
Getty Imagesامریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کھلی مخالفت کے باوجود 34 سالہ زہران ممدانی امریکہ کے بڑے شہروں میں شمار ہونے والے شہر نیویارک کے میئر کے الیکشن میں جیت کی راہ پر ہیں۔ وہ نیو یارک کے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی میئر بن جائیں گے۔ صرف چند ماہ پہلے تک ممدانی زیادہ مشہور نہیں تھے۔ ان کا ایک ہپ ہاپ آرٹسٹ اور ہاؤسنگ کونسلرسے نیو یارک سٹیٹ اسمبلی کے رکن اور پھر سب سے بڑے امریکی شہر کے میئر کے اہم امیدوار تک کا سفر یقیناً متاثر کن ہے۔ایک ایسا شہر جس کا بجٹ (116 بلین ڈالر) تک ہے۔’روٹی، کپڑا اور مکان‘زہران نے انتخابی مہم کے تحت نیویارک جیسے مہنگے شہر میں سستے کرائے کے گھر، فری بس سروس اور چائیلڈ کیئر جیسی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ اپنے سب سے اہم حریف اینڈریو کومو، جو کہ امیر شخصیت ہیں اور جن پر جنسی ہراسانی کے الزامات ہیں، سے برعکس عام لوگوں میں سے ایک ہیں۔ان کا موقف ہے کہ ارب پتیوں کے پاس سب کچھ ہے، اور اب عام شہریوں کی باری ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے وعدے ناقابل عمل ہیں۔Getty Imagesزہران ممدانی کون ہیں؟ان کا پورا نام زہران کوامے ممدانی ہے۔ وہ 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمود ممدانی ایک انڈیا یوگانڈا نژاد سیاست کے ماہر پروفیسر ہیں جبکہ ان کی والدہ میرا نائر بالی وڈ اور ہالی وڈ میں فلمساز ہیں۔ انھوں نے مون سون ویڈینگ اور دی نیم سیک جیسی اہم فلمیں بنائی ہیں۔زہران اپنی خاندان کے ساتھ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی رہے ہیں لیکن جب وہ سات سال کے تھے تو خاندان کے ساتھ نیو یارک آ گئے۔انھوں نے نیو یارک کے برونکس علاقے میں پرورش پائی جو کہ ایک ورکنگ کلاس اور ثقافتی تنوع سے بھرپور علاقہ ہے۔ انھوں نے 'افریقانا سٹڈیز' میں گریجویشن کیا ہے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہے ہیں۔سنہ 2024 میں ان کی شادی شامی نژاد امریکی آرٹسٹ راما دواجی سے ہوئی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد زہران نے بطور ’فورکلوزر پریوینشن کونسلر‘ کام کیا جس کا مطلب ایک ایسا مشیر ہے جو غریب خاندانوں کو گھروں سے قرض کی وجہ سے جبری بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتا ہے اور جس کا اثر ان کی عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی سیاست پر واضح ظاہر ہے۔امریکہ میں پہلی مسلم خاتون میئر جن کی ’کراچی سے خاص دلی وابستگی‘گولڈا میئر: ’مشرق وسطیٰ کی صنف آہن‘ جن کی اسرائیل میں سیاسی میراث ایک جنگ نے ختم کر دیاقرا خالد کا بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفرامریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی مسلمان خواتینGetty Imagesجب زہران ’مسٹر الائچی‘ کے نام سے جانے جاتے تھےسیاست کی طرف رخ کرنے سے پہلے زہران ممدانی نے فنکاری میں اپنی قسمت آزمایا تھا۔وہ ’مسٹر کارڈیمم‘ یعنی الائچی کے نام سے ریپ گانا گایا کرتے تھے اور 2019 میں ان کا گانا ’نانی‘ خاصا زیر بحث رہا، جس میں عالمی شہرت یافتہ مصنفہ مدھور جعفری نے ایک بے باک نانی کا کردار ادا کیا۔ان کے ایک ریپ گانے میں پاکستانی گلوکار علی سیٹھی نے بھی حصہ لیا تھا اور جو کہ ان کی حالیہ انتخابی مہم کے حمایت میں نظر آئے ہیں۔اپنے ریپ گانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ممدانی نے نیویارک میں مقیم ایک اخبار کو بتایا کہ ’فنکار اس دنیا کے کہانی نگار ہوتے ہیں، اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ صرف برائے نام ہمارے ساتھ نہ ہوں بلکہ ہم ان کے شانہ بشانہ ساتھ چل رہے ہوں۔‘سنہ 2020 میں انھوں نے نیویارک سٹیٹ اسمبلی کے لیے انتخاب لڑا اور دس سال تک جیتنے والے رکن کو شکست دے دی۔وہ ریاستی اسمبلی میں منتخب ہونے والے پہلے جنوبی ایشیائی مرد، پہلے یوگنڈا نژاد اور صرف تیسرے مسلمان بنے۔روٹی، کپڑا، مکان اور مفت بسوں کا انتخابی نعرہان کی مہم میں لوگوں کو کافی دلچسپی تھی کیونکہ انھوں نے ایسے مسائل اٹھائے ہیں جو کہ نیو یارک جیسے مہنگے شہر کے عام لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔زہران کی میئرشپ کی مہم بنیادی طور پر ایک سوشلسٹ نظریہ پیش کرتی ہے جس میں انھوں نے شہر میں رہائش، نقل و حمل اور کھانے کی سہولیات کو زیادہ منصفانہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔حالانکہ تنقید نگاروں، مثلا نیویارک ٹائمز اخبار کا ایڈیٹوریل بورڈ، کا خیال ہے کہ یہ منصوبے مالی طور پر ممکن نہیں ہیں۔Getty Imagesسیاسی مہم کا مزاحیہ طریقہ کاراگرچہ زہران کا اندازِ سیاست مزاحیہ ضرور ہے لیکن اس میں سنجیدگی بھی ہے۔ان کی انتخابی مہم کی ویڈیوز بالی وڈ کے حوالوں کے ساتھ سماجی انصاف کے پیغامات سے بھری ہوتی ہیں۔ایک ویڈیو میں وہ آم کی لسی کے پانچ گلاس لے کر رینکڈ چوائس ووٹنگ (نیو یارک کا انتخابی نظام جہاں ووٹر امیدواروں کو پہلی سے پانچویں نمبر تک ترجیح دیتے ہیں) کی وضاحت کرتے ہیں۔انھوں نے ایک پاڈ کاسٹ پر بتایا کہ ان کی مہم لوگوں میں اتنی مقبول ہوئی ہے کہ لوگ اکثر ان کی ڈائریکٹر والدہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا اسے انھوں نے بنایا ہے۔لیکن جب معاملہ سنجیدہ ہو تب بھی ظہران کافی اثر انگیز نظر آئے ہیں۔ایک ٹی وی پر نشر مباحثے کے دوران اینڈریو کومو نے بار بار زہران ممدانی کا غلط نام لیا۔زہران نے تحمل سے ان سے کہا کہ 'ان کا نام مم-دا-نی ہے۔‘ اور پھر مسکراتے ہوئے کومو کے 2021 میں جنسی ہراسانی کے الزام کے بعد استعفے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کبھی شرمندگی کے باعث استعفیٰ نہیں دیا۔ میں نے کبھی میڈیکیڈ (غریبوں کے لیے صحت کا امریکی منصوبہ) میں کٹوتی نہیں کی۔ میں نے کبھی خواتین سے ان کی زچگی کے میڈیکل ریکارڈز کی بنیاد پر مقدمہ نہیں کیا۔ میں نے یہ سب کبھی نہیں کیا کیونکہ۔۔۔ میں آپ نہیں ہوں، مسٹر کومو۔‘یہ ایک سینیئر ڈیموکریٹ رہنما کے لیے طاقتور تردید تھی اور ویڈیو فوراً وائرل ہو گئی۔Getty Imagesانتخابی مہمزہران کے حامیوں میں نوجوان ووٹرز، تارکینِ وطن اور ترقی پسند طبقات شامل ہیں۔شہر کے جیکسن ہائٹس جیسے محلوں میں، جہاں جنوبی ایشیائی، لاطینی امریکی، اور مشرقی ایشیائی کمیونٹیز آباد ہیں، مقامی میڈیا کے مطابق ان کی مہم ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ان کے لیے کام کرنے والے رضاکار انگریزی کے علاوہ ہندی، اردو، بنگلہ اور ہسپانوی زبانوں میں میں گھر گھر جا کر ان کے حمایت میں مہم چلا رہے تھے۔ان کی انتخابی مہم کا دعویٰ ہے انھوں نے نیویارک شہر کی تاریخ کے سب سے بڑا فیلڈ آپریشن کیا ہے، جو تقریباً 40,000 رضاکاروں پر مشتمل ہے اور 10 لاکھ سے زیادہ گھروں تک پہنچے ہیں۔ کچھ تنظیموں نے بھی فلسطینیوں کے لیے ظہران کی حمایت اور اسرائیل کو ایک 'یہودی ریاست' کے طور پر تسلیم نہ کرنے کے الزام پر اعتراض کیا ہے۔اس کے جواب میں زہران نے واضح کیا ہے کہ وہ یہود مخالف بیانیے کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ہر قوم، مذہب اور نسل کے لیے برابری کے حامی ہیں۔ممدانی، ٹرمپ انتظامیہ کی مخالفت کا سامنا کیسے کریں گے؟ممدانی وائرل ویڈیوز اور پوڈکاسٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے ان ووٹروں تک پہنچے ہیں جو پارٹی سے مایوس ہیں، اور انھوں نے یہ سب ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے ارکان کا اعتماد کم ترین سطح پر ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے بڑے وعدے پورے کر پائیں گے اور بغیر کسی انتظامی تجربے کے وہ ٹرمپ انتظامیہ کی مخالفت کا سامنا کیسے کریں گے۔ان کا پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ تعلق بھی پیچیدہ ہے کیونکہ وہ بائیں بازو کے ڈیموکریٹس کے لیے قومی سطح پر نمایاں شخصیت بن چکے ہیں۔ممدانی خود کو 'جمہوری سوشلسٹ' کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ بڑی کمپنیوں کے بجائے کارکنوں کی آواز سنائی جائے۔ یہ ویسا ہی سیاسی طرزِ عمل ہے جو برنی سینڈرز اور الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے اپنا رکھا ہے اور ممدانی ان کے ساتھ اکثر سٹیج شیئر کر چکے ہیں۔ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیویارک کے شہری 'کمیونسٹ' کو منتخب کرتے ہیں تو وفاقی فنڈز روک دیے جائیں گے۔ممدانی کا جواب ہے کہ وہ سکینڈینیویائی سیاستدان کی طرح ہیں، بس رنگ تھوڑا سانوالا ہے۔امریکہ میں پہلی مسلم خاتون میئر جن کی ’کراچی سے خاص دلی وابستگی‘امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی مسلمان خواتینامریکی انتخابات میں حصہ لینے والی انڈین اور پاکستانی خواتیناقرا خالد کا بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفرگولڈا میئر: ’مشرق وسطیٰ کی صنف آہن‘ جن کی اسرائیل میں سیاسی میراث ایک جنگ نے ختم کر دیٹرمپ کا تارکین وطن کو گوانتانامو بھیجنے کا اعلان اور امریکہ کے وہ شہر جو ’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘ ہیں