Getty Images(فائل فوٹو)اسلام آباد کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کو قتل کرنے والے مرکزی مجرم شاہزیب عرف زیبی کو دو مرتبہ سزائے موت سنا دی ہے۔انسداد دہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے تین فروری کو فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم شاہزیب عرف زیبی کو دہشت گردی اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت دو مرتبہ سزائے موت دینے کا حکم دیا۔واضح رہے کہ فروری 2023 میں کشمیر میں متحرک جہادی تنظیم سے تعلق رکھنے والے سابق کمانڈر بشیر احمد وانی کو راولپنڈی کے علاقے برما ٹاؤن میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسی مقدمے کے فیصلے میں ’انڈیا کی خفیہ ایجنسی را سے فنڈنگ لے کر پاکستان میں دہشتگردی‘ کرنے سمیت دیگر الزامات میں گرفتار پانچ ملزمان کو بھی مجموعی طور پر 40 سال 9 ماہ قید و جرمانے کی سزا سنائی۔یاد رہے کہ سنہ 2022 اور 2023 کے دوران ایک سال میں ایسے پانچ واقعات ہوئے تھے جس میں اہم کشمیری ’جہادی تنظیموں‘ کے موجودہ اور سابق سرکردہ کمانڈر نامعلوم حملہ آوروں کے پراسرار ہدفی حملوں میں نشانہ بنے جن میں سید خالد رضا، بشیر احمد سمیت اہم کمانڈر مارے گئے۔قتل کی ان وارداتوں میں مقام مختلف تھے لیکن طریقہ واردات ایک جیسا تھا۔ خالد رضا، بشیر احمد اور مستری زاہد، تینوں کا تعلق ایسی ’جہادی تنظیموں‘ سے رہ چکا ہے جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں متحرک رہی ہیں۔یہ تنظیمیں ان حملوں کے پیچھے انڈیا کے ملوث ہونے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔بشیر احمد کا قتل اور ملزم کی گرفتاریBBC(فائل فوٹو)فروری 2023 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے متصل راولپنڈی شہر کے علاقے برما ٹاؤن میں کشمیری تحریک کے سابق کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم کو نماز مغرب کے بعد گھر جاتے ہوئے نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔صحافی جلال الدین مغل کی ایک رپورٹ کے مطابق 60 سالہ بشیر احمد کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع سرینگر کے علاقہ کپواڑہ سے تھا اور وہ 80 کی دہائی کے اواخر سے سب سے بڑی کشمیری ’جہادی‘ تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ تھے۔60 سالہ بشیر احمد کو حزب المجاہدین کا چوٹی کا کمانڈر اور سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کا انتہائی قریبی ساتھی تصور کیا جاتا تھا۔وہ 90 کی دہائی کے اوائل میں خاندان سمیت پاکستان منتقل ہوئے اور حزب المجاہدین کی سپریم کونسل کے رکن ہونے کے علاوہ تنظیم کے بانی سربراہ کے بعد تنظیم کے بااثر کمانڈر سمجھے جاتے تھے۔بشیر احمد عرف امتیاز عالم کے قتل کے ملزم کی گرفتاری کیسے ممکن ہوئی اس بارے میں اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ بشیر احمد عرف امتیاز عالم کے قتل کا مقدمہ پولیس سٹیشن کھنہ کے ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا اور بعدازاں اس مقدمے کی تفتیش سی ٹی ڈی کو دے دی گئی تھی۔تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ بشیر احمد کے قتل کے چند روز بعد انھیں ایک مخبر کی جانب سے اسلام آباد ہائی وے کے قریب دو مشکوک افراد کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی۔ جس پر گشت پر موجود پولیس اہلکاروں نے موقع پر چھاپہ مارا تو وہاں سے ملزم معیز احمد اور مہران یونس کو گرفتار کیا گیا اور ان کے قبضے سے بارودی مواد، ایک غیر لائسنس یافتہ پستول اورایک غیر رجسٹرڈ موٹر سائیکل بھی برآمد کیا گیا تھا۔بہاولنگر کا ’ابو جندل‘: کشمیر ’جہاد‘ سے کرائے کا قاتل بننے کا سفرپاکستان میں سابق ’جہادی کمانڈروں‘ کی پراسرار ہلاکتوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ گن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانیمسعود اظہر دہشتگرد قرار، کس کو کتنا فائدہ، کتنا نقصان؟پولیس اہلکار کے مطابق ملزم معیز احمد نے دوران تفتیش شاہزیب عرف زیبی کے بشیر احمد کے قتل میں ملوث ہونے کے بارے میں بتایا۔ جس پر پولیس نے ملزم شاہزیب کو راولپنڈی کے مضافاتی علاقے گوجر خان کے قریب سے گرفتار کیا تھا۔پولیس اہلکار کے مطابق جب ان ملزمان کو شناخت پریڈ کے لیے پیش کیا گیا تو بشیر احمد کے ورثا نے شاہزیب کی شناخت کر لی۔ پولیس اہلکار کے مطابق بشیر احمد کے ورثا نے بتایا کہ قتل سے چند روز قبل شاہ زیب نے ان کے گھر آ کر بشیر احمد کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھی۔پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ بشیر احمد پر جس پستول سے فائرنگ کی گئی تھی وہ بھی شاہزیب نئیر سے برآمد کیا گیا تھا اور اس کے تجزیہ میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسی ہتھیار سے بشیر احمد کا قتل کیا گیا تھا۔تفتیشی افسر کے مطابق اس کے علاوہ برما ٹاؤن کی جس گلی میں بشیر احمد کو گولیاں ماری گئیں تھی وہاں موجود سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں بھی شاہزیب نئیر کا چہرہ عیاں ہوا تھا۔معیز احمد کی گرفتاری اور خفیہ ایجنسی ’را‘ سے فنڈنگ کا انکشافاسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’راسے فنڈنگ‘ لینے کے الزام میں ملزمان معیز احمد اور فیضان کیانی کو مجموعی طور پر 40 سال 9 ماہ قید کی سزا سنائی۔ اس کے علاوہ ملزمان مہران یونس، نعمان ستار اور ارسلان واجد کو 35 سال 9 ماہ کی قید کا حکم سنایا تاہم عدالت کے تفصیلی فیصلے کے مطابق ملزمان نے عدالت کے رو برو صحت جرم سے انکار کیا تھا۔سرکاری وکیل کا عدالت میں کہنا تھا کہ مرکزی ملزم معیز احمد اور فیضان کیانی پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ’را سے فنڈنگ‘ لیتے تھے۔سی ٹی ڈی پولیس نے قتل کے مقدمے میں چھ ملزمان کو گرفتار کیا تھا، ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی، قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج تھا۔عدالت کے تفصیلی فیصلے میں اس کیس کے اس وقت کے ایس ایچ او ساجد اکرم بٹ کے بیان کا حوالہ بھی ہے جس میں انھوں نے عدالت کو بتایا کہ 23 ستمبر2023 کی صبح جب وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو آپس میں ملانے والی شاہراہ اسلام آباد ہائی وے پر موجود تھے تو انھیں ایک مخبر نے دو مشکوک افراد کی موجودگی کی اطلاع دی۔پولیس نے موقع پر جب چھاپہ مارا تو وہاں ملزم معیز احمد اور مہران یونس کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی تلاشی کے دوران ان سے ایک پستول، ایک بیگ میں ایک کلو گرام دھماکہ خیز مواد ڈیٹونیٹر بھی برآمد کیا گیا تھا۔Getty Images(فائل فوٹو)عدالتی فیصلے میں بیان کردہ پولیس انسپکٹر کے بیان کے مطابق دوران تفتیش ملزم معیز احمد نے انکشاف کیا کہ وہ اسلام آباد کے علاقے فراش ٹاؤن میں مقیم ہیں جہاں ان کے دیگر ساتھی مہران یونس، نعمان ستار، فیضان کیانی اور أرسلان واجد بھی موجود ہیںپولیس انسپکٹر کے بیان کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ انھوں نے فراش ٹاؤن میں ہی ایک زیر تعمیر گھر میں بارودی مواد چھپا رکھا ہے۔عدالتی فیصلے میں پولیس انسپکٹر کے بیان کے مطابق ملزم معیز احمد کے بیان کی روشنی میں پولیس پارٹی نے فراش ٹاؤن کے مذکورہ گھر پر چھاپہ مارا تو وہاں سے فیضان کیانی و دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ بارودی مواد، آتشی اسلحہ، نقدی، وائرلیس سیٹ،موبائل فونز اور یو ایس بی برآمد کی گئی۔