
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ انڈین سینما کا سب سے باوقار پہلا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ کسے ملا تو آپ شاید آپ کا جواب درست نہ ہو کیونکہ یہ مردوں کی اجارہ داری والی فلم انڈسٹر میں ایک خاتون کو ملا تھا جنہیں انڈین سینما کی ’خاتون اول‘ اور فلم سرکل میں ’ڈریگن لیڈی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔جس طرح اگر زبیدہ بیگم کو انڈیا میں خاموش فلموں کی سپر سٹار کہا جاتا ہے اسی طرح دیویکا رانی کو گویا (بولتی) فلموں کی پہلی سٹار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔دیویکا رانی نے نہ صرف اداکاری کی بلکہ انہوں نے ایک ایسے فلم اسٹوڈیو کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس نے اشوک کمار، دلیپ کمار اور مدھوبالا جیسے چوٹی کے فنکار دیے۔دیویکا رانی نہ صرف اپنے حسن، اپنی اداکاری اور اپنی محبت کے لیے جانی جاتی ہیں، بلکہ اپنے ساتھی اداکار کے ساتھ ان کے سکینڈل کو بھی فلم ناقد بھول نہیں سکے ہیں۔آج ہم اسی ادکارہ دیویکا رانی کی بات کر رہے ہیں جو 30 مارچ 1908 میں پیدا تو غیر منقسم ہندوستان میں ہوئی تھیں لیکن ان کی پرورش یورپ میں ہوئی کیونکہ وہ بچپن میں ہی برطانیہ چلی گئیں اور وہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔قسمت نے کروٹ لیدیویکا رانی انگلینڈ کے ایک آرٹ سٹوڈیو میں فیبرک ڈیزائنر کے طور پر کام کرتی تھیں کہ ان کی ملاقات فلموں سے جنون کی حد تک دلچسپی رکھنے والے بنگالی اداکار ہمانشو رائے سے ہوئی۔ اگرچہ ہمانشو رائے لندن بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے گئے تھے لیکن انھیں تھیٹر کی دنیا نے جکڑ لیا اور انہوں نے خاندانی خواب کو چھوڑ کر اپنا خواب بُننا شروع کیا۔سونے پر سہاگہ کہ ان کی ملاقات ڈرامہ نگار نرجن پال سے ہو گئی اور دونوں نے مل کر یورپ میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی مثبت پیشکش کا بیڑا اٹھا لیا اور ایک تھیٹر گروپ بنا لیا جس کے تحت یورپ کے متعد شہروں میں انہوں نے شوز کیے۔نرجن پال کے سکرپٹ پر انہوں نے جرمنی کے ماہرین کے تعاون سے اپنی پہلی فلم ’دی لائٹ آف ایشیا‘ پیش کی جس میں انہوں نے مہاتما گوتم بدھ کا کردار خود ہی ادا کیا۔اسی سلسلے میں مہا بھارت کے ایک واقعے پر مبنی فلم ’اے تھرو آف اے ڈائس‘ بنائی جس کے دوران دیویکا رانی اور ہمانشو رائے کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی اور پہلی ہی ملاقات میں ہمانشو رائے مغربی طرز میں ڈھلی فراٹے دار انگریزی بولنے والی پر اپنا دل ہار بیٹھے۔دیویکا رانی اور ہمنسو رائے نے شادی کر لی اور 1929 میں مستقل طور پر انڈیا منتقل ہو گئے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)اگرچہ ہمانشو پہلے سے شادی شدہ تھے اور دیویکا رانی ان سے کوئی 15 سال عمر میں چھوٹی تھیں لیکن دونوں نے شادی کر لی اور 1929 میں مستقل طور پر انڈیا منتقل ہو گئے۔اس وقت دنیا میں پہلی گویا فلم ریلیز ہوئی اور اس کے دو سال بعد انڈیا میں اردشیر ایرانی نے زبیدہ کے ساتھ پہلی گویا فلم ’عالم آرا‘ پیش کی جس نے فلم بینی کا نیا دور شروع کردیا۔اگرچہ اس وقت انڈیا کے شہر پونے اور کلکتے میں فلم سٹوڈیوز تھے لیکن ہمانشو رائے اور دیویکا رانی نے ایک بمبئی میں تاریخی سٹوڈیو قائم کیا جس نے تقریبا ڈیڑھ درجن یادگار فلمیں اور انڈیا کو تین سپر سٹار دیے۔اس سٹوڈیو کا نام بامبے ٹاکیز تھا اور یہ ہندوستان کا پہلا سٹوڈیو تھا جس کے باضابطہ شیئرز جاری کیے گئے۔اس سٹوڈیو کے قیام سے قبل ہمانشو رائے اور دیویکا رانی نے فلم ’کرما‘ میں لیڈ رول ادا کیا۔ یہ فلم اپنے بولڈ سین کی وجہ سے ہندوستان میں تو فلاپ ہو گئی البتہ یورپ میں اسے سراہا گیا۔ یہ ہندوستانی اور انگریزی دو زبانوں میں بنی تھی۔ بہر حال یہ فلم اپنے طویل ترین بوسے کے لیے یاد کی جاتی ہے جو اصل زندگی میں بیوی اور شوہر کے درمیان ہوا تھا اور سکرین پر دکھایا گیا تھا۔یہ فلم دیویکا رانی کی پہلی فلم تھی اور دونوں ایک ہی بار ایک ساتھ آئے کیونکہ اس کے بعد ہمانشو رائے نے فلم میں اداکاری کے بجائے فلمسازی میں اپنا سارا وقت جھونک دیا۔اپنے زمانے کا سب سے بڑا سکینڈلدیویکا رانی نے اشوک کمار کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا (فوٹو: فلکر)کہا جاتا ہے کہ ہمانشو رائے اپنی فلموں کو لے کر بہت مشغول ہو گئے اور انہوں نے فلم ’جوانی کی ہوا‘ اور ’جیون نیّا‘ کے لیے لکھنؤ کے ایک خوب رو جوان نجم الحسن کو بطور ہیرو منتخب کیا۔دیویکا رانی نجم الحسن کی وجاہت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ فلم جوانی کی ہوا میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک لڑکی اپنے شادی کے دن اپنے محبوب کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ یہ فلم ہٹ رہی ساتھ میں دونوں اداکاروں کی جوڑی کو بھی سراہا گیا۔اگرچہ فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی دیویکا رانی اور نجم الحسن کی قربتوں کے قصے عام ہونے لگے تھے لیکن ہمانشو رائے اپنی دھن میں تھے۔ مگر جب دوسری فلم جیون نیّا کی شوٹنگ شروع ہوئی تو ایک دن پتا چلا کہ دیویکا رانی اور نجم الحسن کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔بعد میں پتا چلا کہ دونوں بمبئی سے دور کلکتے میں دیکھے گئے ہیں۔ دونوں کلکتے کے گرینڈ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمانشو رائے کے دوست اور دیویکا کے قریبی سمجھے جانے والے سشدھر مکھرجی ان سے ملنے گرینڈ ہوٹل پہنچے اور دیویکا رانی کو کسی طرح منا کر واپس لائے۔اس زمانے میں ہندو خاندان میں طلاق تقریباً ناممکن تھی اور کسی کے ساتھ بھاگنے والی کو سماج میں انتہائی گری ہوئی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اگرچہ وہ واپس آ گئیں لیکن رشتے پہلے جیسے کبھی نہیں رہے۔ہمانشو رائے نے نجم الحسن کو فلم جیون نیا سے نکال دیا اور ان کے باقی کنٹریکٹ بھی ختم کر دیے اور پھر وہاں سے لیب ٹیکنیشین کمد گانگولی کی قسمت جاگی جو بعد میں اشوک کمار کے نام سے مشہور ہوئے۔اس کے بعد دیویکا رانی نے اشوک کمار کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا جن میں سے ’اچھوت کنیا‘ کو سب سے زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔دیویکا رانی نے آخری فلم 1943 میں کی اور پھر انہوں نے ایک روسی پینٹر سویتسلاو روئرچ سے شادی کر لی (فوٹو: دی ٹرابیون)اس دوران ہمانشو رائے بیمار رہنے لگے اور 16 مئی 1940 کو آنکھیں موند لیں۔ اس کے بعد بامبے ٹاکیز پر پوری طرح سے دیویکا رانی کی اجارہ داری ہو گئی اور اسی دوران مدھو بالا نے 1942 میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر فلم ’بسنت‘ سے اپنے کریئر کا آغاز کیا جبکہ 1949 میں آنے والی فلم محل سے وہ لیڈ اداکارہ کے طور پر سامنے آئیں اور ان کی خوبصورتی سے پورا ہندوستان مسحور ہو کر رہ گيا۔دوسری جانب اشوک کمار کی اداکاری والی فلم ’قسمت‘ انتہائی کامیاب رہی۔1944 میں دیویکا رانی نے دلیپ کمار کو فلم ’جوار بھاٹا‘ سے لانچ کیا جو کہ فلاپ رہی جبکہ راج کپور نے بھی اسسٹنٹ کے طور پر اسی سٹوڈیو سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔دیویکا رانی کی دادی معروف بنگالی ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کی بہن تھیں جبکہ دیویکا کا خاندان بہت امیر خاندان تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں سکولی تعلیم کے لیے کم عمری میں ہی لندن کے بورڈنگ سکول بھیجا گیا تھا۔دیویکا رانی نے آخری فلم 1943 میں کی اور پھر انہوں نے ایک روسی پینٹر سویتسلاو روئرچ سے شادی کر لی اور دونوں ہماچل پردیش کے شہر منالی منتقل ہوگئے اور پھر وہاں سے بنگلور چلے گئے جہاں نو مارچ 1994 کو دیویکا رانی نے آخری سانسیں لیں۔ انھیں ان کی سگریٹ نوشی، شراب نوشی، گالی گلوچ اور بد مزاجی کے لیے ’ڈریگن لیڈی‘ بھی کہا جاتا تھا۔انھیں پہلے انڈیا کا گرانقدر شہری ایوارڈ پدم شری دیا گیا اور پھر جب 1969 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ لانچ کیا گیا تو اس اعزاز سے سرفراز ہونے والی وہ پہلی شخصیت تھیں جو سینما میں ان کی خدمات کا کھلا اعتراف ہے۔