پے در پے نقصانات سے لڑکھڑاتی حزب اللہ کیا اپنی بقا کی جنگ میں کامیاب ہو پائے گی: ’یہ زخم خدا کی طرف سے تمغہ ہیں‘


Reutersلبنان کے سرحدی قصبے ’کفرکلا‘ میں اسرائیلی بمباری کے باعث لگ بھگ تمام عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیںیہ گذشتہ سال 17 ستمبر کی بات ہے جب لبنان کے ایک ہسپتال میں اپنی شفٹ کا آغاز کرنے والے پیرامیڈک سٹاف (نرس) آدم کو دن میں تقریباً ساڑھے تین بجے اپنے پاس موجود ایک پیجر پر پیغام موصول ہوا۔ اُس روز اپنی شفٹ کا آغاز کرنے سے قبل انھیں یہ پیجر دیا گیا تھا۔اِس طرح کے سینکڑوں پیجر حزب اللہ نامی شیعہ مسلم گروپ نے لبنان میں موجود اپنے ہزاروں ارکان میں تقسیم کیے تھے اور ان کا مقصد ساتھیوں کو کسی بھی ہنگامی صورتحال یا ایمرجنسی سے بروقت مطلع رکھنا تھا۔آدم (جو اپنی حفاظت کے پیش نظر اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے) بتاتے ہیں کہ ’میرے پاس موجود پیجر سے نان سٹاپ (مسلسل) بیپ کی آواز آنا شروع ہو گئی جبکہ اس کی سکرین پر ’الرٹ‘ لکھا ہوا نظر آ رہا تھا۔‘ آدم کے مطابق ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پیغام حزب اللہ کی قیادت کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔مگر اس ’الرٹ‘ میں موجود اصل پیغام پڑھنے کے لیے انھیں بیک وقت اپنے دونوں ہاتھوں سے پیجر پر موجود دو بٹن دبانے تھے۔ آدم نے متعدد مرتبہ ایسا کیا اور دونوں بٹن دبائے مگر سکرین پر پیغام ظاہر نہیں ہو رہا تھا جبکہ پیجر سے ’بیپ‘ کی آواز لگاتار آ رہی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’پھر اچانک جب میں اپنی میز پر بیٹھا تو یہ پیجر پھٹ گیا۔‘اپنے فون پر آدم نے مجھے اُس کمرے کی ویڈیو دکھائی جہاں وہ اس وقت موجود تھے جب پیجر پھٹا۔ یہ ویڈیو ان کے ساتھی نے اس واقعے کے کچھ دیر بعد بنائی تھی۔ اس کمرے کے فرش پر خون کی ایک لکیر نظر آ رہی تھی۔آدم بتاتے ہیں کہ دھماکے کے فوراً بعد انھوں نے رینگ کر اُس کمرے سے نکلنے کی کوشش کی جس کا دروازہ انھیں نے کچھ ہی دیر قبل کپڑے بدلنے اور پیغام پڑھنے کی غرض سے بند کر دیا تھا۔ لکڑی کی میز پر پڑے پیجر کے پھٹنے کے نتیجے میں میز میں سوراخ ہو گیا تھا۔ ’پھر میں نے زمین پر پڑی ایک خاکی رنگ کی کوئی چیز دیکھی۔ وہ میری انگلی تھی۔‘حزب اللہ ایک طاقتورمسلح گروہ ہے جس کو برطانیہ اور امریکہ سمیت بہت سے دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ لیکن لبنان میں یہ ایک اہم اور متحرک سیاسی گروہ بھی ہے جس کی ناصرف معاشرے بلکہ لبنان کی پارلیمان میں بھی نمائندگی موجود ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کا رُکن ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ جنگجو ہیں۔ حقیقت میں حزب اللہ سے منسلک بہت سے اراکین جنگجو نہیں ہیں۔ آدم کے مطابق وہ بھی اگرچہ اس تنظیم کے فلاحی کاموں سے منسلک ہیں مگر وہ جنگجو نہیں ہیں۔ لبنان میں شہری حزب اللہ کی جانب سے چلائے جانے والے بڑے اداروں میں کام کر سکتے ہیں جن میں ہسپتال اور ہنگامی خدمات کے شعبے شامل ہیں۔حزب اللہ نے اپنے ارکان کو سمارٹ فونز کے بجائے جدید ٹیکنالوجی سے دور پیجرز فراہم کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ اس کا سب سے بڑا دشمن یعنی اسرائیل حزب اللہ کے بارے میں حساس معلومات اکٹھی نہ کر سکے۔ تاہم بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ حزب اللہ نے جو پیجر اپنے اراکین میں تقسیم کیے تھے وہ درحقیقت برسوں پر محیط ایک خفیہ اسرائیلی منصوبے کا ہی حصہ تھا۔ ان پیجرز کے اندر دھماکہ خیز موجود چھپایا گیا تھا، جسے مناسب وقت آنے پر پھاڑا جا سکتا تھا اور 17 ستمبر 2024 کو لبنان بھر میں ایسا ہی ہوا تھا۔AFP17 ستمبر 2024 کو حزب اللہ کے زیر استعمال درجنوں پیجر دھماکہ خیز مواد کے باعث پھٹ گئے تھےاس پیجر حملے میں 38 سالہ آدم نے اپنے ہاتھ کا ایک انگوٹھا اور بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں اور بچ جانے والی انگلیوں کا کچھ حصہ کھو دیا تھا۔ اُن کی دائیں آنکھ بھی ضائع ہوئی تھی جبکہ بائیں آنکھ کی بینائی بھی جزوی طور پر متاثر ہوئی ہے۔انھوں نے مجھے اپنی وہ تصویر بھی بھیجی جس میں وہ ہسپتال کے بستر پر موجود ہیں اور زیرعلاج ہیں۔ یہ تصویر اس حملے کے ایک گھنٹے بعد بنائی گئی تھی۔ اس تصویر میں ان کا چہرہ مکمل طور پر جھلسا ہوا اور خون آلود نظر آتا ہے۔اس حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بڑے نقصان کے باوجود آدم آج بھی حزب اللہ سے منسلک ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ جب انھوں نے حزب اللہ سے وابستگی کے باعث خود کو اِس حالت میں دیکھا تو انھیں کیسا لگا؟ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’بہت اچھا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ زخم خدا کی طرف سے ایک قسم کا تمغہ ہیں۔ ایک نیک مقصد کے لیے لڑنے کا انعام۔‘لیکن لبنان پر اسرائیلی حملوں اور پیجر حملوں کے بعدآج حزب اللہ اتنا طاقتور گروہ نہیں رہا جتنا وہ ماضی میں تھا۔ آج حزب اللہ کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔لبنان میں حزب اللہ کو اپنے ہی چند حامیوں کی طرف سے اس تنقید کا سامنا ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والی عمارتوں اور گھروں کی تعمیر نو کے لیے درکار فنڈز فراہم نہیں کر سکا ہے جبکہ ملک میں آنے والی نئی حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرے گی۔لبنان کے ہمسایہ ملک شام میں بشار الاسد کی حکومت کی خاتمے کے بعد سے اُس راستے میں خلل پڑا ہے جس کو استعمال کرنے والے ایران اِس گروہ کو ہتھیار اور رقم کی سپلائی کرتا تھا۔Getty Imagesپیجر حملوں میں دو بچوں سمیت درجن کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ درجنوں زخمی اور معذور ہوئے تھےمیں نے جنوبی لبنان میں ایسی آبادیوں کا دورہ کیا ہے جو اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں تباہ ہو گئی ہیں، اور یہاں معلوم ہوا کہ اس تباہی کے باوجود مقامی افراد کی غیرمشروط حمایت آج بھی حزب اللہ کو حاصل ہے۔ لیکن دوسری جانب کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اسرائیل کے ساتھ جنگ میں الجھنے کو حزب اللہ کی غلطی قرار دیتے ہیں اور یہاں تک کہ وہ حزب اللہ کے بطورایک فوجی قوت مستقبل کے حوالے سے سوال کرتے ہیں۔حزب اللہ سنہ 1980 کی دہائی میں لبنان کی خانہ جنگی کے دوران لبنان کے کچھ حصوں پر اسرائیل کے قبضے کے جواب میں بنائی گئی تھی۔ آج بھی اس تنظیم کا سب سے بڑا مقصد اور منشور اسرائیل کی تباہی ہے۔ حزب اللہ کی اسرائیل سے آخری جنگ سنہ 2006 میں ہوئی تھی، جس کے بعد برسوں نسبتاً سکون رہا تھا۔سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں تشدد پھر سے بھڑک اٹھا ہے۔ حماس کے اسرائیل کے حملے کے نتیجے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 250 سے زیادہ یرغمال بنائے گئے تھے۔ جس کے بعد شروع ہونے والی اسرائیلی بمباری اور کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 50 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں کثیر تعداد بچوں اور عورتوں کی بھی ہے۔جب اسرائیل نے غزہ پر بمباری کرنا شروع کی تو حزب اللہ نے یہ کہتے ہوئے شمالی اسرائیل پر راکٹ داغنا شروع کر دیے کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور راکٹ داغنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسرائیل غزہ پر بمباری نہیں روکتا۔ اسرائیل نے جواباً جنوبی لبنان پر فضائی حملوں کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں سرحد کے دونوں جانب دسیوں ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔BBCلبنان پر ہوئے اسرائیلی حملوں میں حسن نصر اللہ سمیت حزب اللہ کے دیگر سرکردہ رہنما مارے جا چکے ہیںحزب اللہ پر ہوئے پیجر حملے اِس جنگ میں ایک اہم موڑ تھے۔ حزب اللہ کے اراکین کے پاس موجود یہ آلات یعنی پیجر اُس وقت پھٹ گئے جب لوگ اپنے روزمرہ کے کام کاج میں مصروف تھے، بازاروں میں خریداری کر رہے تھے یا گھروں میں موجود تھے۔ان پیجر حملوں میں دو بچوں سمیت ایک درجن کے قریب لوگ مارے گئے تھے جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے جن میں سے بیشتر افراد معذور ہو گئے۔ اس حملے نے لبنان میں غصے کو جنم دیا۔ اور پیجر پھٹنے کے ایک ہی روز بعد حزب اللہ کے زیر استعمال واکی ٹاکی بھی اچانک پھٹنا شروع ہو گئے۔میں پیجرز کے حملے میں ہلاک ہونے والے چند افراد کے جنازے میں موجود تھا جب وہاں ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ حزب اللہ کے مایوس ارکان نے ہم سب سے اپنے اپنے کیمرے اور فون بند کرنے کو کہا کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اور کیا چیز دھماکے سے پھٹ سکتی ہے۔پیجر اور واکی ٹاکی حملوں کے چند روز بعد اسرائیل نے لبنان پر لگاتار بمباری کا آغاز کیا جبکہ جنوبی لبنان پر زمینی حملہ کیا گیا۔ ان اسرائیلی حملوں میں لبنان بھر میں تقریباً چار ہزار افراد ہلاک جبکہ 18 ہزار زخمی ہوئے۔اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟’محمد زندہ ہیں‘: حزب اللہ کا جنگجو تباہ شدہ گھر کے ملبے تلے سے پانچ ماہ بعد کیسے زندہ برآمد ہوا؟اسرائیلی وفد کا دوحہ میں رات ’طیارے میں گزارنے کا خیال‘ اور وہ فون کال جس نے ایران کا ’متوقع حملہ‘ رکوا دیاسابق اسرائیلی ایجنٹوں کے انکشافات: خفیہ ایجنسی موساد نے لبنان میں ’پیجر حملوں کا منصوبہ‘ کیسے بنایا؟حزب اللہ کے لیے یہ تنازع تباہ کُن ثابت ہوا۔ گروپ کے سرکردہ رہنماؤں کو قتل کر دیا گیا، اس کے بہت سے جنگجو مارے گئے اور اس کے ہتھیاروں کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا۔ مرنے والوں میں حسن نصر اللہ بھی شامل تھے جو 30 سال سے زائد عرصے سے حزب اللہ کے سربراہ تھے۔ حسن نصر اللہ کو دحیہ نامی علاقے میں ایک رہائشی عمارت کے نیچے موجود حزب اللہ کے ایک خفیہ ہیڈ کوارٹر پر کیے گئے ایک بڑے فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔نومبر 2024 کے آخر میں پے در پے نقصانات اٹھانے کے بعد حزب اللہ نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا جو بنیادی طور پر ہتھیار ڈالنے جیسا طرز عمل تھا۔جنوبی لبنان دراصل لبنان میں بسنے والی شیعہ مسلم کمیونٹی کا مرکز ہے۔ جنوبی لبنان کو حزب اللہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہ لبنان کا وہ حصہ ہے جہاں اس گروپ کی روایتی طور پر نمایاں موجود رہی ہے۔ میں نے سرحدی قصبے ’کفرکلا‘ کا سفر کیا جس کی جنگ سے پہلے کی آبادی 15 ہزار تھی اور جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو سب سے پہلے اسی سرحدی قصبے کو نشانہ بنایا تھا۔اسرائیل نے لبنان کے خلاف زمینی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل کے شمال سے حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں دربدر ہونے والی اپنی آبادی کو واپس وہاں آباد کر سکیں۔BBCبیروت میں لگے پوسٹرز پر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصاویر جا بجا نظر آتی ہیں ’کفرکلا‘ نامی لبنان کے سرحدی قصبے میں اب کچھ بھی نہیں بچا، یہاں موجود تمام عمارتیں اور گھر ملبے کا ڈھیر ہیں۔ جبکہ کنکریٹ اور دھات کے ملبے پر حزب اللہ کے پیلے جھنڈے بنے ہوئے ہیں۔یہاں میری ملاقات 37 سالہ لبنانی خاتون عالیہ سے ہوئی۔ وہ اس قصبے کی رہائشی تھیں۔ امن بحال ہونے کے بعد اب وہ اپنے شوہر اور تین بیٹیوں کے ہمراہ یہاں واپس آئی ہیں۔ ان کی بیٹیوں کی عمریں دس، چودہ اور اٹھارہ برس ہیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی نے ایک بیج پہن رکھا ہے جس پر حسن نصراللہ کی مسکراتی ہوئے تصویر کنندہ ہے۔عالیہ نے مجھے بتایا کہ ’میں صرف یہ جانتی ہوں کہ یہ میرا گھر تھا۔ کیونکہ یہاں اس پودے، گلاب اور اس درخت کی باقیات ہیں۔‘ انھوں نے مکانوں کے ملبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان پودوں کی مدد سے ہی اب اپنے گھر کی شناخت کر پاتی ہیں۔انھوں نے ملبے کی طرف ہی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں صوفہ تھا۔ وہاں پردے تھے۔ اور وہ بیڈ روم تھا۔۔۔‘ورلڈ بینک کے مطابق اسرائیلی حملوں کے بعد لبنان بھر کی تعمیر نو اور بحالی سے متعلق اخراجات کا تخمینہ 11 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ کے فوری چیلنجز میں سے ایک جنگ سے متاثرہ لوگوں کی مالی مدد کرنا ہے، یہ مالی مدد اس لیے کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ان افراد کی حمایت اپنے ساتھ رکھی جا سکے۔جن لوگوں نے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اپنے گھر کھوئے ہیں اُن کو حزب اللہ کی جانب سے ایک سال کے کرائے کی مد میں 12 ہزار ڈالر دیے گئے ہیں۔ تاہم حزب اللہ نے اب تک تباہ شدہ مکانوں کو دوبارہ تعمیر کرنے یا مکمل طور پر تباہ شدہ کاروباروں کے لیے معاوضہ دینے کا فی الحال کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔اور اس صورتحال میں حزب اللہ کے لیے موجود محدود حمایت اب عدم اطمینان کی کیفیت کو ہوا دے رہی ہے۔ عالیہ کے مطابق اُن کی ملکیتی دکان میں تقریباً 20 ہزار ڈالرز کا سٹاک موجود تھا۔عالیہ کو فکر لاحق ہے کہ شاید اب حزب اللہ سمیت کوئی بھی اُن کے اًس نقصان کو پورا نہیں کرے گا۔AFPلبنان کے ساتھ ہوئے امن معاہدے کے بعد اسرائیل کی زمینی افواج ’کفرکلا‘ سے نکل گئی تھیں مگر یہ پورا قصبہ اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہےایران، حزب اللہ کا بڑا حمایتی ہے جو اس گروہ کو فنڈز، ہتھیار اور تربیت فراہم کرتا ہے۔ دوسری جانب لبنان کے بین الاقوامی اتحادی ممالک ہیں جن کا کہنا ہے کہ جب تک لبنان کی حکومت حزب اللہ کو غیرمسلح نہیں کرتی تب تک وہ لبنان کی تعمیر نو میں کوئی مدد نہیں کریں گے۔ حزب اللہ کے عسکری طور پر کمزور ہونے کے بعد، اس کے ناقدین اسے غیر مسلح کرنے کے ایک منفرد موقع کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔عالیہ نے مجھ سے کہا کہ ’ہمیں ایسی کوئی امداد نہیں چاہیے جو ہمارے ہتھیاروں سے متعلق شرائط کے تحت ملے۔ ہم انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ محض ہمارے گھر دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے ہم سے ہماری عزت اور ہمارے ہتھیار چھین لیں۔ یہ گھر ہم خود دوبارہ تعمیر کر لیں گے۔‘یہ باعث تعجب نہیں کہ حزب اللہ کے حامی بدستور ڈٹے ہوئے ہیں۔ بہت سے لبنانی شہریوں کے لیے حزب اللہ اُن کی زندگی کا ایک ایسا بنیادی حصہ ہے جو اُن کی شناخت میں ضروری ہے۔ لیکن اب حزب اللہ کی طاقت اس کی بنیاد سے باہر دیکھی اور محسوس کی گئی ہے۔ جنگ سے پہلے اس کا عسکری ونگ لبنان کی قومی فوج سے زیادہ مضبوط سمجھا جاتا تھا۔جبکہ پارلیمان میں حزب اللہ کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اس گروہ کی رضامندی کے بغیر عملی طور پر لبنان کی حکومت کے لیے کوئی بڑا فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ لبنان کے ٹوٹ پھوٹ کے شکار سیاسی نظام کی وجہ سے اس گروپ کو حکومت میں نمائندگی حاصل ہے۔ مختصر یہ کہ حزب اللہ لبنان کی ریاست کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ماضی میں کئی بار ایسا کر چکا ہے۔لیکن اس جاری جنگ نے حزب اللہ کی لبنان میں پوزیشن کو متاثر بھی کیا ہے۔ جنوری 2025 میں لبنانی پارلیمنٹ نے دو سال کے تعطل کے بعد ملک کے سابق آرمی چیف جوزف عون کو ملک کا نیا صدر مقرر کیا ہے۔ صدر کے انتخاب میں دو سال کے تعطل کا الزام ناقدین نے حزب اللہ پر لگایا تھا۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی صدر کے انتخاب کے حوالے سے ووٹنگ ہونے لگتی تو حزب اللہ سے منسلک ممبران پارلیمنٹ اور اس کے دیگر اتحادی ایوان سے واک آؤٹ کر جاتے تھے۔ لیکن جنگ سے شدید متاثر ہونے والی حزب اللہ نے شاید اب یہ محسوس کر لیا تھا کہ وہ صدر کے انتخاب کے اس عمل کو مزید نہیں روک سکتی۔ مگر دوسری جانب لبنان کی حکومت کے لیے صدر کا تقرر اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ اس سے بین الاقوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔اپنی افتتاحی تقریر میں نومنتخب صدر عون نے لبنانی فوج کو ملک میں ہتھیاروں کا حامل واحد ادارہ بنانے کا وعدہ کیا، یعنی ہتھیار صرف فوج کے پاس ہوں گے کسی گروہ کے پاس نہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں حزب اللہ کا تذکرہ نہیں کیا اور سب نے نومنتخب صدر کی جانب سے ایک پیغام کے طور پر لیا۔بالآخر شاید حزب اللہ کا مستقبل ایران کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ایران کو لبنان میں مضبوط حیثیت میں موجود حزب اللہ کی ضرورت اس لیے بھی ہے تاکہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف اسرائیل کے ممکنہ حملے کو روک سکے۔مگر اب وقتی طور حزب اللہ کے کمزور ہونے کے باعث ایسا ہونا ممکن نہیں رہا ہے۔ خطے میں ایران کے حمایت یافتہ دیگر گروہ، جسے وہ مزاحمت کا محور کہتے ہیں، بھی نمایاں طور پر کمزور ہو چکے ہیں، جن میں غزہ میں حماس اور یمن میں حوثی جنگجو شامل ہیں۔ شام میں اسد حکومت کے زوال نے لبنان اور حزب اللہ تک ایران کی زمینی راہداری میں خلل ڈالا ہے۔ اگر ایران حزب اللہ کو دوبارہ مسلح کرنے کا فیصلہ بھی کرتا ہے تو یہ آسان نہیں ہو گا۔Reutersحسن نصر اللہ کے جنازے میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھیحسن نصراللہ کی جگہ اُن کے نائب نعیم قاسم نے کمان سنبھالی ہے۔ نعیم قاسم کو حسن نصراللہ کی طرح کی کرشماتییا بااثر شخصیت نہیں سمجھا جاتا۔ جبکہ حزب اللہ میں وقتاً فوقتاً اندرونی اختلافات کی افواہیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔جنوبی لبنان میں میری ملاقات ایک تاجر سے ہوئی جو اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ اگرچہ ان کے دفتر کی دیوار پر حزب اللہ کے رہنماؤں کی تصاویر آویزاں تھیں لیکن وہ گروپ پر تنقید کر رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ 'بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں۔ حزب اللہ نے عوام یا لبنانی حکومت سے مشورہ کیے بغیر، مناسب حساب کتاب کیے بغیر غزہ کی حمایت کے لیے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔'انھوں نے مجھے بتایا کہ حزب اللہ کے بہت سے حامی بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’اگر حزب اللہ نے صورت حال کا صحیح جائزہ نہیں لیا تو۔۔۔ وہ خود کو تباہ کر دیں گے اور ہمیں بھی نقصان پہنچائیں گے۔ ہم خود یہ تباہی اپنے اوپر لائے ہیں، اور اب ہم یہ سب بھگت رہے ہیں۔