
Getty Imagesایران کے رہبرِ اعلیٰ نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی تجویز کو مسترد کر دیاتقریباً ایک دہائی پہلے بین الاقوامی طاقتوں اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کا مقصد تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنا تھا۔لیکن اب ایک بار پھر ایران ایٹم بم بنانے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے اور بین الاقوامی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والا معاہدے کی معیاد بھی رواں برس ختم ہو رہی ہے۔لندن میں واقع تھنک ٹینک چیٹھم ہاؤس سے منسلک ڈاکٹر صنم وکیل کہتی ہیں کہ ’یہ انتہائی نازک موڑ ہے۔ بغیر معنی خیز سفارت کاری کہ ہم ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار یا اس پر کوئی عسکری حملہ دیکھ سکتے ہیں۔‘ایران اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان دو برس کے مذاکرات کے بعد معاہدہ سابق صدر براک اوبامہ کے دور میں ہوا تھا جس کے تحت ایران کو اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا تھا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد پابندیاں اُٹھائی جانی تھیں۔لیکن سنہ 2018 میں پہلی مرتبہ صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے باہر نکال لیا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائدکر دیں۔ اس کے بعد ایران نے بھی آہستہ آہستہ معاہدے میں شامل نکات پر عملدرآمد کرنا بند کر دیا۔اس کے ساتھ ہی ایران نے یورینیم کی افزودگی کی رفتار بھی بڑھا دی اور اب وہ ایٹم بم بنانے کے بھی قریب پہنچ گیا ہے۔ اسی سبب امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس سفارتی طور پر متحرک نظر آتے ہیں تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کو ایک بار پھر محدود کیا جا سکے۔بدھ کو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھی بند دروازوں کے پیچھے ایران کے جوہری پروگرام پر ہی گفتگو ہوئی تھی۔ جمعے کو چین نے ایران اور روس کے ساتھ بات چیت کی تاکہ اس معاملے کا ’سفارتی حل‘ تلاش کیا جا سکے۔Getty Imagesایران کو ٹرمپ انتظامیہ پر زیادہ بھروسہ نہیںرواں ہفتے چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ موجود صورتحال میں تمام فریقین کو سکون برقرار رکھنا چاہیے اور ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے کو پیچیدہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے، ورنہ معاملہ ٹکراؤ اور تنازع کی طرف جا سکتا ہے۔‘بدھ کو ہی امریکی صدر ڈوبلڈ ٹرمپ کا ایک خط بھی متحدہ عرب امارات کی ایک سینیئر سفارت کار نے تہران پہنچایا تھا۔ اس خط میں کیا لکھا تھا یہ تاحال معلوم نہیں ہو سکا تاہم ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ معاہدہ کر لیں ورنہ۔۔۔ٹرمپ کے ’خط‘ کے بعد چین، روس اور ایران کا ’چابہار کے قریب‘ مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان کس جانب اشارہ ہےٹرمپ ایرانی تیل کی برآمدات ’صفر‘ پر دھکیل کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟خون میں لت پت وردیاں، ہتھیار اور زیرِ زمین نیٹ ورک: بی بی سی نے شام میں ایران کے خالی کردہ فوجی اڈوں کے اندر کیا دیکھا؟پرتعیش ولاز میں چھپے میزائل، دھماکہ خیز کمبل اور خفیہ پروازیں: اسرائیل سے مقابلے کے لیے ایران نے شام کے راستے اسلحہ کیسے بھجوایا؟انھوں نے کہا تھا کہ ’میں نے انھیں (ایران کو) کو خط لکھا اور کہا ہے کہ مجھے امید ہے کہ آپ مذاکرات کریں گے کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو ہمیں کوئی عسکری قدم اُٹھانا ہوگا اور وہ ایک بھیانک چیز ہو گی۔‘بظاہر ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے ’ہٹ دھرم‘ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔صرف یہی نہیں ایران کے صدر مسعود پژشکیان نے بھی اس تجویز کو مسترد کر دیا لیکن اس کے باوجود بھی ایران کی جانب سے مِلے جُلے پیغامات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ڈاکٹر صنم وکیل کہتی ہیں کہ ’ایران میں ایسے گروہ بھی ہیں جو مذاکرات کے حق میں ہیں اور ایسے بھی گروپس ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہتھیار بنا کر ہی ایران اپنی سکیورٹی کو یقینی بنا سکتا ہے۔‘دوسری جانب ایران کو ٹرمپ انتظامیہ پر زیادہ بھروسہ بھی نہیں۔ڈاکٹر صنم وکیل کہتی ہیں کہ ’وہ (ایران) ٹرمپ کا یوکرین صدر زیلنسکی کے لیے ہٹ دھرم اور بے ترتیب رویہ دیکھ چکے ہیں۔ وہ ٹرمپ کی غزہ کے حوالے سے عجیب و غریب تجویز بھی دیکھ چکے ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی بھی ایسی ہی پوزیشن ہوجائے۔‘ایران کو دھمکیوں کے زیرِ اثر مذاکرات کرنے سے نفرت ہے لیکن ابھی ایران کمزر نظر آتا ہے اور گذشتہ برس اسرائیل نے اس پر براہ راست حملہ بھی کیا تھا جس میں اس کے جوہری پروگرام پر نصب ایئر ڈیفنس سسٹم تباہ ہو گیا تھا۔اسرائیل ایک طویل عرصے سے اس سسٹم کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن ہے تاہم بین الاقوامی برادری کو اس پر تاحال تحفظات ہیں۔Getty Imagesصدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایرانی حکام کو خط لکھاانٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق ایران نے ملک بھر میں پھیلی ہوئی اپنی نیوکلیئر تنصیبات میں اپنی جوہری صلاحیتیوں کو مزید بڑھایا۔ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کے مطابق ایران کے پاس افزودہ خالص یورینیم 60 فیصد ہے جبکہ اسے جوہری ہتھیار بنانے کے لیے 90 فیصد افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے۔ان کا ایران کے جوہری پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’یہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔‘ایجنسی کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ ’ایران نے یورینیم کی افزودگی اور پیداوار بڑھا دی اور یہ وہ واحد ملک ہے جس کے پاس جوپری ہتھیار نہیں۔ یہ ہمارے لیے باعثِ تشویش بات ہے۔‘لیکن ایران دراصل کیا کر رہا ہے یہ بات جاننے کا انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے پاس کوئی مستند طریقہ نہیں کیونکہ ایران نے نگرانی کے لیے استعمال ہونے والی ایجنسی کی مشینوں کو اُکھاڑ پھینکا ہے۔رافیل گروسی کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ سفارتی روابط اب ناگزیر ہو گئے ہیں۔ رواں برس 18 اکتوبر کو 2015 میں ہونے والا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی پابندیوں کی دھمکیاں دے کر ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ میں برطانیہ کے نائب سفیر جیمز کاریوکی کا بدھ کو کہنا تھا کہ ’ہم ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ہر سفارتی اقدام اُٹھائیں گے اور ضرورت پڑی تو پابندیوں کا استعمال بھی کریں گے۔‘دنیا اور ایران دونوں کے لیے ہی یہ ایک نازک موڑ ہے۔لندن میں مقیم ڈاکٹر الیگزینڈر بولفراس کہتے ہیں کہ ’اگر ایران بم بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو کچھ ہفتوں کے اندر ہی متعدد میزائلوں کے لیے یورینیم افزودہ کر سکتا ہے۔‘اس کے بعد ان میزائلوں کو ڈیزائن کرنے میں بھی کچھ مہینے یا ایک سال لگ سکتا ہے۔’ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کرنے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے لیکن یہ بات واضح نہیں کہ کیا وہ یہ ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر چکا ہے یا پھر اسے استعمال کرنے مذاکرات میں برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘ایران کے وہ ننھے سپاہی جنھیں میدان جنگ بھیجا گیا: ’میرے جسم میں آج بھی مارٹر گولے کے 25 ٹکڑے ہیں‘خفیہ ایجنٹس کی مخبری کے بعد ڈرون حملہ: جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا امریکی منصوبہ کیسے مکمل ہوا؟پابندیوں میں سختی مگر لہجہ نرم: صدر ٹرمپ ایران سے چاہتے کیا ہیں؟تیل کی ترسیل کا ’خفیہ‘ نیٹ ورک: روس اور ایران کی منافع بخش برآمد پر امریکی پابندی کتنی کامیاب ہوئی؟ریموٹ کنٹرول گن کے 13 راؤنڈ: انڈرکور ایرانی سائنسدان جنھیں موساد نے 8 ماہ کے خفیہ آپریشن کے بعد قتل کیا