاف عملی اقدامات کرنا تھا۔ ہم نے تقریباً ایک ماہ پہلے "نکاح آسان تحریک" کے نام سے ایک مہم شروع کی تھی کیونکہ ہم نے محسوس کیا کہ موجودہ دور میں شادی اور نکاح اتنے مہنگے اور مشکل ہوچکے ہیں کہ غریب طبقے کے لیے یہ بوجھ بن چکے ہیں۔ آج کل کے رسم و رواج کی وجہ سے ایک عام شادی پر 40 سے 50 لاکھ روپے خرچ آ رہا تھا، جو متوسط اور غریب طبقے کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہم نے علمائے کرام، قبائلی عمائدین، نوجوانوں اور دیگر بااثر افراد سے مشاورت کی اور ان سب کو اعتماد میں لے کر ایک جرگہ بلایا گیا تھا۔ عبدالخالق نے بتایا کہ یہ جرگہ ملک پائند خان ناصر کی رہائش گاہ پر ہوا، جو ہمارے قبیلے کے سربراہ ہیں اور اس میں تقریباً 120 سے 130 افراد نے شرکت کی۔ جرگے میں متفقہ طور پر چند اہم فیصلے کیے گئے، سب سے پہلے، علاقے میں جو ولور (حق مہر) کا رواج تھا، جو کہ 22 سے 25 لاکھ روپے تک پہنچ چکا تھا، اُسے ختم کر کے 10 لاکھ روپے تک محدود کردیا گیا۔ دوسرا بڑا فیصلہ یہ کیا گیا کہ منگنی کے دن جو درجنوں افراد لڑکی کے گھر جاتے تھے اور جن کی خاطر داری پر پانچ سے چھ لاکھ روپے خرچہ ہوتا تھا، اُسے مکمل طور پر ختم کیا گیا۔ اب منگنی یا نکاح کا عمل سادہ ہوگا، محدود افراد شرکت کریں گے اور صرف چائے سے تواضع کی جائے گی۔ نکاح اسی دن ہوگا اور اضافی کھانوں یا تحائف کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ، منگنی سے شادی کے درمیانی عرصے میں لڑکے والوں کی جانب سے بار بار کپڑے، تحائف اور دیگر اشیاء بھیجی جاتی تھیں، جس پر سال بھر میں پانچ سے سات لاکھ روپے خرچہ آتا تھا۔ اس روایت کو بھی ختم کردیا گیا ہے اور اس پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے، ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے 22 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں ہر گاؤں سے ایک یا دو افراد شامل ہیں۔ یہ کمیٹی اپنے اپنے علاقوں میں نگرانی کرے گی، لوگوں کو رضاکارانہ طور پر قائل کرے گی اور اگر کوئی ان فیصلوں پر عمل نہ کرے تو اُس کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ مثلاً اُس کی شادی یا خوشی میں شرکت نہ کرنا شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ تمام اقدامات کسی ایک فرد یا خاندان کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کی بہتری کے لیے کیے گئے ہیں۔ رسم و رواج کے بوجھ سے سبھی متاثر ہوتے ہیں، چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، مگر سب سے زیادہ متاثر غریب طبقہ ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تحریک بلوچستان کے دیگر پشتون اور بلوچ قبائل کے لیے بھی ایک مثال بنے تاکہ وہ بھی نکاح کو آسان اور سستا بنا سکیں۔ ہم نے یہ فیصلہ اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے، اس میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد شامل نہیں۔ ہم "خدائی خدمتگار اصلاحی کمیٹی" کے بینر تلے کام کر رہے ہیں، اور علمائے کرام نے بھی اس اقدام کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مکمل تائید کی ہے۔ انہوں نے قرآن، حدیث اور صحابہ کرام کی مثالوں کے ذریعے یہ واضح کیا کہ شادی اور نکاح کو سادہ رکھنا سنتِ نبوی ہے۔ عبدالخالق نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ تحریک غریب عوام کے لیے آسانی پیدا کرے گی اور دیگر قومیں بھی اس سے سبق لے کر اپنے معاشروں میں مثبت تبدیلیاں لائیں گی۔ یہ فیصلہ صرف "ناصر" قبیلے کا نہیں بلکہ ایک اجتماعی سوچ اور قوم کی بھلائی کا مظہر ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ ہر قبیلہ، ہر فرد اس سے فائدہ اٹھائے۔ اس سےقبل کوہلو میں پشتون قبیلہ زرکون نے بھی جرگہ منعقد کرکے اس رسم کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے ولور کی رقم مختص کرکے تمام لوگوں سے حلف لیا کہ وہ زیادہ رقم وصول نہیں کریں گے، قبیلے کے تمام لوگ اس فیصلے کی پابندی کریں گے۔

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

صدر ٹرمپ کا بگرام فوجی اڈے کا کنٹرول واپس لینے کا اعلان: ’لالچ پر مبنی مقاصد رکھنے والوں کو افغانستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے،‘ طالبان کا جواب

چارلی کرک کا قتل: کیا امریکہ اپنی تاریخ کے خطرناک ترین موڑ سے گزر رہا ہے؟

’اسے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں نے کاٹ لیا تھا‘: انڈیا میں زندہ دفن کی جانے والی 20 دن کی بچی جو اب ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے

عمران خان کا 9 مئی مقدمات میں وڈیو لنک کے ذریعے کارروائی کا بائیکاٹ

رات کو روٹی کھانی چاہیے یا چاول، صحت کے لیے بہتر کیا ہے؟

پنجاب میں سیلاب سے 3 ہزار 775 موضع متاثر، لاکھوں مکانات کو نقصان

جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا معاملہ: اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانج ججز نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی

افغان باشندے اور بھارتی فوجی افسران پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

صدر ٹرمپ کا بگرام فوجی اڈے کا کنٹرول واپس لینے کا اعلان: ’تاریخ گواہ ہے اپنی سرزمین پر کبھی بیرونی افواج کو تسلیم نہیں کیا،‘ طالبان حکام کا جواب

لندن میں ’لڈو ٹورنامنٹ‘: ’یہاں پُگنے اور مارنے کی باری نہیں ملتی‘

دنیا میں سانپوں کی دس خطرناک ترین اقسام: ’ان لینڈ پائیتھن کے منھ سے خارج ہونے والا زہر 100 لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے‘

ولور : دکی میں پشتون قبیلہ ہوشخیل کا جرگہ، لڑکی کی شادی کے لیے رقم کی حد مقرر

غزہ پر قبضے کے دوران اسرائیلی فوج کا ’بارود سے لدے روبوٹس‘ کا استعمال، زمینی کارروائی میں چھ روز میں 1000 سے زائد فلسطینی ہلاک

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کو انڈیا کے لیے ’بڑا دھچکا‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟

پشاور کے اسکولوں میں ویکسینیشن پر پابندی کیوں لگا دی گئی؟ ڈی ای او کی سخت ہدایات

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی