
Sakhi Trustبہت سی دیوداسی عورتوں کی طرح شلپا بھی اپنے گھر میں اپنے پارٹنر کے ساتھ رہتی تھیںچندریکا (فرضی نام) کہتی ہیں کہ ’جسم فروشی کے کام نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ میرا جسم انتہائی کمزور ہے جبکہ ذہنی طور پر میں ٹوٹ چکی ہوں۔‘سیکس ورکر کے طور پر چندریکا کی زندگی کا آغاز ایک مذہبی تقریب سے ہوا۔ 15 سال کی عمر میں انھیں ایک مندر لے جایا گیا اور رسمی طور پر ایک دیوی سے ان کی شادی کر دی گئی۔وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس رسم کا مطلب کیا ہے۔‘چندریکا اب 30 کے پیٹے میں ہیں اور تقریباً دو دہائیوں سے پیسے کے لیے سیکس کا کام کر رہی ہیں۔دلہن سے طوائف تک BBCسانگلی میں سیکس کے کام کے دوران ہی چندریکا کی ملاقات اپنے پارٹنر سے ہوئیانڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک چندریکا جیسی خواتین کی شناخت کے لیے ایک سروے کر رہی ہے، جو ’دیوداسی روایت‘ کے نتیجے میں سیکس ورکر بن گئیں۔دیوداسی یا ’دیوتا کے غلام‘ نامی یہ روایت جنوبی انڈیا میں ایک ہزار برس پہلے شروع ہوئی تھی۔ ابتدائی طور پر انھوں نے مندروں میں فنکاروں کے طور پر گانے اور ڈانس میں مہارت حاصل کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ روایت جسم فروشی میں تبدیل ہو گئی۔نوآبادیاتی دور میں انڈیا کے بہت سے حصوں میں اس روایت پر پابندی عائد ہونا شروع ہو گئی۔ کرناٹک میں سنہ 1982 میں اسے غیر قانونی قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی یہ روایت آج تک جاری ہے۔دیہات میں رہنے والی دیوداسیوں کے اپنے ساتھی تو ہوتے ہیں لیکن وہ اور گاہگ بھی لے سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ قبحہ خانوں میں کام کرنے کے لیے ممبئی جیسے شہروں میں نقل مکانی کرتے ہیں۔سیکس کے کاروبار میں پھنسنا بیلگام شہر میں تقریب کے بعد چندریکا اپنے گھر آ گئیں اور چار برس عام لوگوں کی طرح زندگی گزاری۔ پھر ان کی ایک خاتون رشتہ دار انھیں نوکری کا جھانسہ دے کر صنعتی علاقے سانگلی لے گئیں اور چندریکا کو ایک قبحہ خانے میں چھوڑ دیا۔چندریکا بتاتی ہیں کہ ’پہلے کچھ ماہ انتہائی دشوار تھے، مجھے اپنا آپ بیمار محسوس ہوتا۔ میں صحیح طرح سے کھا سکتی نہ سو سکتی۔ میں بھاگ جانے کا سوچ رہی تھی لیکن پھر میں نے اسے قبول کر لیا۔‘اس وقت چندریکا کی عمر صرف 19 برس تھی، ان کی تعلیم انتہائی کم تھی اور وہ سانگلی میں بولی جانے والی ہندی یا مراٹھی کو بمشکل سمجھ پاتی تھیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ’کچھ گاہگوں نے مجھ پر حملہ کیا، کچھ نے گالم گلوچ کیا اور میں یہ سب سنبھالنے کے لیے جدوجہد کرتی رہی۔‘قبحہ خانے میں آنے والے گاہگوں میں کالج میں زیر تعلیم طالب علم، ڈرائیور، وکیل اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لوگ شامل تھے۔ سانگلی میں سیکس کے کام کے دوران ہی چندریکا کی ملاقات اپنے پارٹنر سے ہوئی جو لاری ڈرائیور تھے۔ان دونوں کے ہاں ایک بیٹے اور بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ چندریکا کے پارٹنر بچوں کی دیکھ بھال کرتے جبکہ انھوں نے قبحہ خانے میں کام جاری رکھا جہاں روزانہ کی بنیاد پر انھیں 10 سے 15 گاہگ ملتے تھے۔دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد چندریکا کے پارٹنر ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گئے اور وہ بیلگام واپس آ گئیں جہاں پر انھوں نے ایک مترجم کے ذریعے بی بی سی سے بات کی۔دبئی کے پُرتعیش علاقوں میں جنسی استحصال: خواتین کی تذلیل اور عجیب مطالبات کرنے والے سیکس رِنگ کا سرغنہ پولیس حراست میں15 سالہ بنگلہ دیشی لڑکی جسے انڈیا کی سیر کا جھانسہ دے کر 20 ہزار روپے میں جسم فروشی کے لیے بیچ دیا گیاہیروں سے مالامال ملک جہاں ہزاروں خواتین ’سیکس ورکر‘ بننے پر مجبور ہیں’مجھے دبئی سے سمگل کر کے انڈیا میں سیکس ورکر بننے پر مجبور کیا گیا۔۔۔