‘جنگ بندی معاہدے کے ایک حصے کے طور پر حزب اللہ نے اپنے ہتھیاروں اور جنگجوؤں کو جنوبی لبنان سے ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ ایک مغربی سفارتی اہلکار نے مجھے بتایا کہ حزب اللہ نے بڑے پیمانے پر اپنے ہتھیار اور جنگجو جنوبی لبنان سے ہٹائے ہیں۔جنگ بندی کے تحت اگرچہ اسرائیل کو اپنی فوجیں چند علاقوں سے واپس بلانے کی ضرورت تھی لیکن اسرائیلی دفاعی افواج بدستور اپنی پوزیشنوں پر برقرار ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں بسنے والے اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کے لیے پوزیشن برقرار رکھنا ضروری ہے۔اسرائیلی فوج نے اس دوران لبنان میں اہداف پر فضائی حملے بھی کیے ہیں جبکہ لبنان کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے حملے معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔حزب اللہ کی جانب سے تخفیف اسلحہ کے بارے میں بات چیت مشکل اور طویل ہونے کا امکان ہے۔ حزب اللہ سے منسلک ایک ذریعے نے مجھے بتایا کہ ایک تجویز یہ ہے کہ حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ذخیرے، جس میں اب بھی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل شامل ہیں، کو لبنان کی ریاست کے کنٹرول میں رکھا جائے گا، جبکہ اس تنظیم سے منسلک جنگجو، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو مرحلہ وار انداز میں لبنانی فوج میں ضم کیا جائے۔اس تاجر نے مجھے بتایا کہ ’بہت سارے خاندان، خاص طور پر وہ خاندان جن کے افراد زخمی اور شہید ہوئے مکمل طور پر حزب اللہ کی جانب سے ملنے والی سپورٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ لوگ فوری طور پر حزب اللہ سے علیحدگی اختیار نہیں کریں گے۔۔۔‘ہفتوں تک میں نے کوشش کی کہ حزب اللہ کے کسی سے انٹرویو لوں مگر کوئی بھی دستیاب نہیں ہوا۔آدم، جو پیجر حملے میں زخمی ہوئے تھے، اب ایک نرس کے طور پر واپس اپنے کام پر آ گئے ہیں۔ مگر وہ اب رات کی شفٹ نہیں کرتے کیونکہ بنیائی ضائع ہونے کی وجہ سے وہ اچھی طرح سے نہیں دیکھ سکتے۔ دھماکے سے اُن کے سر اور سینے پر بھی زخم آئے تھے۔ اس دھماکے کے بعد سے وہ جلد ہی تھک جاتے ہیں اور کام کے دوران انھیں آرام کرنے کے لیے مسلسل وقفے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔فزیوتھراپی کے سیشنز کی مدد سے وہ اپنے بائیں ہاتھ پر انگوٹھے اور درمیانی انگلی کی صورت میں جو کچھ بچا ہے اسے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کے گھر کے ڈرائنگ روم میں نمایاں انداز میں ایک پینٹنگ لگی ہے جو انھوں نے خود بنائی ہے۔ اس تصویر میں وہ اپنے زخمی ہاتھوں میں ایک پیجر پکڑے ہوئے ہیں۔انھوں نے میرے ساتھ اپنی ایک اور تصویر شیئر کی۔ یہ تصویر ان کے معذور ہو جانے والے ہاتھ کی ہے جس پر موجود ٹیٹو میں یہ پیغام تحریر ہے کہ اُن کے زخم حزب اللہ کے مرحوم رہنما حسن نصراللہ کی قربانی کے سامنے کچھ نہیں ہیں۔ وہ بہت سے دیگر لبنانی شہریوں کی طرح آج بھی حزب اللہ کے مقصد اور اس کی جانب سے ادا کیے جانے والے کردار پر یقین رکھتے ہیں۔’محمد زندہ ہیں‘: حزب اللہ کا جنگجو تباہ شدہ گھر کے ملبے تلے سے پانچ ماہ بعد کیسے زندہ برآمد ہوا؟اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟سابق اسرائیلی ایجنٹوں کے انکشافات: خفیہ ایجنسی موساد نے لبنان میں ’پیجر حملوں کا منصوبہ‘ کیسے بنایا؟’حزب اللہ کو کچلنے کا جُوا مگر اسرائیل کا سامنا مشتعل اور مسلح دشمن سے ہے‘حزب اللہ: لبنان کے طاقتور مسلح گروہ کو فنڈنگ کہاں سے ملتی ہے اور اس میں ’القرض الحسن‘ کا کیا کردار ہے؟ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اور میزائلوں کا انبار: حزب اللہ کی بقا کا سوال جس کا جواب ’صرف ایران کے پاس ہے‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید عالمی خبریں

متنازعہ وقف بل، بھارتی مسلم قیادت نے تحریک کا اعلان کر دیا

جان بوجھ کر اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھائو پیدا نہیں کیا ، ٹیرف سے اربوں ڈالر امریکا لا رہے ہیں ، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکہ میں مہنگائی بالکل نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ

انڈیا میں لندن کا مشہور سرجن بن کر ’جعلی‘ ڈاکٹر کی ہارٹ سرجریز، 7 مریض چل بسے

حجر اسود کے قریب کھڑے ہو کر رکاوٹ پیدا نہ کریں، سعودی وزارت حج و عمرہ

جان بوجھ کر اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھائو پیدا نہیں کیا ، ٹیرف سے اربو ڈالر امریکا لا رہے ہیں ، ڈونلڈ ٹرمپ

چینی لڑاکا طیارے جے 50 کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات

پاکستان میں آئی فون 10 لاکھ روپے کا؟ ٹیرف کے نفاذ کے بعد امریکی مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا خدشہ

رولیکس کی گھڑی اور پی ایچ ڈی: ایک سیریئل ریپسٹ جس کے متاثرین کی فہرست دو براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے

حماس کا اسرائیل پر راکٹ حملہ ، قابض فوج کی بمباری سے درجنوں فلسطینی شہید

عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں کمی

امریکی ٹیرف ، ایشیائی اور خلیجی اسٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی ، اربوں ڈالر کا نقصان

فلاڈیلفیا چڑیا گھر کے تقریباً 100 سالہ کچھوے پہلی بار والدین بن گئے

کھربوں کا نقصان اور تاریخی مندی: ٹرمپ کے اقدامات پاکستان سمیت ایشیائی سٹاک مارکیٹوں کے لیے کتنے تباہ کُن ثابت ہوئے؟

تجارتی خسارہ نہیں چاہتا، ٹیرف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا: صدر ٹرمپ

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی