
Reutersصدر ٹرمپ اپنے ایشائی ممالک کے دورے کے پہلے مرحلے پر اتوار کو کوالالمپور پہنچےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایشیا کے ایک تیز رفتار سفارتی دورے پر ملائیشیا پہنچ گئے ہیں۔ ایشیائی ممالک کے دورے پر ان کی چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات بھی شامل ہے۔اس ملاقات کا ایک طویل عرصے سے انتظار تھا کیونکہ وہ چھ سال کے طویل عرصے کے بعد ملنے والے ہیں۔ٹرمپ کے دورۂ ایشیا کے ایجنڈے میں سب سے اہم موضوع تجارت ہے کیونکہ یہ شعبہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔ٹرمپ اتوار کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور پہنچے، جہاں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کا اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ اس کے بعد وہ جاپان اور پھر جنوبی کوریا جائیں گے، جہاں وائٹ ہاؤس کے مطابق ان کی ملاقات شی جن پنگ سے ہوگی۔اس دورے سے خود ٹرمپ اور دوسرے رہنما کس طرح کی کامیابیاں حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں، اور ممکنہ خطرات کیا ہیں؟ اس کے متعلق ہمارے نامہ نگار بتاتے ہیں کہ آنے والے ہفتے میں کن باتوں پر نظر رکھنی چاہیے۔Getty Imagesامریکی صدر اپنے چینی ہم منصب سے چھ سال بعد مل رہے ہیںٹرمپ کے لیے چین ہی اصل ہدف ہے(انتھونی زرچر، شمالی امریکہ کے نامہ نگار)ٹرمپ کے ایشیائی دورے کا اہم مقصد ایسے نئے تجارتی معاہدے کرنا ہے جو امریکی کاروباروں کے لیے مواقع فراہم کریں اور ساتھ ساتھ محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی امریکی خزانے میں آتی رہے۔اگرچہ امریکہ کے ساتھ عالمی تجارت میں کئی فریق شامل ہیں، لیکن ٹرمپ کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار چین پر ہے۔ شی جن پنگ کے ساتھ ان کی ملاقات ایپیک اجلاس کے موقع پر طے ہے اور یہ آئندہ برسوں میں امریکہ اور چین کے تعلقات کی سمت متعین کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سنہ 2019 کے بعد دونوں رہنما پہلی بار مل رہے ہیں۔خود ٹرمپ نے تسلیم کیا ہے کہ چینی مصنوعات پر بھاری محصولات غیر پائیدار ہیں۔ اگر امریکہ اپنے سب سے بڑے تجارتی شریک ملک کے ساتھ معاشی جنگ میں الجھتا ہے تو اس کے تباہ کن اثرات نہ صرف امریکہ اور چین بلکہ پوری دنیا پر پڑیں گے۔امریکی سٹاک مارکیٹوں میں ہر بار گراوٹ اس بات کا اشارہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعطل کے اثرات کتنے سنگین ہو سکتے ہیں۔اگر ٹرمپ جنوبی کوریا کے ساتھ معاہدہ طے کر لیں اور جاپان سے امریکی صنعت میں نئی سرمایہ کاری حاصل کر لیں تو وہ خوش ہوں گے۔لیکن ان کی سب سے بڑی ترجیح شی جن پنگ کو اس بات پر آمادہ کرنا ہوگی کہ وہ امریکی زرعی اجناس کی خریداری دوبارہ شروع کریں، غیر ملکی کمپنیوں پر نایاب معدنیات تک رسائی کی پابندیاں نرم کریں، امریکی کمپنیوں کو چینی مارکیٹ میں مزید مواقع دیں اور مکمل تجارتی جنگ سے گریز کریں۔ٹرمپ کے لیے یہ سب کچھ اہم ہے۔Getty Imagesشی جن پنگ امریکی صدر سے ملاقات کے دوران نایاب معدنیات کے معاملے میں اپنی بالادستی کا استعمال کریں گےشی جن پنگ کی طویل مدتی حکمتِ عملی(لورا بکر، چین کی نامہ نگار)جب چینی صدر شی جن پنگ 30 اکتوبر کو جنوبی کوریا میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملیں گے، تو وہ زیادہ سخت مذاکرات کار بننا چاہتے ہیں۔اور اس کے لیے وہ نایاب معدنیات پر چین کی اجارہ داری کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ معدنیات وہ عناصر ہیں جن کے بغیر سیمی کنڈکٹر، اسلحہ، گاڑیاں یا سمارٹ فون نہیں بن سکتے۔ اور یہ امریکہ کی کمزوری ہے جسے چین استعمال کر رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس کے ذریعے امریکی کسانوں کو نقصان پہنچا کر ٹرمپ کے دیہی ووٹ بینک پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔شی جن پنگ نے ٹرمپ کے پہلے دور سے سبق سیکھا ہے۔ اس لیے وہ اس بار بظاہر امریکی محصولات کے دباؤ کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ، جو کبھی چینی برآمدات کا پانچواں حصہ خریدتا تھا، اب اتنا اہم بازار نہیں رہا۔پھر بھی، شی جن پنگ کو ایک طرف امریکہ سے معاشی محاذ آرائی اور دوسری طرف نوجوانوں میں بیروزگاری، جائیدادوں کا بحران، مقامی حکومتوں کا قرض اور عوام کی کم خرچ کرنے کی عادت جیسے مسائل پر توازن قائم رکھنا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ جدید مصنوعی ذہانت کے چپس کی برآمد پر پابندیاں ہٹانے یا تائیوان کے لیے فوجی امداد میں کمی پر راضی ہوں تو چین کسی معاہدے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔مگر اس مقام تک پہنچنا آسان نہیں ہوگا۔ فرق یہ ہے کہ ٹرمپ عموماً خطرہ مول لینے کو تیار دکھائی دیتے ہیں، جبکہ شی جن پنگ طویل مدتی حکمتِ عملی پر عمل پیرا رہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ صبر کر سکیں گے؟Getty Imagesکمبوڈیا کے صدر کے ساتھ ٹرمپقیام 'امن' میں اہم رول(جوناتھن ہیڈ، جنوب مشرقی ایشیا کے نامہ نگار)ملائیشیا کے دورے میں امریکی صدر کی دلچسپی صرف ایک بات میں دکھائی دیتی ہے جہاں وہ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کسی قسم کا امن معاہدہ کرانے کی خصوصی تقریب میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیں گے۔اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات مکمل طور پر حل نہیں ہوئے، لیکن دباؤ کے باعث وہ سرحد کو غیر فوجی بنانے پر متفق ہو گئے ہیں۔دونوں ممالک ٹرمپ کو مایوس کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ جولائی میں جب وہ ایک دوسرے پر گولہ باری کر رہے تھے تو ٹرمپ کی جانب سے محصولات سے متعلق مذاکرات ختم کرنے کی دھمکی دی گئی جس نے انھیں فوری جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔آسیان کے دیگر رکن ممالک یہ امید رکھتے ہیں کہ ٹرمپ کی محض موجودگی، چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، امریکہ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد دے گی۔گذشتہ سال ان کی برآمدات پر انحصار کرنے والی معیشتیں ٹرمپ کی تجارتی جنگ سے بری طرح متاثر ہوئیں، اگرچہ 2017 میں ٹرمپ کے آخری آسیان اجلاس کے بعد سے امریکہ کے لیے خطے کی برآمدات دگنی ہو چکی ہیں۔ٹرمپ کے جانے کے بعد دیگر رہنما دوبارہ معمول کے کام یعنی خاموش، مرحلہ وار سفارت کاری جو آسیان ممالک کے درمیان بتدریج انضمام کو آگے بڑھاتی ہے میں مصروف ہو جائيں گے۔ایجنڈے میں ایک ایسا تنازع بھی شامل ہے جو ٹرمپ کی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔ اور یہ میانمار کی خانہ جنگی ہے جو 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد سے ہر آسیان اجلاس پر چھایا رہا ہے۔نایاب معدنیات: کیا چین کے ہاتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی دُکھتی رگ لگ چکی ہے؟ٹرمپ کی بے رخی کے بعد مودی کی نظریں چین پر: بدلتی صورتحال میں انڈیا کے پاس کیا راستے ہیں؟تجارتی جنگ میں 90 دن کا وقفہ، محصولات میں کمی اور ’بدلتے لہجے‘: امریکہ اور چین کے مذاکرات جن پر پوری دنیا کی نظریں ہیںماضی سے سیکھا گیا سبق اور مستقبل میں سرمایہ کاری: ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے خلاف چین کے پانچ بڑے ہتھیارGetty Imagesآسیان اجلاس میں شرکت کے لیے ٹرمپ ملائیشیا پہنچےدستخط ہوں، بس یہی کافی ہے(سورنجنا تیواری، ایشیائی کاروباری نامہ نگار)ایشیا کی بڑی صنعتی معیشتیں جو دنیا کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ بناتی ہیں ٹرمپ کے محصولات سے نجات کی امید کر رہی ہیں۔