‘ دلی کی ازبک خاتون کی کہانیSakhi Trustانکیتا کے پاس سفید اور سرخ موتیوں سے بنا ہوا ایک ہار ہے، جو اس شادی کی علامت ہے’مرد ہمارے پاس شادی کرنے نہیں آتے‘لیکن تمام دیوداسی قبحہ خانوں میں کام نہیں کرتی ہیں اور کچھ سیکس ورکر بھی نہیں ہوتی ہیں۔انکیتا اور شلپا، دونوں کی عمریں 23 سال ہیں۔ وہ دونوں کزن ہیں اور شمالی کرناٹک کے ایک گاؤں میں رہتی ہیں۔ چندریکا کی طرح ان کا تعلق بھی دلت ذات سے ہے، ایک ایسا گروہ جسیے انڈیا میں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔صرف ایک سال تک پڑھائی کرنے کے بعد شلپا نے سکول چھوڑ دیا اور 2022 میں ان کی دیوداسی بننے کی تقریب ہوئی۔ انکیتا نے 15 سال کی عمر تک تعلیم حاصل کی اور ان کے والدین نے 2023 میں تقریب کا اہتمام کیا۔ بھائی کی موت کے بعد انکیتا پر دیوداسی بننے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔انکیتا بتاتی ہیں کہ ’میرے والدین نے مجھے کہا کہ وہ مجھے دیوی دیوتاؤں کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے انکار کیا تو انھوں نے مجھے کھانا دینا بند کر دیا۔‘’مجھے بہت برا لگا لیکن خاندان کی خاطر اسے قبول کر لیا۔ میں دلہن کی طرح تیار ہوئی اور میری شادی کر دی گئی۔‘انکیتا کے پاس سفید اور سرخ موتیوں سے بنا ہوا ایک ہار ہے، جو اس شادی کی علامت ہے۔انکیتا کی ماں یا نانی میں سے کوئی بھی دیوداسی نہیں بنا تھا۔ اس خاندان کے پاس کھیتی باڑی کے لیے زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے لیکن اس سے ان کا گزارا نہیں ہوتا۔’ایک خوف پایا جاتا ہے کہ اگر کسی نے پہل نہ کی تو دیوی کا عذاب آ سکتا ہے۔‘دیوداسی شادی نہیں کر سکتی ہیں لیکن ایسے مردوں کے ساتھ رشتہ قائم کر سکتی ہیں جو شادی شدہ ہوں۔لیکن انکیتا نے ایسا نہیں کیا اور وہ ایک زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں اور یومیہ بنیادوں پر چار ڈالر کما لیتی ہیں۔Sakhi Trustشلپا نے اپنے پارٹنر کو تلاش کرنے کے لیے پولیس کی مدد بھی نہیں لیشلپا کی زندگی نے ایک مختلف موڑ لیا۔ ان کا ایک مزدور کے ساتھ تعلق قائم ہوا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ میرے پاس آیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ میں دیوداسی ہوں۔‘بہت سی دیوداسی عورتوں کی طرح شلپا بھی اپنے گھر میں اپنے پارٹنر کے ساتھ رہتی تھیں۔’وہ کچھ ماہ ہی میرے ساتھ رہا اور میں حاملہ ہو گئی۔ اس نے اس دوران مجھے تین ہزار روپے دیے۔ میرے حاملہ ہونے پر اس نے کوئی ردعمل نہیں دیا اور ایک دن خاموشی سے غائب ہو گیا۔‘شلپا اس وقت تین ماہ کی حاملہ تھیں۔’میں نے اسے فون کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا فون بند تھا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا تعلق کسی علاقے سے تھا۔‘شلپا نے اپنے پارٹنر کو تلاش کرنے کے لیے پولیس کی مدد بھی نہیں لی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے نظام میں مرد ہم سے شادی کرنے نہیں آتے۔‘غربت اور استحصالSakhi Trustانکیتا کہتی ہیں کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہیں اور موتیوں کے ہار کو اتار دینا چاہتی ہیںڈاکٹر ایم بھاگیلکشمی مقامی این جی او ’سخی ٹرسٹ‘ کی ڈائریکٹر ہیں اور دو دہائی سے دیوداسی خواتین کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پابندی کے باوجود یہ روایت جاری ہے۔’ہر سال ہم تین سے چار لڑکیوں کو دیوداسی بننے سے روکتے ہیں لیکن زیادہ تر تقریبات خفیہ ہوتی ہیں۔ ہمیں اس بارے میں تب ہی پتہ چلتا ہے جب کوئی لڑکی حاملہ ہوتی ہے یا بچہ ہوتا ہے۔‘ڈاکٹر بھاگیلکشمی کہتی ہیں کہ خواتین کو بنیادی سہولیات بھی مسیر نہیں ہوتی ہیں، ان کے پاس مناسب خوراک اور تعلیمکی کمی ہوتی ہے اور وہ اتنی خوفزدہ ہوتی ہیں کہ مدد بھی نہیں مانگتی ہیں۔ڈاکٹر بھاگیلکشمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے وجے نگارا ڈسٹرکٹ میں 10 ہزار دیوداسی خواتین پر سروے کیا۔ میں نے بہت سی معذور، نابینا اور دیگر کمزور خواتین کو اس سسٹم کا حصہ بنتے دیکھا۔ تقریباً 70 فیصد خواتین کے پاس گھر بھی نہیں۔‘BBCموجودہ اور سابقہ دیوداسی سالانہ تہوار کے لیے بیلگام کے سونداتی یلما مندر میں جمع ہوتی ہیںان خواتین کے پارٹنر اکثر کنڈوم استعمال کرنے سے انکار کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو جاتی ہیں یا انھیں ایڈز ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر بھاگیلکشمی کا اندازہ ہے کہ 90 فیصد دیوداسی خواتین کا تعلق دلت ذات سے ہے جبکہ باقی قبائلی کمیونٹیز سے تعلق رکھتی ہیں۔ماضی کے برعکس جدید دور کی دیوداسیوں کو مندروں سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ڈاکٹر بھاگیلکشمی زور دیتی ہیں کہ ’دیوداسی نظام صرف استحصال ہے۔‘روایت کا خاتمہBBCموجودہ اور سابقہ دیوداسی سالانہ تہوار کے لیے بیلگام کے سونداتی یلما مندر میں جمع ہوتی ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ وہاں ایسی کوئی تقریب نہیں ہوتی۔وشواس وسانت ویدیا کہتے ہیں کہ ’یہ اب قابل سزا جرم ہے۔ ہمارے پاس تہواروں کے دوران لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے پوسٹر اور پمفلٹ ہوتے ہیں کہ سخت کارروائی کی جائے گی۔‘ویدیا کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی کے رکن ہیں اور یلما مندر بورڈ کے رکن بھی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دیوداسیوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے۔’میرے حلقے میں 50 سے 60 دیوداسی ہو سکتی ہیں لیکن کوئی بھی مندر دیوداسی بننے کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا۔‘ان کا دعویٰ ہے کہ ’ہم نے سخت اقدامات کی بدولت دیوداسی روایت کو روک دیا‘ تاہم 2008 میں کرناٹک حکومت کے تازہ ترین سروے میں ریاست میں 46,000 دیوداسیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔اگلی نسل Sakhi Trustشلپا اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم دلوانا چاہتی ہیںسیکس کے کام سے ہونے والی آمدن کی بدولت چندریکا اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے قابل ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہمیشہ اپنی بیٹی کے لیے فکر مند رہتی تھی۔‘’میری بیٹی جب 16 برس کی تھی، تو میں نے ایک رشتہ دار سے اس کی شادی کر دی تاکہ اسے میری طرح دیوداسی نہ بننا پڑے۔ وہ اب اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے۔‘چندریکا اب ایک این جی او کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور باقاعدگی سے ایچ آئی وی کے چیک اپ کے لیے جاتی ہیں۔’میں اب بوڑھی ہو رہی ہوں۔ کچھ برس میں، میں یہ کام نہیں کر سکوں گی۔‘ اس لیے وہ سبزی اور پھلوں کی دکان شروع کرنے کا سوچ رہی ہیں۔شلپا اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم دلوانا چاہتی ہیں۔ انھیں دیوداسی روایت سے نفرت ہے۔ ’میں چاہتی ہوں کہ یہ رک جائے۔ میں اپنی بیٹی کو دیوداسی نہیں بننے دوں گی۔ میں اس نظام کو جاری نہیں رکھنا چاہتی۔‘انکیتا کہتی ہیں کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہیں اور موتیوں کے ہار کو اتار دینا چاہتی ہیں۔زمین کو زندگی بخشنے والے ’سورج دیوتا‘ سے جڑے افسانے اور اُن کی حقیقت’مجھے دبئی سے سمگل کر کے انڈیا میں سیکس ورکر بننے پر مجبور کیا گیا۔۔۔‘ دلی کی ازبک خاتون کی کہانیدبئی کے پُرتعیش علاقوں میں جنسی استحصال: خواتین کی تذلیل اور عجیب مطالبات کرنے والے سیکس رِنگ کا سرغنہ پولیس حراست میں15 سالہ بنگلہ دیشی لڑکی جسے انڈیا کی سیر کا جھانسہ دے کر 20 ہزار روپے میں جسم فروشی کے لیے بیچ دیا گیاجب انگریزوں کے خلاف بغاوت میں طوائفوں کے کوٹھے باغیوں کی پناہ گاہ بنے’ہیرا منڈی، دی ڈائمنڈ بازار‘: لاہور کے شاہی محلے کو یہ نام کیسے ملا؟