عدالتی فیصلے میں پولیس انسپکٹر کے بیان کے مطابق دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزمان ’انڈیا کی خفیہ ایجنسی را سے فنڈنگ‘ لیتے تھے اور پاکستان میں مذہبی شخصیات سمیت اہم مقامات کی ریکی کرتے تھے۔دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان کا تعلق راولپنڈی کے علاقے برما ٹاؤن میں جہادی تنظیم کے سابق کمانڈر بشیر احمد عرف امتیاز علی کے قتل سے بھی تھا۔عدالتی فیصلے میں پولیس انسپکٹر کے بیان کے مطابق دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزمان مہران یونس، فیضان کیانی اور ارسلان واجد کو بیرون ملک سے شناختی کارڈ پر رقوم منتقل کی گئی تھیں جو انھوں نے مختلف نجی بینکوں کے ذریعے نکلوائی تھیں۔جبکہ معیز احمد نے یہ رقوم اپنے دوستوں کے شناختی کارڈ نمبروں پر منگوائی تھیں۔دوران تفتیش معیز احمد نے پولیس کو ایک کرولا کار کے متعلق بھی بتایا جو اس نے ’را سے ملنے والی‘ رقم سے خریدی تھی۔ پولیس نے ملزم کی نشاندہی پر اس کار کو بھی قبضے میں لے لیا تھا۔عدالتی فیصلے میں پولیس انسپکٹر کے بیان کے مطابق ملزمان کی جانب سے اعتراف کیے جانے کے بعد چھ ملزمان کے موبائل فونز کو سائبر کرائم ونگ فارنزک کے لیے بھیجا گیا اور ان فونز کے تجزیہ کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی کہ ملزمان واٹس ایپ اور سگنلز ایپ کے ذریعے بیرون ملک را کے ایجنٹوں کے ساتھ رابطے میں تھے جو انھیں مختلف مذہبی شخصیات اور علاقوں کی ریکی، اہم تنصیبات کی تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے کی ہدایات دیتے تھے۔ ملزمان کے موبائل فونز کے فرانزک تجزیے میں یہ انکشاف ہوا کے ملزمان نے ان تمام ہدایات پر عمل کرتے ہوئے انڈین خفیہ ایجنسی کے ایجنٹوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔عدالتی فیصلے میں ملزمان نے اپنے بیانات میں صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کیا۔مقدمے کی کارروائی کے دوران سپیشل پراسیکوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان سنگین نوعیت کی جرائم میں ملوث تھے اور ان سے آتشی اسلحہ سمیت بارودی مواد برآمد کیا گیا ہے جبکہ ان کے انڈیا کی خفیہ ایجنسی را سے فنڈنگ لینے کے ثبوت بھی موجود ہیں۔سپیشل پراسیکوٹر نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ ملزمان کے موبائل فونز کے فارنزک تجزیوں کی رپورٹ بھی پراسیکوشن کے موقف سے مطابقت رکھتی ہے۔جبکہ وکیل صفائی نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ملزمان کو کبھی پولیس نے گرفتار ہی نہیں کیا تھا بلکہ انھیں خفیہ ایجنسی نے جبری طور پر اٹھایا تھا۔ وکیل صفائی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے موکلوں سے کچھ برآمد نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ملزمان کے کال ریکارڈ سے بھی کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کہ بیرون ملک کسی سے رابطے تھے اور نہ ہی کسی بینک ٹرانزیکشن سے یہ ثابت کیا جا سکا ہے کہ وہ غیر قانونی تھی۔تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے تمام شواہد اور ثبوتوں کی روشنی میں مرکزی ملزم شاہزیب عرف زیبی کو دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت دو مرتبہ سزائے موت کا حکم دیا جبکہ ’انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے فنڈنگ لے کر پاکستان میں دہشتگردی‘ کرنے سمیت دیگر الزامات میں گرفتار پانچ ملزمان کو بھی مجموعی طور پر 40 سال 9 ماہ قید و جرمانے کی سزا سنائی۔پاکستان میں سابق ’جہادی کمانڈروں‘ کی پراسرار ہلاکتوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ بہاولنگر کا ’ابو جندل‘: کشمیر ’جہاد‘ سے کرائے کا قاتل بننے کا سفرگن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانیمسعود اظہر دہشتگرد قرار، کس کو کتنا فائدہ، کتنا نقصان؟