کچھ ممالک نے جزوی معاہدوں پر اتفاق کیا ہے، کچھ اب بھی بات چیت میں الجھے ہوئے ہیں، لیکن کسی نے بھی حتمی معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔لہٰذا اگر کوئی معاہدہ قلمبند ہوتا ہے، یا کم از کم بات چیت میں کوئی ٹھوس پیش رفت ہو، تو یہ خوش آئند ہوگا۔چین ہی کی مثال لے لیجیے۔ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات بلاشبہ ایک مثبت اشارہ ہے، مگر دونوں رہنماؤں کے سامنے بہت سے معاملات ہیں جنھیں سلجھانا ہے۔ ان معاملات میں محصولات اور برآمدی پابندیوں سے لے کر مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی میں برتری کی دوڑ ہیں جنھیں اصل مسئلہ کہا جا رہا ہے اور ان میں دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کی رقابت ہے۔اگر ان تنازعات میں کچھ نرمی آتی ہے تو اس سے خطے کے دوسرے ممالک کو بھی سکون ملے گا، جو ان دونوں کے درمیان پس گئے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا خاص طور پر مشکل میں ہے کیونکہ وہ امریکی سپلائی چین کا حصہ بھی ہے (خاص طور پر الیکٹرانکس میں)، مگر اس کی معیشت چینی مانگ پر بھی منحصر ہے۔گذشتہ دہائی میں امریکہ کو اس خطے کی برآمدات دوگنی ہو چکی ہیں، مگر 10 سے 40 فیصد تک کے محصولات ویتنام، انڈونیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ کے کارخانوں کے لیے بڑا دھچکا ہوں گے۔اس سے امریکی چپ ساز کمپنیوں، جیسے مائیکرون ٹیکنالوجی، کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کے پلانٹس ملائیشیا میں ہیں۔ صرف گذشتہ سال ملائیشیا نے امریکہ کو تقریباً 10 ارب ڈالر مالیت کے سیمی کنڈکٹر برآمد کیے، جو امریکہ کی کل چپ درآمدات کا تقریباً پانچواں حصہ بنتے ہیں۔امیر معیشتیں جیسے جاپان اور جنوبی کوریا ایک مختلف مخمصے میں ہیں۔اگرچہ وہ امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں، مگر انھیں غیر یقینی دور کا سامنا ہے اور اسی لیے وہ محصولات اور سرمایہ کاری کے معاہدوں کو جلد از جلد طے کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے کار ساز ادارے، جن کے لیے امریکہ ایک کلیدی منڈی ہے، پہلے ہی اس بے یقینی میں راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔AFP via Getty Imagesجاپان کی وزیر اعظم اپنے پیش رو کی طرح اچھے تعلقات بحال رکھنے کی کوشش کر سکتی ہیںجاپان کی نئی وزیرِ اعظم کا پہلا امتحان(شائمہ خلیل، جاپان کی نامہ نگار)ٹرمپ نے جاپان کی نئی وزیرِ اعظم سنائے تاکائچی کو بے پناہ 'قوت اور دانائی رکھنے والی خاتون' قرار دیا ہے۔اس ہفتے ان کی قیادت کا پہلا امتحان یہ ہوگا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ ایک مستحکم، مؤثر تعلق قائم کر پاتی ہیں یا نہیں، اور یہ بھی کہ بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں جاپان کا مقام کیا ہوگا۔اپنے پہلے پارلیمانی خطاب میں انہوں نے دفاعی بجٹ بڑھانے کا اعلان کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ سکیورٹی کی زیادہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ٹرمپ پہلے بھی جاپان سے یہ مطالبہ کر چکے ہیں، اور اب توقع ہے کہ وہ ٹوکیو پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ امریکی افواج کی تعیناتی کے اخراجات میں مزید حصہ ڈالے۔ ویسے جاپان پہلے سے ہی بیرونِ ملک امریکی فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد کی میزبانی کر رہا ہے، جن کی تعداد تقریباً 53 ہزار ہے۔دونوں فریق ایک ایسے محصولات کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دینا چاہتے ہیں جو ان کی پیشرو حکومت کے دور میں طے پایا تھا۔یہ معاہدہ جاپانی کار ساز اداروں، ٹویوٹا، ہونڈا اور نِسان، کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ہے، کیونکہ اس کے تحت امریکی درآمدی محصولات کو 27.5 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد کیا جائے گا، جس سے ان کمپنیوں کو چینی حریفوں کے مقابلے میں برتری حاصل ہو سکتی ہے۔تاکائچی نے جاپانی مذاکرات کار ریوسے اکازاوا کو محصولات کے سربراہ مذاکرات کار کے طور پر برقرار رکھ کر تسلسل برقرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔بدلے میں جاپان نے امریکہ میں 550 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے تاکہ دواسازی اور سیمی کنڈکٹرز کی سپلائی چین کو مضبوط کیا جا سکے۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ جاپان چاول سمیت امریکی زرعی مصنوعات کی خریداری میں اضافہ کرے گا۔ یہ ایک ایسا اقدام جسے واشنگٹن میں سراہا جا رہا ہے لیکن جاپانی کسانوں کے لیے یہ باعثِ تشویش ہے۔سابق وزیرِ اعظم شنزو آبے سے تاکائچی کے قریبی تعلقات ان کے حق میں جا سکتے ہیں کیونکہ ٹرمپ کے آبے کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔آبے نے ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے مار-اے-لاگو میں گالف کے کئی راؤنڈ کھیلے تھے، ممکن ہے تاکائچی بھی اسی طرح کی ذاتی سفارت کاری اپنانے کی کوشش کریں۔Getty Imagesامریکی محصولات پر ایشیائي ممالک کی نگاہیں ہوں گیمحصولات کی بات چیت پر کم جونگ اُن کا سایہ(جیک کوان، سیول کے نامہ نگار)جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ٹرمپ کے محصولات ہیں۔مگر ان کی توجہ عارضی طور پر اس خبر نے ہٹا دی کہ شاید ٹرمپ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے سرحد پر ملاقات کریں۔گذشتہ اگست میں لی نے وائٹ ہاؤس میں زیادہ تر وقت ٹرمپ کو 'امن کا علمبردار' کہہ کر خوش کرنے میں صرف کیا تھا۔ ٹرمپ نے بھی کم سے دوبارہ ملاقات کے امکان پر جوش و خروش کا اظہار کیا۔شمالی کوریا کے سربراہ کم نے پچھلے ماہ کہا کہ وہ ٹرمپ کو 'اچھے جذبے' سے یاد کرتے ہیں۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کم جونگ اُن ایک اور سربراہی ملاقات کے ذریعے اپنے جوہری پروگرام کو عالمی سطح پر جائز حیثیت دلانے کے خواہاں ہیں، اگرچہ ایسی کسی ملاقات کی کوئی باضابطہ منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ادھر صدر لی کے لیے ایک بڑا کام تجارتی معاہدہ ہے۔ امریکہ کی جانب سے جنوبی کوریا کی برآمدات پر محصولات کو 25 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد کرنے کی بات چیت تعطل کا شکار ہے، حالانکہ سیول کے حکام کئی بار واشنگٹن کا دورہ کر چکے ہیں۔اصل رکاوٹ ٹرمپ کا جنوبی کوریا سے امریکہ میں 350 ارب ڈالر کی فوری سرمایہ کاری کا مطالبہ ہے۔ یہ رقم اس کی معیشت کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔ سیول کو خدشہ ہے کہ اتنی بڑی رقم ملکی مالیاتی نظام کو ہلا سکتی ہے۔تاہم حالیہ دنوں میں کورین حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ بات چیت میں 'ٹھوس پیش رفت' ہوئی ہے، اور وہ امید رکھتے ہیں کہ بدھ کو ٹرمپ اور لی کے درمیان ہونے والے اجلاس کے اختتام تک ایک دستخط شدہ معاہدہ سامنے ہوگا۔ماضی سے سیکھا گیا سبق اور مستقبل میں سرمایہ کاری: ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے خلاف چین کے پانچ بڑے ہتھیارتجارتی جنگ میں 90 دن کا وقفہ، محصولات میں کمی اور ’بدلتے لہجے‘: امریکہ اور چین کے مذاکرات جن پر پوری دنیا کی نظریں ہیںآسیان اجلاس میں شرکت کے لیے مودی ملائیشیا کیوں نہیں جا رہے؟تجارتی جنگ: کیا صدر ٹرمپ کے ٹیرف منصوبے کا واحد مقصد چین کو نشانہ بنانا تھا؟امریکی بانڈ مارکیٹ میں ڈرامائی اُتار چڑھاؤ: وہ چیز جو ٹرمپ کو ٹیرف واپس لینے پر مجبور کر سکتی ہےکیا چین اور امریکہ کے درمیان ’محصولات کی تجارتی جنگ‘ سے پاکستان میں سولر پینل سستے ہوں گے؟