
حال ہی میں بالی وڈ اداکارہ کترینہ کیف نے 42 سال کی عمر میں اپنے حاملہ ہونے کی خبر سُنائی۔اکثر بہت سی خواتین کترینہ کی طرح اپنی ذاتی یا پیشہ ورانہ زندگیوں میں کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد زندگی کے اس مرحلے پر حمل کے بارے میں سوچتی ہیں اور ماں بننے کا فیصلہ کرتی ہیں۔سنہ 2013 میں امریکی اداکارہ ہیلی بیری 47 سال کی عمر میں ماں بنیں۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ 40 سال کی عمر کے بعد ماں بننے کے اپنے منفرد جسمانی اور جذباتی چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں بی بی سی نے دہلی کے میکس سپر سپیشیئلٹی، شالیمار باغ کی پرنسپل ڈائریکٹر اور ہیڈ آف آبسٹریٹکس، گائناکالوجی اور انفیرٹیلیٹی ڈاکٹر ایس این باسو اور امرتسر کے اماندیپ ہسپتال کی سینئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر شوانی گرگ سے بات کی تاکہ 40 سال کے بعد حمل کی سائنسی حقیقت کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔ان ماہرین نے ان تمام اہم سوالوں کے جواب دیے جو خطرات، سائنسی ترقی اور اُن اہم پہلوؤں سے متعلق ہیں جن پر 40 سال کے بعد ماں بننے والی خواتین کو غور کرنا چاہیے۔ممکنہ خطرات اور اُن سے بچاؤ کے طریقےڈاکٹر ایس این باسو اور ڈاکٹر شوانی گرگ کا کہنا ہے کہ اس عمر میں ماں بننے کے دوران کئی طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان میں:بلند فشار خون: 40 سال کے بعد ہائی بلڈ پریشر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور یہ ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ باقاعدگی سے بلڈ پریشر چیک کیا جائے۔حمل کے دوران ذیابطیس: اس کا مطلب ہے کہ حمل کے دوران شوگر لیول بڑھ جاتا ہے۔ اگر ماں کو پہلے سے ذیابطیس ہے تو 40 سال کے بعد اس بیماری کے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اگر شوگر لیول زیادہ ہو جائے تو یہ لمبے عرصے تک رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بچے پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، بچے کا وزن بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے، یا بچے کے گرد پانی کی مقدار زیادہ ہو سکتی ہے۔ پیدائش کے بعد بچے کو یرقان بھی ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمر میں اسقاط حمل کے امکانات تقریباً 30 سے 40 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔Getty Imagesرحمِ مادر میں بچے پر اثراتبچے میں پیدائشی نقائص: اس کا مطلب ہے کہ بچے کی ساخت متاثر ہو سکتی ہے۔ 40 سال کی عمر میں حمل کے دوران اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ بچہ جسمانی یا ذہنی طور پر صحت مند نہ ہو۔بچے کی نشوونما سے متعلق مسائل اس عمر میں حمل کے دوران بچہ رحمِ مادر میں صحیح طرح نشوونما نہیں کر پاتا اور پیدائش تک اُس کا وزن مناسب نہیں بڑھتا۔ ’پلیسنٹا‘ یعنی نال سے متعلق مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں، جیسے نال کا صحیح طور پر نہ بننا یا اس میں خون کی روانی کا کم ہونا۔ اس کے نتیجے میں بچے کے اردگرد پانی کم ہو جاتا ہے یا بچے کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔کروموسومل مسائل: جیسے ڈاؤن سنڈروم وغیرہ۔ جب ماں کی عمر 40 سال سے زیادہ ہو تو بچے میں ذہنی امراض یا پیدائشی نقائص کا خطرہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔ڈاکٹر باسو کے مطابق 40 سال کی عمر میں ڈاؤن سنڈروم والے بچے کی پیدائش کا خطرہ تقریباً 100 میں سے 1 ہوتا ہے۔کیا خطرات کم کیے جا سکتے ہیں؟ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ عمر سے جُڑے خطرات کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن بروقت سکریننگ اور صحت مند طرزِ زندگی اپنانے سے مزید پیچیدگیوں کو کم بھی کیا جا سکتا ہے اور ان سے بچا بھی جا سکتا ہے۔ڈاکٹر ایس این باسو وضاحت کرتی ہیں کہ ’یہ خطرات ابتدائی اور باقاعدہ قبل از پیدائش نگہداشت، بلڈ پریشر اور شوگر کی نگرانی، صحت مند وزن کو برقرار رکھنے، قبل از پیدائش وٹامنز (خصوصاً فولک ایسڈ) لینے اور سگریٹ یا الکحل سے پرہیز کے ذریعے قابو میں رکھے جا سکتے ہیں۔‘ڈاکٹر باسو کا کہنا ہے کہ ’صحت مند طرزِ زندگی کی مدد سے تولیدی نظام کو بہتر رکھا جا سکتا ہے۔‘اسی لیے وہ ایسی متوازن غذا تجویز کرتی ہیں جس میں پروٹین، ہول گرینز، پھل، سبزیاں اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈز شامل ہوں۔ ساتھ ہی وہ غیر پیسچرائزڈ پنیر، کچا سی فوڈ، زیادہ کیفین اور پراسیسڈ فوڈ سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔’46 برس کی عمر میں شادی کے بغیر بیٹے کی پیدائش نے میری زندگی بدل دی‘آئی وی ایف اور حمل نہ ٹھہرنے کے دکھ کے درمیان برسوں اولاد کا انتظار کرنے والی خاتون کی کہانیکیا عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ساری عمر قائم رہ سکتی ہے؟میں نے خواتین کے دماغ کا 20 سال مطالعہ کرنے کے بعد کیا سیکھا؟مزید یہ کہ ڈاکٹر باسو روزانہ ورزش کرنے پر زور دیتی ہیں۔ ان کے مطابق ہلکی اور درمیانی سطح کی سرگرمیاں جیسے واک، تیراکی، پرینیٹل یوگا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم وہ بعض خطرناک کھیلوں سے سختی سے منع کرتی ہیں۔ڈاکٹر باسو کے مطابق ذہنی دباؤ یعنی سٹریس بھی ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے وہ مراقبہ، مائنڈفُلنیس، مناسب نیند اور ایک سپورٹ نیٹ ورک رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ فولک ایسڈ، آئرن اور وٹامن ڈی کی مناسب مقدار میں استعمال کا مشورہ بھی دیتی ہیں۔قدرتی طور پر حاملہ ہونے کے امکاناتڈاکٹر باسو کے مطابق ’40 سال کے بعد بچے پیدا کرنے کی صلاحیت تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اوسطاً 40 سال کی عمر میں ہر حیض کے دوران قدرتی طور پر حاملہ ہونے کے امکانات صرف 5 فیصد رہ جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ مزید کم ہوتے جاتے ہیں۔‘ڈاکٹر شوانی بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’اووریئن ریزرو ٹیسٹ، جسے سیرم اے ایم ایچ یعنی ’اینٹی مولیرین ہارمون‘ ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب بھی یہ ٹیسٹ 40 سال کے بعد کیا جائے تو اس کی مقدار عام حد سے نمایاں طور پر کم ہوتی ہے اور جسم مینوپاز کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ یہ ٹیسٹ خواتین میں انڈوں کے معیار کو جانچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘ڈاکٹر شوانی مزید کہتی ہیں کہ ’یہ سب کچھ طرزِ زندگی پر بھی منحصر ہے۔ بعض اوقات 30 کی دہائی میں بھی اے ایم ایچ کی مقدار بہت کم ہو سکتی ہے اور بعض اوقات 40 کی دہائی میں بھی یہ بہتر رہ سکتی ہے۔‘مدد لینے کے حوالے سے ڈاکٹر باسو تجویز کرتی ہیں کہ ’اگر آپ کی عمر 40 سال یا اس سے زیادہ ہے اور آپ نے 6 ماہ تک کوشش کے باوجود حمل نہیں ٹھہرا تو فوراً کسی فَرٹیلیٹی سپیشلسٹ سے رجوع کریں۔‘Getty Imagesڈاکٹر باسو کا کہنا ہے کہ 'صحت مند طرزِ زندگی کی مدد سے تولیدی نظام کو بہتر رکھا جا سکتا ہے۔'ڈاکٹر شوانی کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنی 40 کی دہائی میں ماں بننا چاہتی ہیں تو آپ کو اپنے تمام میڈیکل ٹیسٹ کروانے چاہییں۔ ان میں مکمل خون کا ٹیسٹ، کے ایف ٹی یعنی گردوں کا ٹیسٹ، ایل ایف ٹی یعنی جگر کا ٹیسٹ، بلڈ شوگر، تھائیرائیڈ ٹیسٹ، سیرم اے ایم ایچ یعنی انڈوں کا معیار جانچنے کے لیے ہونے والا ٹیسٹ، بچہ دانی اور بیضہ دانی کا الٹراساؤنڈ شامل ہیں۔ڈاکٹر شوانی یہ بھی کہتی ہیں کہ ’مردوں کو بھی اپنے تمام ٹیسٹ کروانے چاہییں۔ اگر ان کی عمر بھی 40 سال سے زیادہ ہے تو انھیں اپنے سپرم کاؤنٹ کا ٹیسٹ اور اس کا معیار کو ضرور چیک کروانا چاہیے۔‘ماہرین کے مطابق سائنسی ترقی کی بدولت آج بہت سی ممکنہ مشکلات کا پہلے ہی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف ٹیسٹ اور سکریننگ کی سہولیات موجود ہیں۔قبل از پیدائش سکریننگ:کروموسومل مسائل جانچنے کے لیے این آئی پی ٹی یعنی ’نان اِنویسیو پری نیٹل ٹیسٹنگ‘پہلی سہ ماہی کی سکریننگ جس میں خون کے نمونے لے کر انھیں جانچا جاتا ہےاور اگر ضرورت ہو تو ایمینو سینٹیسس یا کوریونک وِلس سیمپلنگ سی وی ایسGetty Imagesماہرین کے مطابق سائنسی ترقی کی بدولت آج بہت سی ممکنہ مشکلات کا پہلے ہی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ممکنہ مسائل کی علامات اور طبی توجہڈاکٹر باسو کا کہنا ہے کہ اگر درج ذیل علامات ظاہر ہوں تو فوراً اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے:شدید پیٹ کا درد یا مروڑزیادہ خون بہنا یا پانی کا رساؤشدید سر درد، نظر میں دھندلاہٹ یا اچانک سوجن، یہ پری ایکلیمپسیا کی علامت ہو سکتی ہے20 ہفتوں کے بعد بچے کی حرکت میں کمی یا بالکل حرکت نہ ہونامسلسل تیز بخار یا انفیکشن کی علاماتGetty Imagesعمر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر سب سے بڑا اثر ڈالنے والا عنصر ہے۔کیا ماں بننے کے لیے کوئی ’صحیح‘عمر بھی ہے؟عمر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر سب سے بڑا اثر ڈالنے والا عنصر ہے۔ عموماً خواتین کی تولیدی عمر 20 سے 35 سال کے درمیان سمجھی جاتی ہے اور 35 کے بعد بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر باسو کا کہنا ہے کہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انڈین خواتین میں مینوپاز کی عمر مغربی خواتین کے مقابلے میں کم ہے۔ انڈیا میں خواتین کا مینوپاز عموماً 45 سے 49 سال کی عمر میں ہوتا ہے جب کہ دنیا کے دیگر حصوں میں یہ عمر تقریباً 51 سال ہے۔ڈاکٹر باسو کے مطابق ’حیاتیاتی طور پر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ 20 سے 30 سال کے درمیان ہوتی ہے اور 35 کے بعد خطرات بتدریج بڑھنے لگتے ہیں۔ تاہم 40 سال کے بعد یہ خطرات اور تیزی سے بڑھتے ہیں۔‘اسی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر باسو اور شوانی گرگ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ کوئی ایک ’صحیح‘ عمر سب پر لاگو نہیں ہوتی۔’یہ انفرادی صحت اور ذاتی حالات پر منحصر ہے۔ مناسب دیکھ بھال کے ساتھ بہت سی خواتین 40 سال کے بعد بھی صحت مند حمل رکھتی ہیں۔‘Getty Images30 کی دہائی میں اکثر خواتین تولیدی صحت کے درمیان توازن قائم کر پاتی ہیں لیکن 35 کے بعد بچے پیدا کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو جاتی ہے۔مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ حمل کے لیے درست عمر ہر خاتون کی اپنی صحت پر منحصر ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حالات تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ڈاکٹر باسو کے مطابق 20 کی دہائی میں خواتین اپنی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کی عروج پر ہوتی ہیں۔30 کی دہائی میں اکثر خواتین تولیدی صحت کے درمیان توازن قائم کر پاتی ہیں لیکن 35 کے بعد بچے پیدا کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو جاتی ہے۔40 سال کے بعد حاملہ ہونا آج کل زیادہ عام اور ممکن ہے لیکن اس کے لیے اکثر طبی نگرانی اور کبھی کبھار بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کے لیے علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔آخرکار ماں بننے کا صحیح وقت ایک نہایت ذاتی فیصلہ ہے جو طبی، جذباتی اور طرزِ زندگی کے پہلوؤں کو مدِنظر رکھ کر کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔’46 برس کی عمر میں شادی کے بغیر بیٹے کی پیدائش نے میری زندگی بدل دی‘آئی وی ایف اور حمل نہ ٹھہرنے کے دکھ کے درمیان برسوں اولاد کا انتظار کرنے والی خاتون کی کہانیکیا عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ساری عمر قائم رہ سکتی ہے؟میں نے خواتین کے دماغ کا 20 سال مطالعہ کرنے کے بعد کیا سیکھا؟بڑھتی عمر میں آئی وی ایف کے ذریعے بچہ پیدا کرنے پر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟مدرز ڈے: اس عورت کی کہانی جو 10 مرتبہ اسقاطِ حمل سے گزری